روح کا تعلق ایمانیات سے ہے۔ بہت سے مذاہب میں ارواح کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ دین ابراہیمی یہودیت یا موصوی شریعت میں بعد از موت زندگی کا ذکر خیر تک موجود نہیں جیسا کہ دین اسلام اور عیسائیت میں پایا جاتا ہے۔ ایسے میں کسی ایسے شخص کیلئے جو ان روحوں اور آتماؤں کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا، آپ کیسے ان کے وجود پر کھڑے ’’علوم‘‘ سکھائیں گی؟
http://www.religionfacts.com/judaism/afterlife
سائنس نے کہیں یہ نہیں کہا کہ کسی غیر مرئی قوت کی وجہ سے بگ بینگ یعنی کائنات کی ابتداء ہوئی۔ بلکہ صرف اتنا کہاہے کہ موجود مشاہدات کی روشنی میں کائنات کسی ایک مقام سے وجود میں آئی اور اسوقت سے لیکر اب تک مسلسل پھیل رہی ہے۔ مطلب سائنسدان شواہد کی رو سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ یہ کائنات ہمیشہ سے نہیں تھی بلکہ اسکا ایک ٹائم فریم موجود ہے۔ اثبوت کیلئے کائنات کی ہر سمت میں موجود یکساں Cosmic Radiation ہے جسپر آپ اندھا ایمان لائے بغیر خود بھی چیک کر سکتی ہیں۔ یہ تابکاری لہروں کا وجود ہی بگ بینگ کی سب سے بڑی دلیل ہے:
زیک نظریہ ارتقاء پر بہت زیادہ دسترس رکھتے ہیں۔ اگر آپکو اس معاملہ میں شکوک و شبہات ہیں تو انسے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ بنیادی طورپر سائنس کی شاخ بیالوجی یعنی حیاتیات کی ساخت نظریہ ارتقاء پر کھڑی ہے۔ یوں یہ حامی اور مخالفت والا معاملہ ہی نہیں ہے۔ جب ارتقا کو نہیں ماننا تو بیالوجی کیسے پڑھیں گی؟
یہی تو بات ہے کہ ہر مذہب اپنے اپنے حساب سے ایک ایمانی Narrative پر کھڑا ہے۔ یعنی پہلے اس پر ایمان لاؤ وگرنہ میرے سے نکلنے والے دیگر ’’علوم‘‘ کی کچھ سمجھ نہ آئی گی ۔ جبکہ سائنس اس قسم کی ہٹ دھرمی اور جبر سے آزاد ہے۔ آپ کو سائنسی نظریہ ارتقا نہیں ماننا تو نہ سہی، اس سے سائنس کو کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہاں آپ کو اگر حیاتیات میں دلچسپی ہے تو اسکی کچھ سمجھ نہ آئی گی کہ یہ سارے کا سارا نظریہ ارتقاء اور اس سے ملنے والے شواہد پر کھڑا ہے۔ یوں سائنس آپکو ایمانیات کی بجائے حقائق پر یقین کرنا سکھاتی ہے۔ جبکہ مذہبی عقائد کا سارا ماخذ ہی ایمانیات ہیں۔ نہ کہ ناقبل تردید دلائل اور مشاہدات۔
میں قرآن پاک میں موجود صفات باری تعالیٰ ’’کن فیکون‘‘ کو مانتا ہوں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہ اسی وقت وقوع پزیر نہیں ہوتا بلکہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ہو کر رہتا ہے۔ مثلاً اگر خدا نے انسان بنانے کا ارادہ کیا تو اسنے یکدم ہی اسکی تخلیق کر کے اس زمین پر نہیں اتارا۔ بلکہ اسنے بگ بینگ کے ذریعہ اسکی بنیاد رکھی جو کھرب ہا سال کی مسافت کے بعد دنیا میں زندگی کی پیدائش اور پھر ارتقاء کرتے کرتے اشرف المخلوقات انسان میں بدل گئی۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ انسان کا ارتقاء ختم نہیں ہوا۔ اگلے کئی ہزار سالوں میں انسان کی شکل و صورت کیسی ہوگی، اسکا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔
اس نظریہ سے نہ تو خدا کا وجود جھٹلایا جاتا ہے اور نہ ہی ہمارا دین ایمان کے ہم اللہ کی مخلوق ہیں۔ جو کوئی بھی اس متوازن نظریہ سے پرے ہٹے گا وہ ضرور یا تو دہریہ ہو جائے گا یا کٹر مذہبی ہو کر سائنس کا ہی انکاری ہو جائے گا۔ یوں میں نہ تو ملحد اور نہ ہی سائنس کا اندھا پیرو کار۔ میں نے ہمیشہ ان دو شدتوں میں درمیانی راہ نکالی ہے جبکہ مسلمانوں اور ملحدوں کی اکثریت ایسا نہیں کرتی۔