40 چہل احدیث

قسیم حیدر

محفلین
قرآن اور صحیح احادیث کے متعارض نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ہے جو قرآن کریم کی آیات کی مخالفت کرتی ہو۔ اگر کوئی چیز قرآن میں نہیں ہے اور صحیح حدیث اس کی وضاحت کر رہی ہے تو یہ قرآن کے مجمل کی تشریح ہے۔ عدم ذکر کا مطلب مخالفت نہیں ہوتا۔ جن صحیح احادیث کی آپ مخالفت کر رہے ہیں وہ قرآن کی کسی آیت سے نہیں ٹکراتیں۔ البتہ کسی کی سوچ کا دھارا ہی دوسری طرف بہہ رہا ہو تو اس کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ ٹیڑھی سوچ رکھنے والوں نے تو قرآن کو بھی نہیں چھوڑا۔ حدیث تو دور کی بات ہے۔
 
معاف کیجئے گا محترم اگر آپ کے نزدیک احادیث کو انسانی اسناد لگا کر مستند بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ قرآن کونسی الہامی (یعنی غیر انسانی )اسناد کے زریعے آپ تک پہنچا ہے؟

بہت خوب آبی ٹو کول ! یہی سوال میں نے ذرا تفصیل سے یہاں واضح کیا تھا۔
لیکن اب بہتر یہی ہے کہ محترم فاروق صاحب آپ کے اس مختصر سوال کا مختصر جواب ہی عنایت فرمائیں۔

برادران: آبی ٹو کول اور باذوق ، سب سے پہلے ایک بہترین سوال کرنے کا شکریہ۔ میں‌اس جواب میں صرف اور صرف قرآن کے کتابت شدہ نسخہ تک محدود رہا ہوں۔ جب آپ لوگ اس پر متفق ہوجائیں گے تو پھر کتب روایات کی بات کریں‌گے۔

قران کسی کی سنی سنائی اسناد سے آپ تک نہیں پہنچا۔ یہ رسول اللہ صلعم پر نازل ہوا، خود ان کے ہاتھوں‌ لکھایا گیا۔ ہر آیت -- لکھی ہوئی -- کم از کم دو اصحابہ کے پاس ملی، جس سے مصحف عثمانی ترتیب دیا گیا۔ اس بات کا ثبوت آُپ کو کئی مرتبہ پہنچا چکا ہوں۔ گو کہ میں اس پر اپنی ذاتی ریسرچ کر چکا ہوں لیکن اس ریسرچ کے بغیر بھی میں ‌اس پر یقین رکھتا ہوں اور یہ میرا ایمان ہے۔ کہ

"قرآن اپنے نزول کے ساتھ ساتھ لکھا جاتا رہا۔ حفاظ‌ نے اس کو ذاتی طور پر یاد بھی رکھا لیکن لکھا ہوا ہمیشہ موجود تھا اور وہ مصحف عثمانی جس کی ہر آٰیت کم از کم دو اصحابہ کو یاد تھی اور ساتھ ساتھ لکھی ہوئی بھی تھی، اس مصحف ّعثمانی کی کم از کم 3 کاپیاں میری ریسرچ کے مطابق موجود ہیں اور ایک سے زائید آزاد تحقیق کے مطابق اس کا عربی مواد لفظ بہ لفظ موجودہ قرآن سے ملتا ہے۔ "‌ میری استدعا ہے کہ آپ اس موضوع پر ذاتی ریسرچ کیجئے۔ اس کو پڑھنے میں وقت لگے گا، اور حوالہ جات کو پڑھنے میں‌بھی وقت لگے گا۔ آپ اس کو پڑھ کر اپنے عقائد کے مطابق اس کی تائید یا اس پر تنقید کیجئے۔

گواہیوں کے لنک نیچے فراہم فراہم کررہا ہوں۔ یہ گواہیاں‌تاریخی امور ہیں نہ کہ رسول اکرم کے فرمان مبارک۔ مجھ پر پوری کتب روایات پر ایمان لانے کا سوال نہ اٹھائیے۔ اس پر ہماری آُپ کی الگ بحث چل رہی ہے۔ صرف یہاں‌دیکھ کر یہ بتائیے کہ آپ کس امر سے متفق نہیں‌ہیں تاکہ آگے بات چلے۔

1۔ اصحابہ کرام سے منسوب روایتوں‌ میں درج ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ترتیب دیا ہوا قران، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس رہا اور اس کے بعد حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس رہا۔ اس قرآن سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ترتیب کرائے ہوئے قرآن کا موازنہ کیا گیا۔
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.201

قرآن کی ان کاپیوں‌کا لنک جو آج بھی موجود ہیں :
‌وہ قرآن جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ شہادت کے وقت پڑھ رہے تھے۔ توپ کاپی میں
http://pictures.care2.com/view/2/472565356

مصحف عثمانی کی ایک اور کاپی ازبکستان - تاشقند میں
http://www.islamicity.com/articles/Articles.asp?ref=BB0601-2875
http://news.bbc.co.uk/2/hi/asia-pacific/4581684.stm

کویتی کاپی مصحف عثمانی کی
http://www.kuwaittimes.net/read_news.php?newsid=ODAzMDAyMzEz

قاہرہ مصر کی کاپی مصحف عثمانی کی
http://www.islamic-awareness.org/Quran/Text/Mss/hussein.html


ابتدائی قرآن کی کتابت کی تاریخ:
قرآن کا اولیں نسخہ:
1۔ حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم ، قرآن اپنی نگرانی میں‌لکھواتے تھے اور حفاظ اس کو یاد بھی کرلیتے تھے۔ رسول اکرم صلعم کی موجودگی میں ان لکھوائے ہوئے اوراق کی مدد سے اور حفاظ کرام کی مدد سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلا نسخہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی نگرانی میں ترتیب دلوایا، کہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اکرم خود لکھوایا کرتے تھے (‌حوالہ نیچے)۔ اور ایک مزید نسخہ بعد میں‌ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے انہی شرائط پر دوبارہ ترتیب دلوایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اس نسخہ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے نسخے کو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس سے منگوا کر موازنہ کروایا ( گواہی کا حوالہ نیچے دیکھئے)

2۔ حضرت حفصہ بنت عمر الخطاب رضی اللہ تعالی عنہا ، رسول اکرم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں۔ قرآن کا ایک نسخہ ان کے پاس موجود تھا۔ (حوالہ نیچے دیکھیں) یہ نسخہ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کاغذ پر لکھے ہوئے کی مدد سے اور حفاظ کرام کی مدد سے سے لکھوایا تھا، یہ کام زید بن ثابت نے کیا ۔ یہ نسخہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچا اور پھر حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس پہنچا۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن کا ایک دوسرا نسخہ ترتیب دلوایا ۔ یہ نسخہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالی عنہ ، سعید بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ اور عبدالرحمان بن حارث بن ہاشم کی مدد سے ترتیب دیا گیا۔

اس ترتیب دینے کی شرائط یہ تھیں۔
1۔ ہر وہ شخص‌جسے قرآن کی ایک بھی آٰیت یاد تھی ، وہ زید بن ثابت کے پاس آیا اور وہ آٰیت دہرائی۔
2۔ جس کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کوئی آیت لکھی تھی وہ زید بن ثابت کے پاس لے کر آیا
3۔ زید بن ثابت نے کوئی بھی ایسی آیت قبول نہیں‌کی جو رسول اکرم کی موجودگی میں‌ نہیں لکھی گئی تھی۔
4۔ صرف یاد کئے ہوئے یا صرف لکھے ہوئے پر بھروسہ نہیں‌کیا گیا بلکہ لکھے ہوئے کا موازنہ یاد کئے ہوئے سے کیا گیا۔
5۔ جناب زید بن ثابت نے کوئی آیسی آیت قبول نہیں‌کی جس کے گواہ دو حفاظ نہیں‌تھے۔ زیدبن ثابت خود ایک گواہ تھے، اس طرح ہر آیت پر تین گواہیاں بن گئیں
6۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جنابہ حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس سے جناب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ترتیب دیا ہوا قرآن منگوایا اور ان دونوں‌قرانوں‌ کا آپس میں‌ موازنہ کیا گیا۔

اس قرآن کی متعدد کاپیاں‌بنوائی گئیں ، جن میں‌کم از کم 3 عدد مستند مقامات پر موجود ہیں۔

جب مجھے (فاروق سرور خان )‌ کو یہ قرآن پڑھوایا گیا تو مندرجہ بالاء میں سے کچھ بھی نہیں‌بتایا گیا تھا۔ میں‌ اس قرآن پر اپنی مرضی اور اپنے والدین کی ہدایت پر ایمان لایا۔ اگر مٰیں‌ یہ سب کچھ نہ بھی پڑھتا تو بھی میرا ایمان ایسے ہی پختہ ہوتا۔ کہ اس کو اللہ تعالی نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

اس کے برعکس روایات صرف یاد رکھی جاتی رہیں، ان کی کوئی باقاعدہ کتاب 1600 ء سے پہلے کی نہیں‌ملتی ہیں۔ اگر آپ لکھی ہوئی کتب مہیا کرسکیں یا آُپ میری طرح‌ واضح گواہی دے سکیں تو فرمائیے یا لنک فراہم کیجئے۔


حوالہ جات:
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی گواہی کہ قرآن کو رسول اکرم کے سامنے لکھے ہوئے سے لکھا گیا، صرف زبانی حفظ سے کام نہیں چلایا گیا
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/052.sbt.html#004.052.062

قرآن کا املا کرایا جارہا ہے ، ایک اور گواہی:
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/052.sbt.html#004.052.085

مزید صحابہ کی گواہی کہ اس وقت تک کا مکمل لکھا ہو قرآن رسول اکرم کی زندگی میں موجود تھا:
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/058.sbt.html#005.058.155

املا لکھانے کی ایک اور مثال:
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.116

جو قرآن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی مدد سے ترتیب دلوایا وہ کاپی عثمان رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچی، یہ تمام کا تمام قرآن لکھے ہوئے قرآن سے اور حفاظ‌ کی گواہی سے ترتیب دیا گیا۔ اس کی گواہی
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.201

لکھے ہوئے سے جمع کرنے کی ایک اور گواہی:
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.307

نوٹ: جب باذوق ، برادر قسیم حیدر اور آبی ٹو کول اپنی معلومات کے مطابق اس کی تصدیق کردیں تو میرا ارداہ ‌اسے ایک علیحدہ موضوع میں‌ منتقل کرنے کا ہے تاکہ قرآن مجید کے ترتیب دئے جانے پر جو سوالات اٹھائے جاتے ہیں ان کا ایک مکمل جواب موجود ہو۔

نوٹ: میں نے یہ معلومات کتب روایات سے فراہم کی ہیں۔
میں نے سوچا کہ ان معلومات پر مشتمل کچھ مزید لنک بھی ہونے چاہئیے۔

ملتی جلتی معلومات پر مشتمل ایک اور لنک،
-
یہ لنک میں نے بعد میں ڈھونڈھا۔ کوئی بھی مماثلت اتفاقیہ ہے۔
تھوڑی سے مختلف معلومات پر مشتمل ایک اور لنک
 
قرآن اور صحیح احادیث کے متعارض نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ہے جو قرآن کریم کی آیات کی مخالفت کرتی ہو۔ اگر کوئی چیز قرآن میں نہیں ہے اور صحیح حدیث اس کی وضاحت کر رہی ہے تو یہ قرآن کے مجمل کی تشریح ہے۔ عدم ذکر کا مطلب مخالفت نہیں ہوتا۔
سلام ، برادر قسیم حیدر بہت شکریہ۔ میں‌اس مد میں آپ سے صد فی صد متفق ہوں۔ آپ اس میں ان روایات کو نظر انداز کرگئے جو توریت یا انجیل سے آئی ہیں۔ وہ اگر قران میں‌نہیں‌ہیں‌تو ان کے احکامات ذرا مختلف ہیں۔ آُپ تھوڑی روشنی اس پر ڈالئیے۔

جن صحیح احادیث کی آپ مخالفت کر رہے ہیں وہ قرآن کی کسی آیت سے نہیں ٹکراتیں۔
جس (‌جن نہیں)‌ روایت کو ضعیف ثابت کیا ہے وہ قرآن کی جس آیت سے ٹکراتی ہے وہ وہیں لکھ دی ہے۔ اب آپ چاہیں‌جس طرح‌لیجئے اور باذوق چاہے جس طرح‌لیں۔ جس آیات سے ٹکراتی ہیں وہ آیات یہ ہیں [ayah]33:4[/ayah] اور [ayah]33:5[/ayah]

