یوسف-2
محفلین
بہت خوب مضمون ہے نفسیاتی تناظر پیرائے میں لکھا گیا ہے جو کہ وقت کی ضرورت کا ایک اہم پہلو ہے۔ اگر اور جینل مضمون کا ربط ساتھ چسپاں ہو تو مزید اچھا ہو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ یوسف ثانی بھائی بہت خوب
نیویارک ٹائمز میں اصل انگریزی مضمون کا ربط
بہت خوب مضمون ہے نفسیاتی تناظر پیرائے میں لکھا گیا ہے جو کہ وقت کی ضرورت کا ایک اہم پہلو ہے۔ اگر اور جینل مضمون کا ربط ساتھ چسپاں ہو تو مزید اچھا ہو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ یوسف ثانی بھائی بہت خوب
جملہ ”مسلم ممالک“ میں خواتین کو یہ حق انہیں پہلے ہی حاصل ہے کہ وہ چاہے حجاب کرے، چاہے حجاب اتاردے۔ واضح رہے رہے کہ حجاب اور لباس میں فرق ہے۔ آپ حجاب اتارنے کا حق مانگ کر وینا ملک اینڈ کمپنی کی طرح اس ”حق“ کونارمل نسوانی لباس کے لئے استعمال نہین کرسکتے۔ حجاب میں صرف نقاب، بالوں کو کور کرنا اور نارمل نسوانی ڈریس کے اوپر جلباب (چادر، عبایا، اوور کوٹ وغیرہ) کا استعمال شامل ہے۔ میری آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے، جہاں سے آپ کی ناک شروع ہوتی ہے۔ عورت کی آزادی بھی وہاں ختم ہوجاتی ہے، جہاں اس کی سیکسی ڈریسنگ یا اَن ڈریسنگ سے معاشرے میں جنسی اشتعال اور فساد کا خدشہ ہو۔ دنیا کی ہر ریاست کو اس قسم کی قانون سازی کا حق ہوتا ہے کہ وہ متوقع فساد کے سد باب کے لئے اپنے شہریوں پر ناگزیر پابندیاں لگائے۔ اسی طرح ایک اسلامی ریاست کو بھی، اسلامی تعلیمات کی رو سے اس قسم کی پابندیاں لگانے کا حق حاصل ہے۔ اسی بنیاد پر سعودیہ میں عورتوں پر حجاب کی پابندی ہے۔
حجاب کرنے کی پابندی سے حجاب کرنے والی کو عملاً کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔ جبکہ حجاب نہ کرنے کی پابندی اور اپنے جسم کی نمائش کرنے کی آزادی سے خود ایسا کرنے والی کو بھی نقصان ہوتا ہے اور پورے معاشرے میں بھی جنسی انارکی پھیلتی ہے۔ مثلاً امریکہ میں ہر عورت کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے جسم کو جتنا چاہے نمایاں اور پر کشش بنا کر سرا بازار پیش کرے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ امریکہ ہی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں سیکس سر عام اور ہر ایک کی دسترس میں ہونے کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ زنا بالجبر اسی سرزمین پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سعودیہ میں حجاب کرنے کی قانونی پابندی کے نتیجہ میں یہاں جنسی جرائم دنیا بھر کے مقابلہ میں سب سے کم ہیں۔
