20 ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پاکستان سے واپسی

قیصرانی

لائبریرین
معیار کا خیال رکھنا اور سیفٹی سٹینڈرڈز آپ کے نزدیک غلط چیز ہے ؟ :eek:
ہر صنعت کے سیفٹی سٹینڈرڈز ہوتے ہیں۔جن مقامی صنعتوں کے نہیں ، ان کے سیفٹی معیار بڑھانے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے نہ کہ اچھے معیار والی صنعت کو نکال باہر کیا جائے۔
کراچی کی فیکٹری میں دو برس قبل لگنے والی آگے جس سے سینکڑوں لوگ چل بسے ، عدم سیفٹی سٹینڈرڈز ہی کا شاخسانہ تھا۔
اکنامکس کی پہلی کتاب میں پڑھا تھا کہ ملک میں جب غیر ملکی سرمایہ اور فرم آئے تو یہ معاشی خوشحالی کی نشاندہی ہے۔ امریکہ ، چین ، بھارت کو دیکھ لیں۔ غیر ملکی سرمایہ اور مینوفیکچرز دنیا بھر سے کھینچتے ہیں۔
مقامی صنعت کو تقویت دینے کا طریقہ یہ ہے کہ حکومت ٹیکس اور سہولیات کی مد میں انہیں چھوٹ دے۔
آپ کینیڈا رہتے ہیں۔ ایک مثال دیکھیئے۔ جو گاڑی پاکستان بنتی یا اسمبل ہوتی ہے، اس میں سیٹ بیلٹ اور ائیر بیگ کم ہی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ قیمت میں نسبتاً سستی ہوتی ہے اور پاکستان میں پھر بھی اس کی مارکیٹ ہے۔ اگر اسی برانڈ اور اسی ماڈل کی کار ہم یورپی یا امریکہ ملک سے منگوائیں تو قیمت کا فرق (ایکسپورٹ ڈیوٹی وغیرہ کو چھوڑ کر) کتنا ہوتا ہے؟ بے شک ائیربیگ اور دیگر چیزیں حفاظتی نقطہ نظر سے بہت اہم ہیں لیکن اگر کوئی انسان انہیں لینا چاہتا تو انہیں زبردستی بیچنے کا کیا فائدہ؟ ہر ہفتے دس دن بعد ائیر بیگز ڈپلائڈ ہوں گے۔ اب کم از کم پانچ سو یورو کا ایک ائیربیگ بندہ کتنے دن تک لگواتا رہے گا؟ پاکستان میں کتنی روڈز ہیں جن پر آپ وہی یورپی یا امریکی گاڑیاں چلا سکتے ہیں؟ جبکہ میڈ ان پاکستان گاڑی پھر بھی کام کر جاتی ہے؟
باقی جتنی باریکی میں جانا چاہیں، چلے چلتے ہیں۔ اکنامکس کی کتاب سے پھر یہ بھی بتائیے گا کہ جو سرمایہ ایک ملک پہنچتا ہے، وہ دوسرے ملک سے نکل کر ہی آتا ہے نا۔ اس سرمائے کی منتقلی سے ہر دو ممالک پر کیا فرق پڑتا ہے، اس پر بھی وہی کتاب کیا کہتی ہے :)
 

عثمان

محفلین
آپ کینیڈا رہتے ہیں۔ ایک مثال دیکھیئے۔ جو گاڑی پاکستان بنتی یا اسمبل ہوتی ہے، اس میں سیٹ بیلٹ اور ائیر بیگ کم ہی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ قیمت میں نسبتاً سستی ہوتی ہے اور پاکستان میں پھر بھی اس کی مارکیٹ ہے۔ اگر اسی برانڈ اور اسی ماڈل کی کار ہم یورپی یا امریکہ ملک سے منگوائیں تو قیمت کا فرق (ایکسپورٹ ڈیوٹی وغیرہ کو چھوڑ کر) کتنا ہوتا ہے؟ بے شک ائیربیگ اور دیگر چیزیں حفاظتی نقطہ نظر سے بہت اہم ہیں لیکن اگر کوئی انسان انہیں لینا چاہتا تو انہیں زبردستی بیچنے کا کیا فائدہ؟ ہر ہفتے دس دن بعد ائیر بیگز ڈپلائڈ ہوں گے۔ اب کم از کم پانچ سو یورو کا ایک ائیربیگ بندہ کتنے دن تک لگواتا رہے گا؟ پاکستان میں کتنی روڈز ہیں جن پر آپ وہی یورپی یا امریکی گاڑیاں چلا سکتے ہیں؟ جبکہ میڈ ان پاکستان گاڑی پھر بھی کام کر جاتی ہے؟
باقی جتنی باریکی میں جانا چاہیں، چلے چلتے ہیں۔ اکنامکس کی کتاب سے پھر یہ بھی بتائیے گا کہ جو سرمایہ ایک ملک پہنچتا ہے، وہ دوسرے ملک سے نکل کر ہی آتا ہے نا۔ اس سرمائے کی منتقلی سے ہر دو ممالک پر کیا فرق پڑتا ہے، اس پر بھی وہی کتاب کیا کہتی ہے :)
مجھے یقین تھا کہ سیفٹی سٹینڈرڈز والی بات نے آپ نے مزاق میں کہی ہوگی۔ لیکن حیران ہوں کہ آپ واقعی سنجیدہ ہیں اور سیفٹی سٹینڈرڈز کو ایک ثانوی چیز سمجھتے ہیں۔
میری محبوب استانی عنیقہ ناز پچھلے برس کراچی میں گاڑی کی سیٹ بیلٹ اور ائر بیگ نہ ہونے کے سبب میں کار حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
وہ اکیلی نہیں، ہزاروں پاکستانی انہی سیفٹی سٹینڈرڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر سال سنگین نقصان اٹھاتے ہیں۔
کیا یہ معمولی بات ہے ؟ کیا دوبرس پہلے فیکٹری میں لگنے والی آگ میں ساڑھے تین سو افراد کا زندہ جل جانا معمولی بات ہے ؟
پھر سیفٹی سٹینڈرڈز ہی پر کیوں بس کریں۔ شائد آپ مزدور کو کم ترین اجرت دینے کی بھی وکالت کریں۔ جو پاکستان میں معمول ہے۔
چیز کتنی قیمت تک سستی ہوتی رہے کہ آپ ان سب پر سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں؟

