املا نامہ (طبع ثانی) ۔ سفارشات
سفارشات
الف
(1) اعلیٰ، ادنیٰ، عیسیٰ، موسیٰ
عربی کے کچھ لفظوں کے آخر میں جہاں الف کی آواز ہے، وہاں بجائے الف کے ی لکھی جاتی ہے اور اس پر چھوٹا الف (الف مقصورہ) نشان کے طور پر بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے ادنیٰ، اعلیٰ، عیسیٰ، دعویٰ، فتویٰ۔ اس قبیل کے کئی الفاظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں، مثلاً تماشا، تمنا، تقاضا، مدعا، مولا، لیکن کئی لفظ دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں ٹھیک سے معلوم نہیں کہ انھیں پورے الف سے لکھنا چاہیے یا چھوٹے الف سے۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے املا کے اس انتشار کو دور کرنے کے لیے تجویز کیا تھا کہ اردو میں ایسے تمام الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے، لیکن یہ چلن میں نہیں آ سکا۔ چنانچہ سرِ دست یہ اصول ہونا چاہیے کہ اس قبیل کے جو الفاظ اردو میں پورے الف سے لکھے جاتے ہیں اور ان کا یہ املا رائج ہو چکا ہے، ایسے الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے۔ باقی تمام الفاظ کے قدیم املا میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں، اور یہ بدستور چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں۔
پورے الف سے لکھے جانے والے الفاظ:
مولا مُصفّا تَوَلّا مُدّعا تقاضا مُتفا تماشا
مُدّعا علیہ تمنّا ہیولا نصارا مقتدا مقتضا ماوا
باقی تمام الفاظ چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں:
ادنیٰ اعلیٰ عیسیٰ موسیٰ یحییٰ مجتبیٰ مصطفیٰ مرتضیٰ
دعویٰ فتویٰ لیلیٰ تعالیٰ معلیٰ صغریٰ کبریٰ کسریٰ
اولیٰ منادیٰ مثنیٰ مقفیٰ طوبیٰ ہدیٰ معریٰ عقبیٰ
تقویٰ متبنّیٰ حسنیٰ قویٰ مستثنیٰ حتیٰ کہ عہدِ وسطیٰ مجلسِ شوریٰ
یدِ طولیٰ اردوئے معلّیٰ من و سلویٰ عید الضّحیٰ مسجد اقصیٰ سدرۃ المنتہیٰ شمس الہدیٰ
ذیل کے الفاظ کے رائج املا میں بھی کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں:
اللہ الہ الٰہی
(2) دعوائے پارسائی، لیلائے شب
اضافت کی صورت میں ایسے تمام الفاظ الف سے لکھے جاتے ہیں اور یہی صحیح ہے، جیسے:
لیلائے شب دعوائے پارسائی فتوائے جہاں داری
(3) عربی مرکبات
یہ بات اصول کے طور پر تسلیم کر لینی چاہیے کہ عربی کے مرکّبات، جملے، عبارتیں یا اجزا جب اردو میں منقول ہوں تو ان کو عربی طریقے کے مطابق لکھا جائے، مثلاً
عَلَی الصّباح عَلَی الرَّغم عَلَی العُموم عَلَی الحساب عَلَی الخُصوص حتّی الاِمکان حتّی الوَسع حتّی المقدور
بالخُصوص عَلیٰ ہٰذا القَیاس
(4) رحمٰن، اسمٰعیل
بعض عربی الفاظ میں چھوٹا الف درمیانی حالت میں لکھا جاتا ہے، جیسے رحمٰن، اسمٰعیل، ان میں سے کئی لفظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی یہ تجویز مناسب ہے کہ اردو میں ایسے سب الفاظ کو الف کے ساتھ لکھا جائے۔