کسی ریاست میں حجاب کرنے کی پابندی اور حجاب نہ کرنے کی پابندی ، یہ دونوں ”پابندیاں“ یکساں ہرگز نہیں ہیں۔ حجاب نہ کرنے کی پابندی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ حجاب کرنے کی پابندی ہو یا (مثلاً) ٹریفک اشاروں پر رکنےکی پابندی، اس سے بنیادی انسانی حقوق ”سلب“ نہیں ہوتے۔ کیونکہ اگر ہر ایک کو ٹریفک کے اشاروں پر ”اپنی مرضی“ سے رکنے یا نہ رکنے کی آزادی ہو تو اس سے سڑک پر حادثات میں اضافہ ہوگا اور دوسرے الفاظ میں میری اس نام نہاد آزادی سے دوسرے بہت سے ڈرائیورز کے حقوق سلب ہون گے، جو محفوظ طریقہ سے انہی سڑکوں پر ڈرائیو کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ یہی حال حجاب کرنے یا نہ کرنے کی ”انفرادی آزادی“ دینے والا معاشرہ عملاً عیاش طبع مردوں کو ایسی خواتین کی آبروریزی کے مواقع فراہم کرکے خواتین کے حق تحفظ عزت کو مجروح کرتا ہے۔ جبکہ سماج کی تمام خواتین کو حجاب کی پابندی کے دائرہ میں لانے سے کسی خاتوں کا کوئی بنیادی انسانی حق متاثر نہیں ہوتا۔ اور سماج بھی سکھ کا سانس لیتا ہے۔
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ مسلمان اپنے مذہبی اقدار و روایات کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ثابت کرنے پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں
اور بہت زور و شور سے اس کی مخالفت میں بیانات دینا شروع ہوجاتے ہیں
مکھی کا کام ہے غلاظت تلاش کر کے اس پر بیٹھنا ، تو کچھ لوگ جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں ، یہ کام بخوبی انجام دے رہے ہیں
عائشہ نصرت نے اس پورے مضمون میں صرف ایک جملہ " میرا جسم میرا مسئلہ " ہی تو نہیں کہا ناں۔۔۔ ۔۔۔ بہت ساری مفید اور خوبصورت باتیں بھی کی ہیں
اُن پر تو ایک نظر ڈالنے کی زحمت بھی نہیں کی اور صرف اس ایک جملے کو ہدف بنا کر ایسی ایسی خرافات باتیں کی گئی ہیں کہ الاماں و الحفیظ
یہ جسم کیا ہم خود بنا سکتے ہیں ؟
کیا ہمارے اندر اتنی طاقت ہے کہ اس جسم میں کوئی ٹوٹ پھوٹ ہو تو اس کو پہلے جیسی حالت پر دوبارہ لاسکیں؟
کوئی بھی عضو ضائع ہونے کی صورت میں کیا وہاں پہلے جیسا عضو ہم لاسکتے ہیں ؟
یہ جسم صرف مسلمانوں ہی کو تو نہیں ملا بلکہ ہر انسان کو ملا ہے چاہے اسکا مذہب کوئی بھی ہو ۔
ہر مذہب میں عریانی و فحاشی کو برا سمجھا گیا ہے یہ اور بات کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان قوانین میں اپنی پسند کے مطابق تبدیلیاں ہوتی رہیں
اسلام کے قوانین جو ہزاروں سال پہلے نافذ کئے گئے تھے وہ ہر دور کے لئے تھے ۔ صرف چند سال یا چند سو سال کے لئے نہیں تھے
اسلامی قوانین صرف اسلام کے ماننے والوں کے لئے ہیں یہ بھی درست ہے لیکن کیا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو جسم جیسی انمول دولت دے کر کیا بالکل چھوٹ دے دی گئی ہے کہ اب اسکے ساتھ تم جو چاہے کرو ، آزاد ہو؟؟؟؟؟
اگر انسان کوئی مشین ایجاد کرتا ہے تو کتنے تجربات کے بعد وہ یہ معلوم کرپاتا ہے کہ اس مشین کو یہ چیز نقصان پہنچاسکتی ہے اور یہ چیز اسکے لئے فائدہ مند ہے
اب وہ اس مشین کے ساتھ ایک ہدایت نامہ بھی منسلک کردیتا ہے کہ اس مشین کو فلاں چیز نقصان اور فلاں چیز فائدہ دے گی
لیکن جب کوئی دوسرا شخص اس مشین کو خرید کر اپنی مرضی سے آپریٹ کرنا شروع کردے ، نقصان دینے والی چیز سے نہ بچائے اور فائدہ پہنچانے والی چیز کو تسلیم نہ کرے اب کوئی دیکھنے والا اسکا خیرخواہ دیکھ کر کہے کہ بھائی یہ تم کیا کر رے ہو؟