اکنامکس کہتی ہے کہ جب مارکیٹ میں پیسہ اور سرمایہ گردش کرتا ہے تو معشیت ترقی کرتی ہے۔
 

عثمان

محفلین
نیز ائر بیگ ہر ہفتہ دس دن میں ڈپلائڈ نہیں ہوتا۔ احتیاط سے گاڑی چلائیں تو چند برسوں میں ایک آدھ دفعہ ہی یہ واقعہ پیش آتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
نیز ائر بیگ ہر ہفتہ دس دن میں ڈپلائڈ نہیں ہوتا۔ احتیاط سے گاڑی چلائیں تو چند برسوں میں ایک آدھ دفعہ ہی یہ واقعہ پیش آتا ہے۔
اوپر والے پیغام کا جواب ابھی لکھتا ہوں، پاکستان میں ائیر بیگز کے ساتھ گاڑی چلا کر دیکھیئے کبھی َ)
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے یقین تھا کہ سیفٹی سٹینڈرڈز والی بات نے آپ نے مزاق میں کہی ہوگی۔ لیکن حیران ہوں کہ آپ واقعی سنجیدہ ہیں اور سیفٹی سٹینڈرڈز کو ایک ثانوی چیز سمجھتے ہیں۔
میری محبوب استانی عنیقہ ناز پچھلے برس کراچی میں گاڑی کی سیٹ بیلٹ اور ائر بیگ نہ ہونے کے سبب میں کار حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
وہ اکیلی نہیں، ہزاروں پاکستانی انہی سیفٹی سٹینڈرڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر سال سنگین نقصان اٹھاتے ہیں۔
کیا یہ معمولی بات ہے ؟ کیا دوبرس پہلے فیکٹری میں لگنے والی آگ میں ساڑھے تین سو افراد کا زندہ جل جانا معمولی بات ہے ؟
پھر سیفٹی سٹینڈرڈز ہی پر کیوں بس کریں۔ شائد آپ مزدور کو کم ترین اجرت دینے کی بھی وکالت کریں۔ جو پاکستان میں معمول ہے۔
چیز کتنی قیمت تک سستی ہوتی رہے کہ آپ ان سب پر سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں؟

اکنامکس کہتی ہے کہ جب مارکیٹ میں پیسہ اور سرمایہ گردش کرتا ہے تو معشیت ترقی کرتی ہے۔
میں سیفٹی سٹینڈرڈ کو ثانوی چیز نہیں سمجھتا۔ لیکن ہر مارکیٹ کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جو گاڑی جاپان تیار ہو کر امریکہ یا کینیڈا جاتی ہے، اس کے سیفٹی سٹینڈرڈ اور یورپی ماڈل اور ایشیائی ماڈل کے ایک جیسے ہوتے ہیں؟ نہیں نا

مزدور کو کم ترین اجرت میں دینے کی وکالت کروں یا نہ کروں، آپ چین میں ایپل کی مصنوعات بنانے والوں کی اجرت دیکھ لیں۔ مجھے وہ لطیفہ یاد آ رہا ہے جس میں سٹیو جابز فرشتوں سے فریاد کرتا ہے کہ وہ اتنا مشہور موجد ہے اور لوگ اسے اتنا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس نے درخواست کی کہ اسے واپس دنیا میں بھیجا جائے۔ فرشتوں نے آئی پیڈ سے چیک کیا تو سٹیو جابز کی باتیں سچ نکلیں۔ انہوں نے سٹیو جابز کو ایک اور زندگی دے کر زمین پر بھیجا تاکہ وہ چین میں بیٹھ کر ایپل کے آئی فون اور آئی پیڈ تیار کرے۔۔۔