رحمان ابراہیم سلیمان مولانا یاسین اسحاق لقمان اسماعیل
البتہ جب ایسا کوئی لفظ قرآن پاک کی سورتوں کے نام یا اللہ کے اسمائے صفات کے طور پر استعمال ہو گا تو اس کا اصلی املا برقرار رہے گا۔ عربی ترکیب میں بھی اصلی املا برقرار رہنا چاہیے۔
(5) علٰحدہ
علٰحدہ یا علیحدہ کو علاحدہ لکھنا چاہیے، اسی طرح علاحدگی (ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی)
(6) لہٰذا
لفظ لہٰذا کی بھی رائج صورت میں تبدیلی کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ لفظ اسی املا کے ساتھ پوری چلن میں آ چکا ہے۔
(7) معمّہ، تمغہ، معمّا، تمغا
عربی اور ترکی کے کچھ لفظوں کے آخر میں الف ہے، لیکن ان میں سے بعض لفظ ہ سے لکھے جاتے ہیں۔ اس بارے میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو لفظ ہ سے رائج ہو چکے ہیں، ان کا املا ہ سے مان لینا چاہیے، باقی الفاظ کو الف سے لکھنا چاہیے۔ ذیل کے الفاظ ہ سے صحیح ہیں:
شوربہ چغہ سقہ عاشورہ قورمہ ناشتہ ملغوبہ الغوزہ
ذیل کے الفاظ الف سے لکھنے چاہییں:
معمّا تماشا تقاضا حلوا مربّا مچلکا بقایا تمغا
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے بھی ان میں سے بیشتر الفاظ کو الف سے لکھنے کی سفارش کی ہے۔
( 8 ) بالکل، بالتّرتیب
ایسے مرکب لفظ اردو میں اچھی خاصی تعداد میں ہیں جو عربی قاعدے کے مطابق الف لام کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔ ایسے مرکّبات کی دو صورتیں ہیں، ایک وہ جہاں الف لام حروفِ شمسی (ت، ث، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ل، ن) سے پہلے آیا ہے اور بعد کا حرف مشدّد بولا جاتا ہے تو الف لام آواز نہیں دیتا، جیسے عبد السّتاریا بالتّرتیب میں۔ دوسرے وہ جن میں الف لام حروفِ قمری (باقی تمام حروف) سے پہلے آیا ہے تو لام تلفظ میں شامل رہتا ہے، جیسے بالکل یا ملک الموت میں۔ ہمیں سیّد ہاشمی فرید آبادی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کہ حروفِ شمسی و قمری کا فرق اردو میں اٹھا دینا چاہیے، ہمارا خیال ہے کہ یہ طریقہ اردو املا کا جز ہو چکا ہے، اِس کو بدلنا ممکن نہیں۔ چنانچہ ایسے تمام الفاظ کا وہی قدیم املا برقرار رکھنا چاہیے:
فی الحال بالکل انا الحق بالفعل ملک الموت
البتہ یہ ضروری ہے کہ جہاں الف لام آواز نہ دے وہاں لام کے بعد والے حرف پر تشدید لگائی جائے، اور ان الفاظ میں الف لام کو اردو کے خاموش حروف تسلیم کر لیا جائے۔ پڑھنے والوں کو تشدید سے معلوم ہو جائے گا کہ الف لام تلفظ میں نہ آئے گا:
عبدُ السّتّار شجاعُ الدّولہ عبدُ الرّزّاق لغاتُ النّساء بالتّرتیب فخرُ الدّین
الف ممدودہ