میری سوچ کا باعث: :ان آیات سے ثابت ہے کہ کوئی منہ بولا بیٹا، حقیقی بیٹا نہیں‌ہو سکتا تو بھتیجا بھی حقیقی بیٹا نہں ہوسکتا۔ا۔ قرآن کا کوئی قانون کسی چاچا، ماما، خالو، پھوپھا کو کسی قسم کا حق تفویض‌ نہیں کرتا۔ عزت اپنی جگہ ہے مزید یہ کہ سابقہ کتب کو قرآن شفاف قرار نہیں دیتا، ان کتب کو ملاوٹ ‌زدہ قرآر دیتا ہے۔ اور ان کتب کی غیر مصدقہ آیات کو ایک طرف رکھ کے تمام فیصلے قرآن سے کرنے کو کہتا ہے۔ یہ روایت، توریت کی جس مفروضہ آیت سے آئی ہے، اس آٰیت سے ملتی جلتی کوئی آیت قرآن میں نہیں۔ چونکہ توریت اور انجیل کے احکامات پر قرآن [ayah]5:48 [/ayah]اور [ayah]5:49[/ayah] میں واضح‌ حکم دیتا ہے کہ سابقہ کتب اور قرآن کے تناظر میں ، قرآن سے فیصلہ کیا کرو۔ لہذا منطقی اور قرآنی دونوں‌استدلال موجود ہیں کہ اس روایت پر اعتراض‌کیا جائے۔

اس استدلال کے جواب میں‌ ۔ کوئی مثبت بات کیجئے یا قرآن کی کسی آیت کا حوالہ دیجئے یا اقوال و فعل رسول سے ثابت کیجئے کہ فراہم کردہ یہ روایت درست ہے۔ اگر حوالہ موجود نہیں تو فاروق سرور خان کی کردار کشی پر اتر آنا اور روایات جانچنے کے سبق پڑھانا ایک منطقی عمل کیونکر ہے ، وضاحت فرمائیے؟ میرا واحد مقصد ہے ان آیات کا حوالہ فراہم کرنا جو کسی موضوع پر ‌ہوں، افسوس ہے کہ ان سے بسا اوقات خواہشوں‌کی پیروی نہیں ہوتی۔ ۔ آُپ سب کے پیٍغامات پڑھتا رہتا ہوں لیکن نہ آپ میں‌سے کسی کو کوئی سبق پڑھاتا ہوں‌ اور نہ ہی آپ میں‌ سے کسی کی کردار کشی کرتاہوں۔ صاحب کسی آیت سے کسی صحیح‌روایت سے استدلال نہیں‌پیش کرسکتے تو کم از کم کردار کشی سے گریز فرمائیے۔

بہتر یہ ہوگا کہ آپ کوئی آیت یا کوئی بہتر سنت رسول یا کوئی اقوال رسول پیش کرکے اس خیال کو جو میں‌نے پیش کیا ہے اس کی تائید یا تردید فرمائیے۔ اس کے برعکس آپ میں سے ہر ایک روایات کو جانچنے کا ماہر ہے اور مجھے بھی اسباق پڑھانے میں پیش پیش ہے

البتہ کسی کی سوچ کا دھارا ہی دوسری طرف بہہ رہا ہو تو اس کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ ٹیڑھی سوچ رکھنے والوں نے تو قرآن کو بھی نہیں چھوڑا۔ حدیث تو دور کی بات ہے۔

برادران من، میں‌اپنی ٹیڑھی سوچ کے ساتھ ساتھ ایک سیدھی سوچ یعنی قرآن کی آیات بطور حوالہ شئیر کرتا ہوں ، یہ بہتر ہوگا کہ آپ کے پاس جب اس موضوع پر پیش کردہ آیت پر اعتراض ہو تو اسی طرح‌ کوئی آیت یا مستند سنت رسول پیش کیجئے تاکہ میری سوچ کی کجی ٹھیک ہوسکے۔ میں‌ نے قرآن بامعنی سو سے زائد بار پڑھا ہے ااور اب بھی سیکھ ہی رہا ہوں، کچھ مزید سیکھ کر حقیقی خوشی ہوگی۔ حدیث کی جملہ ساڑھے تین کتب صرف ایک بار پڑھی ہیں لہذا سیکھنے کو بہت کچھ باقی ہے۔ میں صرف طالب علم ہونے کا دعوی کرتا ہوں۔ آپ کو حوالہ درست لگے تو بندہ کا کام ہو گیا۔ اگر درست نہ لگے تو درستگی کا خواستگار ہوِں۔ کسی مستند سنت، اعمال یا اقوال رسول کی غیر موجودگی میں اپنے آُپ کو کردار کشی کے گیئر میں‌ڈال لینا اگر کسی کو ایک اچھا عمل لگتا ہے تو بھائی اس کو مبارک۔

یہ تصور کہ ایک راویت کو کوئی خلاف قرآن قرآر دے کر ضعیف روایت قرآر دے دے کوئی نیا طریقہ نہیں۔ آپ بھی اوپر یہ لکھ ہی چکے ہیں‌۔ جس کے لئے ایک بار پھر شکریہ۔
 
اور دوسرا یہ کہ ابھی تک آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا مجھے کہ ہر ہر حدیث کو قرآن پر پیش کرو یہ اصول قرآن کی کس آیت سے آپ نے استنباط کیا ہے؟ مجھے آیت چاہیے کہ جس کہ یہ الفاظ ہوں کے جو بھی تمہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم دیں اسے پہلے قرآن پر پرکھو پھر قبول کرو ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بھی واضح الفاظ میں بغیر کسی بھی تاویل کے یعنی فقط قرآن کے ظاہری الفاظ کے مطابق الفاظ کے ہیر پھر سےپاک انداز میں بغیر معنوی اعتبار اختیار کیے ہوئے نیز تشبیہات سے پاک ۔ ۔ ۔ ۔امید کرتا ہوں آپ جواب سے جلد نوازیں گے

محترمی۔ آپ پیچھے جاکر اسی تھریڈ‌ میں‌ یہ جواب دیکھئے۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=305542&postcount=70

والسلام۔
 
محترم یہاں آپ توثیق سے کیا مراد لے رہے ہیں ؟کیا آپ واضح کرنا پسند کریں گے؟ کیا توثیق سے آپکی مراد اس آیت کا بھی قرآن میں بعینہ مذکور ہونا ہے یا اور کچھ اور ؟
رہی یہ بات کے ہمارا بیان کردہ مذکورہ حدیث کا مفھوم کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح ہے تو جناب ہم نے کب کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح ہے ہم نے تو بالکل اسی طرح اس حدیث کا ایک مفھومی اور مرادی معنٰی بیان کیا جس طرح آپ ایک مفھوم مراد لیکر حدیث کی غلط تشریح کرکے حدیث کو مخالف قرآن ٹھرانے کی کوشش کررہے تھے اگر آپ کا بیان کردہ حدیث کا وہ مفھوم کسی قرآن کی آیت سے بعینہ الفاظ کی صورت میں اخذ کردہ یا پھر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کردہ ہے تو برائے مہربانی وہ‌ آیت یا حدیث یہاں بطور استدلال پیش کی جائے

لگتا ہے آپ کونیٹ‌کی سپیڈ کی وجہ سے پڑھنے میں‌ شائد کوئی دشواری ہوتی ہے ؟ یہ رہا دوبارہ وہی مواد، کچھ مزید وضاحتوں‌ کے ساتھ۔

اقباس سابقہ پیغام سے:
نمبر 21 دیکھئے۔ کہ
" آدمی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہے"
کوئی صاحب یا صاحبہ مدد فرمائیں کہ یہ کس آیت کی تشریح ہے؟

مجھے یہ روایت قرآن کے مخالف لگتی ہے، کیوں؟ ‌ دیکھئے درج ذیل آیات
[ayah]33:4[/ayah] نہیں بنائے ہیں اللہ نے کسی شخص کے لیے دو دل اس کے سینے میں اور نہیں بنایا ہے اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، تمہاری مائیں اور نہیں قرار دیا تمہارے منہ بولے بیٹوں کو، تمہارا حقیقی بیٹا۔ یہ باتیں محض قول ہے تمہارا جو تم اپنے منہ سے نکالتے ہو جبکہ اللہ فرماتا ہے سچی بات اور وہی ہدایت دیتا ہے سیدھے راستہ کی۔

[ayah]33:5[/ayah] پکارو انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے یہ بات زیادہ منصفانہ ہے اللہ کے نزدیک، پھر اگر نہ جانتے ہو تم ان کے باپوں کو تو وہ تمہارے بھائی ہیں دین کے لحاظ سے اور تمہارے رفیق ہیں۔ اور نہیں ہے تم پر کوئی گرفت ان باتوں میں جو کہہ دیتے ہو تم نادانستہ لیکن وہ بات جس کا تم ارادہ کرو اپنے دل سے (اس پر گرفت ہے)۔ اور ہے اللہ درگزر کرنے والا اور مہربان۔

عزت و احترام سے قطع نظر، حقوق کے نکتہ نظر سے قرآن ماں‌باپ کے علاوہ کسی رشتہ دار کو کسی آدمی یعنی بالغ شخص پر کوئی حق نہیں عطا کرتا۔

اگر ایک چچا یا تایا ، ماموں ، پھوپھا یا خالو، اپنے بھائی یا بہن کی اولاد کو بیٹا سمجھتا ہے یا پکارتا ہے یا شفقت کا سلوک کرتا ہے تو بھی وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں ہوا۔ وہ لامنتہا عقل و فراست و حکمت جو اللہ تعالی نے رسول اکرم صلعم کو فراہم کی اس کی موجودگی میں بہت ہی مشکل ہے کہ ان کی زبان مبارکہ سے قران کے خلاف کوئی بات نکلے لہذا اس روایت کو اگر طرح طرح کی تاویلات سے درست ثابت کردیا جائے تو پھر قرآن کا ایک اصول کمزور ہو جاتا ہے۔ اس قسم کے کنفیوژ کرنے والے معاملات نے رسول کے اقوال کے ساتھ جگہ پائی اور اس طرح‌بعد میں طرح طرح کی مصیبتوں کی جڑ ثابت ہوئے۔

آدمی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہے
یہ ایک انتہائی مبہم اصول ہے۔ قران کے مخالف ہے اور توراۃ سے نکالا گیا ہے۔ یہ دیکھئے، اموس 6:10 دیکھئے اس صفحہ پر
http://www.biblestudents.com/htdbv5/htdb0030.htm

اگر یہ توریت (‌اموس)‌ کی ایک آیت ہے تو قرآن کے آیات [AYAH]5:48[/AYAH] اور [AYAH] 5:49 [/AYAH] کے حکم کے مطابق، سابقہ کتب کے اصولوں کی جگہ قرآن کے اصولوں‌سے فیصلہ کیا جائے گا۔


جو بھی آپ کہنا چاہتے ہیں کسی آیت یا کسی مستند سنت رسول کی مدد سے کیجئے۔ ذاتی کنجیکچرز اور تکے یا عمومی قسم کے بیانات کہ تمام کتب درست ہیں اور اس کا یہ ثبوت ہے، میری ناقص عقل میں قطعاً‌ نہیں سماتا۔ جس روایت کی بات کی جارہی ہے ، اس پر استدلال فرمائیے۔
والسلام
 
برادران: آبی ٹو کول اور باذوق ، سب سے پہلے ایک بہترین سوال کرنے کا شکریہ۔ میں‌اس جواب میں صرف اور صرف قرآن کے کتابت شدہ نسخہ تک محدود رہا ہوں۔ جب آپ لوگ اس پر متفق ہوجائیں گے تو پھر کتب روایات کی بات کریں‌گے۔

قران کسی کی سنی سنائی اسناد سے آپ تک نہیں پہنچا۔ یہ رسول اللہ صلعم پر نازل ہوا، خود ان کے ہاتھوں‌ لکھایا گیا۔ ہر آیت -- لکھی ہوئی -- کم از کم دو اصحابہ کے پاس ملی، جس سے مصحف عثمانی ترتیب دیا گیا۔ اس بات کا ثبوت آُپ کو کئی مرتبہ پہنچا چکا ہوں۔ گو کہ میں اس پر اپنی ذاتی ریسرچ کر چکا ہوں لیکن اس ریسرچ کے بغیر بھی میں ‌اس پر یقین رکھتا ہوں اور یہ میرا ایمان ہے۔ کہ