آپ اور میں چند باتوں پر کنفیوذ ہو رہے ہیں۔ سیفٹی سٹینڈرڈ پراڈکٹ اور سیف ورک انوارئنمنٹ دو الگ باتیں ہیں۔ دوسرا یہ بھی کہ جب ایک سرمایہ دار اپنی فیکٹری ایک ملک میں بند کر کے دوسرے ملک میں شروع کرتا ہے تو وہ کس لئے ایسا کرتا ہے؟ کیا اس کے پیش نظر دوسرے ملک کے عوام کی حالت بہتر بنانے کا گول ہوتا ہے، غریب لوگوں کو بہتر تنخواہ دینا ہوتا ہے یا محض اپنا منافع بڑھانا ہوتا ہے؟ ایک ملک کو ٹیکس کی کمی، ملازمتوں کی کمی اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنا پڑتا ہے۔ دوسرے ملک کو اس سے کیا فائدہ ملا؟ یہی کہ ایک فیکٹری وہاں لگ گئی جہاں کوالٹی پراڈکٹس بنتی ہیں، چاہے وہ اس ملک کے عوام کی خرید سے باہر ہی ہوں؟ اصل منافع یا اصل فائدہ صرف ایک شخص کو ہوا جس کا بینک بیلنس بڑھ رہا ہے :)
 

عثمان

محفلین
میں سیفٹی سٹینڈرڈ کو ثانوی چیز نہیں سمجھتا۔ لیکن ہر مارکیٹ کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جو گاڑی جاپان تیار ہو کر امریکہ یا کینیڈا جاتی ہے، اس کے سیفٹی سٹینڈرڈ اور یورپی ماڈل اور ایشیائی ماڈل کے ایک جیسے ہوتے ہیں؟ نہیں نا
امریکی سیفٹی سٹینڈرڈز دینے پر اصرار نہیں ہورہا۔ کچھ بنیادی ضروریات ہوتی ہیں جو ہرجگہ ہونی چاہیں۔ جیسے سیٹ بیلٹ یا آگ بھجانے کا کچھ بنیادی نظام اور ایگزٹ ڈور وغیرہ۔
مزدور کو کم ترین اجرت میں دینے کی وکالت کروں یا نہ کروں، آپ چین میں ایپل کی مصنوعات بنانے والوں کی اجرت دیکھ لیں۔ مجھے وہ لطیفہ یاد آ رہا ہے جس میں سٹیو جابز فرشتوں سے فریاد کرتا ہے کہ وہ اتنا مشہور موجد ہے اور لوگ اسے اتنا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس نے درخواست کی کہ اسے واپس دنیا میں بھیجا جائے۔ فرشتوں نے آئی پیڈ سے چیک کیا تو سٹیو جابز کی باتیں سچ نکلیں۔ انہوں نے سٹیو جابز کو ایک اور زندگی دے کر زمین پر بھیجا تاکہ وہ چین میں بیٹھ کر ایپل کے آئی فون اور آئی پیڈ تیار کرے۔۔۔
ایک غلط چیز کی دلیل ایک دوسری غلط چیز نہیں ہوتی۔ نیز ممکن ہے کہ چینی مزدور کم از کم پاکستانی مزدور سے بہتر کماتے ہوں۔

آپ اور میں چند باتوں پر کنفیوذ ہو رہے ہیں۔ سیفٹی سٹینڈرڈ پراڈکٹ اور سیف ورک انوارئنمنٹ دو الگ باتیں ہیں۔ دوسرا یہ بھی کہ جب ایک سرمایہ دار اپنی فیکٹری ایک ملک میں بند کر کے دوسرے ملک میں شروع کرتا ہے تو وہ کس لئے ایسا کرتا ہے؟ کیا اس کے پیش نظر دوسرے ملک کے عوام کی حالت بہتر بنانے کا گول ہوتا ہے، غریب لوگوں کو بہتر تنخواہ دینا ہوتا ہے یا محض اپنا منافع بڑھانا ہوتا ہے؟ ایک ملک کو ٹیکس کی کمی، ملازمتوں کی کمی اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنا پڑتا ہے۔ دوسرے ملک کو اس سے کیا فائدہ ملا؟ یہی کہ ایک فیکٹری وہاں لگ گئی جہاں کوالٹی پراڈکٹس بنتی ہیں، چاہے وہ اس ملک کے عوام کی خرید سے باہر ہی ہوں؟ اصل منافع یا اصل فائدہ صرف ایک شخص کو ہوا جس کا بینک بیلنس بڑھ رہا ہے :)