الف ممدودہ کا مسئلہ صرف مرکّبات میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی دل آرام لکھا جائے یا دلارام۔ ایسی صورت میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ معیاری تلفّظ کو رہنما بنایا جائے اور مرکّب جیسے بولا جاتا ہو، ویسے ہی لکھا جائے۔
بغیر مد کے:
برفاب تیزاب سیلاب غرقاب سیماب زہراب گلافتاب تلخاب
سردابہ گرمابہ مرغابی خوشامد دستاویز
مع مد کے:
گرد آلود دل آویز عالم آرا جہان آباد دل آرا دل آرام دو آبہ ابر آلود
خمار آلود قہر آلود زہر آلود زنگ آلود خون آلود رنگ آمیز درد آمیز جہاں آرا
حسن آرا خانہ آباد عشق آباد عدم آباد
تنوین
اردو میں عربی کے ایسے کئی لفظ استعمال ہوتے ہیں جن پر دو زبر آتے ہیں، جیسے فوراً، عموماً، وقتاً، فوقتاً، اتفاقاً۔ تنوین اردو املا کا حصّہ بن چکی ہے۔ اس لیے اسے بدلنا مناسب نہیں۔ چنانچہ فوراً کو فورن لکھنے کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔ اس کو فوراً لکھنا ہی صحیح ہے۔ البتہ وہ لفظ تصفیہ طلب ہیں جن کے آخر میں ت آتی ہے۔ ایسے لفظوں کے بارے عربی املا کا اصول یہ ہے کہ اگر ت کسی لفظ کے مادے میں شامل ہے تو تنوین کی صورت میں اُس پر الف کا اضافہ کر کے تنوین لگائی جاتی ہے، جیسے وقتاً فوقتاً۔ لیکن اگر ت مادے میں شامل نہیں تو وہ تائے مُدَوَّرہ ۃ کی صورت میں لکھی جاتی ہے اور اس پر دو زبر لگا دیے جاتے ہیں، جیسے عادۃً۔ اس صورت میں الف کا اضافہ نہیں کیا جاتا اور تنوین تائے مُدَوَّرہ پر لگائی جاتی ہے۔ اردو املا میں عام طور سے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا، اور تنوین ایسے تمام الفاظ میں الف کا اضافہ کر کے لگائی جاتی ہے۔
اس ضمن میں ہمیں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس اصول کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ "عربی کی ۃ کو اردو میں ہمیشہ ت لکھنا چاہیے"۔ چنانچہ اردو میں تنوین کے لیے ت والے لفظوں کے بارے میں قاعدہ یہ ہوا کہ سب لفظوں کے آخر میں الف کا اضافہ کر کے تنوین لکھی جائے، مثلاً
نسبتاً مروَّتاً کنایتاً ضرورتاً ارادتاً فطرتاً شکایتاً کلیتاً
قدرتاً حقیقتاً حکایتاً طبیعتاً وقتاً فوقتاً شریعتاً طاقتاً
اشارتاً مصلحتاً حقارتاً وراثتاً صراحتاً عقیدتاً وضاحتاً شرارتاً
ت، ۃ
اوپر ہم تنوین کے سلسلے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اصول کو اپنا چکے ہیں کہ اردو کے حروفِ تہجی میں تائے مُدَوَّرہ نام کی کوئی چیز نہیں۔ لیکن اردو میں گنتی کے چند عربی الفاظ ۃ سے لکھے جاتے ہیں۔ جب تک یہ اسی طرح چلن میں ہیں، ان کو عربی طریقے سے لکھنا مناسب ہے:
صلوٰۃ زکوٰۃ مشکوٰۃ
البتہ اس قبیل کے دیگر عربی الفاظ کے بارے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی رائے صحیح ہے کہ یہ اردو میں ت سے لکھے جاتے ہیں، اور اسی طرح چلن میں آ چکے ہیں۔ چنانچہ ان کو ت سے ہی لکھنا چاہیے:
حیات نجات بابت منات مسمات توریت
ت، ط
اردو میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جو ت اور ط دونوں سے لکھے جاتے ہیں، ان کے املا میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ ذیل کے الفاظ ت سے صحیح ہیں:
تپش تہران تپاں تیار تیاری توتا ناتا (رشتہ)
ذیل کے الفاظ کو ط سے لکھنا صحیح ہے:
غلطاں طشت طشتری طمانچہ طہماسپ طوطی
ذ، ز، ژ
(1) گذشتہ، گزارش
فارسی مصادر گذشتن، گذاشتن اور پذیرفتن کے جملہ مشتقات بقول ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی ذال سے لکھنے صحیح ہیں۔ جیسے:
گذشتہ گذشتگان گذر گاہ در گذر رہ گذر راہ گذار پذیرفتہ پذیرائی
سر گذشت وا گذاشت اثر پذیر دل پذیر
گزاردن (بہ معنی ادا کرنا، پیش کرنا) کے مشتّقات کو زے سے لکھنا صحیح ہے، جیسے:
گزارش باج گزار خدمت گزار شکر گزار نماز گزار عرضی گزار مال گزاری
گزرنا اور گزارنا اگرچہ گذشتن سے ہیں لیکن تہنید اور تارید کے عمل سے گزر کر اردو کے مصدر بن چکے ہیں، اس لیے ان کی تمام تصریفی شکلیں ز سے لکھی جانی چاہییں، اسی طرح گزارا اور گزرانا بھی ز سے لکھنے مناسب ہیں۔
اس سلسلے کے بعض مُتنازعہ فیہ الفاظ جن سے ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے اور دوسروں نے بحث کی ہے، یہ ہیں:
آزر: حضرت ابراہیم کے والد یا چچا کا نام ز سے ہے، جیسے آزرِ بت تراش
آذر: آگ کے معنی میں یہ لفظ ذال سے ہے، جیسے آذر کدہ بہ معنی آتش کدہ اور آذر فشاں بہ معنی آتش فشاں۔ نیز ذال سے ہی ایک رومی مہینے کا نام بھی ہے۔
ذرّہ: (کسی چیز کا بہت چھوٹا ٹکڑا)
ذرا: (تھوڑا، قلیل) اگرچہ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے ز سے لکھنے پر زور دیا ہے لیکن کمیٹی اس کی تائید نہیں کرتی۔
ذات: (نفس، شخص، قوم، نژاد، ہندی جات)
زخّار: (بحرِ زخّار)
آزوقہ: (غذائے قلیل)
ازدحام: (اژدہام، اژدحام، ازدہام غلط ہیں۔)
(2) ژ
ذیل کے لفظوں کا صحیح املا ژ سے ہے:
مژدہ مژہ ارژنگ واژوں مژگاں پژ مردہ پژمردگی
اژدر ژالہ ژاژ نژاد ژولیدہ اژدہا ٹیلی ویژن
ث، س، ص
(1) قصائی: اس کا رائج املا ص سے ہے، اور یہی صحیح ہے۔
(2) مسالا: دہلی میں مصالح تھا۔ لکھنؤ میں مسالا ہو گیا۔ اسی صورت کو اختیار کرنا چاہیے۔
(3) مسل: رودادِ مقدمہ کے معنی میں اس کا املا س سے رائج ہے، اسی کو اپنانا چاہیے۔
نون اور نون غُنّہ
(1) گنبد، انبار، کھمبا، چمپا
کسی لفظ میں نون کے بعد ب ہو تو نون کی آواز م میں بدل جاتی ہے۔ لکھنے میں تو نون ہی آتا ہے، لیکن پڑھا م جاتا ہے، جیسے
گنبد انبار جنبش دنبہ شنبہ تنبورہ سنبل عنبر