"قرآن اپنے نزول کے ساتھ ساتھ لکھا جاتا رہا۔ حفاظ‌ نے اس کو ذاتی طور پر یاد بھی رکھا لیکن لکھا ہوا ہمیشہ موجود تھا اور وہ مصحف عثمانی جس کی ہر آٰیت کم از کم دو اصحابہ کو یاد تھی اور ساتھ ساتھ لکھی ہوئی بھی تھی، اس مصحف ّعثمانی کی کم از کم 3 کاپیاں میری ریسرچ کے مطابق موجود ہیں اور ایک سے زائید آزاد تحقیق کے مطابق اس کا عربی مواد لفظ بہ لفظ موجودہ قرآن سے ملتا ہے۔ "‌ میری استدعا ہے کہ آپ اس موضوع پر ذاتی ریسرچ کیجئے۔ اس کو پڑھنے میں وقت لگے گا، اور حوالہ جات کو پڑھنے میں‌بھی وقت لگے گا۔ آپ اس کو پڑھ کر اپنے عقائد کے مطابق اس کی تائید یا اس پر تنقید کیجئے۔

گواہیوں کے لنک نیچے فراہم فراہم کررہا ہوں۔ یہ گواہیاں‌تاریخی امور ہیں نہ کہ رسول اکرم کے فرمان مبارک۔ مجھ پر پوری کتب روایات پر ایمان لانے کا سوال نہ اٹھائیے۔ اس پر ہماری آُپ کی الگ بحث چل رہی ہے۔ صرف یہاں‌دیکھ کر یہ بتائیے کہ آپ کس امر سے متفق نہیں‌ہیں تاکہ آگے بات چلے۔

1۔ اصحابہ کرام سے منسوب روایتوں‌ میں درج ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ترتیب دیا ہوا قران، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس رہا اور اس کے بعد حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس رہا۔ اس قرآن سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ترتیب کرائے ہوئے قرآن کا موازنہ کیا گیا۔
http://www.usc.edu/dept/msa/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.201

قرآن کی ان کاپیوں‌کا لنک جو آج بھی موجود ہیں :
‌وہ قرآن جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ شہادت کے وقت پڑھ رہے تھے۔ توپ کاپی میں
http://pictures.care2.com/view/2/472565356

مصحف عثمانی کی ایک اور کاپی ازبکستان - تاشقند میں
http://www.islamicity.com/articles/articles.asp?ref=bb0601-2875
http://news.bbc.co.uk/2/hi/asia-pacific/4581684.stm

کویتی کاپی مصحف عثمانی کی
http://www.kuwaittimes.net/read_news.php?newsid=odazmdaymzez

قاہرہ مصر کی کاپی مصحف عثمانی کی
http://www.islamic-awareness.org/quran/text/mss/hussein.html


ابتدائی قرآن کی کتابت کی تاریخ:
قرآن کا اولیں نسخہ:
1۔ حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم ، قرآن اپنی نگرانی میں‌لکھواتے تھے اور حفاظ اس کو یاد بھی کرلیتے تھے۔ رسول اکرم صلعم کی موجودگی میں ان لکھوائے ہوئے اوراق کی مدد سے اور حفاظ کرام کی مدد سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلا نسخہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی نگرانی میں ترتیب دلوایا، کہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اکرم خود لکھوایا کرتے تھے (‌حوالہ نیچے)۔ اور ایک مزید نسخہ بعد میں‌ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے انہی شرائط پر دوبارہ ترتیب دلوایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اس نسخہ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے نسخے کو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس سے منگوا کر موازنہ کروایا ( گواہی کا حوالہ نیچے دیکھئے)

2۔ حضرت حفصہ بنت عمر الخطاب رضی اللہ تعالی عنہا ، رسول اکرم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں۔ قرآن کا ایک نسخہ ان کے پاس موجود تھا۔ (حوالہ نیچے دیکھیں) یہ نسخہ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کاغذ پر لکھے ہوئے کی مدد سے اور حفاظ کرام کی مدد سے سے لکھوایا تھا، یہ کام زید بن ثابت نے کیا ۔ یہ نسخہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچا اور پھر حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس پہنچا۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن کا ایک دوسرا نسخہ ترتیب دلوایا ۔ یہ نسخہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالی عنہ ، سعید بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ اور عبدالرحمان بن حارث بن ہاشم کی مدد سے ترتیب دیا گیا۔

اس ترتیب دینے کی شرائط یہ تھیں۔
1۔ ہر وہ شخص‌جسے قرآن کی ایک بھی آٰیت یاد تھی ، وہ زید بن ثابت کے پاس آیا اور وہ آٰیت دہرائی۔
2۔ جس کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کوئی آیت لکھی تھی وہ زید بن ثابت کے پاس لے کر آیا
3۔ زید بن ثابت نے کوئی بھی ایسی آیت قبول نہیں‌کی جو رسول اکرم کی موجودگی میں‌ نہیں لکھی گئی تھی۔
4۔ صرف یاد کئے ہوئے یا صرف لکھے ہوئے پر بھروسہ نہیں‌کیا گیا بلکہ لکھے ہوئے کا موازنہ یاد کئے ہوئے سے کیا گیا۔
5۔ جناب زید بن ثابت نے کوئی آیسی آیت قبول نہیں‌کی جس کے گواہ دو حفاظ نہیں‌تھے۔ زیدبن ثابت خود ایک گواہ تھے، اس طرح ہر آیت پر تین گواہیاں بن گئیں
6۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جنابہ حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس سے جناب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ترتیب دیا ہوا قرآن منگوایا اور ان دونوں‌قرانوں‌ کا آپس میں‌ موازنہ کیا گیا۔

اس قرآن کی متعدد کاپیاں‌بنوائی گئیں ، جن میں‌کم از کم 3 عدد مستند مقامات پر موجود ہیں۔

جب مجھے (فاروق سرور خان )‌ کو یہ قرآن پڑھوایا گیا تو مندرجہ بالاء میں سے کچھ بھی نہیں‌بتایا گیا تھا۔ میں‌ اس قرآن پر اپنی مرضی اور اپنے والدین کی ہدایت پر ایمان لایا۔ اگر مٰیں‌ یہ سب کچھ نہ بھی پڑھتا تو بھی میرا ایمان ایسے ہی پختہ ہوتا۔ کہ اس کو اللہ تعالی نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

اس کے برعکس روایات صرف یاد رکھی جاتی رہیں، ان کی کوئی باقاعدہ کتاب 1600 ء سے پہلے کی نہیں‌ملتی ہیں۔ اگر آپ لکھی ہوئی کتب مہیا کرسکیں یا آُپ میری طرح‌ واضح گواہی دے سکیں تو فرمائیے یا لنک فراہم کیجئے۔


حوالہ جات:
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی گواہی کہ قرآن کو رسول اکرم کے سامنے لکھے ہوئے سے لکھا گیا، صرف زبانی حفظ سے کام نہیں چلایا گیا
http://www.usc.edu/dept/msa/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/052.sbt.html#004.052.062

قرآن کا املا کرایا جارہا ہے ، ایک اور گواہی:
http://www.usc.edu/dept/msa/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/052.sbt.html#004.052.085

مزید صحابہ کی گواہی کہ اس وقت تک کا مکمل لکھا ہو قرآن رسول اکرم کی زندگی میں موجود تھا:
http://www.usc.edu/dept/msa/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/058.sbt.html#005.058.155

املا لکھانے کی ایک اور مثال:
http://www.usc.edu/dept/msa/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.116

جو قرآن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی مدد سے ترتیب دلوایا وہ کاپی عثمان رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچی، یہ تمام کا تمام قرآن لکھے ہوئے قرآن سے اور حفاظ‌ کی گواہی سے ترتیب دیا گیا۔ اس کی گواہی
http://www.usc.edu/dept/msa/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.201

لکھے ہوئے سے جمع کرنے کی ایک اور گواہی:
http://www.usc.edu/dept/msa/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.307

نوٹ: جب باذوق ، برادر قسیم حیدر اور آبی ٹو کول اپنی معلومات کے مطابق اس کی تصدیق کردیں تو میرا ارداہ ‌اسے ایک علیحدہ موضوع میں‌ منتقل کرنے کا ہے تاکہ قرآن مجید کے ترتیب دئے جانے پر جو سوالات اٹھائے جاتے ہیں ان کا ایک مکمل جواب موجود ہو۔

نوٹ: میں نے یہ معلومات کتب روایات سے فراہم کی ہیں۔
میں نے سوچا کہ ان معلومات پر مشتمل کچھ مزید لنک بھی ہونے چاہئیے۔

ملتی جلتی معلومات پر مشتمل ایک اور لنک،
-
یہ لنک میں نے بعد میں ڈھونڈھا۔ کوئی بھی مماثلت اتفاقیہ ہے۔
تھوڑی سے مختلف معلومات پر مشتمل ایک اور لنک


اس تھریڈ کے باحثین کو مبارک ہو کہ بالاخر فاروق صاحب بخاری کے صحیح ہونے کے قائل ہو گئے۔ ماشاءاللہ۔ اوپر کے اقتباس میں قرآن کے صحیح ہونے کے ثبوت میں جتنی بھی روایات کے لنکس دئے گئے ہیں وہ تمام بخاری کی احادیث ہی ہیں۔

ماشاءاللہ جزاک اللہ۔ آج بخاری کو نہ ماننے والے کچھ حدیثوں کو مان گئے ہیں اور انشاءاللہ کل پوری بخاری بھی مان لیں گے۔ ویسے بھی باذوق صاحب ایک جگہ لکھ چکے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


باذوق نے کہا:
نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے قران اپنی زبان سے سنایا اور '' کاتبینِ وحی '' نے اُس کو لکھ لیا۔

لیکن یہ بات آپ کو یا ہم کو کیسے معلوم ہوئی ۔۔۔ ؟ یعنی یہ بات کہ ۔۔۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے زمانے میں کاتبینِ وحی سے نازل شدہ وحی لکھوا لیتے تھے ؟

اور اُن تحریروں سے نقل کر کے حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں قرآن کو '' مصحف '' کی شکل میں لکھا گیا اور بعد میں اسی کی نقلیں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے شائع کیں۔

یہ سب کچھ محض حدیث کی '' روایات '' سے ہی دنیا کو معلوم ہوا ہے ورنہ قرآن میں تو اس کا ذکر نہیں ‫!

اور نہ ہی حدیث کی اِن ہی '' روایات '' کے سوا اِس کی کوئی دوسری '' شہادت '' دنیا میں موجود ہے ۔


اب اگر حدیث کی '' روایات '' ہی سرے سے قابلِ اعتماد نہیں ہیں تو پھر کس دلیل سے دنیا کو یقین دلایا جائے گا کہ فی الواقع قرآن ، رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں لکھا گیا تھا ؟


‫> نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہم نے دیکھا نہیں ، مگر '' لوگوں '' نے کہا کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا میں آئے تھے۔ ہم نے لوگوں کی بات پر اعتماد کیا اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات کو قبول کیا۔

‫> قرآن نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُترا ، ہم نے نہیں دیکھا کہ کیسے اُترا ؟ اور نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے کس طرح سنایا اور کس کو کس طرح لکھوایا؟ مگر '' لوگوں'' نے کہا کہ قرآن نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُترا تھا اور اُنہوں(صلی اللہ علیہ وسلم) نے جیسا کا تیسا (‫as It Is‬) لکھوایا اور وہی قرآن آج ہمارے پاس ہے۔ ہم نے لوگوں کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے قرآن کھولا ، پڑھا اور اس کے ایک ایک حرف پر ایمان لے آئے۔

‫> اور جب یہی '' لوگ '' کہتے ہیں کہ ۔۔۔ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اِس طرح نماز ادا کی ، اِس طرح زکوٰۃ دی ، اس طرح تنبیہ کی ، اِس طرح حرام / حلال قرار دیا ۔۔۔ تو یہاں ہم '' لوگوں'' کی بات پر اعتماد نہیں کرتے ؟؟ کیوں ؟؟

صرف اسی لیے کہ جو '' آزادی '' ہمارا نفس چاہتا ہے ، جو آزادی ہمیں اپنی خودساختہ شریعت لاگو کرنے کے لیے درکار ہے ۔۔۔ اُس آزادی کی راہ میں '' نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے احکامات (احادیث) '' بہت بڑی رکاوٹ ہیں ‫!!
 
