برادران: آبی ٹو کول اور باذوق ، سب سے پہلے ایک بہترین سوال کرنے کا شکریہ۔ میںاس جواب میں صرف اور صرف قرآن کے کتابت شدہ نسخہ تک محدود رہا ہوں۔ جب آپ لوگ اس پر متفق ہوجائیں گے تو پھر کتب روایات کی بات کریںگے۔
قران کسی کی سنی سنائی اسناد سے آپ تک نہیں پہنچا۔ یہ رسول اللہ صلعم پر نازل ہوا، خود ان کے ہاتھوں لکھایا گیا۔ ہر آیت -- لکھی ہوئی -- کم از کم دو اصحابہ کے پاس ملی، جس سے مصحف عثمانی ترتیب دیا گیا۔ اس بات کا ثبوت آُپ کو کئی مرتبہ پہنچا چکا ہوں۔ گو کہ میں اس پر اپنی ذاتی ریسرچ کر چکا ہوں لیکن اس ریسرچ کے بغیر بھی میں اس پر یقین رکھتا ہوں اور یہ میرا ایمان ہے۔
"قرآن اپنے نزول کے ساتھ ساتھ لکھا جاتا رہا۔ حفاظ نے اس کو ذاتی طور پر یاد بھی رکھا لیکن لکھا ہوا ہمیشہ موجود تھا اور وہ مصحف عثمانی جس کی ہر آٰیت کم از کم دو اصحابہ کو یاد تھی اور ساتھ ساتھ لکھی ہوئی بھی تھی، اس مصحف ّعثمانی کی کم از کم 3 کاپیاں میری ریسرچ کے مطابق موجود ہیں اور ایک سے زائید آزاد تحقیق کے مطابق اس کا عربی مواد لفظ بہ لفظ موجودہ قرآن سے ملتا ہے۔ " میری استدعا ہے کہ آپ اس موضوع پر ذاتی ریسرچ کیجئے۔ اس کو پڑھنے میں وقت لگے گا، اور حوالہ جات کو پڑھنے میںبھی وقت لگے گا۔ آپ اس کو پڑھ کر اپنے عقائد کے مطابق اس کی تائید یا اس پر تنقید کیجئے۔
السلام علیکم محترم جناب فاروق سرور صاحب ! سب سے پہلے تو آپ پر ہم یہ واضح کردیں کہ ہمارا بھی یہ ایمان وایقان ہے کہ قرآن اللہ پاک کی کتاب ہے جو کہ نبی آخر الزماں خاتم النبین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور وحی نازل ہوئی ۔ اور آج جو قرآن پاک ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے یہ بعینہ (سورتوں اور آیات میں اپنی ترتیب کے اعتبار سے )وہی قرآن ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نازل ہوا
اور ہمارے اس ایمان کی بنیاد کسی بدیہی(یعنی منطقی) دلیل پر نہیں ہے بلکہ ہمارے قرآن پر اس ایمان کا تعلق خود ایمان ہی کی وجہ سے ہے کہ یہ اس کا تقاضا ہے لہزا ہم بھی قرآن کو قرآن اس لیے مانتے ہیں کہ زبان مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ قرآن ہے اور آپکی زبان پر اعتماد کرکے صحابہ نے ہم تک پہنچایا کہ یہ قرآن ہے ۔ رہ گئے عقلی حوالےسے اس یعنی قرآن کی تدوین کی بابت ہمارےآپ پر سوالات تو ان سب سوالوں کا مقصد
الزامی ہے کہ جس دلیل(
یعنی کتابت احادیث) کی بنیاد پر آپ احادیث کو جھٹلاتے ہیں بعینیہ وہ تمام دلائل آپ کو قرآن کی بابت پیش کیے جائیں ۔ ۔ ۔
ابآتا ہوں اصل مسئلہ کی جانب آپ نے اس باب (
یعنی کتابت ) قرآن پاک کے بارے میں جتنی بھی تحقیق مرحمت فرمائی اس تمام کا نچوڑ آپ نے یہ کہہ کر بیان کیا ہے کہ آگے آپ کے الفاظ سرح رنگ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قرآن اپنے نزول کے ساتھ ساتھ لکھا جاتا رہا۔ حفاظ نے اس کو ذاتی طور پر یاد بھی رکھا لیکن لکھا ہوا ہمیشہ موجود تھا اور وہ مصحف عثمانی جس کی ہر آٰیت کم از کم دو اصحابہ کو یاد تھی اور ساتھ ساتھ لکھی ہوئی بھی تھی، اس مصحف ّعثمانی کی کم از کم 3 کاپیاں میری ریسرچ کے مطابق موجود ہیں اور ایک سے زائید آزاد تحقیق کے مطابق اس کا عربی مواد لفظ بہ لفظ موجودہ قرآن سے ملتا ہے۔ " میری استدعا ہے کہ آپ اس موضوع پر ذاتی ریسرچ کیجئے۔ اس کو پڑھنے میں وقت لگے گا، اور حوالہ جات کو پڑھنے میںبھی وقت لگے گا۔ آپ اس کو پڑھ کر اپنے عقائد کے مطابق اس کی تائید یا اس پر تنقید کیجئے۔