اس ضمن میں دقت دیسی الفاظ میں پیدا ہوتی ہے جن میں کچھ تو نون سے لکھے جاتے ہیں اور کچھ کو م سے لکھنے کا رواج ہے۔ سفارش کی جاتی ہے کہ ایسے دیسی الفاظ (علاوہ ناموں کے۔ انبار، کنبوہ) میم سے مرجح ہیں:
تمباکو تمبولی کھمبا اچمبھا چمپا امبر (بمعنی آسمان)
(لیکن جہاں نون ساکن غیر وصلی ہو، وہ نون کی آواز دے گا، اور نون ہی لکھا جائے گا، مثلاً کنبہ)
(2) گِننا، سُننا
اردو میں کئی مصدر ہیں جن میں دو نون ہیں، جیسے بُننا، گِننا، سُننا۔ ان میں ایک نون تو مادہ فعل کا ہے، دوسرا علامتِ مصدر کا (بُن + نا، سُن + نا)۔ اکثر غلطی سے ایسے مصدروں کو مشدّد نون سے لکھا جاتا ہے (بُنّا، گِنّا، سُنّا)۔ اصول یہ ہے کہ ایسے تمام مصدروں میں دو نون لکھنے چاہییں۔ اس سے ذیل کے جوڑوں میں املا کا امتیاز بھی ملحوظ رہے گا:
بَننے (فعل) بنّے (لقب)
چُننی (فعل) چُنّی (دوپٹہ)
سُننی (فعل) سُنّی (فرقہ)
(3) نون غُنّہ
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ "نون غنّہ ہمیشہ منفصل لکھا جائے" (بان س، پھان س، ہن سے گا)۔ عام قاعدہ ہے کہ لفظ کے آخر میں نون غُنّہ بغیر نقطے کے لکھا جاتا ہے۔ البتہ (ابتدائی کتابوں میں یا جب ضرورت ہو) لفظ کے بیچ میں نون غنہ کو اُلٹے قوس کی علامت سے ظاہر کرنا چاہیے:
بیچ میں:
ہونٹ پھاند اینٹ چونچ چاند
آخر میں:
ماں جاؤں بولیں نظروں کتابیں
(4) سنِچائی، بٹائی
لفظ کے مادّے یا مصدر میں جہاں نون غنّہ ہے، ماخوذ شکلوں میں کہِیں تو نون غنّہ لکھا جاتا ہے، اور کہِیں نہیں، زیادہ تر یہ صورت متعدی (casuative) شکلوں میں پیدا ہوتی ہے، جیسے باندھنا، بندھوانا اور ڈھونڈوانا یا پھینکنا سے پھنکوانا اور پھنسنا سے پھنسوانا، اس بارے میں صوتی حقیقت یہ ہے کہ اگر نون غنّہ کے بعد مسموع (voiced) آواز ہے تو نون غنّہ پورا ادا ہو گا جیسے بندھوانا، ڈھونڈوانا، اور اگر نون غنہ کے بعد غیر مسموع (unvoiced) آواز ہے تو غُنّیت کمزور پڑ جائے گی جیسے پھنکوانا، پھنسوانا میں، تا ہم چونکہ ان لفظوں میں غنّیت ہے، خواہ ضعیف کیوں نہ ہو، ایسے تمام لفظوں میں نون غنّہ لکھنا چاہیے:
سینچنا سے: سنچوانا، سِنچائی
ہنسنا سے: ہنسوانا، ہنسائی
کھینچنا سے: کھنچوانا، کھِنچائی
البتہ ذیل کے ماخوذ لفظوں میں غیر مسموع آواز سے پہلے کی ضعیف غنّیت بھی اردو کے ارتقائی سفر میں زائل ہو چکی ہے، نتیجتاً یہ لفظ نون غنّہ کے بغیر رائج ہو گئے اور یہی صحیح ہے:
بانٹنا سے: بٹنا، بٹوانا، بٹانا، بٹوائی، بٹوارا
پونچھنا سے: پچھوانا، پچھنا
جانچنا سے: جچنا
چھانٹنا سے: چھٹوانا، چھٹنا، چھٹنی، چھٹائی
(5) گانو، پانو، گاؤں، پاؤں
اردو میں یہ الفاظ کئی طرح سے لکھے جاتے ہیں، جیسے گانو، گاؤں، گانوں، گانئوں، اس انتشار کو دور کرنے کے لیے ان کا ایک املا اختیار کرنا ضروری ہے، دیکھا جائے تو اردو میں گاؤں (اسم) اور گاؤں (مضارع گانا سے) دونوں نون غنّہ سے بولے جاتے ہیں، گانو، پانو، ان لفظوں کا قدیم املا ہے جس کو اردو ترک کر چکی ہے، اس پر اصرار کرنا ایک طرح سے رجعتِ قہقری ہے، چنانچہ جو حضرات اس پر اصرار کرتے ہیں، ان کی رائے کو ماننے میں ہمیں تامّل ہے، ایسے تمام لفظوں کو آخری نون غنّہ سے ہی لکھنا مناسب ہے:
گاؤں پاؤں چھاؤں
(6) مہندی، مہنگی
ان الفاظ کے رائج املا میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ ان کا املا وہی صحیح ہے جو رواج عام میں ہے:
مہندی مہنگی مہنگائی لہنگا بہنگی
(7) چانول، گھاس
ذیل کے الفاظ نون غنّہ کے ساتھ متروک ہیں، ان کو نون غنّہ کے بغیر لکھنا چاہیے:
چانول گھانس پھونس سونچنا کونچہ
چاول گھاس پھوس سوچنا کوچہ
ذیل کے الفاظ نون غنّہ کے ساتھ صحیح ہیں:
کینچلی جھونپڑا کنواں
واؤ
(1) اوس، اودھر
قدیم اردو میں اعراب بالحروف کا عام رواج تھا، خاص طور سے پیش کو ظااہر کرنے کے لیے واؤ لکھتے تھے، مثلاً:
اوس اودھر اوٹھانا مونہہ
ایسے تمام الفاظ کو اب بغیر واؤ لکھنا چاہیے، دوکان نہیں، بلکہ دُکان یعنی بغیر واؤ مرجح صورت ہے۔
(2) لوہار، لُہار
اردو میں کچھ لفظ ایسے ہیں جن کی اصل میں تو واؤ موجود ہے، جیسے لوہا، مونچھ، سونا، لیکن ان سے نکلنے والے لفظوں کا تلفظ چونکہ ہمیشہ پیش سے ہوتا ہے، اس لیے انہیں بغیر واؤ کے لکھنا چاہیے، جیسے :
لُہار سُنار
بعض دوسرے الفاظ جن میں واؤ لکھنے کی ضرورت نہیں، نیچے درج ہیں:
پُہنچنا پُہنچانا پُہنچ بُڑھاپا اُدھار دُلارا دُلاری دُلار
دُلہن / دولہن، دُہرا / دوہرا، مُٹاپا / موٹاپا، نُکیلا / نوکیلا دونوں طرح رائج ہیں، البتہ دوہا کے معنی میں صرف دوہرا رائج ہے، اور دوگانہ بمعنی نماز اور دُگانہ (دُگانا) بمعنی سہیلی ہے۔
(3) ہندوستان، ہندُستان
دونوں صحیح ہیں، البتہ لفظ ہندُستانی بغیر واؤ مرجح ہے۔
(4) جز، جزو
جز، جزو بمعنی ٹکڑا، دونوں صحیح ہیں، اور اردو میں مستعمل ہیں، جیسے:
جُز رس جُز دان جُزوِ بدن
جز بمعنی "سوا" الگ لفظ بھی ہے، انھیں خلط ملط نہیں کرنا چاہیے:
ع۔ قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
ع۔ جُز قیس کوئی اور نہ آیا بروئے کار
(5) روپیے، روپیہ
ان لفظوں کو کئی طرح لکھا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ رائج املا روپیہ، روپے ہے، اور اسی کی سفارش کی جاتی ہے۔
(6) دُگنا، دو گنا
یہ دو الگ الگ لفظ ہیں، ان کو اسی طرح لکھنا چاہیے۔ اس بارے میں اصول یہ ہے کہ وہ مرکب الفاظ جن کا پہلا جز 'دو' ہے، مع واؤ لکھے جاتے ہیں، جیسے:
دوگنا دوآبہ دوآتشہ دوراہا دوچار دوپہر دورنگا دوسخنا
البتّہ کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جن میں واؤ نہیں بولا جاتا، ان کا املا بغیر واؤ کے رائج ہے اور انہیں پیش ہی سے لکھنا صحیح ہے، مثلاً:
دُگنا دُلائی
(7) واؤ معدولہ
