حسن محمود جماعتی
محفلین
وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ
ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں (القرآن)۔
سب سے پہلے تمام احباب کو سال نو مبارک ہو۔ آج آنکھ کھلی موبائل پر نظر پڑی تو حسب توقع سال نو کی مباکباد اور دعاؤں کے پیغامات منتظر تھے۔ ہمارے ہاں سال نو کا آغاز اسی طرح ہوتا ہے۔ پہلے زبانی کلامی، پھر فون کا دور آیا تو کسی کو فون کھڑکا دیا، موبائل آیا تو پیغامات اور اب سوشل میڈیا پر تصاویر دعاؤں اور سو طریقوں سے سال نو کی مبارکباد دی جاتی ہے۔ پاکستان میں عمومی طور پر سال کا بدلنا کچھ ایسا خاص نہیں ہوتا۔ یہ ایک معمول کا دن ہوتا ہے۔ جب سال گزشتہ کا سورج غروب ہوتا ہے، رات ڈھلتی ہے، ہم سوجاتے ہیں۔ اگلے دن تاریخ بدل کر نیا سال شروع ہوجاتا ہے۔ ہمارے معمولات جوں کے توں ہی ہوتے ہیں۔ پنجابی مقولے کا مفہوم ہے "وہی کلہاڑی اور وہی اسی کی ہتھی"۔ بڑے شہروں میں اب باقی دنیا کی طرز پر بحریہ ٹاؤن والے کچھ احباب کی تفریح کے لیے کچھ شغل کرتے ہیں جس سے انہیں نئے سال کے شروع ہونے کی نوید ملتی ہے۔
پیغامات کی بات کی جائے تو ملتے جلتے مبارکبادی اور دعائیہ پیغامات میں کچھ دلچسپ پیغام بھی ملے۔ جیسے ایک انگریزی پیغام تھا " ایک چھوٹی سی یاد دہانی۔ نئے سال کے آغاز پر بہت زیادہ پرجوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیلینڈر بدلنے کے علاوہ کچھ نہیں بدلے گا، وہی بیوی، باس، تنخواہ، نوکری اور اس کے ٹارگٹس ہوں گے"۔
کچھ کے نزدیک یہ غیر اسلامی سال ہے اور اس کی مبارکباد دینا بھی درست نہیں۔ کسی نے کہا آپ کی مبارکباد پرانی ہوچکی ہمارا سال تین ماہ پہلے شروع ہو چکا ہے۔ یہ تجربہ پیغامات سے ہٹ کر حقیقت میں پچھلے سال ہوا جب دفتر میں احباب کو نئے سال کی مبارکباد دی تو اس قسم کے جواب ملے۔ فقیر کی گزارش یہ ہے کہ کیا سال اور دن بھی مسلمان اور غیر مسلم ہوتے ہیں؟ حد ہوگئی بھئی۔ یہ شمسی اور قمری سال ہیں۔ پیمائش کے لیے ایک کا پیمانہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائیش اور دوسرے کا ہجرت نبوی ہے۔ کیا اسلام سے پہلے یہ دن اور مہینے نہیں تھے؟ یہودی دس محرم کا روزہ رکھتے تھے، حرمت کے مہینے تھے۔ یہاں تک کہ پیارے آقا کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی پیدائش 12 ربیع الاول اور معراج کی تاریخ 27 رجب کسی طرح شمار کی گئیں؟
خیر قطع نظر اس بحث سے۔ آتے ہیں مدعا کی طرف۔ پچھلے سال ایک نئی بدعت دیکھی تھی۔ "میری نئے سال کی قرارداد"۔ جس میں لوگوں کو اپنے ٹارگٹ، وعدے اور بہت سے پختہ ارادے کرتے دیکھا گیا۔ عرض کی ہم جیسے نیستوں کے لیے یہ کیلنڈر بدلنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ اور ہم نے زندگی میں آج تک ایسا کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ مزید کا ارادہ کریں۔ لہذا کیا کھویا کیا پایا کے تحت۔ 2015 کے اختتام پر ہم دفتر سے لوٹے، کمرے میں اوندھے منہ لیٹے، اگلی صبح جاگے تو 2016 تھا۔ "وہی کلہاڑی اور وہی ہتھی" کے مقولے کے تحت بستہ پکڑ دفتر کی راہ لی، یہ تھا آغاز۔ اس کے علاوہ کچھ خاص کرنے کی ٹھانی نہیں تھی سو نہیں کیا۔ کچھ نئے دوست ملے جن سے مل کر خوب ہلہ گلہ کیا۔ ایک خواہش جس کے تحت مزارات گھومنے کا عزم کیا تھا، ملتان، اچ شریف، بہاولپور، پاکپتن اور بابا بلھے شاہ کا قصور دیکھا۔ 2016 میں لاہور سے نوکری چھوڑ کر گھر کو پلٹے۔ نئی نوکری شروع کی۔ اور پھر حسب عادت کچھ نیا کرنے کے چکر میں سال کے ختم ہونے سے پہلے نوکری گئی۔
