500 بااثر مسلمانوں کی لسٹ: عمران خان مین آف ائیر، مفتی تقی عثمانی نمبر 1، امیر تبلیغی جماعت نمبر50

سید رافع

محفلین
عمران خان بہت سے معاملات میں مذہبی اور بعض معاملات میں لبرل ہیں۔ کیا عمران خان کو کوئی خطرہ لاحق ہے؟

ختم نبوت ﷺ، قادیانیوں کا ساتھ دینا، رسول اللہ ﷺ کی عصمت پر عامیانہ بیان سلمان تاثیر کے قتل کا باعث بنی۔ سو خدشہ ہے کہ عمران ایسا کچھ بول کر یو-ٹرن نہیں لے پائے گا۔ قویٰ امید ہے کہ اس کا جذبہ خدمت خلق اور بعض معاملات میں مذہبی ہونا اس کے حق میں ڈھال ثابت ہوگا۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
میری دانست میں تو خانہ جنگی اور بے عملی بحثیت امت ہمارے مسائل میں سرِ فہرست ہیں

آپ نے بہت اچھے سوال اٹھائے ہیں۔

جہاں تک بے عملی کا سوال ہے مسلمان ہمیشہ سے ایک بیدار اور جاگتی ہوئی قوم ہے۔ موجودہ دور میںصحیح علم کی تشہیر نہ ہونے کی وجہ سے خانہ جنگی ہے۔ صحیح علم یہ ہے کہ:

مسلمانوں میں امام مہدی ؑ ظاہر ہوں گے جو اس امت کی اصلاح فرمائیں گے اور اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ اس علم کو عام کرنے کا فائدہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں میں صبر آتا اور وہ حالات کی ناگواری دیکھ کرمولانا سید مودودی، سید قطب و دیگر کے دجل میں نہ آتے اور اقوام عالم سے جنگوں میں مصروف نہ ہوجاتے۔ بلکہ اسکے برعکس حصول علم اور فروغ علم پر توجہ دیتے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو جو بغیر کسی غلو کے جناب علی کرم اللہ وجہ کو اصل منبع علم بتاتا گیا وہ نہ ہی دجل کر پایا اور نہ ہی فتنہ میں مبتلا ہوا۔ نہ خود اسامہ بن لادن بن کر ہلاک ہوا اور نہ دوسروں کو مولانا سید مودودی یا سید قطب بن کر ہلاک کیا۔ نہ ہی دہشت گرد بنا اور نہ ہی معصوم لوگوں کو قتل کر کے اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔
 

سید رافع

محفلین
وہ کہاں پوری امت کو ایک جسم کی مانند ہونا تھا اور کہاں گلی کی نکڑ سے لے کر میڈیا تک دو مسلمانوں کی بحث دیکھ کر یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا واقعی ان میں سے کوئی ایک بھی مسلمان ہے اور دوسرا اس کا بھائی ہے؟

گلی کی نکڑ سے لے کر میڈیا تک دو مسلمانوں کی بحث کی وجہ صحیح علم کی محافل کی کمی ہے۔ مذہبی محافل بھی صحیح علم کی محافل نہیں کیونکہ موجودہ دور میں پروپگینڈے کے زور پر جھوٹ پورے زور و شور سے سچ بنایا جا رہا ہے۔ سود کی بدحواسی کو منافع کا ذریعہ بتایا جا رہا ہے، زنا کو نکاح سے خوبصورت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور جمہوریت کی اکثریت کو علم و فہم کی اقلیت پر برتر ثابت کیا جا رہا ہے۔

اس افراتفری کے ماحول میں اللہ کی پہچان کی محافل کیسے منعقد کی جائیں کہ جب چہار جانب سے مسلمانوں ہی نہیں انسانوں کی معیشت، معاشرت اور اطوار کو غلط طرز پر ڈھالا جا رہا ہے۔ اس حال میں فی الحال علمائے اسلام و مشائخ دین اسلام کے عقائد و نظریات اور ایمان کو لوگوں کے دلوں میں باقی رکھنے کی سعی بذریعہ پروپگینڈہ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ اصل اسلام نہیں ہے اور نہ ہی اس میں لوگوں کی اصل اصلاح ہے۔ یہی بات مسلمان علماء و مشائخ کو اضطراب میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
 

سید رافع

محفلین
یا یہی وہ محاذ تھا جس پر اپنی تمام تر قوت لگانے کی ہمیں ہدایت دی گئی تھی؟

بات یہ ہے کہ سیاسی، جہادی اور تبلیغی مذہبی قیادتوں سے جو جو کچھ ظاہر ہو رہا ہے وہ محض پروپگینڈہ ہے ۔ اس میں وہ نور و تزکیہ بے حد مدھم ہے جو جناب رسول اللہ ﷺ کے لائے ہو دین کی اصل تھی۔ پاکستان میں مذہب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہےوہ محض اسلام کا ایک پروپگینڈہ ہے۔ کچھ لوگ اس بات پر چونکیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ اسلام کہ جس سے ہر لمحہ اللہ کی معرفت کا نیا علم حاصل ہو ناپید ہے۔ یہی بات پاکستان کی مذہبی قیادت کے اضطراب کا باعث ہے۔ اور انہی بحثوں میں ہمارا وقت صرف ہو رہا ہے۔

اب ہماری ذمہ داری ہے کہ صحیح علم عام کریں۔ لوگوں کو راضی کریں۔ تاکہ اطمینان و سکون سے بات چیت ہو۔ تعمیری کام ہوں۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ صحیح علم یہ ہے کہ:

مسلمانوں میں امام مہدی ؑ ظاہر ہوں گے جو اس امت کی اصلاح فرمائیں گے اور اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ اس علم کو عام کرنے کا فائدہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں میں صبر آتا اور وہ حالات کی ناگواری دیکھ کرمولانا سید مودودی، سید قطب و دیگر کے دجل میں نہ آتے اور اقوام عالم سے جنگوں میں مصروف نہ ہوجاتے۔ بلکہ اسکے برعکس حصول علم اور فروغ علم پر توجہ دیتے۔

غلط علم کی مثال کچھ یوں ہے کہ:

مثال کے طور پراگر کوئی شخص یہ مان لے کہ میں ڈاکٹر ہوں تو ظاہر ہے وہ لوگوں کا علاج کرنا شروع کر دے گا۔ کچھ لوگ اپنے مضبوط اعصاب کی وجہ سے صحت مند ہو جائیں گے لیکن اکثریت موت کے منہ میں جائے گی۔ جلد یا بدیر ایسا جعلی ڈاکٹر حکومت کی گرفت میں آئے گا۔ بالکل ایسا ہی معاملہ اس وقت ہو گا جب کوئی فردیا جماعت اس کام کو اپنے ذمے لے لیں کہ جو کام نبی یا آل نبی ﷺ کے کرنے کا ہے۔ وہ اپنے آپ کو نبی ﷺ جیسا سمجھیں گے اور یہیں سے مغالطہ لگے گا کہ جو نبی ﷺکر سکتے ہیں وہ ہم بھی کر سکتے ہیں۔ جماعتیں بنائی جائیں گی لوگوں کو منظم کیا جائے گا اور پھر جو جو نہ کیا جائے وہ کم ہو گا۔