اس تھریڈ کے باحثین کو مبارک ہو کہ بالاخر فاروق صاحب بخاری کے صحیح ہونے کے قائل ہو گئے۔ ماشاءاللہ۔ اوپر کے اقتباس میں قرآن کے صحیح ہونے کے ثبوت میں جتنی بھی روایات کے لنکس دئے گئے ہیں وہ تمام بخاری کی احادیث ہی ہیں۔

ماشاءاللہ جزاک اللہ۔ آج بخاری کو نہ ماننے والے کچھ حدیثوں کو مان گئے ہیں اور انشاءاللہ کل پوری بخاری بھی مان لیں گے۔ ویسے بھی باذوق صاحب ایک جگہ لکھ چکے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلام، بھائی خالو خلیفہ۔ چلئے آپ کی کچھ غلط فہمی رفع ہوئی۔ سب سے پہلے تو آپ میرے بارے میں یہ لنک پڑھئے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=12055

اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ میں قول و فعل رسول اکرم صلعم کے ماننے والوں‌میں سے ہوں یا نہیں۔ اسی جگہ آپ کو یہ بھی ملے گا کہ میرا نکتہ نظر کیا ہے۔ بھائی ذہن میں‌ رکھئیے کہ میرا موقف ان آیات کے مطابق ہے جو [AYAH]5:48 [/AYAH]اور [AYAH]5:49 [/AYAH]سے بنتا ہے کہ تمام فیصلے قرآن سے کیجئے۔ یہ وجہ ہے کہ کوئی بھی اصول جو پہلے بنا یا بعد میں قرآن کے اصولوں‌پر پورا اترنا چاہئیے۔ یہی رسول اللہ صلعم کی تعلیم تھی اور یہی اللہ تعالی کا فرمان ہے۔ لہذا ان کتب روایات کی ہر روایت اسی اصول پر پرکھی جانی چاہئیے تاکہ اگر کوئی روایت کسی طور گھڑ کر شامل کردی گئی ہو تو پہچانی جاسکے۔

اس بنیاد پر میں جو بھی حوالہ قرآن سے فراہم کرتا ہوں اس کی مخالفت یا تنقید میں عموماً قرآن یا سنت رسول سے کوئی حوالہ پیش نہیں‌ کی جاتا بلک ہبحث کو ایسا رنگ دیا جاتا ہے جیسے میں کسی بھی سنت ، اقوال و افعال رسول کو نہیں مانتا۔ میں ا کی وجہ جاننے سے قاصر ہوں۔

دوسری بات ان تمام حوالوں میں، جو میں نے اوپر فراہم کئے ہیں ، ایک بھی روایت سنت رسول (یعنی اقوال یا افعال رسول میں سے ) نہیں ہے۔ یعنی ان تمام روایات میں‌سے کچھ بھی رسول اللہ کا فرمایا ہوا ہے اور نہ ہی ان کے افعال میں سے کچھ ہے۔ تو آپ مانیں یا نا مانیں نہ قرآن بدل جائے گا اور نہ ہی ہمارا ایمان۔ یہ ان اصحابہ کی کاوشوں کی تاریخ ہے یا روایات ہیں جنہوں نے قرآن کو محفوظ کرنے کا کام کیا۔ یہ کتب روایات الہامی کتب نہیں کہ ایک حوالہ پوری کتاب کو ماننے کے مساوی ہو۔ یہی سب سے اہم بات ہے۔

مجھے یقین ہے کہ آپ سمیت بہت سے لوگ ان روایات میں سے کسی بھی روایت سے واقف نہیں‌تھے جب ان سے قرآن پر بسم اللہ پڑھوائی گئی۔ لہذا یہ روایات یا دوسری کتب کی الگ روایات جن سے ان باتوں‌کی توثیق ہوتی ہے جو میں نے لکھی ہیں اگر مکمل طور پر غلط بھی ہوں‌ اور قران کسی دوسرے طریقہ سے محفوظ کیا گیا ہو تو بھی ہمارا ایمان قرآن پر کم نہیں ہوگا۔ یہی ثبوت ایک سے زائید جگہ پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ ان دوسری کے حوالہ جات چاہتے ہیں تو میں ان کتب کے حوالہ جات بھی فراہم کرکے خوشی محسوس کروں‌گا۔ لیکن وہ بھی تاریخی کتب ہیں اور ان پر کسی کا بھی کوئی ایمان مثل قرآن نہیں بس کتب ہیں۔ ان میں سے بیشتر کتب امتداد زمانہ کا شکار رہی ہیں۔ صرف کراچی سے شائع کردہ بخاری کی کتب اٹھا لیجئے تو آپ کو روایات کی تعداد اور متن میں بہت فرق ملے گا۔ گو کہ یہ کافی حد تک مستند کتب ہیں لیکن امتداد زمانہ اور حفاظت کی کمی کی وجہ سے ضروری ہے کہ ان دیگر کتب میں مروجہ اصولوں کو قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے اور جو کچھ قرآن کے موافق ہو اس کو ہی اصول بناتے ہوئے یا فیصلے کرتے ہوئے استعمال کیا جائے۔ آنکھ بند کرکے قرآن کی طرح‌ان کتب پر ایمان لانے کا مشورہ اگر کوئی دیتا ہے یا مانتا ہے تو بھائی یہ اس کا دین۔

بقول باذوق:
یہ سب کچھ محض حدیث کی '' روایات '' سے ہی دنیا کو معلوم ہوا ہے ورنہ قرآن میں تو اس کا ذکر نہیں ‫!
اور نہ ہی حدیث کی اِن ہی '' روایات '' کے سوا اِس کی کوئی دوسری '' شہادت '' دنیا میں موجود ہے ۔


کوئی صاحب جو یہاں موجود ہو اور کہہ سکیں کہ ان کی قرآن پر بسم اللہ ان روایات سننے کے بعد ہوئی تھی یا انہوں نے شہادت ان روایات کو سن کر دی تھی تو ہاتھ اٹھائیں۔ اصل شہادت قران خود ہے۔ جو کہ پرانے ترین قران یعنی مصحف عثمانی سے لے کر آج تک موجود ہیں۔ کیا آپ کو یا کسی کو کولمبیا یونیورسٹی میں‌ ہونے والی مصحف عثمانی اور موجودہ قرآن کے موازنہ کے بارے میں‌کچھ علم ہے؟ اگر ہے تو بتائیے کہ اس رپورٹ‌میں کیا ان دو قرانوں کے کسی فرق کو واضح کیا گیا ہے؟


والسلام
 

arifkarim

معطل
فاروق بھائی، اب آپ کیا یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس جو قرآن پاک روز مرہ میں‌استعمال ہوتا ہے، کیا وہ بھی غلط؟؟؟؟ :eek::eek:
 

آبی ٹوکول

محفلین
برادران: آبی ٹو کول اور باذوق ، سب سے پہلے ایک بہترین سوال کرنے کا شکریہ۔ میں‌اس جواب میں صرف اور صرف قرآن کے کتابت شدہ نسخہ تک محدود رہا ہوں۔ جب آپ لوگ اس پر متفق ہوجائیں گے تو پھر کتب روایات کی بات کریں‌گے۔

قران کسی کی سنی سنائی اسناد سے آپ تک نہیں پہنچا۔ یہ رسول اللہ صلعم پر نازل ہوا، خود ان کے ہاتھوں‌ لکھایا گیا۔ ہر آیت -- لکھی ہوئی -- کم از کم دو اصحابہ کے پاس ملی، جس سے مصحف عثمانی ترتیب دیا گیا۔ اس بات کا ثبوت آُپ کو کئی مرتبہ پہنچا چکا ہوں۔ گو کہ میں اس پر اپنی ذاتی ریسرچ کر چکا ہوں لیکن اس ریسرچ کے بغیر بھی میں ‌اس پر یقین رکھتا ہوں اور یہ میرا ایمان ہے۔

"قرآن اپنے نزول کے ساتھ ساتھ لکھا جاتا رہا۔ حفاظ‌ نے اس کو ذاتی طور پر یاد بھی رکھا لیکن لکھا ہوا ہمیشہ موجود تھا اور وہ مصحف عثمانی جس کی ہر آٰیت کم از کم دو اصحابہ کو یاد تھی اور ساتھ ساتھ لکھی ہوئی بھی تھی، اس مصحف ّعثمانی کی کم از کم 3 کاپیاں میری ریسرچ کے مطابق موجود ہیں اور ایک سے زائید آزاد تحقیق کے مطابق اس کا عربی مواد لفظ بہ لفظ موجودہ قرآن سے ملتا ہے۔ "‌ میری استدعا ہے کہ آپ اس موضوع پر ذاتی ریسرچ کیجئے۔ اس کو پڑھنے میں وقت لگے گا، اور حوالہ جات کو پڑھنے میں‌بھی وقت لگے گا۔ آپ اس کو پڑھ کر اپنے عقائد کے مطابق اس کی تائید یا اس پر تنقید کیجئے۔
السلام علیکم محترم جناب فاروق سرور صاحب ! سب سے پہلے تو آپ پر ہم یہ واضح کردیں کہ ہمارا بھی یہ ایمان وایقان ہے کہ قرآن اللہ پاک کی کتاب ہے جو کہ نبی آخر الزماں خاتم النبین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور وحی نازل ہوئی ۔ اور آج جو قرآن پاک ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے یہ بعینہ (سورتوں اور آیات میں اپنی ترتیب کے اعتبار سے )وہی قرآن ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نازل ہوا اور ہمارے اس ایمان کی بنیاد کسی بدیہی(یعنی منطقی) دلیل پر نہیں ہے بلکہ ہمارے قرآن پر اس ایمان کا تعلق خود ایمان ہی کی وجہ سے ہے کہ یہ اس کا تقاضا ہے لہزا ہم بھی قرآن کو قرآن اس لیے مانتے ہیں کہ زبان مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ قرآن ہے اور آپکی زبان پر اعتماد کرکے صحابہ نے ہم تک پہنچایا کہ یہ قرآن ہے ۔ رہ گئے عقلی حوالےسے اس یعنی قرآن کی تدوین کی بابت ہمارے‌آپ پر سوالات تو ان سب سوالوں کا مقصد الزامی ہے کہ جس دلیل(یعنی کتابت احادیث) کی بنیاد پر آپ احادیث کو جھٹلاتے ہیں بعینیہ وہ تمام دلائل آپ کو قرآن کی بابت پیش کیے جائیں ۔ ۔ ۔
اب‌آتا ہوں اصل مسئلہ کی جانب آپ نے اس باب (یعنی کتابت ) قرآن پاک کے بارے میں جتنی بھی تحقیق مرحمت فرمائی اس تمام کا نچوڑ آپ نے یہ کہہ کر بیان کیا ہے کہ آگے آپ کے الفاظ سرح رنگ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قرآن اپنے نزول کے ساتھ ساتھ لکھا جاتا رہا۔ حفاظ‌ نے اس کو ذاتی طور پر یاد بھی رکھا لیکن لکھا ہوا ہمیشہ موجود تھا اور وہ مصحف عثمانی جس کی ہر آٰیت کم از کم دو اصحابہ کو یاد تھی اور ساتھ ساتھ لکھی ہوئی بھی تھی، اس مصحف ّعثمانی کی کم از کم 3 کاپیاں میری ریسرچ کے مطابق موجود ہیں اور ایک سے زائید آزاد تحقیق کے مطابق اس کا عربی مواد لفظ بہ لفظ موجودہ قرآن سے ملتا ہے۔ "‌ میری استدعا ہے کہ آپ اس موضوع پر ذاتی ریسرچ کیجئے۔ اس کو پڑھنے میں وقت لگے گا، اور حوالہ جات کو پڑھنے میں‌بھی وقت لگے گا۔ آپ اس کو پڑھ کر اپنے عقائد کے مطابق اس کی تائید یا اس پر تنقید کیجئے۔
یعنی آپ اپنا سارا تحقیقی زور صرف کرکے بھی موجودہ قرآن پاک کو (تدوینی اعتبارسے) جس نسخہ کے ساتھ مطابقت دے پائے ہیں وہ مصحف عثمانی ہے جبکہ آپ کا دعوٰی یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔قرآن اپنے نزول کے ساتھ ساتھ لکھا جاتا رہا۔ حفاظ‌ نے اس کو ذاتی طور پر یاد بھی رکھا لیکن لکھا ہوا ہمیشہ موجود تھاجب قرآن اپنے نزول کے وقت سے ہی ہمیشہ لکھا جاتا رہا ۔ ۔ ۔ اور لکھا ہوا ہمیشہ سے محفوظ تھا تو پھر صحابہ کرام کو دور صدیق میں قرآن پاک کو موجودہ ترتیب کے ساتھ ایک مصحف میں جمع کرکے خاص ایک نسخہ کی شکل دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟اور قرآن دور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی (بقول آپکے اس دعوٰی کے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن لکھا ہوا ہمیشہ موجود تھا) جب وہ ہمیشہ موجود تھا تو امت اس کو مصحف عثمانی کے نام سے کیوں یاد کرتی ہے ؟ اسے مصحف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا مصحف محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں پکارا جاتا؟ ہمارا سوال آپ سے یہ ہے کہ مصحف عثمانی سے پہلے کا دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ایک بھی تدوینی نسخہ آپکے پاس ہے تو ثابت کیجئے اور دکھلایئے ہمیں کہ وہ نسخہ کہاں ہے ۔ ۔۔ اور ثانیا ہمارا اصل اعتراض آپکے اس جملے پر تھا کہ جس کو سہارا بنا کر آپ سارے کے سارے ذخیرہ احادیث کو ہی جٹھلادیتے ہیں اگرچہ آپ اس جھٹلانے کو بڑے تکنیکی پیرائے میں پیش کرتے ہیں کہ عام قاری آپکی لفاظی سے احادیث کو جھٹلانے کا مفھوم اخذ نہیں کرپاتا آپ کا وہ جملہ معترضہ جو کہ آپکی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ ۔ اور دوسری طرف یہ اگر کوئی روایت قرآن کے خلاف بھی ہو تو یہ اس کے ساتھ انسانی اسناد لگا کر اپنی پیش کردہ روایات کو مستند قرار دیتے ہیں ، چاہے وہ قران کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
اس پر ہم نے یہ کہہ کر اعتراض کیا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ہمارے الفاظ ۔ ۔ معاف کیجئے گا محترم اگر آپ کے نزدیک احادیث کو انسانی اسناد لگا کر مستند بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ قرآن کونسی الہامی (یعنی غیر انسانی )اسناد کے زریعے آپ تک پہنچا ہے؟اس کا ابھی تک کوئی معقول جواب آپ نہیں دے پائے ۔ ۔ ۔ اور جو جواب آپ نے دیا ہے وہ انھی انسانی اسناد کی گواہیوں پر مبنی ہے اوران گواہیوں کو آپ یہ کہہ کر متعارف کرواتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپکے الفاظ سرخ رنگ میں اصحابہ کرام سے منسوب روایتوں‌ میں درج ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ترتیب دیا ہوا قران، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس رہا اور اس کے بعد حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس رہا۔ اس قرآن سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ترتیب کرائے ہوئے قرآن کا موازنہ کیا گیا۔ نیز قرآن پاک کے اولین نسخہ کے عنوان کے تحت آپ نے جو روایت بیان کی ہے اس میں بھی کتابت کی نسبت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر منتہاء ہوتی ہے جسے آپ نے درج زیل(سرخ) الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ ۔ ۔
ابتدائی قرآن کی کتابت کی تاریخ:
قرآن کا اولیں نسخہ:
1۔ حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم ، قرآن اپنی نگرانی میں‌لکھواتے تھے اور حفاظ اس کو یاد بھی کرلیتے تھے۔ رسول اکرم صلعم کی موجودگی میں ان لکھوائے ہوئے اوراق کی مدد سے اور حفاظ کرام کی مدد سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلا نسخہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی نگرانی میں ترتیب دلوایا، کہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اکرم خود لکھوایا کرتے تھے (‌حوالہ نیچے)۔ اور ایک مزید نسخہ بعد میں‌ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے انہی شرائط پر دوبارہ ترتیب دلوایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اس نسخہ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے نسخے کو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس سے منگوا کر موازنہ کروایا ( گواہی کا حوالہ نیچے دیکھئے)

