اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر ایسا لکھا ہے کیا اس کا کوئی معتبر حوالہ دیا جا سکتا ہے؟
فتح انشاء اللہ حق کی ہوگی۔ قرآن پاک کہتا ہے: فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً۔ (جاگ تو پھک سے دور ہو جاتا ہے) یعنی باطل سمندر کے اوپر جاگ کی طرح ہے، جو ذرا سی ہوا سے اڑ جاتا ہے۔اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ ہیں :
" اے اسرائیل ! تیری سرحدیں نیل سے فُرات تک ہیں ۔ "
" دنیا میں صرف اسرائیل ہی ایسا ملک ھے جس نے کُھلم کُھلا دوسری قوموں کے ملک پر قبضہ کرنے کا ارادہ عین اپنی پارلیمنٹ کی عمارت پر ثبت کر رکھا ھے ۔ کسی دوسرے ملک نے اس طرح علانیہ اپنی جارحیت کے ارادوں کا اظہار نہیں کیا ھے ۔ اس منصوبے کی جو تفصیل صیہونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ھے اس کی رُو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ھے اُن میں دریائے نیل تک مصر ، پورا اُردن ، پورا شام ، پورا لبنان ، عراق کا بڑا حصّہ ، ترکی کا جنوبی علاقہ ، اور جگر تھام کر سنیے کہ مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ھے ۔
اگر دنیائے عرب اسی طرح کمزور رہی جیسی آج ھے ، اور خدانخواستہ دنیائے اسلام کا ردِّ عمل بھی مسجدِ اقصیٰ کی آتش زدگی پر کچھ زیادہ مؤثر ثابت نہ ہو سکا ، تو پھر خاکم بدہن ایک دن ہمیں وہ دن بھی دیکھنا پڑے گا جب یہ دشمنانِ اسلام اپنے ان ناپاک ارادوں کو پورا کرنے کے لیے پیش قدمی کر بیٹھیں گے ۔ "
( سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔ تفہیمات چہارم ، ترجمان القرآن، ستمبر 1969 )
آمیناسرائیلی مظالم کی مذمت پر بھی لوگ پتہ نہیں کیوں اول جلول باتیں شروع کردیتے ہیں۔یہاں وہاں کی لایعنی اورفضول باتیں، ایسالگتاہے کہ کچھ لوگوں کے دل ودماغ ایک حد تک اسلام مخالف ہوچکے ہیں۔ سیاسی خبروں میں بھی اسلام کو اسلامی تعلیمات کو نشانہ بنایاجارہاہے۔ اگرایساہی ہے توظاہرداری کے اسلام سے کیافائدہ ،صاف سیدھااسلام کا انکار کردواورجیواپنی زندگی۔ خودکومسلمان بھی کہنا،اسلامی تعلیمات پر اعتراض کیلئے ہروقت نئے نکتے تلاش کرنا دوہراپن ہے۔
صاف سیدھی سی بات ہے کہ اسرائیل طاقت کا حد سے زیادہ استعمال کررہاہے ۔ وسعت اللہ خان نے بی بی سی میں صحیح لکھاہے کہ چند سال پہلے یہی قوم تھی جس کو نازی کیمپوں میں بھیجتے وقت دوطرفہ کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے تھے اورآج یہ قوم غزہ پر بمباری ہوتے دیکھ کر خوش ہے۔ لیکن وہ دن بھی دورنہیں جب ایک بار پھر اسرائیلی دربدرہوں گے اوراب تک تومظلومیت کااستحصال کرکے انہوں نے فوائد سمیٹے لیکن اب ان کے چہرے پر سے مظلومیت کا نقاب اترچکاہے اورپتہ چل چکاہے کہ یہ قوم جب کمزورہوتی ہے توخود کومظلوم ثابت کرتی ہے اورجب ذراسی طاقت پاتی ہے توظلم میں سب کو پیچھے چھوڑدیتی ہے۔
ایسی قوم کایہی حشرہوناچاہئے جوماضی میں ہواہے۔ اورمستقبل بھی اس کا ماضی سے بہتر ہرگزنہیں ہوگا۔اللہ فلسطینیوں کا حامی ہو ،ان کو صبر دے اوران تکالیف کا بہتربدلے نصیب کرے(آمین)