معیشیت اتنی سیدھی کھیر نہیں ہے جتنی آپ بیان کر رہے ہیں۔ صرف سرمایہ دار ہی نہیں بلکہ ہر چھوٹا خریدار بلکہ معشیت میں ہر فرد اپنے مفاد کو لے کر بڑھتا ہے۔ رفاہ عامہ کی نیت ان میں سے کوئی بھی نہیں کر کے چلتا۔
مارکیٹ میں تاجر آتے ہیں ، سرمایہ لگتا ہے، پیسہ گردش کرتا ہے تو مارکیٹ حرکت میں آتی ہے۔ جس میں ملک میں فرم لگے۔ اس فرم میں لوگوں کی ملازمت فائدے کا صرف ایک پہلو ہے۔ وہ فرم پروڈکشن کے مراحل میں جو وسائل استعمال کرتی ہے وہ الگ فائدہ پہنچاتی ہیں۔ نیز مقامی پیداور عموما سستی ہی ہوتی ہے۔
جس قصبہ میں فرم لگے تو وہاں جا کر دیکھیے کہ روزگار اور پیسہ کیسے پیدا ہوتا ہے۔ اصل منافع محض ایک شخص کو نہیں ہوتا۔ سود اور فرم میں فرق ہے۔
کسی ایسے ملک کی مثال دیجیے جہاں تاجر، سرمایہ کار اور فرم حالات سے تنگ آکر بھاگ رہے ہوں اور وہاں مارکیٹ ترقی ہو رہی ہو۔ :)
 

قیصرانی

لائبریرین
امریکی سیفٹی سٹینڈرڈز دینے پر اصرار نہیں ہورہا۔ کچھ بنیادی ضروریات ہوتی ہیں جو ہرجگہ ہونی چاہیں۔ جیسے سیٹ بیلٹ یا آگ بھجانے کا کچھ بنیادی نظام اور ایگزٹ ڈور وغیرہ۔

ایک غلط چیز کی دلیل ایک دوسری غلط چیز نہیں ہوتی۔ نیز ممکن ہے کہ چینی مزدور کم از کم پاکستانی مزدور سے بہتر کماتے ہوں۔



معیشیت اتنی سیدھی کھیر نہیں ہے جتنی آپ بیان کر رہے ہیں۔ صرف سرمایہ دار ہی نہیں بلکہ ہر چھوٹا خریدار بلکہ معشیت میں ہر فرد اپنے مفاد کو لے کر بڑھتا ہے۔ رفاہ عامہ کی نیت ان میں سے کوئی بھی نہیں کر کے چلتا۔
مارکیٹ میں تاجر آتے ہیں ، سرمایہ لگتا ہے، پیسہ گردش کرتا ہے تو مارکیٹ حرکت میں آتی ہے۔ جس میں ملک میں فرم لگے۔ اس فرم میں لوگوں کی ملازمت فائدے کا صرف ایک پہلو ہے۔ وہ فرم پروڈکشن کے مراحل میں جو وسائل استعمال کرتی ہے وہ الگ فائدہ پہنچاتی ہیں۔ نیز مقامی پیداور عموما سستی ہی ہوتی ہے۔
جس قصبہ میں فرم لگے تو وہاں جا کر دیکھیے کہ روزگار اور پیسہ کیسے پیدا ہوتا ہے۔ اصل منافع محض ایک شخص کو نہیں ہوتا۔ سود اور فرم میں فرق ہے۔
کسی ایسے ملک کی مثال دیجیے جہاں تاجر، سرمایہ کار اور فرم حالات سے تنگ آکر بھاگ رہے ہوں اور وہاں مارکیٹ ترقی ہو رہی ہو۔ :)
بنیادی ضرورت کو آپ یہ دیکھیئے، ایک گاڑی میں تمام سیٹوں میں مساجر سسٹم ہے۔ دوسری میں صرف فرنٹ پر مساجر ہے۔ تیسری میں مساجر ہے ہی نہیں۔ اسی طرح ایک انٹر کولر ٹربو ہے، دوسری میں صرف اے سی فرنٹ پر کام کرتا ہے۔ تیسری میں اے سی ہے ہی نہیں۔ پاکستان میں بے شک ان سب کی ضرورت ہو، لیکن اسے کتنے افراد ایفورڈ کر سکیں گے؟
چینی مزدور پاکستانی مزدور سے واقعی بہتر کماتے ہیں، انہیں ہیلتھ کیئر حکومت کی طرف سے ملتا ہے۔ بچوں کے سکول بھی مفت ہیں اور دیگر سہولیات بھی :) میرے علم کے مطابق
مارکیٹ میں تاجر آتے ہیں بے شک آئیں۔ لیکن جب آپ اپنے کاروبار کو پھیلا کر دوسرے ملک لے جاتے ہیں تو وہ فائدہ مند ہے۔ اگر ایک ملک سے کاروبار کو ختم کر کے دوسرے ملک لے جا رہے ہیں تو وہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ صرف اپنی غرض کو پورا کر رہے ہیں۔ تاہم معیشت میری فیلڈ نہیں، اس لئے آپ کی رائے کو قبول کر لیتا ہوں :)
 