2۔ حضرت حفصہ بنت عمر الخطاب رضی اللہ تعالی عنہا ، رسول اکرم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں۔ قرآن کا ایک نسخہ ان کے پاس موجود تھا۔ (حوالہ نیچے دیکھیں) یہ نسخہ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کاغذ پر لکھے ہوئے کی مدد سے اور حفاظ کرام کی مدد سے سے لکھوایا تھا، یہ کام زید بن ثابت نے کیا ۔ یہ نسخہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچا اور پھر حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس پہنچا۔

اس میں آپ زیادہ سے زیادہ جو ثابت کرپائے ہیں وہ یہ ہے کہ قرآن پاک کی مصحف کی شکل میں باقاعدہ کتابت صدیق اکبر نے کروائی اور آپ نے یہاں تک پہنچنے میں جس تحقیق کا سہارا لیا وہ تمام کی تمام احادیث پر ہی مبنی ہے لیکن آپ اس کو حدیث کہنے سے گریز کرتے ہیں اور اسکے لیے ایک جدید اصطلاح تاریخی امور کو وضع کرتے ہیں کیونکہ لفظ حدیث سے بنیادی طور پر آپ کو چڑ ہے ۔ ۔ چلیئے ہم آپکی اس اصطلاح کو بھی مان لیتے ہیں ہمیں یہ بتلایئے کہ یہ گواہیاں جو بقول آپکے تاریخی امور ہیں حدیث رسول یا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ان گواہیوں کی قبولیت کا مدار وہی زبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس کو آپ نے خود بھی درج زیل الفاظ میں تسلیم کیا ہے ۔ ۔ ۔آپکے الفاظ جو کہ آپ نے مصحف صدیقی کے اول مرتبین کی شرائط کے بطور رقم کیئے ہیں ۔ ۔ ۔
اس ترتیب دینے کی شرائط یہ تھیں۔
1۔ ہر وہ شخص‌جسے قرآن کی ایک بھی آٰیت یاد تھی ، وہ زید بن ثابت کے پاس آیا اور وہ آٰیت دہرائی۔
2۔ جس کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کوئی آیت لکھی تھی وہ زید بن ثابت کے پاس لے کر آیا
3۔ زید بن ثابت نے کوئی بھی ایسی آیت قبول نہیں‌کی جو رسول اکرم کی موجودگی میں‌ نہیں لکھی گئی تھی۔

مندرجہ بالا فقرات میں ہمارے سرخ اور نمایاں کیئے گئے الفاظ پر کوئی بھی زی فہم اگر غور کرئے گا تو اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ حضرت زید بن ثابت کے کسی بھی آیت کو قبول اور رد کرنے کا معیار اس آیت کا قرآن ہونا نہیں تھا بلکہ زبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھا لہذا آپکی پیش کردہ عبارت سے ہمارے اس دعوے کی تصدیق ہوگئی کہ قرآن کو قرآن ماننے میں صحابہ نے ذات رسول اور زبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی اعتماد کیا وگرنہ فرشتے کا نزول ہمیشہ صحابہ کے سامنے نہیں ہوا کرتا تھا ۔ ۔ اور یہی دعوٰی ہم نے اسی موضوع پر کسی اور تھریڈ میں بھی کیا تھا کہ جسکا باہم ثبوت آپ نے یہان فراہم کردیا اور ہمارے دعوے پر الفضل ماشھدت بہ العداء کی مصداق تصدیق کی مہر ثبت فرمادی الحمد اللہ
لہذا ثابت ہوا کہ موجود ہ قرآن کا قرآن ہونا احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ثابت ہے کیونکہ حدیث کی تعریف ہی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا فعل یا پھر صحابہ کا آپ کی موجودگی میں کوئی عمل کرنا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموشی اختیار فرمانا لہزا فاروق صاحب کی بیان کردہ اولین شرائط میں جو بنیادی شرط ہے قرآن کو قرآن سمجھ کر مصحف صدیقی میں جمع کرنے کی وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی ہے جسے ان الفاظ میں فاروق صاحب نے بیان فرمایا ہے کہ ۔ ۔ ۔زید بن ثابت نے کوئی بھی ایسی آیت قبول نہیں‌کی جو رسول اکرم کی موجودگی میں‌ نہیں لکھی گئی تھی۔ اب جو بھی صحابی جس بھی آیت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کتابت کیا کرتا تھا اس کو آیت کو تو قرآن مانا گیا اور اس کے قرآن ہونے کی شہادت کے بطور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کو لازمی قرار دیا گیا وگرنہ اگر کوئی اور صحابی بلفرض کسی بھی آیت کا ذکر کرتا لیکن اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی ثابت نہ ہوپاتی تو اس کو قرآن نہیں سمجھا گیا ۔۔ لہزا یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت زید بن ثابت نے ہر اس آیت کو قرآن سمجھ کر لکھ دیا جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تقریری سے ثابت تھی یعنی‌آپکے سامنے یعنی آپکی موجودگی میں کسی صحابی نے لکھی اور آپ نے اس پر خاموشی اختیار کی ۔ الحمداللہ آپکے قلم نےخود ہی احادیث مبارکہ کا حجت ہونا بیان کردیا ۔ ۔ ۔ ۔
آخرمیں چند امور کی وضاحت اور پھر فاروق صاحب چند سوالات کرکے اجازت چاہوں گا ۔ ۔۔
ہمارا ایمان ہے کہ موجودہ جو قرآن ہے یہ وہی قرآن پاک ہے کہ جس کا نزول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو ا اور ہم اس قرآن کو قرآن اس لیے مانتے ہیں کہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی خبر دی اور فرمایا کہ یہ قرآن ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر ہی اعتماد کرتے ہوئے تمام صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرآن سمجھا اور پھر ان میں سے بعض صحابہ اسکی کتابت کرنے میں مشغول ہوگئے اور اکثر نے اسے زبانی طور پر یاد کرلیا اور پھر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا یہاں تک کہ دور صدیقی اور عثمانی تک اس سلسلے کا زیادہ تر انحصار تو زبانی روایت یعنی سینہ بہ سینہ روایت ہی (بالکل اسی طرح جس طرح اوائل دور میں حدیث کی کتابت تو تھی مگر اسکی حفاظت کا زیادہ تر انحصار سینہ بہ سینہ روایت کی شکل میں تھا ) پر رہا لیکن پھر جب ایک جنگ میں بہت سے حفاظ کرام صحابہ کی شہادت ہوئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اسکی حفاظت کی بابت خدشہ لاحق ہوا اور آپ نے باقاعدہ اس (یعنی قرآن ) کی کتابت کا مشورہ امیر المؤمنین کو دیااور یوں پھر اسکو یعنی قرآن کو اس کی حفاظت کی دُہری تدبیر کے پیش نظر اس کو باقاعدہ ایک مصحف کی شکل میں جمع کردیا گیا تاکہ قرآن کو ہر طریقے سے محفوظ رکھا جاسکے (بالکل اسی طرح کا خدشہ جب مؤمنین کو حدیث کی بابت لاحق ہوا تو حدیث کو بھی باقاعدہ تدوینی شکل میں جمع کیا جانے لگا حالانکہ دور اوائل یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں بھی احادیث کی تدوین بطور کتابت رائج تھی مگر زیادہ تر انحصار سینہ بہ سینہ روایات پر تھا ) لیکن یاد رہے کہ قرآن کو مصحفی شکل میں جمع کرنے کا انحصار زیادہ تر ان سینہ بہ سینہ زبانی روایات پر ہی تھا کہ جن کی تلاوت کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کی صورت میں ملتا اور پھر لازمی طور پر اس میں وہ مکتوبہ روایات بھی موجود تھیں کہ جن کی کتابت کا ثبوت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کی صورت میں ملتا تھا ۔ ۔ ۔ لہزا روایت کتابی شکل میں محفوظ ہو یا پھر سینہ بہ سینہ دونوں صورتوں میں ان روایات کے قرآن ہونے کا مدار ذات مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہی قرار پاتی ہے کہیں اپنے اس قول (حدیث قولی) کی صورت میں کہ یہ اقراء باسم ربک الذی خلق قرآن کی فلاں صورت کی فلاں آیت ہے اسے فلان مقام پر لکھ لو اور کہیں صحابہ کرام کی کسی آیت پر تلاوت یا کتابت پر خاموشی (یعنی حدیث تقریری) کی صورت میں ۔ ۔ ۔ فرق قرآن و حدیث میں یہ ہے کہ قرآن پاک کی ہر ہر آیت اپنے قرآن ہونے میں قطعی الثبوت بالتواتر ہے اوراس کا یہ تواتر قرات قرآن کی صورت میں بھی ثابت ہے اور نقل قرآن کی صورت میں بھی ثابت ہے جبکہ حدیث جو بھی محفوظ کی گئی اس میں ہر ہر حدیث اپنے ثبوت میں (یعنی قرات اور نقل )میں قطعی الثبوت بالتواتر نہیں (باوجود اسکے کہ احادیث سے ثابت بہت سے امور کو سنت کی حیثیت سے امت میں ہمیشہ سےتواتر عملی حاصل رہا ہے )ہے اسی لیے قرآن کا درجہ اول ہے پھر حدیث کا ہے کہ قرآن ثبوت اور نقل دونوں میں قطعی الثبوت بالتواتر ہے جبکہ ہر ہر حدیث ثبوت اور نقل دونوں میں قطعی الثبوت بالتواتر نہیں ۔ ۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ تواتر کی شرط بھی کوئی الہامی دلیل نہیں ہے بلکہ ایک منطقی یعنی بدیہی دلیل ہے کہ ایک چیز کو اتنے بندے نقل کریں کہ جن سب کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلا محال ہو لہذا قرآن کی ہر ہر آیت اس منطقی دلیل کے مطابق قطعی الثبوت بالتواتر ہے جب کے حدیث کے ساتھ ہر ہر حدیث میں یہ معاملہ نہیں ہاں یہ بات الگ ہے کہ جب حدیث کو باقاعدہ طور پر محدثین نے اپنی اپنی کتابوں کی صورت میں جمع کیا تو اب ان مصنفین تک ان کتابوں کا ثبوت بلاشبہ تواتر کو مستلزم ہے کہ بخاری سے بخاری کو روایت کرنے والے تواتر کی شکل میں موجود ہیں اور پھر ان سب کتابوں پر اعتماد کرنے والی تمام امت کو بھی تواتر کا وہی درجہ حاصل ہے جو کہ بدیہی اعتبار سے نقل قرآن کی بابت قرآن کے ثبوت کو حاصل ہے لیکن یہ امر جدا ہے کہ ان کتابوں کا تواتر ان کے مصنفین تک ہے جو کہ ان کتابوں کے حق ہونے کی عقلی دلیل ہے جب کے ان کے مصنفین سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر ہر حدیث میں تواتر کا پایا جانا ایک الگ امر ہے جو کہ ہر ہر حدیث کو نصیب نہیں اسی لیے حدیث کو خبر واحد اور خبر تواتر میں تقسیم کیا گیا جبکہ قرآن سارے کا سارا خبر تواتر ہی ہے قرآن کی ایک آیت بھی خبر واحد نہیں ۔ ۔ ۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ جس کا جب جی چاہے منہ اٹھا کر تمام کے تمام ذخیرہ حدیث کو باطل اور جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر ناقابل حجت قرار دے دے ۔ اور بالخصوص قرآن کے ساتھ حدیث کا مقابلہ کرنا شروع کردے حالانکہ قرآن اپنے نزول اور الفاظ دونوں کے اعتبار سے شان اعجاز رکھتا ہے کہ یہاں اصل لفظ ہیں جو روح القدس کے ذریعے حق تعاٰلی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائے برخلاف اسکے سنت بھی وحی تھی مگر حق تعاٰلی نے اسکے الفاظ نہیں صرف معنٰی کا نزول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فرمایا اسی لیے قرآن کی تلاوت کا حکم ہے اور اسکی تلاوت قرآن ہی کہلاتی ہے برخلاف اسکے ترجمے اور مفھوم کی تلاوت کے کہ وہ حکم تلاوت قرآن کے تحت نہیں آتا لہزا قرآن کی تلاوت میں روایت بالمعنٰی جائز نہیں اور نہ ہی اس کے الفاظ میں کسی قسم کا تغیر و تبدل جائز ہے برخلاف اسکے کہ حدیث چونکہ معنٰی اور مطالب کے لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی لہذا اس میں روایت بالمعنٰی کی اجازت ہے ۔ لہذا ثابت ہوا کہ حجیت میں دونوں یکساں ہیں جبکہ ثبوت میں‌ دونوں یکساں نہیں ۔اور ثبوت میں ان دونوں کی یکسانیت کا نہ پایا جانا قرآن کے معجزہ ہونے کے اعتبار سے ہے نہ کے قرآن بالمقابل سنت کے اعتبار سے اب وہ شخص انتہائی کم فہم ہوگا کہ جو قرآن کی اس شان اعجاز کو سنت کے مقابل پیش کرکے سنت کے وجود کا ہی انکار کر بیٹھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب آخر میں فاروق سرور خان صاحب سے میرے چند سوالات درج زیل ہیں ۔ ۔ ۔
سوال نمبر 1: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی (اقراء)نازل ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر صحابہ سے یہ فرمایا کہ اقرا ء ۔ ۔ ۔ یہ قرآن ہے اسے فلاں جگہ فلاں مقام میں لکھ لو تو آپکا یہ جملہ ارشاد فرمانا کہ یہ قرآن ہے آیا قرآن تھا یہ غیر قرآن اور اگر قرآن تھا تو قرآن میں کیوں نہیں لکھا گیا اور اگر غیر قرآن ہے تو پھر یہ جملہ حدیث کے سوا اور کیا ہے کہ جس پر اعتماد کرتے ہوئے صحابہ نے قرآن کو قرآن سمجھا ؟ تو پھر آپ اس حدیث پر کیوں نہیں اعتماد کرتے کہ جس پر صحابہ کوتو اعتماد ہے ۔ ۔ ۔
سوال نمبر 2: آپ چونکہ ہر مسئلہ کو قرآن کی رو سے حل کرنے کے قائل ہیں تو برائے مہربانی قرآن کی موجودہ ترتیب آیات و سورتوں کی صورت میں اس کا جدا جدا لکھا جانا برائے مہربانی کسی آیت کی رو سے بتادیں کہ فلاں فلاں آیات میں یہ آیا ہے کہ قرآن کی فلاں آیت کو فلاں مقام پر فلاں مقام سے پہلے یا بعد میں لکھو ؟
سوال نمبر 3:جب آپ کی پیش کردہ تمام تحقیق کا مدار وہی روایات ہیں جو کہ موجودہ قرآن کو زیادہ سے زیادہ مصحف عثمانی ثابت کرتی ہیں یا پھر مصحف صدیقی تو کیا وجہ ہے کہ یہاں پر ان روایات کو آپ اختیار فرما لیتے ہیں اور دیگر مقامات پر نہیں ؟
سوال نمبر 4: قرآن کی کسی بھی آیت سے پہلے اس کا قرآن ہونا ثابت کریں پھر یہ بھی ثابت کریں خود قرآن ہی سے کہ یہ وہی آیت ہے جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور قرآن نازل ہوئی تھی یاد رہے کہ کسی حدیث کسی تاریخی روایت یا کسی بھی بیرونی شہادت کو اختیار کرنے کی اجازت آپکو نہیں ہے بجز قرآن کے ۔ ۔ ۔ ۔ فی الحال اتنے ہی سوالات ملتے ہیں بریک کے بعد ۔ ۔ ۔
 
بھائی آبی ٹو کول - آپ اپنے آپ سے جھگڑ رہے ہیں۔ اور آُپ کی باتوں ‌سے صاف ظاہر ہے کہ آپ پڑھے بنا اور سوچے بناء‌ لکھ رہے ہیں۔

سوال یہ نہیں ہے کہ جو رسول نے فرمایا وہ قابل قبول ہے یا نہیں؟ یقیناً‌ وہ قابل قبول ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو کچھ ان کتب روایات میں‌ درج ہے ان میں سے کتنا کچھ رسول اکرم کا فرمایا ہوا ہے اور کیا کچھ شامل کیا ہوا؟

اس کا واحد پیمانہ میرے نزدیک قرآن حکیم ہے ۔ اسک کا متن، اس کی ترتیب، اس کے معانی۔ اس کا مفہوم، سب میرے ایمان کا حصہ ہیں ۔ جو منطقی نہیں۔ اگر آُپ کے نزدیک کچھ اور ہے تو آپ کو مبارک۔ آپ دور عثمانی کی روایات کی کتاب کی اصل لے آئیے پھر بات کرتے ہیں۔ یا کوئی ایسی کتاب لے آئیے جس میں [ayah]ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ[/ayah] کا دعوی ہو اور قران اس کتاب کی طرف اشارہ کرتا ہو۔ یہ اس لئے عرض‌کررہا ہوں کہ آپ بھی پوری کی پوری کتاب کی بات کرتے ہیںِ؟


آپ میرے بارے میں جو مفروضات پیش کررہے ہیں وہ آپ کے اپنے مفروضات ہیں ۔ آپ کے اپنے خیالات ہیں۔ میں نے یہ الفاظ کہیں‌بھی استعمال نہیں کئے۔ یہ لکھے ہوئے کی خاصیت ہے کہ تمام الفاظ‌ اور جملے موجود ہوتے ہیں۔ وہ سب میں نے کہا ہی نہیں جو آپ میری طرف سے پیش کررہے ہیں۔

میں آپ کے پاس قران کو درست ثابت کرنے کا تھیکہ لے کر نہیں‌آیا ہوِں۔ میں‌صرف ان موضوعات پر ان لوگوں‌سے قرآن کی آیات شئیر کرتا ہوں جو قرآن کو کتاب اللہ سمجھ کر ایمان رکھتے ہیں۔ اگر آپ کو قران پر ایمان نہیں اور ثبوت چاہئیے تو بھائی وہ میرے پاس نہیں۔ جو لوگ بخاری کی کتاب کو کتاب کو اللہ کی کتاب سمجھ کر ایمان رکھتے ہیں یا سمجھتے ہیں ان کو ان کا دیں‌مبارک۔

آبی ٹو کول ، کیا آُ پ شیعہ ہیں؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
محترمی۔ آپ پیچھے جاکر اسی تھریڈ‌ میں‌ یہ جواب دیکھئے۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=305542&postcount=70

والسلام۔
السلام علیکم محترم میرے سوال کے جواب میں آپ نے مجھے جس جواب کی طرف متوجہ فرمایا ہے اول تو اس کو پڑھ کر میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھوں گا اور ثاینا پھر عرض کروں گا کہ آپ کےاس جواب میں بھی ہمارے سوال کے جواب ہرگز نہیں ہے ہم نے سوال کیا تھا کہ ہر ہر حدیث کو پہلے قرآن پر پیش کیا جائے یہ اصول قرآن کی کس آیت سے استنباط شدہ ہے اس کے جواب میں آپ نے جن دو آیات کا حوالہ دیا ہے اُن آیات سے تو یہ حکم مطلقا منضبط ہورہا ہے کہ ۔ ۔ ۔۔ آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں،
اور ہم یہ پہلے ثابت کرچکے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی صرف قرآن نہیں ہے بلکہ قرآن کے علاوہ بھی ہے جسے بارہا قرآن میں حکمت سے تعبیر کیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےا س کا ظہور بطور حدیث بارہا مقام پر ہوا ہے ۔ ۔ ۔ لہزا آپکی بیان کردہ دونوں آیات سے صرف اور صرف قرآن سے فیصلہ کرنا بھی ثابت نہیں اور نہ ہی یہ ثابت ہے ہوتا ہے کہ ہر ہر حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے؟ ۔ ۔
بلکہ اصل میں آپکی پیش کردہ آیات کے شان نزول میں امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ۔ ۔
لنک درج زیل ہے ۔ ۔
http://www.millat.com/quranpak/ibn kaseer/06B.pdf
آیت نمبر 50خواہ عرب ہوں خواہ عجم ہوں خواہ لکھے پرھے ہون خواہ ان پڑھ ہوں ۔ اللہ کی طرف سے نازل کردہ وحی سے مراد وحی اللہ ہے خواہ وہ اس کتاب کی صورت میں ہو خواہ وہ پہلے احکام جو اللہ نے مقرر کررکھے ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر آگے جاکر لکھتے ہیں کہ یہودیوں کے چند بڑے بڑے رئیسوں اور عالموں نے آپس میں میٹنگ کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ جانتے ہیں کہ آگر ہم آپ کو مان لیں تو تمام یہود آپکی نبوت کا اقرار کرلیں گے اور ہم آپکو ماننے کے لیے تیار ہیں آپ بس اتنا کیجیئے کہ ہم میں اور ہماری قوم میں ایک جھگڑا ہے اس کا فیصلہ ہمارے مطابق کردیجئے آپ نے انکار کردیا اُس پر یہ‌آیتیں اتریں ۔ ۔ ۔ ۔
اور وہ مخصوص الفاظ قرآن کے درج زیل ہیں کہ جن کو آپ نے دلیل بنایا ہے ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہاں انزل اللہ سے مراد فقط قران لینے کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے جبکہ ہم اوپر اس آیت کے شان نزول میں بیان کر آئے کہ یہ‌آیات یہود کے بارے میں نازل ہوئی اورخود قرآن کا سیاق و سباق اور نظم قرآن بتاتا ہے کہ یہاں یہود میں انکی کتاب ہی کے مطابق فیصلہ کرنے کی بات کہی جارہی ہے لہذا آپکی پیش کردہ ان قرآنی آیات سے تو خود اس کے شان نزول کے مطابق یہود کے معاملے میں قرآن سے فیصلہ کرنے کی کوئی واضح تصریح موجود نہیں چہ جائکہ آپ اس سے یہ مراد لیں کہ جو فیصلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود سے کریں وہ قرآن کے حکم کے تحت نہیں آتا ۔ ۔ ۔
جب کے قرآن جگہ جگہ اطیعو اللہ واطیعوالرسول اور من یطع الرسول فقد اطاع اللہ کے واشگاف نعرے بلند کرریا ہے ۔ ۔ رہ گئی وہ احادیث کہ جو آپ نے اپنے مدعا کے ثبوت کے بطور پیش کی ہیں تو ان سے بھی آپ کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کہ قرآن خود کہتا ہے وما ینطق عن الھوٰی ان ھو الا وحی یوحٰی ۔ ۔۔ کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو خود اپنی طرف سے کچھ بولتا ہی نہیں جو کچھ بولتا ہے وہ وحی (وحی جلی قرآن کی صورت میں اور وحی خفی حدیث کی صورت میں ) ہوتی ہے ۔ ۔ لہزا آپکی پیش کردہ‌آیات میں بھی وحی ہی کے مطابق فیصلہ کرنے کو کہا گیا ہے وحی خفی یا جلی کی تصریح نہیں کی گئی ۔ ۔ ۔ ۔لہذا ہمارا سوال ابھی تک اپنی جگہ موجود ہے ۔ ۔ ۔ ۔
 
ایک بات جس کا مجھے شبہ تھا کہ آپ بنا پڑھے سوال و جواب کرتے ہیں وہ پورا ہوگیا۔ اب یہ بہت واضھ ہے کہ آپ نے قرآن با معنی نہیں‌پڑھا اور اس پر کوئی تدبر نہیں‌کیا بلکہ انسانوں‌کی لکھی ہوئی کتب سے متاثر ہیں۔ انشاء اللہ آہستہ آہستہ آپ جوں جوں‌قران پر تدبر کریں‌گے بہتر ہوتے جائیں گے۔

صاحب جو وحی مسالمانوں کے واسطے رسول اکرم پر اتری وہ کامل قرآن میں‌ موجود ہے۔ اس کے باہر اس وحی پر ایمان رکھنا آُپ کا ایمان ہے اُپ رکھئے۔ یہ اللہ کی شان میں‌کس قدر بڑی گستاخی ہے کہ اس کی کتاب کا مذاق آرایا جائے اور کہا جائے کہ یہ کتاب نعوذ‌باللہ نامکمل ہے - باقی وحی تو ادھر ادھر بکھری پڑی رہی ہے -۔ اور وہ بھی صرف سنیوں کی کبھی ‌ چار ، کبھ دو کبھی چھ کتب میں فرقوں‌کے مطابق - لاحول ولا قوۃ ۔ یہ جو وحی ‌شیعہ حضرات کی کتب میں‌ہے وہ قابل قبول نہیں۔ کیا بات ہے؟ بھائی مان لو کہ وہ وحی جو مسلمانوں‌تک پہنچانا اللہ کو مقصود تھی وہ صرف اور صرف قرآن میں‌موجود ہے۔ باقی اللہ اور اس کے رسول صلعم کے درمیان کیا معاملات ہوئے یہ کسی لکھے ہوئے رسالہ میں نہیں شائع ہوئے۔ جو کچھ اللہ تعالی نے انسانوں کو پہنچانا تھا وہ قرآن میں شامل کیا اور اس کو آخری کتاب قرار دے کر اس پر اليوم اكملت لكم دينكم کی مہر نہ لگاتا۔

قرآن جب اطاعت رسول کا نعرہ لگاتا ہے تو بعد میں ‌آنے والی کسی کتاب کے بارے میں‌ نہیں‌کہتا۔ رسول اکرم کو صرف اور صرف قرآن حکیم ہی دیا گیا تھا۔ یہ انہی آحکام کے بارے میں کہتا ہے جو رسول اکرم پر وحی کئے گئے اور جس کو لکھنے کا رسول اللہ نے حکم دیا ۔ آپ کو پیش کردہ روایات کے مطابق۔ قران میں‌کوئی آیت ایسی نہیں لکھی گئی جو رسول اکرم نے خود لکھوائی تھی۔ جبکہ روایات میں‌حد درجہ احتیاط ضروری ہے۔

اب آپ اگر اس سے مطلب یہ لیتے ہیں‌کہ مٰن رسول اکرم کے اقوال و افعال سے انکار کرتا ہوں‌تو یہ آُپ کی کم فہمی ہے۔ میں متعدد بار کہہ چکا ہوں‌کہ میں‌ان کتب کی صحت پر اعتبار نہیں کرتا جو آج ہمارے درمیان موجود ہیں۔ وہ اس لئے کہ جو کتب روایات میرے پاس موجود ہین سب مختلف ہیں۔ جن کا متن، تعداد اور اصل قابل اعتماد نہیں۔ اگر ان کے اصٌل مصنفیں بھی ان کو دیکھیں‌تو شاید پہچان نہ پائیں۔ مجھے کوئی بی حیرانی نہیں ہوگی اگرا اس میں‌سے کچھ دشمنان اسلام کا شامل کیا ہوا نکلے۔

اگر ایسی ہی کوئی روایت جس نے قران کی طرح‌مسلمہ اصول بننا تھا تو نہ اللہ تعالی ایسا کم علم تھا اور نہ ہی رسول اللہ کہ اس کو ہماری آُپ کی عقل پر چھوڑ دیا جاتا کہ بھائی بعد میں شامل کرلینا۔ یہ اللہ اور اس کی کتاب کے مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ رسول اللہ پر ایمان لانے کا مطلب ہے اس کتاپ پر ایمان لانا۔

جو کچھ اللہ تعالی نے نازل کیا وہ درست اپنی جگہ اور جو کچھ ان سابقہ کتب میں موجود ہے اس کی گواہی قران خود دیتا ہے کہ وہ کچھ چھپاتے ہیں‌اور کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ ان آیات کی ایک مستقل سیریز یہ ظاہر کرتی ہے کہ صرف اور صرف قرآن پر فیصلہ کا حکم دیا گیا ۔

یہ آیات جو میں‌نے پیش کیں آپ کو قابل قبول نہیں کہ قرآن کے اصولوں‌پر فیصلہ کرو، جو یہود لائے ہیں توریت کی شکل میں‌ ان پر فیصلہ نہ کرو۔ اگر آپ قرآن میں‌ مزید کتب کا پیوند لگانے کے قائل ہیں تو میں انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھوں گا۔

آپ ان آیات کو دوبارہ پڑھئے اور ان کی تفسیر بھی پڑھئے، آپ پر عیاں‌ ہوتا جائے گا کہ جو آُ کہہ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں وہ ایک ہی ہے اور اس کے معانی وہی ہہیں جو وہان 23 عد مترجمین نے لکھے ہییں۔ آپ یہی پائیں‌گے کہ جس کتاب کے لئے واضح‌حکم دیا جارہا ہے وہ صرف اور صرف قرآن ہے۔ جو کہ "حکم" ہے مسلمانوں‌کے لئے۔

اللہ تعالی اپنے پاس ایک لامتناہی عقل و دانش رکھتے ہیں۔ یہ آیت صرف اس لئے درست نہیں کہ چند یہودی آئے تھے تو قرآن کو حکم بنانا ، یہ آیات تا قیامت ہیں کہ جو بھی فیصلہ کیجئے ، اس کتاب کی رو سے کیجئے۔ اس کی تصدیق جن اقوال نبوی سے ہوتی ہے وہ بھی درج ہیں۔

والسلام۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
سوال یہ نہیں ہے کہ جو رسول نے فرمایا وہ قابل قبول ہے یا نہیں؟ یقیناً‌ وہ قابل قبول ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو کچھ ان کتب میں‌ہے ان میں سے کتنا کچھ رسول اکرم کا فرمایا ہوا ہے۔ اس کا واحد پیمانہ میرے نزدیک قرآن حکیم ہے ۔ اسک کا متن، اس کی ترتیب، اس کے معانی۔ اس کا مفہوم، سب میرے ایمان کا حصہ ہیں ۔ جو منطقی نہیں۔ اگر آُپ کے نزدیک کچھ اور ہے تو آپ کو مبارک۔
میرے محترم آپکی بھی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سب مسلمانوں کے نزدیک مسلمہ طور پر کسی بھی حکم کو جانچنے کے اصل اور اولین پیمانے قرآن و سنت ہی ہیں اور پھر قرآن حکیم کو سنت پر افق حاصل ہے اس اعتبار سے کہ کسی بھی مسئلہ کو پہلے قرآن میں دیکھا جائے گا یا قرآن پر پیش کیا جائے گا نہ کہ اس اعتبار سے کہ قرآن تو حجت ہے مگر سنت حجت نہیں ہے لہذا قرآن کے پیمانہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ایک چیز قرآن میں مزکور نہیں ( یا پھر کسی ماہر قرآن کے پاس اتنا وصف نہیں کہ وہ خوب گہرائی میں غوطہ زن ہوکر قرآن سے کسی بھی چیز کو ڈھونڈ نکالے) تو وہ چیز مخالف قرآن ہے ۔ (کیونکہ عد م ذکر کبھی بھی ممانعت کی دلیل نہیں ہوا کرتا) بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی حدیث یا حدیث سے ثابت کسی بھی حکم کو قرآن پر ہی پیش کیا جائے گا اور اُس پیش کیے جانے کا یہ مقصد ہوگا کہ کہیں یہ حکم قرآن کی کسی آیت کی صریحا یا خفیا خلاف تو نہیں کہیں اس کا ٹکراؤ تو نہیں ہورہا کسی آیت کے ساتھ اگر نہیں تو پھر حدیث کے صحیح ہونے کی صورت میں اس حدیث سے ثابت شدہ اس حکم پر عمل کرنا واجب ہوگا ۔ ۔ ۔ اور نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ آج 14 سو سال بعد کوئی بندہ اپنے فھم و فراست کے مطابق اگر کسی بھی چیز کو (اصولا ہا تفصیلا )اگر قرآن میں نہیں پاتا تو وہ مذکورہ چیز کے وجود سے ہی انکار کردے یہ کہہ کر کہ فلاں چیز تو قرآن کے خلاف ہے اور جب اس سے ثبوت مانگا جائے کہ کہاں خلاف ہے تو وہ آگے سے جواب دے کہ دیکھو قرآن اس کی توثیق نہیں کرتا پوچھا جائے کیسے توثیق نہیں کرتا تو آگے سے جواب دے کہ فلاں چیز قرآن میں موجود ہی نہیں یعنی اس کا ذکر ہی نہیں ۔ ۔ ۔ جو شخص کسی شئے کے مذکور اور عدم مذکور کو کسی بھی شئے کے وجود یا عدم وجود سے تعبیر کرئے یا پھر توثیق اور عدم توثیق پر محمول کرئے ایسے شخص کی قرآن دانی اور قرآن فھمی پر اگر انا للہ وانا الیہ راجعون نہ پڑھا جائے تو آپ ہی بتائیے کہ اور کیا کیا جائے ۔ ۔ ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
ایک بات جس کا مجھے شبہ تھا کہ آپ بنا پڑھے سوال و جواب کرتے ہیں وہ پورا ہوگیا۔ اب یہ بہت واضھ ہے کہ آپ نے قرآن با معنی نہیں‌پڑھا اور اس پر کوئی تدبر نہیں‌کیا بلکہ انسانوں‌کی لکھی ہوئی کتب سے متاثر ہیں۔ انشاء اللہ آہستہ آہستہ آپ جوں جوں‌قران پر تدبر کریں‌گے بہتر ہوتے جائیں گے۔
اگر آپ اجازت دیں تو پہلے میں تھوڑا سا ہنس ناں لوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر آپ نے فرمایا کہ میں نےقرآن با معنٰی نہیں پڑھا اور اس پر کوئی تدبر نہیں کیا بلکہ میں یعنی آبی ٹوکول انسانوں کی لکھی ہوئی کتب سے متاثر ہوں ۔ ۔ ۔ اور جوں جوں میں بذات خود تدبر کروں گا (آپکی طرح معاذاللہ ) بہتر ہوجاؤں گا ۔ ۔ اجی قبلہ یہ فرمایئے وہ تدبر جو میں(بذات خود ) قرآن پر کروں گا کیا وہ غیر انسانی ہوگا ؟ وہ انسانی تدبر نہیں ہوگا؟ تو پھر کیا گارنٹی ہے کہ میرا کیا ہوا تدبر توحق ہواور اُس کے نتیجے میں، میں قرآن فھمی میں بہتر ہوجاؤں گا جبکہ مجھ سے پہلے اُن سینکڑوں اکابرین کے جن کی اپنی مادری زبان ہی عربی تھی ان کا کیا ہوا تدبر گمراہی کی طرف لے جائے ؟ پچھلے کئی سوالوں کی طرح یہ سوال بھی آپ پر اُدھار رہا ۔ ۔ ۔