محفل کی نسبت گزشتہ سال کے حوالے سے کچھ کہا جائے تو دسمبر 2015 میں ہم یہاں وارد ہوئے۔ لیکن ورود کے ساتھ ہی غیابت عمل میں آئی۔ جب پلٹے تو جون 2016 رمضان کا مہینہ تھا۔ لہذا 2016 میں ہم اس فورم سے، یہ ہم سے آشنا ہوا۔ محفل پر شب و روز اک ہنگامہ رہتا ہے۔ کوئی آ رہا ہے کوئی جارہا ہے۔ کسی کے پاس نئی خبر ہے تو کسی کے پاس نثر و شاعری۔ کسی کے پاس اس کی تصویریں اور کسی کے پاس بونگیاں۔ لہذا خوب چہل پہل رہتی ہے۔ ہمارے لیے محفل پر دو مواقع بہت اہم تھے۔ جو مدتوں یاد رہیں گے۔ پہلا ہمارے پلٹنے کے چند دن بعد پیش آیا۔ وہ 27 جون کا ہنگامہ خیز دن تھا۔ اس دن کے لیے اتنا کہنا ہی اس کے تعارف کے لیے کافی ہے۔ پہنچنے والے پہنچ چکے ہیں۔ دوسرا مشاعرہ 2016۔
جی تو ہمار ے پاس سال گزشتہ کی نسبت کہنے کو یہی ہے۔ اگر آپ نے نئے سال کی قرارد پیش کی تھی تو کس حد تک اسے پورا کر سکے۔ آپ بھی اپنے احوال شریک محفل کرکے اس سلسلے کو دلچسپ بنا سکتے ہیں۔
دعا ہے رب العزت اس سال کو ہم سب کے لیے اور پوری انسانیت کے لیے امن و آشتی کا سال بنائے۔ ہم سب کو ایک دوسرے سے محبت کرنے اور محبت بانٹنے کی توفیق عطا کرے۔ ہم سب کو اپنے پیاروں کے ساتھ خوشیوں کے لمحات نصیب کرے۔
پچھلے سال کسی کا وٹس ایپ کیفیت نامہ تھا اس پرختم کرتے ہیں کہ،
اے سال گزشتہ پھر سے میری زندگی میں آ
اک شخص کھو گیا ہے تیرے موسموں کے بیچ
ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں (القرآن)۔
سب سے پہلے تمام احباب کو سال نو مبارک ہو۔ آج آنکھ کھلی موبائل پر نظر پڑی تو حسب توقع سال نو کی مباکباد اور دعاؤں کے پیغامات منتظر تھے۔ ہمارے ہاں سال نو کا آغاز اسی طرح ہوتا ہے۔ پہلے زبانی کلامی، پھر فون کا دور آیا تو کسی کو فون کھڑکا دیا، موبائل آیا تو پیغامات اور اب سوشل میڈیا پر تصاویر دعاؤں اور سو طریقوں سے سال نو کی مبارکباد دی جاتی ہے۔ پاکستان میں عمومی طور پر سال کا بدلنا کچھ ایسا خاص نہیں ہوتا۔ یہ ایک معمول کا دن ہوتا ہے۔ جب سال گزشتہ کا سورج غروب ہوتا ہے، رات ڈھلتی ہے، ہم سوجاتے ہیں۔ اگلے دن تاریخ بدل کر نیا سال شروع ہوجاتا ہے۔ ہمارے معمولات جوں کے توں ہی ہوتے ہیں۔ پنجابی مقولے کا مفہوم ہے "وہی کلہاڑی اور وہی اسی کی ہتھی"۔ بڑے شہروں میں اب باقی دنیا کی طرز پر بحریہ ٹاؤن والے کچھ احباب کی تفریح کے لیے کچھ شغل کرتے ہیں جس سے انہیں نئے سال کے شروع ہونے کی نوید ملتی ہے۔
پیغامات کی بات کی جائے تو ملتے جلتے مبارکبادی اور دعائیہ پیغامات میں کچھ دلچسپ پیغام بھی ملے۔ جیسے ایک انگریزی پیغام تھا " ایک چھوٹی سی یاد دہانی۔ نئے سال کے آغاز پر بہت زیادہ پرجوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیلینڈر بدلنے کے علاوہ کچھ نہیں بدلے گا، وہی بیوی، باس، تنخواہ، نوکری اور اس کے ٹارگٹس ہوں گے"۔