وہ شخص کہے کہ تم کو کیا ہے میں اس مشین کے ساتھ جو چاہوں کروں یہ میری چیز ہے میرا مسئلہ ہے
تو پھر اس شخص کی ذہنی حالت پر افسوس کرتے ہوئے اسکو اس کے حال پر چھوٹ دینا ہی مناسب لگتا ہے
چھوٹی سی ایک مثال ہے کہ بازار سے کوئی بھی چیز خریدیں تو جو کسی غلاف میں لپٹی ہوئی ہو اسکو تو سب خریدنا پسند کریں گے لیکن جو بالکل "کھلی " پڑی ہو اسکو کوئی ہاتھ بھی لگانا پسند نہیں کرے گا کہ اس پر تو دھول مٹی ، غلاطت اور جراثیم ہونگے تو یہ صحت کے لئے نقصاندہ ہے ، لہٰذا ہم ہمیشہ "ریپر " والی چیزوں کو ہی ترجیح دیں گے
دوائیں بنانے والی کمپنیاں ہر دوا پر یہ ہدایت ضرور لکھتی ہیں کہ دوا کو دھوپ اور گرمی سے بچا کر ہمیشہ ٹھنڈی اور خشک جگہ پر رکھیں
ہم دوا خرید کر لائیں تو اسکو ہدایت کے مطابق ہی استعمال کرتے ہیں دھوپ ، گرمی اور پانی سے بچا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں
لیکن کوئی دوا خرید کر یہ کہے اب تو میں اسکا مالک ہوں جیسے میرا دل چاہے گا سکو استعمال کروں گا تو اسکو تو سب ہی ذہنی بیمار قرار دیں گے
الّا ماشاءاللہ ہمارے مسلم طبقے میں بھی ایسا ذہنی بیمار طبقہ پایا جاتا ہے جس کو پتہ ہے کہ یہ جسم ہمارے پاس امانت ہے اللہ کی اور ہمکو صرف برتنے کے لئے دیا گیا ہے ، اسکے لئے کیا اچھا ہے اور کیا برا ہر بات کو کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے لیکن پھر بھی وہ ہٹ دھرم لوگ کہتے ہیں کہ ہماری مرضی ہے ہم اس جسم کو جیسے چاہے استعمال کریں اب ایسوں کی عقل کو کیا کہا جائے
ایسے لوگوں کی خدمت میں ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک سوال ہے کہ آگ کا کام ہے جلانا کوئی جانتے بوجھتے ہوئے اگر آگ سے کھیلے تو یقیناً اسکے کپڑوں میں بھی آگ لگنے کا خطرہ ہوسکتا ہے ، ایسے شخص کو کیا آپ یہ کہہ کر نظر انداز کردیں گے کہ اسکی مرضی ہے ، حق ہے وہ جو چاہے کرے ؟؟؟؟
آگ کا جو کام ہے وہ تو ضرور کرے گی اسلئے ہر شخص ہی شعوری یا لاشعوری طور پر آگ سے بچنے کی کوشش تو کرتا ہی ہے اور جو یہ کوشش نہیں کرتا اسکا انجام تو پھر سب کو پتہ ہی ہے کیا ہونا ہے
اللہ ہم سب کو آگ کے شعلوں سے اپنے آپ کو بچانے کی توفیق عنایت فرمائے اور ذہنی بیماروں کو صحتِ کاملہ عطا فرمائے آمین
متفق عثمان
دلیل کمزور ہے کہ "میرا جسم میرا مسئلہ"
ہرگز ایسی بات نہیں ہے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ میرا جسم اور ہر چیز میرے ایمان کا مسئلہ ہے
وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن اب آپ کے نزدیک نارمل کیا ہے اور انتہا پسندی کیا ؟عثمان
اصول و ضوابط نارمل انسانوں کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں یا انتہا پسندوں کو؟
اصول و ضوابط کی پیروی نہ کرنے سے بگاڑ پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں یا کم؟
آپ کی مراد اس سے ہے ؟اس موضوع کو ایک طرف رکھتے ہوئے دوسرے سوال کا جواب بھی دے دیں۔
