14 اگست 1947 ریاست عالیہ پاکستان جن فیصلہ کن الفاظ کے باعث وجود میں آئی، ان کو ساتھیوں سے شئیر کرتا ہوں، یہ وہ خواب تھا جو 23 مارچ 1940 کو قوم کے سامنے رکھا گیا اور 14 اگست 1947 کو شرمندہء تعبیر ہوا۔ 23 مارچ 1940 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: (معمولی سی ترمیم کے ساتھ)
ہم ایک قوم ہیں !
ہم ایک قوم ہیں !
اپنے نمایاں کلچر اور سویلائزیشن کے باعث - ہم ایک قوم ہیں !
اپنی لینگویج اور لٹریچر کے باعث اور اپنے آرٹ اور آرکیٹیکچر کے باعث۔۔۔۔ ہم ایک قوم ہیں!
ہمارا اپنا آرٹ اور آرکیٹیکچر، اپنا نام اور اپنا نامن کلیچر، اپنی قدروں کا احساس اور تناسب، ہمارے قوانین اور ہماری اخلاقی قدریں ، ہمارے رواج اور ہمارے کیلنڈر، ہماری تاریخ اور ہمارا سماج، گواہ ہیں ۔۔۔۔ کہ
ہم ایک قوم ہیں !
ہمارے حوصلے اور ہماری امنگیں، ہم اور ہماری تاریخ، اور تاریخمیں ہمارا مقام، پھر ہمارا اپنا امتیازی اور نمایاں طریقہ --- زندگی کے بارے میں اور زندگی گزارنے کے بارے میں ، اس بات کے گواہ ہیں کہ ۔۔۔
ہم ایک قوم ہیں۔
بین الاقوامی قوانین کے ہر اصول کے مطابق۔۔۔۔ ہم ایک قوم ہیں۔
یہ وہ الفاظ ہیں جن کو پڑھ کر بہت کم اندازہ ہوتا ہے کہ ان الفاظ میں کیا طاقت ہے؟ آپ یہ الفاظ ایک چھوٹے سے گروپ کو ذرا بلند الفاظ میں پڑھ کر سنائیے یا آئینہ کے سامنے دہرائیے، ان کی قوت کا اندازا آپ کو ہو جائیگا۔
یہ ایک ایسا مقصد تھا جو بابائے قوم نے قوم کو دیا اور قوم نے پاکستان کو ایک نظریہ سے حقیقت کا روپ دیا۔
اس مقصد کے پورے ہوجانے کے بعد آج ہماری قوم کے پاس کوئی مقصد نہیں، کوئی گول نہیں، کہاں پہنچنا ہے ، معلوم نہیں۔ نہ کوئی خواب دکھانے والا ہے اور نہ ہی دیکھنے والا، جب خواب ہی نہیںتو شرمندہ ء تعبیر کس خواب کو کریں؟
کیا نظریاتی بنیاد پر جدوجہد کرنے والی قوموں کا مقصد 'حصولِ آزادی' پر آ کر منتج ہو جاتا ہے؟ آزادی تو ایک سنگِ میل کا نام ہے۔ ہم اس کو سفر کا اختتام قرار دے سکتے ہیں؟
ہم تو ابھی قوم کی اس تعریف پر ہی پورے نہیں اترے جو اوپر لکھے گئے قائدِ اعظم کے بیان میں دی گئی ہے۔ پاکستانی قوم خواب بھی دیکھتی ہے اور ان کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کے لیے جدوجہد کرنے کو بھی تیار ہے۔ یہ خواب اور امیدیں ہی ہیں جو اس قوم کو بارہا آزمائے ہوئے مفادپرست سیاست دانوں کے جھوٹے وعدوں پر یقین کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اور یہی خواب ہیں جو پچھلے ڈیڑھ سال سے وکلاء تحریک کو دوام بخشے ہوئے ہیں۔
ہمارا مسئلہ ہمارے پاس مخلص قیادت کا نہ ہونا ہے۔ یہاں بڑی حد تک قصوروار خود ہم یعنی پاکستانی عوام ہیں کہ جو ابھی تک ابن الوقت اور مخلص رہنماؤں میں فرق کرنے کے قابل نہیں ہو سکے۔