اردو میں واؤ معدولہ دو طرح سے آتا ہے، اوّل ایسے الفاظ میں جہاں واؤ کے بعد الف ہے، ان لفظوں میں یہ دُہرا مصوّتہ (diphthong) ہے، اور واؤ کا تلفظ پیش کا سا ہوتا ہے، جو بعد میں آنے والے الف کے ساتھ ملا کر بولا جاتا ہے، جیسے:
خواب خواجہ خواہش خوار خواہ
خدا نخواستہ استخواں افسانہ خواں درخواست
الف والے الفاظ میں واؤ معدولہ کا صوتی ماحول طے ہے، اور تلفّظ میں کسی مغالطے کا امکان نہیں، البتّہ خود، خوش جیسے الفاظ میں (جو تعداد میں بہت کم ہیں) ابتدائی کتابوں کے لیے چھوٹی لکیر کی علامت کو اپنایا جا سکتا ہے، جیسے:
خود خوش خودی خورشید خورد
ہائے خفی
(1) بھروسہ، بھروسا
ہائے خفی کئی مستعار الفاظ کے آخر میں آتی ہے (غنچہ، کشتہ، درجہ، پردہ، زردہ، دیوانہ، شگفتہ، جلسہ)، دیسی لفظوں کے آخر میں الف ہوتا ہے (بھروسا، گملا، اکھاڑا، اڈّا، دھبّا، انڈا)۔ ہائے خفی حرف نہیں، ایک طرح کی علامت ہے جس کا کام لفظ کے آخر میں حرفِ ما قبل کی حرکت کو ظاہر کرنا ہے۔ ہمیں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ "اردو میں مختفی ہ کا وجود نہیں اور یہ دیسی الفاظ کے آخر میں نہیں آ سکتی"۔ واقعہ یہ ہے کہ چند دیسی الفاظ میں آخری مُصوّتے (حرفِ صحیح) کی حرکت کو ظاہر کرنے کے لیے اردو املا میں سوائے خفی ہ کے کسی اور علامت سے مدد لی ہی نہیں جا سکتی۔ جیسے روپیہ، پیسہ، نہ، پہ، البتّہ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کا یہ قول صحیح ہے کہ اردو والوں نے مختفی ہ کی اصلیت کو بھُلا دیا اور ٹھیٹھ اردو لفظوں میں مختفی ہ لکھنے لگے۔ چنانچہ اصول یہ ہونا چاہیے کہ ایسے تمام دیسی لفظوں کو جو دوسرے الفاظ کی نقل میں خواہ مخواہ خفی ہ سے لکھے جاتے ہیں، الف سے لکھنا چاہیے:
بھروسا اڈّا سندیسا ٹھیکا بھُوسا آرا راجا آنولا
دھوکا ڈاکیا بتاشا بٹوا بیڑا باجا بلبلا بنجارا
پانسا پٹاخا پٹارا پٹرا پھاوڑا پھیپھڑا نگوڑا توبڑا
جالا ٹھپّا ٹڈّا پھندا ہنڈولا کٹورا چبوترا چٹخارا
دھندا رجواڑا چٹکلا موگرا دسہرا ڈبیا خراٹا سانچا
سہرا کھاجا کیوڑا گھونسلا
تکیہ عربی اور دربیہ فارسی لفظ ہے اور یہ ہائے مختفی سے صحیح ہیں۔ آریہ اور چاولہ دیسی الفاظ ہیں، لیکن ان کا املا ہائے خفی سے اس حد تک رائج ہو چکا ہے کہ انھیں مستثنیٰ سمجھنا چاہیے۔
(2) تصریفی الفاظ
وہ تمام تصریفی شکلیں جن میں عربی، فارسی کا کوئی جز ہو لیکن اس کی تہنید ہو چکی ہو، الف سے لکھنی چاہییں:
چوراہا بال خورا چھماہا بے فکرا نو دولتا کبابیا بسترا دسپنا
سترنگا نصیبا دو رُخا خون خرابا تھکا ماندا شیخی خورا خوجا
البتہ ذیل کے الفاظ ہ سے مرجح ہیں:
نقشہ خاکہ بدلہ مالیدہ امام باڑہ ہرجہ خرچہ غنڈہ غبّارہ
آب خورہ یک منزلہ تولہ ماشہ زردہ سموسہ زنانہ
(3) یورپی الفاظ