ملٹی نیشنل کمپنیوں کے جانے کا معاملہ تو الگ رہا یہاں تو ملکی اور مقامی کمپنیوں کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔۔۔ہر دوسری کمپنی گیس چوری اور بجلی چوری میں ملوث ثابت ہورہی ہے۔ روزانہ ٹی وی پر کئی کمپنیوں پر چھاپے ،بجلی ، گیس چوریوں کے انکشافات، مالکان اور مینجرز کی گرفتاریاں اور کمپنیوں ، دوکانوں، فیکٹریوں کے سیل ہونے کی خبریں چل رہی ہوتی ہیں۔۔۔کیا بنے گا ان بے روزگار ہونے والے افراد کا۔ حکومت کو ان باتوں سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی یہ سوچنے کی فرصت کہ جب اتنی بڑی تعداد میں کمپنیاں چوری کر رہی ہیں تو اسکی آخر کیا وجہ ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بجلی اور گیس کی قیمتون میں اندھادھند اور ظالمانہ اضافے ہی اس کے محرک بنے ہوں۔۔آپ چوروں کو ضرور پکڑیں اور قانون بھی نافذ کریں لیکن قیمتیں بھی تو منصفانہ ہونی چاہئیں۔۔۔اب یہ بے روزگاری کا طوفان جرائم اور ڈاکہ زنی کی سونامی نہیں لائے گا تو اور کیا لائے گا؟
 
x629900_53035183.jpg.pagespeed.ic.N9ufacnKpy.jpg
 

x boy

محفلین
پاکستان میں بڑا ہی آسان ہے یہ سب کچھ،، یہاں دبئی میں بجلی پانی کے اوپر تین لیول کردی گئی ،، گرین، یلو،ریڈ
2000 یونیٹ تک گرین اس بعد اور 500 یلو، اس کےبعد اگے بچے ریڈ،
اس کے علاوہ فیول سرچارجز، پاکستانی انویسٹر یہاں بڑے مزے سے بغیر چوری کئے یہ سارے بل مزے سے پے کرتے ہیں
اپنے اسٹیل مل بھی چلاتے ہیں
 

Fawad -

محفلین
Fawad - - یو ایس ایڈ والے یہودی جس طرح پاکستان کو لوٹ رہے ہیں ، جیسے کرپشن پھیلا رہے ہیں وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں اور یو ایس ایڈ ، اور امریکہ کو تجارت میں پاکستان سے جتنی کمقائی ہو رہی ہے وہ اس کا عشر عشیر بھی یو ایس ایڈ پر نہیں خرچ کرتے ، جس طرح وہ معدنیات سے بھرپور علاقے میں یو ایس ایڈ کی آڑ میں وہ مصروف عمل ہیں ۔ اس کو پاکستانی عوام نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ویسے دنیا میں شائد ہی کوئی ملک ہو جو امریکہ کو اپنا حقیقی دوست سمجھتا ہو ۔یہ جائیں گے تو پاکستان میں امن آئے گا ان کو صرف وہ دعوت دیتے ہیں جو امریکی پٹھو ہیں وہ خوش فہمی میں ہیں مگر انشا اللہ ان کا انجام بھی شہنشاہ ایران ، قذافی ، حسنی مبارک ، صدام سے کم برا نہ ہوگا


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


کچھ دوست امريکی امداد کے حوالے سے يہ سوال کرتے ہيں کہ مالی بے ضابطگيوں کے سبب يہ امداد علاقے کے غريب لوگوں تک نہيں پہنچ پاتی۔ يہ بات بالکل درست ہے کہ 100 فيصد کرپشن سے پاک نظام جس ميں ہر چيز قاعدے اور قانون کے مطابق ہو، ممکن نہيں ہے۔ ليکن يہ حقيقت دنيا کے تمام ممالک اور اداروں پر لاگو ہوتی ہے۔ مالی بے ضابطگياں ہر جگہ ہوتی ہيں۔ ليکن يہ بھی ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ اس امداد کی وجہ سے بہت سے مستحق لوگوں کے حالات زندگی بہتر کرنے ميں مدد ملتی ہے۔


اگر آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی امداد کو وصول کرنا درست نہيں ہے تو پھر آپ اس بارے ميں کيا کہيں گے کہ تربلہ ڈيم جس سے لاکھوں پاکستانيوں کی توانائ کی ضروريات پوری ہوتی ہيں، وہ بھی يو ايس ايڈ کے تعاون سے ہی وجود ميں آيا تھا۔ کيااسے بھی آپ غلط قرار ديں گے؟

اور پھر اسی حوالے سے يہ حقائق بھی توجہ طلب ہيں کہ پاکستان ميں حاليہ اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق سال 2011 -12 کے دوران امريکہ ميں مقيم پاکستانيوں کی جانب سے ملک ميں جو زرد مبادلہ بيجھا گيا ہے وہ کل آمدنی کا 7۔17 فيصد يعنی کہ 4۔1922 ملين ڈالرز ہے۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ يہ بات پاکستان کے مفاد ميں ہے کہ دونوں ممالک کے مابين تعلقات کو منقطع کر ديا جائے اور اس امريکی امداد کو بھی مسترد کر ديا جائے جس سے لاکھوں عام پاکستانی شہريوں کے مفادات بالواسطہ يا بلاواسطہ وابستہ ہيں؟