یعنی آپ اپنا سارا تحقیقی زور صرف کرکے بھی موجودہ قرآن پاک کو (
تدوینی اعتبارسے) جس
نسخہ کے ساتھ مطابقت دے پائے ہیں وہ
مصحف عثمانی ہے جبکہ آپ کا دعوٰی یہ ہے کہ ۔ ۔
۔قرآن اپنے نزول کے ساتھ ساتھ لکھا جاتا رہا۔ حفاظ نے اس کو ذاتی طور پر یاد بھی رکھا لیکن لکھا ہوا ہمیشہ موجود تھاجب قرآن اپنے نزول کے وقت سے ہی ہمیشہ لکھا جاتا رہا ۔ ۔ ۔ اور لکھا ہوا ہمیشہ سے محفوظ تھا
تو پھر صحابہ کرام کو دور صدیق میں قرآن پاک کو موجودہ ترتیب کے ساتھ ایک مصحف میں جمع کرکے خاص ایک نسخہ کی شکل دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟اور قرآن دور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی (بقول آپکے اس دعوٰی کے کہ ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن لکھا ہوا ہمیشہ موجود تھا) جب وہ ہمیشہ موجود تھا تو امت اس کو
مصحف عثمانی کے نام سے کیوں یاد کرتی ہے ؟
اسے مصحف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا مصحف محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں پکارا جاتا؟ ہمارا سوال آپ سے یہ ہے کہ
مصحف عثمانی سے پہلے کا دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی
ایک بھی تدوینی نسخہ آپکے پاس ہے تو ثابت کیجئے اور دکھلایئے ہمیں کہ وہ نسخہ کہاں ہے ۔ ۔۔ اور ثانیا ہمارا اصل اعتراض آپکے اس جملے پر تھا کہ جس کو سہارا بنا کر آپ سارے کے سارے ذخیرہ احادیث کو ہی جٹھلادیتے ہیں اگرچہ آپ اس جھٹلانے کو بڑے تکنیکی پیرائے میں پیش کرتے ہیں کہ عام قاری آپکی لفاظی سے احادیث کو جھٹلانے کا مفھوم اخذ نہیں کرپاتا آپ کا وہ جملہ معترضہ جو کہ آپکی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ ۔
اور دوسری طرف یہ اگر کوئی روایت قرآن کے خلاف بھی ہو تو یہ اس کے ساتھ انسانی اسناد لگا کر اپنی پیش کردہ روایات کو مستند قرار دیتے ہیں ، چاہے وہ قران کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
اس پر ہم نے یہ کہہ کر اعتراض کیا تھا کہ ۔ ۔ ۔
۔ہمارے الفاظ ۔ ۔ معاف کیجئے گا محترم اگر آپ کے نزدیک احادیث کو انسانی اسناد لگا کر مستند بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ قرآن کونسی الہامی (یعنی غیر انسانی )اسناد کے زریعے آپ تک پہنچا ہے؟اس کا ابھی تک کوئی معقول جواب آپ نہیں دے پائے ۔ ۔ ۔ اور جو جواب آپ نے دیا ہے وہ انھی
انسانی اسناد کی گواہیوں پر مبنی ہے اوران گواہیوں کو آپ یہ کہہ کر متعارف کرواتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپکے الفاظ سرخ رنگ میں
اصحابہ کرام سے منسوب روایتوں میں درج ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ترتیب دیا ہوا قران، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس رہا اور اس کے بعد حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس رہا۔ اس قرآن سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ترتیب کرائے ہوئے قرآن کا موازنہ کیا گیا۔ نیز قرآن پاک کے اولین نسخہ کے عنوان کے تحت آپ نے جو روایت بیان کی ہے اس میں بھی کتابت کی نسبت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر منتہاء ہوتی ہے جسے آپ نے درج زیل(سرخ) الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ ۔ ۔
ابتدائی قرآن کی کتابت کی تاریخ:
قرآن کا اولیں نسخہ:
1۔ حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم ، قرآن اپنی نگرانی میںلکھواتے تھے اور حفاظ اس کو یاد بھی کرلیتے تھے۔ رسول اکرم صلعم کی موجودگی میں ان لکھوائے ہوئے اوراق کی مدد سے اور حفاظ کرام کی مدد سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلا نسخہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی نگرانی میں ترتیب دلوایا، کہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اکرم خود لکھوایا کرتے تھے (حوالہ نیچے)۔ اور ایک مزید نسخہ بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے انہی شرائط پر دوبارہ ترتیب دلوایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اس نسخہ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے نسخے کو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس سے منگوا کر موازنہ کروایا ( گواہی کا حوالہ نیچے دیکھئے)
2۔ حضرت حفصہ بنت عمر الخطاب رضی اللہ تعالی عنہا ، رسول اکرم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں۔ قرآن کا ایک نسخہ ان کے پاس موجود تھا۔ (حوالہ نیچے دیکھیں) یہ نسخہ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کاغذ پر لکھے ہوئے کی مدد سے اور حفاظ کرام کی مدد سے سے لکھوایا تھا، یہ کام زید بن ثابت نے کیا ۔ یہ نسخہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچا اور پھر حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس پہنچا۔
اس میں آپ زیادہ سے زیادہ جو ثابت کرپائے ہیں وہ یہ ہے کہ قرآن پاک کی مصحف کی شکل میں باقاعدہ کتابت صدیق اکبر نے کروائی اور آپ نے یہاں تک پہنچنے میں
جس تحقیق کا سہارا لیا وہ تمام
کی تمام احادیث پر ہی مبنی ہے لیکن آپ اس کو حدیث کہنے سے گریز کرتے ہیں اور اسکے لیے ایک
جدید اصطلاح تاریخی امور کو وضع کرتے ہیں کیونکہ لفظ
حدیث سے بنیادی طور پر آپ کو چڑ ہے ۔ ۔ چلیئے ہم آپکی اس اصطلاح کو بھی مان لیتے ہیں ہمیں یہ بتلایئے کہ یہ
گواہیاں جو بقول آپکے تاریخی امور ہیں حدیث رسول یا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ان گواہیوں کی قبولیت کا مدار وہی زبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس کو آپ نے خود بھی درج زیل الفاظ میں تسلیم کیا ہے ۔ ۔ ۔آپکے الفاظ جو کہ آپ نے مصحف صدیقی کے اول مرتبین کی شرائط کے بطور رقم کیئے ہیں ۔ ۔ ۔
اس ترتیب دینے کی شرائط یہ تھیں۔
1۔ ہر وہ شخصجسے قرآن کی ایک بھی آٰیت یاد تھی ، وہ زید بن ثابت کے پاس آیا اور وہ آٰیت دہرائی۔
2۔ جس کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کوئی آیت لکھی تھی وہ زید بن ثابت کے پاس لے کر آیا
3۔ زید بن ثابت نے کوئی بھی ایسی آیت قبول نہیںکی جو رسول اکرم کی موجودگی میں نہیں لکھی گئی تھی۔
مندرجہ بالا فقرات میں ہمارے سرخ اور نمایاں کیئے گئے الفاظ پر کوئی بھی زی فہم اگر غور کرئے گا تو اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ حضرت زید بن ثابت کے کسی بھی آیت کو
قبول اور رد کرنے کا معیار اس
آیت کا قرآن ہونا نہیں تھا بلکہ
زبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھا لہذا آپکی پیش کردہ عبارت سے ہمارے اس دعوے کی تصدیق ہوگئی کہ قرآن کو قرآن ماننے میں صحابہ نے ذات رسول اور زبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی اعتماد کیا وگرنہ فرشتے کا نزول ہمیشہ صحابہ کے سامنے نہیں ہوا کرتا تھا ۔ ۔ اور یہی دعوٰی ہم نے اسی موضوع پر کسی اور تھریڈ میں بھی کیا تھا کہ جسکا باہم ثبوت آپ نے یہان فراہم کردیا اور ہمارے دعوے پر
الفضل ماشھدت بہ العداء کی مصداق تصدیق کی مہر ثبت فرمادی الحمد اللہ
لہذا ثابت ہوا کہ موجود ہ قرآن کا قرآن ہونا احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ثابت ہے کیونکہ حدیث کی تعریف ہی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا فعل یا پھر صحابہ کا آپ کی موجودگی میں کوئی عمل کرنا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموشی اختیار فرمانا لہزا فاروق صاحب کی بیان کردہ اولین شرائط میں جو بنیادی شرط ہے قرآن کو قرآن سمجھ کر مصحف صدیقی میں جمع کرنے کی وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی ہے جسے ان الفاظ میں فاروق صاحب نے بیان فرمایا ہے کہ ۔ ۔
۔زید بن ثابت نے کوئی بھی ایسی آیت قبول نہیںکی جو رسول اکرم کی موجودگی میں نہیں لکھی گئی تھی۔ اب جو بھی صحابی جس بھی آیت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کتابت کیا کرتا تھا اس کو آیت کو تو قرآن مانا گیا اور اس کے قرآن ہونے کی شہادت کے بطور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کو لازمی قرار دیا گیا وگرنہ اگر کوئی اور صحابی بلفرض کسی بھی آیت کا ذکر کرتا لیکن اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی ثابت نہ ہوپاتی تو اس کو قرآن نہیں سمجھا گیا ۔۔ لہزا یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت زید بن ثابت نے ہر اس آیت کو قرآن سمجھ کر لکھ دیا جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تقریری سے ثابت تھی یعنیآپکے سامنے یعنی آپکی موجودگی میں کسی صحابی نے لکھی اور آپ نے اس پر خاموشی اختیار کی ۔ الحمداللہ آپکے قلم نےخود ہی احادیث مبارکہ کا حجت ہونا بیان کردیا ۔ ۔ ۔ ۔
آخرمیں چند امور کی وضاحت اور پھر فاروق صاحب چند سوالات کرکے اجازت چاہوں گا ۔ ۔۔
ہمارا ایمان ہے کہ
موجودہ جو قرآن ہے یہ وہی قرآن پاک ہے کہ جس کا نزول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو ا اور ہم اس
قرآن کو قرآن اس لیے مانتے ہیں کہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے
اسکی خبر دی اور فرمایا کہ یہ قرآن ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
زبان پر ہی اعتماد کرتے ہوئے تمام صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے
قرآن سمجھا اور پھر ان میں سے بعض صحابہ اسکی کتابت کرنے میں مشغول ہوگئے اور اکثر نے اسے
زبانی طور پر یاد کرلیا اور پھر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا یہاں تک کہ دور
صدیقی اور عثمانی تک اس سلسلے کا زیادہ تر انحصار تو زبانی روایت یعنی
سینہ بہ سینہ روایت ہی (
بالکل اسی طرح جس طرح اوائل دور میں حدیث کی کتابت تو تھی مگر اسکی حفاظت کا زیادہ تر انحصار سینہ بہ سینہ روایت کی شکل میں تھا ) پر رہا لیکن پھر جب ایک جنگ میں بہت سے حفاظ کرام صحابہ کی شہادت ہوئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اسکی
حفاظت کی بابت خدشہ لاحق ہوا اور آپ نے باقاعدہ اس (
یعنی قرآن ) کی کتابت کا مشورہ امیر المؤمنین کو دیااور یوں پھر اسکو یعنی قرآن کو اس کی حفاظت کی