یورپی زبانوں سے آیا ہوا جو لفظ جس طرح مستعمل ہو، اس کے رائج املا کو صحیح ماننا چاہیے، البتّہ جو لفظ رواج میں نہیں، انھیں الف سے لکھنا مناسب ہو گا:
کمرہ ڈراما فرما سوڈا
(4) پٹنہ، آگرہ
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس قول کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ "شہروں (ملکوں، جگہوں) کے ناموں کو اس طرح لکھا جانا چاہیے جس طرح وہ رائج ہیں":
آگرہ کلکتہ پٹنہ باندہ ٹانڈہ امروہہ انبالہ
ہمالہ، ہمالیہ، افریقہ، امریکہ اور مرہٹہ کو بھی ناموں کی فہرست میں شامل سمجھنا چاہیے۔
(5) دانا، دانہ
ذیل کے جوڑوں میں سب حروف مشترک ہیں، سوائے آخری حرف کے، یعنی پہلے لفظ میں آخری حرف الف ہے اور دوسرے میں ہائے خفی۔ یہ الگ الگ لفظ ہیں اور ان کے الگ الگ معنی ہیں۔ چنانچہ ان کے املا کا تعیّن ان کے معنی سے ہو گا:
دانا (جاننے والا، عقل مند) :
دانہ (بیج، مال، دانۂ گندم)
چارا (مویشیوں کی خوراک) : چارہ (علاج، مدد)
خاصا (اضافے کے معنی میں، جیسے: اچھا خاصا) :
خاصّہ (طبیعت، عادت) /
خاصہ (عام کی ضد، امیروں کا کھانا)
پارا (سیماب) :
پارہ (ٹکڑا، حصّہ)
لالا (لقب) :
لالہ (گُلِ لالہ)
نالا (بڑی نالی) :
نالہ (نالہ و فریاد)
پتّا (درخت کا پتّا) :
پتہ (نشان، مقام)
نا (کلمۂ نفی) :
نہ (مخّفف کلمۂ نفی)
آنا (مصدر) :
آنہ (پُرانے روپے کا سولھواں حصّہ)
(6) پردے، جلوے (مُحرّف شکلیں)
جب ہائے خفی والے الفاظ (پردہ، عرصہ، جلوہ، قصّہ) محرّف ہوتے ہیں تو تلفّظ میں آخری آواز 'ے' ادا ہوتی ہے۔ املا میں بھی تلفّظ کی پیروی ضروری ہے۔ چنانچہ ایسے تمام الفاظ کی مُحرّف شکلوں میں 'ے' لکھنی چاہیے:
بندے (کا) پردے (پر) عرصے (سے) لوے (کی) مے خانے (تک)
افسانے (میں) غصّے (میں) مدرسے (سے) مرثیے (کے)
(7) موقعہ، معہ
مندرجہ ذیل لفظوں میں ہائے خفی کا اضافہ اب غلط ہے، ان کا صحیح املا یوں ہے:
موقع مع مصرع بابت آیت
( 8 ) سنہ، سِن
سنہ بمعنی 'سال' کو اکثر بغیر ہ کے سن لکھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ یہ دو الگ الگ لفظ ہیں۔ سنہ بمعنی سال ہائے خفی سے ہے، جیسے سنہ 1857 یا سنہ ہجری یا سنہ عیسوی
سِن کے معنی 'عمر' کے ہیں۔ یہ لفظ بغیر ہ کے ہے۔
برس پندرہ یا کہ سولہ کا سِن
جوانی کی راتیں، مُرادوں کے دِن
(9) جگہ، توجّہ، بہ، تہ
ایسے الفاظ میں اگر ہائے ملفوظ یعنی جو ہائے آواز دیتی ہو، اور ہائے خفی یعنی جو ہائے آواز نہ دیتی ہو، اُن کا فرق ظاہر کرنا مقصود ہو تو اس کے نیچے شوشہ لگایا جا سکتا ہے، بصورتِ دیگر اس کی ضرورت نہیں، جیسے:
'بہنا' مصدر سے 'بہہ'
'سہنا' مصدر سے 'سہہ'
'کہنا' مصدر سے 'کہہ'
(10) کہ، یہ
کہ (کافِ بیانیہ) اور یہ میں ہ کی آواز عموماً ادا نہیں ہوتی یا بہت کمزور ادا ہوتی ہے۔ یہ کہ یہہ لکھنے پر اصرار کرنا خواہ مخواہ کا تکلّف ہے کہ اور یہ کو ہ کی لٹکن کے بغیر لکھنا ہی مناسب ہے۔