فاروق سرور خان
محفلین
1۔ بقول باذوق
برادرم محمد عویدص ، شائد آپ کو بھی علم ہوگا کہ "مشکوٰۃ المصابیح" حدیث کی کوئی اصل کتاب نہیں ہے بلکہ مختلف کتبِ احادیث سے لی گئیں احادیث کا ایک منفرد انتخاب ہے۔
کچھ کتب پر ایمان اور کچھ کتب کوضعیف کہہ کر "رد" کر دیا جاتا ہے۔ جو محمد عویدص پیش کریں وہ ضعیف ہے۔ وہ اصل کتاب نہیں ہے اور جوبازوق پیش کرتے ہیں وہ اصل کتاب ہوتی ہے۔ یہ ہے وہ پولیٹیکل طریقہ اپنے قوانین کو درست ثابت کرنے کا اور کسی دوسرے فرقہ کے مرتب کئے ہوئے قوانین کو غلط ثابت کرنے کا۔ آپ ایسا کیجئے کے مشکواۃ کے اگلے ایڈیشن میں بخاری و مسلم سے کچھ روایات لے کر ڈال دیجئے ، یا تو یہ کتاب باذوق کے نزدیک "شدھ" ہوجائے گی یا پھر بخاری و مسلم کی وہ احادیث "ضعیف " ہو جائیں گی جو آپ چنیں گے۔
یہ طریقہ ہے اصل "منکر الحدیث" اور "منکر الرسول" مولویں کا روایات سے انکار کرنے کا۔ جو شخص بھی دوسرے فرقہ کی طرف سے پیش کردہ روایات کو "رد "کرتا ہے، ان کو ضعیف قرآر دے کر قول و عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تردید کرتا ہے ۔ منکر الحدیث ہے، منکر الرسول ہے۔
کیا مزا ہے کہ جو روایات آپ پیش کریں گے "وہ ضعیف ہے" اور جو یہ پیش کرتے ہیں وہ "مستند ہے، اسناد کے ساتھ ہے" چاہے قران کے خلاف ہی کیوں نا ہو۔ شرط یہ ہے کہ ان کی طرف سے ہو۔ "منکر الحدیث " اور "منکر الرسول" کا یہ ڈھکوسلہ اس قسم کے ملاؤں کی اختراع ہے تاکہ ایک شخص کو مرتد قرار دے کر اس کو ڈرا دھمکا کر دوڑایا جاسکے۔ جب اپنی باری آتی ہے تو اچھل اچھل کر منبر سے فرش پر آجاتے ہیں کہ صاحب یہ روایت "ضعیف:" ہے اس "رد" کرنے کے عمل کو یہ لوگ ارتداد نہیں کہتے۔ بلکہ علم الحدیثکہتے ہیں ۔ اسناد الحدیث کہتے ہیں۔ کیا عالمانہ طفولیت اور جہالت ہے کہ اپنے اعتراضات کو "علم الاسناد "کہا جائے اور دوسرے کے اعتراضات کو "منکر الحدیث" اور "منکر الرسول " کہا جائے۔ یہ ٹیکنالوجی آپ بھی سیکھ لیجئے۔ تاکہ وقت ضرورت کام آئے۔ مقصد اس ساری تیکنالوجہ کا یہ ہے کہ خیرات، صدقات اور زکواۃ ان کی طرف بہتی رہے۔ یہ آپسی مخالفت پیسے کے لئے رہی۔
بقول رسول اکرم (مفہوم ) کہ ان سے منسوب جو روایت قرآن کے مطابق نہ ہو ضائع کردی جائے۔ یہ روایت بذات خود قران کی آیات 5:48 اور 5:49 کی تشریح ہے۔ یہ آیت پیشتر دی جاچکی ہے۔
2۔ بقول باذوق:
یہ ایک پرانا الزام دوبارہ آپ کی طرف سے آیا ہے۔ کیا آپ اس کا ثبوت فراہم کر سکتے ہیں کہ کہاں میں نے ایسا کہا ہے کہ :
جو کچھ ان کتب میں ہے وہ بہر طور بطور ایمان قابل قبول ہے
آپ کو ثبوت میں آپ کی ہی تحریر سے پہلے بھی پیش کرچکا ہوں اور آپ کی جدید ترین تحریر میں خوب زور شور سے اس خط کو جعلی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں "روایت کو قرآں کی روشنی میںثابت ہونے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے"
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ کا اعتراضکس بات پر ہے؟ کبھی آپ کہتے ہیں یہ چار کتب پوری کی پوری مانو، اس میں ہر روایت قابل قبول ہے کبھی آپ کہتے ہیںنہیں سب کچھ قابل قبول نہیں۔ کبھی آپ کو "قران کی روشنی" میں پرکھنے والا اصول قابل قبول نہیں ہوتا" اس پر لمبے لمبے اعتراضات کرتے ہیں اور اس ضمن میں فراہم کئے ہوئے خط کو جعلی کہتے ہیں۔ اور کبھی آپ قبول کرتے ہیں کہ روایات کو قرآن کی روشنی میں پرکھنا درست ہے۔
جس پیغام کے جواب میں آپ نے یہ تمام اعتراضات کئے اس میں، تین روایات کو پرکھا گیا تھا۔ پہلی ، قرآن سے ثابت تھی، دوسری پر قرآن خاموش تھا۔ اور تیسری قرآن کے مخالف تھی۔ آپ کا اعتراض ، ان میںسے کسی بات پر نہیں بلکہ 'مجھ ' پر ہے۔ بندے کو اتنی اہمیت دینے کا شکریہ۔
بقول باذوق:
3- تو اس بات کا مشورہ دینا بھی لازمی امر ہے کہ :
کسی بھی کتاب میں درج قول کی صداقت کو جب تک تحقیق کر کے معلوم نہ کر لیا جائے ، اسے آگے بڑھا دینا اچھی بات نہیں۔
یہ اعتراض ہے ڈاکٹر شبیر احمد مترجم القرآن صاحب کی جس کتاب سے یہ اقتباس ہے اس میں درست حوالہ پیش کیا گیا ہے۔ مع صفحہ نمبر ۔ جب میں نے یہ حوالہ دیا تھا تو درست حوالہ کے ساتھ پیش کیا تھا۔ میں بنا حوالہ کبھی بھی کچھ فراہم نہیں کرتا۔
پہلے مترجمین نے "ایک برتن سے نہانے" کے بجائے -- ایک برتن میں نہاتے تھے" کا ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ کوئی بھی لیں مفہوم وہی نکتا ہے جو آپ نے نکالا ہے۔ یہ توہین رسول ہے اور ایسی اہانت سے بھرپور روایات کو آپ مستند مانتے ہیں۔ یہ ہی اصل اعتراض تھا کہ ان کتب میں جو توہین رسول سے بھرپور روایات ہیں ان کو نکال باہر کیا جائے۔
ڈاکٹر شبیر احمد کی کتاب کا حوالہ اس لئے فراہم کیا گیا تھا کہ ان کی طرف سے کئے ہوئے اعتراضات جو "اسلام کے مجرم" نامی کتاب میں شائع کئے گئے ہیں، (اس کتاب) پر "علماء" نے پنجاب ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ۔ جس کو پنجاب ہائی کورٹ نے سنا اور فیصلہ دیا کہ ان کتب کی تطہیر کی جائے، جن کی طرف ڈاکٹر شبیر احمد نے اشارہ کیا ہے۔ اگر آپ اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں تو آپ پنجاب یا کسی بھی کورٹمیں یہ مقدمہ دوبارہ چلا سکتے ہیں۔
پنجاب ہائی کورٹ کے اس فیصلے (جس کی کاپی آپ کو فراہم کی جاچکی ہے) کے باعث میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ یہ توہین رسول ہے۔ اور آپ کی کسی بھی تاویل کے باوجود رہے گی۔ چاہے آپ اس کی تاویل میں اپنے بزرگوں کا ایک ہی برتن سے نہانے کے بارے میں کتنی ہی کہانیاں لکھ ڈالئے یہ توہین ہی رہے گی۔ میں اس میں توہین آمیز بحث میں آپ کا یا کسی کا مزید فریق بننے کے لئے تیار نہیں ۔
باذوق سے وضاحت۔
اگر آپ قبول کرتے ہیں کہ روایات کو قرآن کی روشنی میں پرکھنا درست ہے تو پھر اعتراضکس بات پر ہے صاحب ؟ یہ ساری بحث کیوں شروع کی ہے جناب نے؟
برادرم محمد عویدص ، شائد آپ کو بھی علم ہوگا کہ "مشکوٰۃ المصابیح" حدیث کی کوئی اصل کتاب نہیں ہے بلکہ مختلف کتبِ احادیث سے لی گئیں احادیث کا ایک منفرد انتخاب ہے۔
کچھ کتب پر ایمان اور کچھ کتب کوضعیف کہہ کر "رد" کر دیا جاتا ہے۔ جو محمد عویدص پیش کریں وہ ضعیف ہے۔ وہ اصل کتاب نہیں ہے اور جوبازوق پیش کرتے ہیں وہ اصل کتاب ہوتی ہے۔ یہ ہے وہ پولیٹیکل طریقہ اپنے قوانین کو درست ثابت کرنے کا اور کسی دوسرے فرقہ کے مرتب کئے ہوئے قوانین کو غلط ثابت کرنے کا۔ آپ ایسا کیجئے کے مشکواۃ کے اگلے ایڈیشن میں بخاری و مسلم سے کچھ روایات لے کر ڈال دیجئے ، یا تو یہ کتاب باذوق کے نزدیک "شدھ" ہوجائے گی یا پھر بخاری و مسلم کی وہ احادیث "ضعیف " ہو جائیں گی جو آپ چنیں گے۔
یہ طریقہ ہے اصل "منکر الحدیث" اور "منکر الرسول" مولویں کا روایات سے انکار کرنے کا۔ جو شخص بھی دوسرے فرقہ کی طرف سے پیش کردہ روایات کو "رد "کرتا ہے، ان کو ضعیف قرآر دے کر قول و عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تردید کرتا ہے ۔ منکر الحدیث ہے، منکر الرسول ہے۔
کیا مزا ہے کہ جو روایات آپ پیش کریں گے "وہ ضعیف ہے" اور جو یہ پیش کرتے ہیں وہ "مستند ہے، اسناد کے ساتھ ہے" چاہے قران کے خلاف ہی کیوں نا ہو۔ شرط یہ ہے کہ ان کی طرف سے ہو۔ "منکر الحدیث " اور "منکر الرسول" کا یہ ڈھکوسلہ اس قسم کے ملاؤں کی اختراع ہے تاکہ ایک شخص کو مرتد قرار دے کر اس کو ڈرا دھمکا کر دوڑایا جاسکے۔ جب اپنی باری آتی ہے تو اچھل اچھل کر منبر سے فرش پر آجاتے ہیں کہ صاحب یہ روایت "ضعیف:" ہے اس "رد" کرنے کے عمل کو یہ لوگ ارتداد نہیں کہتے۔ بلکہ علم الحدیثکہتے ہیں ۔ اسناد الحدیث کہتے ہیں۔ کیا عالمانہ طفولیت اور جہالت ہے کہ اپنے اعتراضات کو "علم الاسناد "کہا جائے اور دوسرے کے اعتراضات کو "منکر الحدیث" اور "منکر الرسول " کہا جائے۔ یہ ٹیکنالوجی آپ بھی سیکھ لیجئے۔ تاکہ وقت ضرورت کام آئے۔ مقصد اس ساری تیکنالوجہ کا یہ ہے کہ خیرات، صدقات اور زکواۃ ان کی طرف بہتی رہے۔ یہ آپسی مخالفت پیسے کے لئے رہی۔
بقول رسول اکرم (مفہوم ) کہ ان سے منسوب جو روایت قرآن کے مطابق نہ ہو ضائع کردی جائے۔ یہ روایت بذات خود قران کی آیات 5:48 اور 5:49 کی تشریح ہے۔ یہ آیت پیشتر دی جاچکی ہے۔
2۔ بقول باذوق:
یہ ایک پرانا الزام دوبارہ آپ کی طرف سے آیا ہے۔ کیا آپ اس کا ثبوت فراہم کر سکتے ہیں کہ کہاں میں نے ایسا کہا ہے کہ :
جو کچھ ان کتب میں ہے وہ بہر طور بطور ایمان قابل قبول ہے
آپ کو ثبوت میں آپ کی ہی تحریر سے پہلے بھی پیش کرچکا ہوں اور آپ کی جدید ترین تحریر میں خوب زور شور سے اس خط کو جعلی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں "روایت کو قرآں کی روشنی میںثابت ہونے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے"
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ کا اعتراضکس بات پر ہے؟ کبھی آپ کہتے ہیں یہ چار کتب پوری کی پوری مانو، اس میں ہر روایت قابل قبول ہے کبھی آپ کہتے ہیںنہیں سب کچھ قابل قبول نہیں۔ کبھی آپ کو "قران کی روشنی" میں پرکھنے والا اصول قابل قبول نہیں ہوتا" اس پر لمبے لمبے اعتراضات کرتے ہیں اور اس ضمن میں فراہم کئے ہوئے خط کو جعلی کہتے ہیں۔ اور کبھی آپ قبول کرتے ہیں کہ روایات کو قرآن کی روشنی میں پرکھنا درست ہے۔
جس پیغام کے جواب میں آپ نے یہ تمام اعتراضات کئے اس میں، تین روایات کو پرکھا گیا تھا۔ پہلی ، قرآن سے ثابت تھی، دوسری پر قرآن خاموش تھا۔ اور تیسری قرآن کے مخالف تھی۔ آپ کا اعتراض ، ان میںسے کسی بات پر نہیں بلکہ 'مجھ ' پر ہے۔ بندے کو اتنی اہمیت دینے کا شکریہ۔
بقول باذوق:
3- تو اس بات کا مشورہ دینا بھی لازمی امر ہے کہ :
کسی بھی کتاب میں درج قول کی صداقت کو جب تک تحقیق کر کے معلوم نہ کر لیا جائے ، اسے آگے بڑھا دینا اچھی بات نہیں۔
یہ اعتراض ہے ڈاکٹر شبیر احمد مترجم القرآن صاحب کی جس کتاب سے یہ اقتباس ہے اس میں درست حوالہ پیش کیا گیا ہے۔ مع صفحہ نمبر ۔ جب میں نے یہ حوالہ دیا تھا تو درست حوالہ کے ساتھ پیش کیا تھا۔ میں بنا حوالہ کبھی بھی کچھ فراہم نہیں کرتا۔
پہلے مترجمین نے "ایک برتن سے نہانے" کے بجائے -- ایک برتن میں نہاتے تھے" کا ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ کوئی بھی لیں مفہوم وہی نکتا ہے جو آپ نے نکالا ہے۔ یہ توہین رسول ہے اور ایسی اہانت سے بھرپور روایات کو آپ مستند مانتے ہیں۔ یہ ہی اصل اعتراض تھا کہ ان کتب میں جو توہین رسول سے بھرپور روایات ہیں ان کو نکال باہر کیا جائے۔
ڈاکٹر شبیر احمد کی کتاب کا حوالہ اس لئے فراہم کیا گیا تھا کہ ان کی طرف سے کئے ہوئے اعتراضات جو "اسلام کے مجرم" نامی کتاب میں شائع کئے گئے ہیں، (اس کتاب) پر "علماء" نے پنجاب ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ۔ جس کو پنجاب ہائی کورٹ نے سنا اور فیصلہ دیا کہ ان کتب کی تطہیر کی جائے، جن کی طرف ڈاکٹر شبیر احمد نے اشارہ کیا ہے۔ اگر آپ اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں تو آپ پنجاب یا کسی بھی کورٹمیں یہ مقدمہ دوبارہ چلا سکتے ہیں۔
پنجاب ہائی کورٹ کے اس فیصلے (جس کی کاپی آپ کو فراہم کی جاچکی ہے) کے باعث میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ یہ توہین رسول ہے۔ اور آپ کی کسی بھی تاویل کے باوجود رہے گی۔ چاہے آپ اس کی تاویل میں اپنے بزرگوں کا ایک ہی برتن سے نہانے کے بارے میں کتنی ہی کہانیاں لکھ ڈالئے یہ توہین ہی رہے گی۔ میں اس میں توہین آمیز بحث میں آپ کا یا کسی کا مزید فریق بننے کے لئے تیار نہیں ۔
باذوق سے وضاحت۔
اگر آپ قبول کرتے ہیں کہ روایات کو قرآن کی روشنی میں پرکھنا درست ہے تو پھر اعتراضکس بات پر ہے صاحب ؟ یہ ساری بحث کیوں شروع کی ہے جناب نے؟