يہ کيسی منطق ہے کہ مقامی آبادی کے لیے شروع کيےجانے والے ترقياتی منصوبے جس ميں ان کی اپنی ذمہ داری بھی شامل ہو وہ پاکستان کی رياست کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتے ہيں؟

يو ايس ايڈ کے منصوبے ميزبان ملک کے عوام، متعلقہ عہديداروں اور مقامی حکومتوں کی جانب سے موصول ہونے والی درخواستوں، باہمی تعاون اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکيل ديے جاتے ہيں۔ مقامی سياسی صورت حال اور محل وقوع فيصلہ سازی کے عمل پر اثرانداز تو ضرور ہو سکتے ہيں ليکن محض انھی عوامل کو بنياد بنا کر فيصلے نہيں کيے جاتے۔

اپنی بات کی وضاحت کے ليے ملک کے مختلف حصوں ميں يو ايس ايڈ کے تعاون سے صرف توانائ کے شعبے ميں جاری مختلف منصوبوں کے حوالے سے ايک نقشے کا لنک پيش ہے۔ آپ واضح طور پر ديکھ سکتے ہيں کہ ملک کے کسی ايک مخصوص حصے کو توجہ کا مرکز نہيں بنايا گيا ہے۔ اسی طرح تعليم، صحت اور تعمير و ترقی سے متعلق بے شمار منصوبے يو ايس ايڈ کے تعاون سے ملک کے طول و عرض ميں جاری ہيں۔ ان جاری منصوبوں کے مثبت اثرات سے پاکستان کے عام افراد کو فوائد حاصل ہوں گے جس سے يہ غلط تاثر بھی ذائل ہو جاتا ہے کہ يو ايس ايڈ سے صرف پاکستان کے مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی مستفيد ہو سکتے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/208...kistan-phases-i-ii-pdf-july-20-20?da=y&dnad=y

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

x boy

محفلین
امریکہ کا صدر اس وقت تک منتخب نہیں ہو سکتا جب تک یہودی اسکی منظوری نہ دے دیں ۔ آج پوری دنیا ورلڈ بینک اور آئ ایم ایف کی محتاج ہو چکی ہے اور ان دونوں اداروں کو یہودی کنٹرول کرتے ہیں ۔
دنیا کے سب سے بڑے اداروں میں سے 85 ادارے امریکہ میں ہیں جن میں سے 54 ادارے یہودیوں کے ہیں ۔
امریکہ کا مرکزی سٹاک ایکسچینج وال سٹریٹ کہلاتا ہے ۔ اس ادارے کے پاس دنیا کی تقریباً 80 فیصد دولت ہے اور اس ادارے کو بھی یہودی کنٹرول کرتے ہیں ۔
پوری دنیا کے میڈیا کا 98 فیصد بلواسطہ یا بلا واسطہ یہودیوں کے قبضے میں ہے ۔
وہائٹ ھاؤس پر یہودیوں کا کنٹرول کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔...
امریکہ کی تیس بڑی انشورنس کمپنیوں میں سے 28 یہودیوں کی ہیں ۔
ھالی وڈ میں کام کرنے والی 72 فیصد فلم ساز کمپنیاں ٰیہودیوں کی ملکیت ہیں ۔
اس وقت دنیا میں اسلحہ کی سب سے بڑی منڈی یہودی چلا رہے ہیں ۔
دنیا بھر کی دواساز کمپنیوں میں سے70 فیصد یہودیوں کی ملکیت ہیں
پوری دنیا کے بینکوں میں پڑی رقم کا 9 فیصد اسرائیل کی ملکیت ہیں ۔
پچھلے 9 برس میں سائنس میں سب سے زیادہ نوبل پرائز یہودیوں نے حاصل کیے ۔
اس وقت دنیا کی 111 سب سے بڑی کمپنیوں میں سے 99 یہودیوں کی ہیں ۔
اس وقت پوری اسلامی دنیا میں 30،000 ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے 21000 ہزار یہودیوں کی ہیں اور ان میں سے صرف 2 کمپنیاں سال بھر میں اتنا کما لیتی ہیں جتنا پوری اسلامی دنیا تیل بیچ کر نہیں کما پاتی ۔

یہ پوری دنیا پر یہودیوں کے کنٹرول کی ایک ہلکی سی جھلک ہے ۔ اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سازشی قوم کس طرح دنیا پر چھا چکی ہے ۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہر فساد کے پیچھے یہودی ہی ہوتے ہیں یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے ۔۔۔۔!!!
 