کچھ کے نزدیک یہ غیر اسلامی سال ہے اور اس کی مبارکباد دینا بھی درست نہیں۔ کسی نے کہا آپ کی مبارکباد پرانی ہوچکی ہمارا سال تین ماہ پہلے شروع ہو چکا ہے۔ یہ تجربہ پیغامات سے ہٹ کر حقیقت میں پچھلے سال ہوا جب دفتر میں احباب کو نئے سال کی مبارکباد دی تو اس قسم کے جواب ملے۔ فقیر کی گزارش یہ ہے کہ کیا سال اور دن بھی مسلمان اور غیر مسلم ہوتے ہیں؟ حد ہوگئی بھئی۔ یہ شمسی اور قمری سال ہیں۔ پیمائش کے لیے ایک کا پیمانہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائیش اور دوسرے کا ہجرت نبوی ہے۔ کیا اسلام سے پہلے یہ دن اور مہینے نہیں تھے؟ یہودی دس محرم کا روزہ رکھتے تھے، حرمت کے مہینے تھے۔ یہاں تک کہ پیارے آقا کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی پیدائش 12 ربیع الاول اور معراج کی تاریخ 27 رجب کسی طرح شمار کی گئیں؟
خیر قطع نظر اس بحث سے۔ آتے ہیں مدعا کی طرف۔ پچھلے سال ایک نئی بدعت دیکھی تھی۔ "میری نئے سال کی قرارداد"۔ جس میں لوگوں کو اپنے ٹارگٹ، وعدے اور بہت سے پختہ ارادے کرتے دیکھا گیا۔ عرض کی ہم جیسے نیستوں کے لیے یہ کیلنڈر بدلنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ اور ہم نے زندگی میں آج تک ایسا کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ مزید کا ارادہ کریں۔ لہذا کیا کھویا کیا پایا کے تحت۔ 2015 کے اختتام پر ہم دفتر سے لوٹے، کمرے میں اوندھے منہ لیٹے، اگلی صبح جاگے تو 2016 تھا۔ "وہی کلہاڑی اور وہی ہتھی" کے مقولے کے تحت بستہ پکڑ دفتر کی راہ لی، یہ تھا آغاز۔ اس کے علاوہ کچھ خاص کرنے کی ٹھانی نہیں تھی سو نہیں کیا۔ کچھ نئے دوست ملے جن سے مل کر خوب ہلہ گلہ کیا۔ ایک خواہش جس کے تحت مزارات گھومنے کا عزم کیا تھا، ملتان، اچ شریف، بہاولپور، پاکپتن اور بابا بلھے شاہ کا قصور دیکھا۔ 2016 میں لاہور سے نوکری چھوڑ کر گھر کو پلٹے۔ نئی نوکری شروع کی۔ اور پھر حسب عادت کچھ نیا کرنے کے چکر میں سال کے ختم ہونے سے پہلے نوکری گئی۔
محفل کی نسبت گزشتہ سال کے حوالے سے کچھ کہا جائے تو دسمبر 2015 میں ہم یہاں وارد ہوئے۔ لیکن ورود کے ساتھ ہی غیابت عمل میں آئی۔ جب پلٹے تو جون 2016 رمضان کا مہینہ تھا۔ لہذا 2016 میں ہم اس فورم سے، یہ ہم سے آشنا ہوا۔ محفل پر شب و روز اک ہنگامہ رہتا ہے۔ کوئی آ رہا ہے کوئی جارہا ہے۔ کسی کے پاس نئی خبر ہے تو کسی کے پاس نثر و شاعری۔ کسی کے پاس اس کی تصویریں اور کسی کے پاس بونگیاں۔ لہذا خوب چہل پہل رہتی ہے۔ ہمارے لیے محفل پر دو مواقع بہت اہم تھے۔ جو مدتوں یاد رہیں گے۔ پہلا ہمارے پلٹنے کے چند دن بعد پیش آیا۔ وہ 27 جون کا ہنگامہ خیز دن تھا۔ اس دن کے لیے اتنا کہنا ہی اس کے تعارف کے لیے کافی ہے۔ پہنچنے والے پہنچ چکے ہیں۔ دوسرا مشاعرہ 2016۔
جی تو ہمار ے پاس سال گزشتہ کی نسبت کہنے کو یہی ہے۔ اگر آپ نے نئے سال کی قرارد پیش کی تھی تو کس حد تک اسے پورا کر سکے۔ آپ بھی اپنے احوال شریک محفل کرکے اس سلسلے کو دلچسپ بنا سکتے ہیں۔
دعا ہے رب العزت اس سال کو ہم سب کے لیے اور پوری انسانیت کے لیے امن و آشتی کا سال بنائے۔ ہم سب کو ایک دوسرے سے محبت کرنے اور محبت بانٹنے کی توفیق عطا کرے۔ ہم سب کو اپنے پیاروں کے ساتھ خوشیوں کے لمحات نصیب کرے۔
پچھلے سال کسی کا وٹس ایپ کیفیت نامہ تھا اس پرختم کرتے ہیں کہ،
اے سال گزشتہ پھر سے میری زندگی میں آ
اک شخص کھو گیا ہے تیرے موسموں کے بیچ
آخری تدوین: