مومن فرحین
لائبریرین
داغ دہلوی ہمارے پسندیدہ شاعروں کی فہرست میں سب سے اوپر ہیں ۔۔۔۔ منتخب اشعار
دل لے کے مجھ سے کہتے ہو کچھ کام کا نہیں
الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا
دل کو جو دیکھ لو تو یہی پیار سے کہو
قربان جائیے تیرے قربان جائیے
جانے نہ دینگے آپ کو بے فیصلہ کیے
دل کے مقدمے کو ابھی چھان جائیے
ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یا اللہ
ہوش آتا ہے تو آتا ہے ستانا دل کا
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
زیست سے تنگ ہو اے داغ تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
یہ داغ محبت نہیں مٹتا نہیں مٹتا
یہ درد محبت نہیں جاتا نہیں جاتا
دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دو چار دن رہا تھا تمہاری نگاہ میں
حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے
ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے
وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا
ترے وعدے پر ستم گر ابھی اور صبر کرتے
اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا
فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہیں ماتم بھی ہوتے ہیں
کسی کی شرم آلودہ نگاہوں میں وہ شوخی ہے
اسے دیکھا اسے دیکھا ادھر تانکا ادھر جھانکا
آئینہ دیکھ کے کہنے لگے وہ آپ ہی آپ
ایسے اچھوں کی کرے کوئی برائی کیوں کر
دل لے کے مجھ سے کہتے ہو کچھ کام کا نہیں
الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا
دل کو جو دیکھ لو تو یہی پیار سے کہو
قربان جائیے تیرے قربان جائیے
جانے نہ دینگے آپ کو بے فیصلہ کیے
دل کے مقدمے کو ابھی چھان جائیے
ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یا اللہ
ہوش آتا ہے تو آتا ہے ستانا دل کا
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
زیست سے تنگ ہو اے داغ تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
یہ داغ محبت نہیں مٹتا نہیں مٹتا
یہ درد محبت نہیں جاتا نہیں جاتا
دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دو چار دن رہا تھا تمہاری نگاہ میں
حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے
ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے
وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا
ترے وعدے پر ستم گر ابھی اور صبر کرتے
اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا
فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہیں ماتم بھی ہوتے ہیں
کسی کی شرم آلودہ نگاہوں میں وہ شوخی ہے
اسے دیکھا اسے دیکھا ادھر تانکا ادھر جھانکا
آئینہ دیکھ کے کہنے لگے وہ آپ ہی آپ
ایسے اچھوں کی کرے کوئی برائی کیوں کر