Fawad -

محفلین
امریکہ کا صدر اس وقت تک منتخب نہیں ہو سکتا جب تک یہودی اسکی منظوری نہ دے دیں ۔ آج پوری دنیا ورلڈ بینک اور آئ ایم ایف کی محتاج ہو چکی ہے اور ان دونوں اداروں کو یہودی کنٹرول کرتے ہیں ۔
دنیا کے سب سے بڑے اداروں میں سے 85 ادارے امریکہ میں ہیں جن میں سے 54 ادارے یہودیوں کے ہیں ۔
امریکہ کا مرکزی سٹاک ایکسچینج وال سٹریٹ کہلاتا ہے ۔ اس ادارے کے پاس دنیا کی تقریباً 80 فیصد دولت ہے اور اس ادارے کو بھی یہودی کنٹرول کرتے ہیں ۔
پوری دنیا کے میڈیا کا 98 فیصد بلواسطہ یا بلا واسطہ یہودیوں کے قبضے میں ہے ۔
وہائٹ ھاؤس پر یہودیوں کا کنٹرول کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔...
امریکہ کی تیس بڑی انشورنس کمپنیوں میں سے 28 یہودیوں کی ہیں ۔
ھالی وڈ میں کام کرنے والی 72 فیصد فلم ساز کمپنیاں ٰیہودیوں کی ملکیت ہیں ۔
اس وقت دنیا میں اسلحہ کی سب سے بڑی منڈی یہودی چلا رہے ہیں ۔
دنیا بھر کی دواساز کمپنیوں میں سے70 فیصد یہودیوں کی ملکیت ہیں
پوری دنیا کے بینکوں میں پڑی رقم کا 9 فیصد اسرائیل کی ملکیت ہیں ۔
پچھلے 9 برس میں سائنس میں سب سے زیادہ نوبل پرائز یہودیوں نے حاصل کیے ۔
اس وقت دنیا کی 111 سب سے بڑی کمپنیوں میں سے 99 یہودیوں کی ہیں ۔
اس وقت پوری اسلامی دنیا میں 30،000 ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے 21000 ہزار یہودیوں کی ہیں اور ان میں سے صرف 2 کمپنیاں سال بھر میں اتنا کما لیتی ہیں جتنا پوری اسلامی دنیا تیل بیچ کر نہیں کما پاتی ۔

یہ پوری دنیا پر یہودیوں کے کنٹرول کی ایک ہلکی سی جھلک ہے ۔ اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سازشی قوم کس طرح دنیا پر چھا چکی ہے ۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہر فساد کے پیچھے یہودی ہی ہوتے ہیں یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے ۔۔۔ ۔!!!



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


امريکہ ميں يہودی تنظيميں اور مختلف گروپ نظام کے اندر رہتے ہوئے امريکی حکومت کے پاليسی ميکرز اور قانون کے ماہرين کو اپنے موقف سے آگاہ کرتے ہيں اور انہيں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہيں۔ ليکن يہ کسی خفيہ سازشی عمل کا حصہ نہيں ہے۔ يہ آزادی تمام سماجی اور مذہبی تنظيميوں کو يکساں حاصل ہے۔ يہ ہی امريکی جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اور يہ کوئ ڈھکی چھپی بات نہيں ہے۔ پاکستانی میڈيا ميں اسی بات کو "یہودی لابی کی سازشيں" جيسے ليبل لگا کر ايک دوسرے انداز ميں پيش کيا جاتا ہے۔ 300 ملين کی آبادی والے ملک ميں کسی ايک گروپ کے ليے يہ ممکن نہيں کہ وہ تمام تر پاليسيوں کو کنٹرول کرے۔ امريکی آئين دانستہ اس طريقے سے تيار کيا گيا ہے کہ طاقت کا منبہ کسی ايک گروہ کے ہاتھوں ميں نہ رہے۔ اہم بات يہ ہے کہ جن فورمز کو يہودی تنظيميں استعمال کرتی ہيں وہ عرب کے مسلمانوں سميت سب کو ميسر ہيں۔


يہ کوئ ڈھکی چپھی يا خفيہ حقيقت نہيں ہے کہ بہت سے يہودی امريکی حکومت کے مختلف عہدوں پر کام کر رہے ہيں۔ ليکن يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ بہت سے مذہبی عقائد اور رنگ ونسل کے افراد کو امريکی حکومت کے مختلف عہدوں پر فرائض کی انجام دہی کے ليے مساوی مواقع فراہم کيے جاتے ہیں۔


امريکی حکومت ميں اہم عہدوں پر تقرری کے ليے نہ تو کوئ کوٹہ سسٹم ہوتا ہے اور نہ کسی کے مذہبی اور نسلی پس منظر کی وجہ سے کسی دوسرے پر فوقيت دی جاتی ہے۔ کيا يہ حقيقت اس بات سے ثابت نہيں ہوتی کہ آپ اور ميں امريکی حکومت ميں شامل کسی بھی عہديدار کے کوائف اور اس کی نسلی وابستگی کے بارے ميں معلومات آسانی سے نہ صرف حاصل کر سکتے ہيں بلکہ اس موضوع پر کسی بھی پبلک فورم پر آزادانہ بحث بھی کر سکتے ہيں۔ يہ آزادی اس صورت ميں ممکن نہ ہوتی اگر يہ تقريرياں کسی خفيہ چينل يا کسی مخصوص ذرائع سے عمل ميں آتيں۔

امريکی حکومت ميں مختلف عہدوں پر تقرريوں کا عمل انتہائ شفاف، آزادانہ اور منصفانہ ہوتا ہے۔ اس ضمن ميں اميدواروں کی قابليت واہليت اور تجربے کو ہر لحاظ سے ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پاليسی ساز اداروں ميں تقرری کے ليے امريکی صدر کے مقاصد اور ان کی سوچ سے مطابقت ہونا ضروری تصور ہوتا ہے۔