دُہری تدبیر کے پیش نظر اس کو باقاعدہ
ایک مصحف کی شکل میں جمع کردیا گیا تاکہ قرآن کو ہر طریقے سے محفوظ رکھا جاسکے (
بالکل اسی طرح کا خدشہ جب مؤمنین کو حدیث کی بابت لاحق ہوا تو حدیث کو بھی باقاعدہ تدوینی شکل میں جمع کیا جانے لگا حالانکہ دور اوائل یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں بھی احادیث کی تدوین بطور کتابت رائج تھی مگر زیادہ تر انحصار سینہ بہ سینہ روایات پر تھا ) لیکن یاد رہے کہ قرآن کو
مصحفی شکل میں جمع کرنے کا انحصار زیادہ تر ان
سینہ بہ سینہ زبانی روایات پر ہی تھا کہ جن
کی تلاوت کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
موجودگی کی صورت میں ملتا اور پھر لازمی طور پر اس میں وہ
مکتوبہ روایات بھی موجود تھیں کہ جن کی
کتابت کا ثبوت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
موجودگی کی صورت میں ملتا تھا ۔ ۔ ۔ لہزا روایت کتابی شکل میں محفوظ ہو یا پھر سینہ بہ سینہ دونوں صورتوں میں ان روایات کے
قرآن ہونے کا مدار ذات مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہی قرار پاتی ہے کہیں اپنے اس قول (
حدیث قولی) کی صورت میں کہ یہ
اقراء باسم ربک الذی خلق قرآن کی فلاں صورت کی فلاں آیت ہے اسے فلان مقام پر لکھ لو اور کہیں صحابہ کرام کی کسی آیت پر
تلاوت یا کتابت پر خاموشی
(یعنی حدیث تقریری) کی صورت میں ۔ ۔ ۔ فرق قرآن و حدیث میں یہ ہے کہ قرآن پاک کی
ہر ہر آیت اپنے قرآن ہونے
میں قطعی الثبوت بالتواتر ہے اوراس کا یہ تواتر قرات قرآن کی صورت میں بھی ثابت ہے اور نقل قرآن کی صورت میں بھی ثابت ہے جبکہ حدیث جو بھی محفوظ کی گئی اس میں ہر ہر حدیث اپنے ثبوت میں (یعنی قرات اور نقل )میں
قطعی الثبوت بالتواتر نہیں (
باوجود اسکے کہ احادیث سے ثابت بہت سے امور کو سنت کی حیثیت سے امت میں ہمیشہ سےتواتر عملی حاصل رہا ہے )ہے اسی لیے قرآن کا
درجہ اول ہے پھر حدیث کا ہے کہ
قرآن ثبوت اور نقل دونوں میں قطعی الثبوت بالتواتر ہے جبکہ ہر ہر حدیث ثبوت اور نقل دونوں میں
قطعی الثبوت بالتواتر نہیں ۔ ۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ
تواتر کی شرط بھی کوئی
الہامی دلیل نہیں ہے بلکہ ایک منطقی یعنی بدیہی دلیل ہے کہ ایک چیز کو اتنے بندے نقل کریں کہ جن سب کا
جھوٹ پر متفق ہونا عقلا محال ہو لہذا قرآن کی ہر ہر آیت اس منطقی دلیل کے مطابق
قطعی الثبوت بالتواتر ہے جب کے حدیث کے ساتھ ہر ہر حدیث میں یہ معاملہ نہیں ہاں یہ بات الگ ہے کہ جب حدیث کو باقاعدہ طور پر محدثین نے اپنی اپنی کتابوں کی صورت میں جمع کیا تو اب ان مصنفین تک ان کتابوں کا ثبوت بلاشبہ
تواتر کو مستلزم ہے کہ بخاری سے بخاری کو روایت کرنے والے تواتر کی شکل میں موجود ہیں اور پھر ان سب کتابوں پر اعتماد کرنے والی تمام امت کو بھی
تواتر کا وہی درجہ حاصل ہے جو کہ
بدیہی اعتبار سے نقل قرآن کی بابت
قرآن کے ثبوت کو حاصل ہے لیکن یہ امر جدا ہے کہ ان کتابوں کا تواتر ان کے مصنفین تک ہے جو کہ ان کتابوں کے
حق ہونے کی عقلی دلیل ہے جب کے ان کے مصنفین سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر ہر حدیث میں تواتر کا پایا جانا ایک الگ امر ہے جو کہ ہر ہر حدیث کو نصیب نہیں اسی لیے حدیث کو
خبر واحد اور خبر تواتر میں تقسیم کیا گیا جبکہ قرآن سارے کا سارا