قانون تو قانون ہے۔ پابندی تو لازم ہے۔ اگرچہ کوئی بھی قانون بحث سے مستثنیٰ نہیں۔اصول و ضوابط کی پیروی نہ کرنے سے بگاڑ پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں یا کم؟
کیا انتہا پسندی اور "نارمل" سیلیکٹ کرنے کی لیے دو ہی آپشن نظرآتےہیں ؟وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن اب آپ کے نزدیک نارمل کیا ہے اور انتہا پسندی کیا ؟
مثلاً اگر اسی موضوع کو لیں۔ تو برقع اوڑھنے یا چہرے کا نقاب کرنے اور محض دوپٹہ لینے میں سے نارمل کیا ہے اور انتہا پسندی کیا ؟
گویا ایک بات تو واضح ہوئی
کہ "میرا جسم میرا مسئلہ" جیسا اصول صرف وہیں مفید ہے جہاں مقاصد اپنے موافق ہو۔ ورنہ مغرب کی طرح معیار کو دوہرا کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں۔
ایک خاتون اس اصول کے تحت حجاب ، برقع لے تو واہ واہ۔۔۔
دوسری خاتون اسی پسندیدہ اصول کے تحت محض دوپٹہ گلے میں ڈالنے کا حق مانگے تو بقول شخصے "بازاری" ٹھہرے ؟؟
بہت خوب!
میرے خیال میں یہاں دو باتوں کو گڈمڈ کیا جارہا ہے۔ عائشہ نصرت کی دلیل "میرا جسم میرا مسئلہ" ہی اس وقت زیربحث ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ یہ دلیل کمزور ہے صرف اس وجہ سے کہ دوسری طرف سے بھی یہی دلیل پیش کی جاسکتی ہے۔ اس کا ذرا جائزہ لیتے ہیں۔
اول) ایک دلیل عائشہ نصرت نے پیش کی مغربی معاشرے کے اس حصے کے سامنے جو عورت کی آزادی کے نام پر زبردستی حجاب سے روکتا ہے۔
دوم) اس کو کمزور ثابت کرنے کے لئے دوسری دلیل یہ دی جارہی ہے کہ مسلم معاشرے میں بھی کوئی اسی دلیل کا سہارا لے تو پھر آپ کیا کریں گے۔
یہ دونوں الگ الگ باتیں ہے بظاہر ایک دوسرے سے بہت کلوزڈ دکھائی دیتی ہیں لیکن ایک کا دوسری سے کوئی جوڑ ہی نہیں۔ وہ اسطرح کہ عائشہ نصرت کی دلیل مغربی معاشرے کے جبر کے خلاف ہے۔ جب وہ وہاں یہ دلیل دے گی تو کوئی عدالت یہ نہیں کہے گی کہ مسلم معاشرے میں بھی عورت کو یہی حق دو۔ نہ ہی عدالتیں انصاف کرتے ہوئے اسطرح کی شرائط پیش کرتی ہیں۔ لہذا اس دلیل کو وہاں کے ماحول میں کوئی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ یہ وہاں کے غیر مسلم معاشرے کی ایک مسلم عورت کی شخصی آزادی کا مسئلہ ہے لہذا مسلم معاشرے میں اس دلیل کے نفاذ تک اس عورت کے لئے انصاف کو روک کر نہیں رکھا جائے گا اور نہ ایسا ہوتا ہے۔ (یہ الگ بات ہے کہ وہ معاشرہ اس دلیل کو نہ مانے لیکن اصولی طور پر اس معاشرے کے پاس اس دلیل کے خلاف کوئی ٹھوس دلیل نہ ہوگی)۔ یہ بات نوٹ کئے جانے کے قابل ہے کہ مسلمان عورت جب اس دلیل کا سہارا لیتی ہے تو اس کی ٹھوس وجہ ہوتی ہے کہ اس کے مذہب میں حجاب شامل ہے اور اپنی مرضی کے مذہب پر عمل کرنا بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے جس پر کوئی دو رائے نہیں۔
لہذا اس دلیل کو کمزور تو کہنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے یہ اپنی جگہ ایک مضبوط استدلال ہے۔ جو برعکس دلیل پیش کی گئی وہ صرف جوابی حملے کے طور پر ہے ورنہ وہ اس دلیل کو رد کرنے کے لئے اصولی طور پر پیش نہیں کی جاسکتی۔