اہم نقطہ يہ نہيں ہے کہ امريکی معاشرے اور حکومتی حلقوں ميں کتنے يہودی، مسلمان يا ہندو کام کر رہے ہيں بلکہ قابل توجہ امر وہ قواعد و ضوابط، قوانين اور سسٹم ہے جو تمام مکتبہ فکر کے افراد کو زندگی کے ہر شعبے ميں يکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

سید زبیر

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


کچھ دوست امريکی امداد کے حوالے سے يہ سوال کرتے ہيں کہ مالی بے ضابطگيوں کے سبب يہ امداد علاقے کے غريب لوگوں تک نہيں پہنچ پاتی۔ يہ بات بالکل درست ہے کہ 100 فيصد کرپشن سے پاک نظام جس ميں ہر چيز قاعدے اور قانون کے مطابق ہو، ممکن نہيں ہے۔ ليکن يہ حقيقت دنيا کے تمام ممالک اور اداروں پر لاگو ہوتی ہے۔ مالی بے ضابطگياں ہر جگہ ہوتی ہيں۔ ليکن يہ بھی ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ اس امداد کی وجہ سے بہت سے مستحق لوگوں کے حالات زندگی بہتر کرنے ميں مدد ملتی ہے۔
Fawad - بات صرف مالی بے ضابطگیوں کی نہیں ہے ۔ یو ایس ایڈ کی آڑ میں جس طرح آپ کوٹتے ہیں اور اپنے پٹھووں کی مدد سے یہاں کے تما وسائل قابو کرنے کی کوشش کرتے ہیں قوموں کو معاشی غلام بناتے ہیں وہ اظہر من الشمس ہے ۔ دنیا کا کونسا ملک ہے جو یو ایس ایڈ سے خود انحصاری حآصل کی ہو ۔ دنیا کہ جن ممالک میں امریکی حکومت کی عزت ہو ۔ اُن کے نام بتائیں ۔ پاکستان نے 1965 کی جنگ میں امریکی منافقت دیکھی تو خود انحصاری کی طرف بڑھے ۔ آج کامرہ اور واہ میں چین جیسے عظیم ملک کی دوستی کے باعث ہم دفاعی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہوئے بلکہ برامد بھی کرنے لگے ۔ جب تک امریکن ایڈ سے ہمارے حکمران ، بیوروکریٹ بکتے رہیں گے ہم ترقی کا سفر شروع نہیں کرسکتے ۔ جب تک امریکہ کے پاکستانی ، ازبک ، چیچن ، عرب اور دیگر ممالک کے دہشت گرد یہاںموجود ہیں ملک میں امن نہیں آسکتا ۔ ہمیں آپ سے زیادہ اپنے رہنماوں سے گلہ ہے
اِدھر اُدھر کی نہ بات کر،یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا؟
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے۔

اور پھر اسی حوالے سے يہ حقائق بھی توجہ طلب ہيں کہ پاکستان ميں حاليہ اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق سال 2011 -12 کے دوران امريکہ ميں مقيم پاکستانيوں کی جانب سے ملک ميں جو زرد مبادلہ بيجھا گيا ہے وہ کل آمدنی کا 7۔17 فيصد يعنی کہ 4۔1922 ملين ڈالرز ہے۔

کبھی یہ بھی حساب کرلیں کہ ان تارکین وطن کا امریکی معاشیات میں کتنا کردار ہے ۔ یہ سب وہاں باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں ۔ اور پاکستان میں جو ہزاروں امریکی پل رہے ہیں یہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں ،

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ يہ بات پاکستان کے مفاد ميں ہے کہ دونوں ممالک کے مابين تعلقات کو منقطع کر ديا جائے اور اس امريکی امداد کو بھی مسترد کر ديا جائے جس سے لاکھوں عام پاکستانی شہريوں کے مفادات بالواسطہ يا بلاواسطہ وابستہ ہيں؟
یہ کس نے کہا کہ تعلقات منقطع کیے جائیں ۔ دوست بن کر رہیں ، آقا بن کر نہیں ، ہمارے وسائل پر نظریں نہ لگائیں ۔آخر عظیم چین بھی تو دنیا بھر میں باوقار طریقے سے رہ رہا ہے ۔

يہ کيسی منطق ہے کہ مقامی آبادی کے لیے شروع کيےجانے والے ترقياتی منصوبے جس ميں ان کی اپنی ذمہ داری بھی شامل ہو وہ پاکستان کی رياست کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتے ہيں؟
جب مجرموں کے ساتھ ملکر ایڈ کے ذریعے لوگوں کی غربت کی وجہ سے اُن کا ستحصال ہو گا ۔ تو ریاست تو کمزور ہوگی ۔
ہمیں ایڈ نہیں چین جیسی ٹریڈ چاہئے
۔
 
آخری تدوین:
Top