خبر تواتر ہی ہے قرآن کی ایک آیت بھی خبر واحد نہیں ۔ ۔ ۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ جس کا جب جی چاہے منہ اٹھا کر تمام کے
تمام ذخیرہ حدیث کو باطل اور جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر ناقابل حجت قرار دے دے ۔ اور بالخصوص قرآن کے ساتھ حدیث کا مقابلہ کرنا شروع کردے حالانکہ قرآن اپنے نزول
اور الفاظ دونوں کے اعتبار سے شان اعجاز رکھتا ہے کہ یہاں اصل لفظ ہیں جو روح القدس کے ذریعے حق تعاٰلی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائے برخلاف اسکے سنت بھی وحی تھی مگر حق تعاٰلی نے اسکے الفاظ نہیں
صرف معنٰی کا نزول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فرمایا اسی لیے قرآن کی تلاوت کا حکم ہے اور اسکی تلاوت قرآن ہی کہلاتی ہے برخلاف اسکے
ترجمے اور مفھوم کی تلاوت کے کہ وہ حکم تلاوت قرآن کے تحت نہیں آتا لہزا قرآن کی تلاوت میں
روایت بالمعنٰی جائز نہیں اور نہ ہی اس کے الفاظ میں کسی قسم کا تغیر و تبدل جائز ہے برخلاف اسکے کہ حدیث چونکہ معنٰی اور مطالب کے لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی لہذا اس میں
روایت بالمعنٰی کی اجازت ہے ۔ لہذا ثابت ہوا
کہ حجیت میں دونوں یکساں ہیں جبکہ
ثبوت میں دونوں یکساں نہیں ۔اور ثبوت میں ان دونوں
کی یکسانیت کا نہ پایا جانا قرآن کے
معجزہ ہونے کے اعتبار سے ہے نہ کے
قرآن بالمقابل سنت کے اعتبار سے اب وہ
شخص انتہائی کم فہم ہوگا کہ جو قرآن کی اس
شان اعجاز کو
سنت کے مقابل پیش کرکے سنت کے وجود کا ہی انکار کر بیٹھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب آخر میں فاروق سرور خان صاحب سے میرے چند سوالات درج زیل ہیں ۔ ۔ ۔
سوال نمبر 1: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی (اقراء)نازل ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر صحابہ سے یہ فرمایا کہ اقرا ء ۔ ۔ ۔ یہ قرآن ہے اسے فلاں جگہ فلاں مقام میں لکھ لو تو آپکا یہ جملہ ارشاد فرمانا کہ یہ قرآن ہے آیا قرآن تھا یہ غیر قرآن اور اگر قرآن تھا تو قرآن میں کیوں نہیں لکھا گیا اور اگر غیر قرآن ہے تو پھر یہ جملہ حدیث کے سوا اور کیا ہے کہ جس پر اعتماد کرتے ہوئے صحابہ نے قرآن کو قرآن سمجھا ؟ تو پھر آپ اس حدیث پر کیوں نہیں اعتماد کرتے کہ جس پر صحابہ کوتو اعتماد ہے ۔ ۔ ۔
سوال نمبر 2: آپ چونکہ ہر مسئلہ کو قرآن کی رو سے حل کرنے کے قائل ہیں تو برائے مہربانی قرآن کی موجودہ ترتیب آیات و سورتوں کی صورت میں اس کا جدا جدا لکھا جانا برائے مہربانی کسی آیت کی رو سے بتادیں کہ فلاں فلاں آیات میں یہ آیا ہے کہ قرآن کی فلاں آیت کو فلاں مقام پر فلاں مقام سے پہلے یا بعد میں لکھو ؟
سوال نمبر 3:جب آپ کی پیش کردہ تمام تحقیق کا مدار وہی روایات ہیں جو کہ موجودہ قرآن کو زیادہ سے زیادہ مصحف عثمانی ثابت کرتی ہیں یا پھر مصحف صدیقی تو کیا وجہ ہے کہ یہاں پر ان روایات کو آپ اختیار فرما لیتے ہیں اور دیگر مقامات پر نہیں ؟
سوال نمبر 4: قرآن کی کسی بھی آیت سے پہلے اس کا قرآن ہونا ثابت کریں پھر یہ بھی ثابت کریں خود قرآن ہی سے کہ یہ وہی آیت ہے جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور قرآن نازل ہوئی تھی یاد رہے کہ کسی حدیث کسی تاریخی روایت یا کسی بھی بیرونی شہادت کو اختیار کرنے کی اجازت آپکو نہیں ہے بجز قرآن کے ۔ ۔ ۔ ۔
فی الحال اتنے ہی سوالات ملتے ہیں بریک کے بعد ۔ ۔ ۔