یہ بہت مبہم تعریف ہے۔ حد کون مقرر اور کون لاگو کرے گا ؟ فرد کو یہ آزادی دینے کا تو آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ حکومت کو دینے کو تیار نہیں۔ باقی پیچھے خدائی ٹھیکدار ہی بچتے ہیں۔اب مسلم معاشرے کی بات کرتے ہیں۔ یہ بات میں پہلے ہی بیان کرچکا ہوں کہ حجاب کے لئے قانون بنانا حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آسکتا (یہ سو فیصد میری ذاتی رائے ہے) کیونکہ اس میں بہت سی قباحتیں ہیں کہ ہر مسلک کے نزدیک پردہ کی تعریف میں ہی فرق ہے پھر بعض کے ہاں زیادہ سختی اور بعض کے ہاں نسبتا نرمی ہے۔ اس لئے یہاں جب زبردستی حجاب کرانے کا قانون ہی نہیں تو دلیل کی ضرورت خود ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ایک حد تک ہی یہاں بھی آزادی دی جائے گی کہ اس سے آگے دوسروں کی آزادی میں مداخلت شروع ہوجائے گی۔ اور حجاب سے آزادی کی زیادہ سے زیادہ ٹھوس وجہ یہی کسی کے پاس ہوگی کہ اسے روزمرہ کے کاموں میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس وجہ کے بعد اسے صرف حجاب سے ہی آزادی دی جاسکتی ہے نہ کہ کھلی چھٹی۔
منطقی لحاظ سے صحیح ہو یا غلط ، ہر شخص اپنی صوابدید اور اپنی مرضی ہی سے اپنے نظریات کی پیروی کرتا ہے۔اب ایک بات ہم صرف مسلمان عورت کے حوالے سے ہی ڈسکس کرتے ہیں۔ کہ مذہب میں قوانین بھی ہوتے ہیں۔ اب جب مسلمان عورت نے اپنے آپ کو ایک مذہب کا پابند مانا ہے تو اس کے قوانین پر اعتراض کا حق ہی ختم ہوجاتا ہے۔ بلکہ بالکل لغو ٹھہرتا ہے کہ ایک مذہب کو مان کر اس کے قوانین پر اعتراض کیا جائے۔
کیا انتہا پسندی اور "نارمل" سیلیکٹ کرنے کی لیے دو ہی آپشن نظرآتےہیں ؟
حکومت کو میں صرف اس بات کا اختیار دینے کا قائل نہیں کہ وہ زبردستی حجاب کروانا شروع کردے۔ لیکن حجاب سے آزادی کے نام پر اخلاقی حدود سے تجاوز کرجانے کو روکنا حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ اب رہ جاتی ہے بات اخلاقی حدود متعین کرنے کی تو یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ بہت ساری چیزیں بحث کرتے ہوئے واضع نہیں ہوتیں لیکن جب نافذ کرنے کے بارے میں سوچا جائے تو پھر حل نکل ہی آتا ہے۔ اور ہر صورت حال میں یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ حدود مقرر ہی کی جائیں گی تو کام ہوگا۔ بعض جگہ اخلاقی حدود نہ بھی مقرر کی جائیں تو بھی سب کو احساس ہوجاتا ہے کہ یہ حدود سے تجاوز ہورہا ہے۔ اس بات پر شائد یوسف ثانی صاحب بہتر اظہار خیال کرسکیں۔یہ بہت مبہم تعریف ہے۔ حد کون مقرر اور کون لاگو کرے گا ؟ فرد کو یہ آزادی دینے کا تو آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ حکومت کو دینے کو تیار نہیں۔ باقی پیچھے خدائی ٹھیکدار ہی بچتے ہیں۔
لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر میں بہرحال پردے کو مفید اور مسلم معاشرے کے لئے ناگزیر خیال کرتا ہوں۔ پردے کی پابندی کرکے بھی سبھی کام ہوسکتے ہیں اور ترقی کے تمام زینے طے کیے جاسکتے ہیں۔ جو روشن خیال خواتین پردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے اس کے نقصان بیان کرتی نہیں تھکتیں، بندہ ان سے پوچھے کہ خود انہوں نے پردے کو چھوڑ کر کیا ترقیاں کرلیں ہیں؟ یا کون سی ترقی ایسی ہے جس کی راہ میں پردہ رکاوٹ ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ پردے کے جینئن نقصانات بہرحال کوئی نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے برخلاف پردہ نہ کرنے کے جو نقصانات ہیں وہ ایک نظر مغربی معاشرہ کو دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے۔
گذشتہ باپردہ خواتین کے کارنامے کچھ واضح کریں۔آج کی بے پردہ مسلم خواتین کے کارناموں کا گذشتہ صدیوں کی مسلمان باپردہ خواتین کے کارناموں سے موازنہ کرلیں تو بات بالکل کھل جاتی ہے کہ پردے کا صرف بہانہ بنایا جارہا ہے جس کے پیچھے اپنی ذاتی خواہشات ہیں اور کچھ نہیں۔
متفق۔برادرم بات کچھ ایسے ہے کہ اعتدال سے کوئی بھی معاشرہ ہٹے تو نقصانات تو سامنے آتے ہی ہیں۔
ہم یہاں عمومی نقصانات کی بات نہیں کررہے بلکہ صرف ایک خاص نقصان کا ذکر کررہے ہیں جو بے پردگی کی وجہ سے ہے۔ اس میں مسلم معاشرہ جیسا بھی گیا گزرا ہے لیکن پھر بھی مغربی معاشرہ اس حوالے سے جس بدترین صورت حال سے دوچار ہے وہ ظاہر و باہر ہے۔ اس سے امید ہے کہ آپ کو بھی انکار نہیں ہوگا۔مغربی معاشرے کے نقصانات تو آپ کو فوری نظر آرہے ہیںلیکن مسلم معاشروں کے نقصانات پر بات کرنا بلکہ غور ہی کرنا آپ کے لئے شجر ممنوعہ ہوگا۔
پردہ سے متعلق صحیح اسلامی تعلیم کبھی بھی خواتین کو سماجی یا معاشرتی طور پر ناکام نہیں بناتی۔ البتہ جیسا کہ آپ نے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ "پردہ سے متعلقہ حد سے بڑھے نظریات" تو حد سے کوئی بھی چیز بڑھے یا کم ہو دونوں صورتوں میں ہی نقصان ہے۔ اس لئے میں پردے کو بالکل چھوڑ دینے کے بھی خلاف ہوں اور پردے کے نام پر عورت کو چار دیواری کا قیدی بنائے جانے کو بھی ناپسند کرتا ہوں۔ پردے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عورت کو زندگی کی دوڑ میں پوری طرح حصہ لینے کی آزادی ہے۔ لیکن اگر پردے کے نام پر ہی عورت کو یہ آزادی نہیں دی جاتی تو اس میں پردے کا تو کوئی قصور نہیں۔ قصور وار اس معاشرے کو ٹھہرایا جائے گا جو پردے کی آڑ میں یہ آزادی سلب کرتا ہے۔مسلم خواتین کا انتہائی اکثریتی حصہ اپنی غیر مسلم خواتین کے مقابلے میں بڑی حد تک معاشرتی ، معاشی اور سماجی طور پر ناکام بلکہ معذور ہے۔ یہ آپ کی سادگی ہے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں پردہ سے متعلقہ حد سے بڑھے نظریات اس معذوری میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔
اس حوالے سے میں ذہن میں موجود مبہم خاکوں کے سہارے بات نہیں کرسکتا کبھی تفصیلی مطالعہ کرکے کچھ عرض کروں گا۔ البتہ یہ واضع کرنے کے لئے کہ پردہ عورت کو ناکام نہیں بناتا کچھ واضع مثالیں دیتا ہوں۔گذشتہ باپردہ خواتین کے کارنامے کچھ واضح کریں۔