صاحب جو وحی مسالمانوں کے واسطے رسول اکرم پر اتری وہ کامل قرآن میں‌ موجود ہے۔ اس کے باہر اس وحی پر ایمان رکھنا آُپ کا ایمان ہے اُپ رکھئے۔ یہ اللہ کی شان میں‌کس قدر بڑی گستاخی ہے کہ اس کی کتاب کا مذاق آرایا جائے اور کہا جائے کہ یہ کتاب نعوذ‌باللہ نامکمل ہے - باقی وحی تو ادھر ادھر بکھری پڑی رہی ہے -۔ اور وہ بھی صرف سنیوں کی کبھی ‌ چار ، کبھ دو کبھی چھ کتب میں فرقوں‌کے مطابق - لاحول ولا قوۃ ۔ یہ جو وحی ‌شیعہ حضرات کی کتب میں‌ہے وہ قابل قبول نہیں۔ کیا بات ہے؟ بھائی مان لو کہ وہ وحی جو مسلمانوں‌تک پہنچانا اللہ کو مقصود تھی وہ صرف اور صرف قرآن میں‌موجود ہے۔ باقی اللہ اور اس کے رسول صلعم کے درمیان کیا معاملات ہوئے یہ کسی لکھے ہوئے رسالہ میں نہیں شائع ہوئے۔ جو کچھ اللہ تعالی نے انسانوں کو پہنچانا تھا وہ قرآن میں شامل کیا اور اس کو آخری کتاب قرار دے کر اس پر اليوم اكملت لكم دينكم کی مہر نہ لگاتا۔
گستاخی کون کررہا ہے قرآن و سنت کی شان میں اور ان دونوں کے توسط اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہ کسی کو بتلانے کی ضرورت نہیں بلکہ سب پر عیاں ہے ۔ ۔ آپ نے فرمایا وحی صرف وہی ہے جو کہ قرآن کی صورت میں نازل ہوئی اور دلیل کے طور پر کسی آیت کو پیش نہیں کیا بلکہ کلمات حصر (جو وحی اور دوسری جگہ ۔۔ جو کچھ اللہ تعالی نے انسانوں کو پہنچانا تھا وہ قرآن میں شامل کیا ) لگا کرمطلق سنت کا انکار کردیا قارئین کرام دیکھ سکتے ہیں کہ بار بار منکرین حدیث ہونے سے انکار کرنے والا شخص کس طرح اللہ کو جو کچھ پہنچانا تھا کہ کلمات حصریہ لاکر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حجیت کا مطلقا انکار کرتا ہے اور اس طرح در حقیقت وہ خود قرآن کا اور پھر ضرورت رسالت بلکہ نفس رسالت کا انکار کرتا ہے معاذاللہ ثم معاذاللہ
 
جب تک آپ قرآن خود سے پڑھنے سے انکار کرتے رہیں گے ۔ کوئی بحث بے معنی ہے۔ کم از کم قرآن کو ایک بار پڑھئے بامعانی پھر بات کرتے ہیں۔

آپ کی پچھلی دونون تحاریر کا مفصل جواب کئی بار اسی دھاگہ میں دیا جاچکا ہے۔

آپ نے اب بھی کسی آیت سے حوالہ نہیں دیا نہ ہی کیس مستند سنت رسول سے۔ باقی آپ کی اپنی منطق ہے۔ کہ ایسا ہے تو ایسا ہے تو ایسا ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ دل لگا کر قران کا مطالعہ فرمائیے۔

http://www.openburhan.net/
دیکھئے ، آپ کی آسانی کے لئے ہر آیت کے 23 عدد تراجم موجود ہیں۔ آپ ایک چھوٹا سا کام کیجئے۔ جباب مودودی صاحب کا ترجمہ اس سائٹ پر شامل کرنے میں مدد کیجئے۔ باترجمہ قرآن کا صرف ایک مطالعہ آپ کے خیالات کو بہت جلا بخشے گا۔ اور مجھ جیسے نامعقول شخص‌کی کجی اور خامیوں‌ کو درست کرنے میں بہت مدد کرے گا۔
 
اگر آپ کو سنت اور وحی کا فرق نہیں‌معلوم اور آپ ان دونوں کو ایک سمجھتے ہیں تو بھائی آُپ کو مبارک۔

آپ سنت میں اور بازار میں‌دستیاب کتب میں‌ بھی مغالطہ کررہے ہیں۔ کسی بھی روایت کو سنت ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کو قران سے پرکھا جائے۔ یہ رسول اکرم کا قول ہے اور اسی دھاگہ میں‌پیش کیا جاچکا ہے۔ اگر ایک روایت قرآن کے مخالف ہے تو آپ کو کس طور پر ایک قابل قبول سنت ، قول یا فعل رسول اکرم نظر آتی ہے؟‌ وضاحت فرمائیے؟

1۔ قران کی کسی آیت سے یا کسی مستند روایت سے ثابت کیجئے کہ رسول سے کسی کی بھی لکھی ہوئی کتاب میں جو کچھ بھی منسوب کیا جائے آنکھ بند کرکے مان لو۔

2۔ مزید یہ کہ اُ‌پ کے پاس ضعیف روایات کی جو لسٹ‌ہے وہ یہاں‌پوسٹ‌ فرمادیجئے تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔

3۔ مہربانی کرکے یہ فرمائیے کہ کیا آُپ ‌نے مکمل قرآن باترجمہ پڑھا ہے؟ اس سوال کی بنیاد پر آپ سے قرآن سے کچھ سوالات کروں‌ گا، تاکہ اندازہ ہو کہ آپ کی اپنی قرآن فہمی کس قدر ہے؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
جب تک آپ قرآن خود سے پڑھنے سے انکار کرتے رہیں گے ۔ کوئی بحث بے معنی ہے۔ کم از کم قرآن کو ایک بار پڑھئے بامعانی پھر بات کرتے ہیں۔

آپ کی پچھلی دونون تحاریر کا مفصل جواب کئی بار اسی دھاگہ میں دیا جاچکا ہے۔

آپ نے اب بھی کسی آیت سے حوالہ نہیں دیا نہ ہی کیس مستند سنت رسول سے۔ باقی آپ کی اپنی منطق ہے۔ کہ ایسا ہے تو ایسا ہے تو ایسا ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ دل لگا کر قران کا مطالعہ فرمائیے۔

http://www.openburhan.net/
دیکھئے ، آپ کی آسانی کے لئے ہر آیت کے 23 عدد تراجم موجود ہیں۔ آپ ایک چھوٹا سا کام کیجئے۔ جباب مودودی صاحب کا ترجمہ اس سائٹ پر شامل کرنے میں مدد کیجئے۔ باترجمہ قرآن کا صرف ایک مطالعہ آپ کے خیالات کو بہت جلا بخشے گا۔ اور مجھ جیسے نامعقول شخص‌کی کجی اور خامیوں‌ کو درست کرنے میں بہت مدد کرے گا۔
اجی چھوڑئیے بھی حضرت اب بھلا ہم انسانوں کے لکھے ہوئے ترجمے پڑھ کر تدبر قرآن کریں گے آپ بھی کیا بات کرتے ہیں ۔ ۔ ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
اگر آپ کو سنت اور وحی کا فرق نہیں‌معلوم اور آپ ان دونوں کو ایک سمجھتے ہیں تو بھائی آُپ کو مبارک۔
تو بھائی میرے آپ قرآن کی کسی آیت سے مجھے سنت اور وحی کا فرق بتادیں پھر ررررررررررررررر
آپ سنت میں اور بازار میں‌دستیاب کتب میں‌ بھی مغالطہ کررہے ہیں۔ کسی بھی روایت کو سنت ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کو قران سے پرکھا
جائے۔ یہ رسول اکرم کا قول ہے
اور اسی دھاگہ میں‌پیش کیا جاچکا ہے۔ اگر ایک روایت قرآن کے مخالف ہے تو آپ کو کس طور پر ایک قابل قبول سنت ، قول یا فعل رسول اکرم نظر آتی ہے؟‌ وضاحت فرمائیے؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول قرآن کی کس آیت میں مذکور ہے جو آپ کے لیے فقط یہی قول اتنی شدید حجت ٹھر گیا ہے ۔ ۔ ۔

1۔ قران کی کسی آیت سے یا کسی مستند روایت سے ثابت کیجئے کہ رسول سے کسی کی بھی لکھی ہوئی کتاب میں جو کچھ بھی منسوب کیا جائے آنکھ بند کرکے مان لو۔
جب ہمارا یہ دعوٰی ہی نہیں تو پھر ہم سے یہ سوال چہ معنٰی دارد ؟

2۔ مزید یہ کہ اُ‌پ کے پاس ضعیف روایات کی جو لسٹ‌ہے وہ یہاں‌پوسٹ‌ فرمادیجئے تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔
اس پر محدثین نے جو کام کیا اس کی جانب رجوع کیا جائے ۔ ۔ ۔ ۔

3۔ مہربانی کرکے یہ فرمائیے کہ کیا آُپ ‌نے مکمل قرآن باترجمہ پڑھا ہے؟ اس سوال کی بنیاد پر آپ سے قرآن سے کچھ سوالات کروں‌ گا، تاکہ اندازہ ہو کہ آپ کی اپنی قرآن فہمی کس قدر ہے؟
الحمد اللہ کئی بار پڑھ رکھا ہے اور بہت سے مترجمین کو پڑھ رکھا اور اسکے ساتھ کئی مفسرین کو بھی پڑھ رکھا قریبا تمام مکاتب فکر کی بہت ساری تفاسیر پاکستان میں میری ذاتی لائبریری کا حصہ ہیں ۔ ۔ ۔ آپ کریں جو سوال کرنا ہے میں اپنے ناقص مطالعہ کے مطابق جواب دینے کی کوشش کروں گا ۔ ۔ ۔
 
1۔ قران کی کسی آیت سے یا کسی مستند روایت سے ثابت کیجئے کہ رسول سے کسی کی بھی لکھی ہوئی کتاب میں جو کچھ بھی منسوب کیا جائے آنکھ بند کرکے مان لو۔
جب ہمارا یہ دعوٰی ہی نہیں تو پھر ہم سے یہ سوال چہ معنٰی دارد ؟
اگر آپ کا یہ دعوی نہیں ہے تو پھر آپ بندہ کو وہ طریقہ بتادیجئے جس سے کسی بھی منسوب شدہ روایت کی توثیق کی جاسکے؟ اپنے طریقہ پر روشنی ڈالئے؟ اور فرمائیے کہ وہ قرآن کیوں‌نہیں‌، جبکہ یہ خالق حقیقی کا پیغام ہے؟

3۔ مزید یہ کہ اُ‌پ کے پاس ضعیف روایات کی جو لسٹ‌ہے وہ یہاں‌پوسٹ‌ فرمادیجئے تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔
اس پر محدثین نے جو کام کیا اس کی جانب رجوع کیا جائے ۔ ۔ ۔ ۔
آج تک کی تاریخ‌میں میری نظر سے کوئی کتاب ایس نہیں گذری جس میں ضعیف روایات کی کوئی بھی مارکنگ ہو۔ یہ کسی کی اپنی صورت حال پر ہے کہ جوں ہی گھر جاتا ہے فوراً حدیث گھڑی ہوئی یا ضعیف قرار دیتا ہے۔ آپ کو نہیں‌کہہ رہا۔ لہذا جب ایسی لسٹ انٹر نیٹ‌پر پوسٹ ہوجئے گی تو ہم اس کے بعد دیکھیں گے کہ کیاباقی بچا اور اس میں سے کیا قابل اعتراض‌ہے۔ اس وقت تک آپ کسی بھی کتاب میں موجود منسوب شدہ روایت کو پرکھنے کا طریقہ عطا فرمائیے۔ میرا تمام فوکس اس بات پر ہی رہا ہے۔ بس،

برادر من مجھے آپ کو آزمانا مقصود نہیں۔ یہ آپ کا اپنا کام ہے۔ ہدایت دینے والی ذات پاک صرف اللہ تعالی کی ہے۔ اس کی کتاب بہت ہی اعلی و ارفع ہے،اپنی ذاتی سوچ سے کھلے دل سے اس کتاب کو پڑھئے۔ تمام صحیح سنتیں اور اقوال و افعال رسول اس کی روشنی میں ایسے جگمگا اٹھتے ہیں کہ آپ کو دشواری ہی نہیں ہوتی ان کو پہچاننے میں اور جو اقوال ضعیف ہیں وہ ایسے ماند پڑ جاتے ہیں کہ اس میں بھی دشواری نہیں ہوتی۔ یہ یقیناً قران کا وہ اعجاز ہے جو جاری و ساری ہے۔
 
Top