مسلمانوں کو صاف معلوم ہے کہ جو جتنا متقی ہو گا وہ اتنا ہی اللہ کے نزدیک عزت والا ہو گا اور وہی مسلمانوں کا امام ہوگا۔ تقوی دماغ سے طرح طرح کے وہم گڑھ کر اللہ سے ڈرنے کا نام نے بلکہ ایک لطیف علم کا نام ہے جو اللہ کی آیات پر صبر کرنے والوں کے ساتھ صبر کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ تقوی زبان و اعضاء کی لاغرحرکات و سکنات کا نام نہیں بلکہ ایک نڈر نور ہے جس سے ہر آن سلامتی بڑھتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ سے سب زیادہ قرب جناب علی وجہ اللہ کریم کی ذات کو تھا۔ آپ ہی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بچپن سے انکے ساتھ رہے۔ آپ ہی کو رسول اللہ ﷺ نے شہر علم کا دروازہ قرار دیا۔ آپ ہی رسول اللہ ﷺ کے دیے ہوئے علم کی وجہ سے اللہ کو سب سے زیادہ پہچانتے تھے۔ اسی لیے بعد از رسول اللہ ﷺ امام المتقین اور امام الناس ہوئے۔ اسکے برعکس عبد اللہ بن ابی منافق تھا جو کہ احد کی جنگ سے اپنے 300 ساتھیوں کو لے فرار ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مبارکہ اور ام المومنین پر تہمت تراشی کی۔ اسی کے ساتھ ذوالخویصرہ تمیمی خارجی تھا کہ جس نے امام العادلین جناب محمد مصطفےٰ ﷺ کو بے انصاف کہا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے کئی دشمن تھے اور انہوں نے آپ ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد جانشین رسول ﷺ کو منتخب کرنے میں اس قدر فساد ڈالا کہ ابھی رسول کریم ﷺ کی تدفین بھی نہ ہوئی تھی۔ اس موقعے پر فتنہ رفع کرنے کےلیے رسول ﷺ کے جانثار صحابہ نے جناب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ بیعت کی۔ حالانکہ اصل منبع علم و پاکیزگی جناب علی کرم اللہ وجہ کی ذات تھی۔
 

سید رافع

محفلین
دوسری جانب یہ کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے جس میں قیامت تک آنے والوں کے لیے ہدایت ہے، وہ نبی ہے جس کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے مکمل نمونہ ہے اور عصری تعلیم کی کمی بھی ہمیں کب ہے؟

آپ نے صحیح فرمایا کہ عصری تعلیم کی کمی ہم میں نہیں ہے۔ لیکن میری مراد گاؤں کی خواتین و حضرات تھے۔ وہاں اب بھی پسماندگی ہے۔ اصل اسلام پروپگینڈے کے پیچھے کہیں چھپا ہوا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کے ماحول پر ایک مکڑی کے جال نما پروپگینڈے کا غلبہ ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اسکو ہر لمحہ اسکو توڑیں اور یہی اسلام کی صحیح خدمت ہے۔
 

سید رافع

محفلین
کتنے لوگ ہیں جو اس وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر رہے کہ وہ مسلمان ہیں؟

آپ نےصحیح فرمایا۔ مدرسے کے طالب علم پسماندہ ہونے کے باعث جدید تعلیم کی طرف نہیں آ پاتے ورنہ وہ بھی بہتر زندگی اور بہتر روزگار چاہتے ہیں الا ماشااللہ۔
 

سید رافع

محفلین
سائنس دھڑادھڑ استعمال کرنے سے ہمیں اسلام نہیں روک رہا. ہر عصری شے استعمال کرنے سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے استعمال نہیں کر رکھی، ہمیں اسلام نہیں روک رہا. ہمیں صرف ایجادات کرنے، ڈویلپر، موجد اور محقق کے ذہن سے سوچنے سے روک رہا ہے؟

یہ بہت ہے عمدہ سوال ہے اور مجھے بھی ایک عرصے الجھائے رکھا۔ میں جہاں تک سمجھا ہوں وہ بیان کر دیتا ہوں۔ اگر کوئی نیا پہلو آپکے ذہن میں آئے تو ضرور کہیے گا۔

آخرت کا خیال دامن گیر ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے مغرب کی طرح ایجادات کے لیے دیوانا ہو جانا ممکن نہ تھا سو وہ سائنس کو محض معاش کمانے کا ایک ذریعہ ہی سمجھتے تھے اور ہیں۔

مغرب کے جو لوگ (میاں نجّار) ایجادات کر بھی رہے ہیں وہ بھی کونسا خوش ہیں؟ سو بقول اقبال

میاں نجّار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے

بلکہ بانگ درا میں اقبال کے یہ تینوں ہی اشعار قابل غور ہیں:

اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

الکشن، ممبری، کونسل، صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے

میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے

سو یہ سب کچھ چھوڑنا بھی ایک بہت بڑا عمل ہے، اس میں کثیر عقل درکار ہے کہ کیسے ایمان کو بچائیں اور کیسے بچتے بچاتے اس تبدیل ہوتے علم ایجادات سے اصل علم کی طرف آئیں۔مسلمان قوم اس فیز سے گزر رہی ہے۔ مسلمان پوری طرح سے چوکس و ہوشیار ہیں۔ بس ہمارا کام یہ ہے کہ صحیح علم عام کریں۔ انٹرنیٹ اور محفل جیسے فورم اس مقصد کو حاصل کرنا کا بہترین ذریعہ ہیں۔

اگر آپ اجازت دیں تو ایک اور پہلو سے بھی اس ایجادات کے موضوع کو دیکھ لیں۔

ایجادات کےلیے سودی نظام کی ضرورت ہے۔ مسلمان سود سے گھن کھاتے ہیں۔ سو اصل مسئلہ سودی معیشت ہے کہ جس نے ایک تو انسانوں کو ان کی کمائی سے زیادہ آسایشیں مہیا کر دیں ہیں تو دوسری طرف انسانوں کی آبادی اسباب کی غیر فطری فراوانی کی وجہ سے ایک ارب سے سات ارب تک پہنچا دی ہے۔ ہر دس بارہ سال بعد یہ معیشت کساد بازاری کی وجہ سے جان بلب ہو جاتی ہے۔

سچ ہے کہ سود مٹتا ہے لیکن یورپی اقوام اس کو جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔ اس بار خطرہ کسی ایٹم بم یا غلبہ اسلام کی تحریک کا نہیں بلکہ پانی اور غذا کے نہ ملنے سے رفتہ رفتہ آبادی کے مرنے کا ہے۔ ایسے میں ان مسلم اور یورپی لیڈرز کی ضرورت ہے جو انسانوں کو انسانوں سے علم کے ذریعے جوڑ دیں۔ ایجاد کے بجائے انصاف کو انسانوں کا اصل مسئلہ بتائیں۔ جب ایجادات میں کمی ہو گی تو سود پر قائم تجارت کے بجائے رواداری اور انصاف کی معیشت پروان چڑھے گی۔
 

سید رافع

محفلین
اگر عصری تعلیم کی بات نہ بھی کریں تو اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اخلاقیات کی سب سے بہتر تعلیم اور نمونہ ہمارے پاس ہے، مگر ہم نے اخلاقیات کی جو مثالیں دنیا میں اس وقت قائم کر رکھی ہیں اسے کون نہیں جانتا!

مسلمان اب بھی یورپی اقوام سے بہتر ہیں۔ اس میں آپ کو پروپگینڈے میں آنے کے بجائے دل کو کھڑا کر کے ایک ایک چیز کا تقابل کرنا ہو گا۔ پھر آپ ایسا خوش ہوں گی کہ کبھی نہ ہوئی ہوں گی۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین

یہ صرف صحیح علم کو تھامنے سے آئے گا۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو جو بغیر کسی غلو کے جناب علی کرم اللہ وجہ کو اصل منبع علم بتاتا گیا وہ نہ ہی دجل کر پایا اور نہ ہی فتنہ میں مبتلا ہوا۔ نہ خود اسامہ بن لادن بن کر ہلاک ہوا اور نہ دوسروں کو مولانا سید مودودی یا سید قطب بن کر ہلاک کیا۔ نہ ہی دہشت گرد بنا اور نہ ہی معصوم لوگوں کو قتل کر کے اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔
 

سید رافع

محفلین
آپ بھی اقبال کے مداح معلوم ہوتے ہیں

مجھے معلوم ہے کہ میں جو میں لکھوں گا اس سے بعض کے دل پر کیا گزرے گی لیکن صحیح علم کو عام کرنے کے لیے ایسا لکھنا پڑے گا۔ سو ذرا دل تھام کر! :)

پاکستان کے لیے افغا نستان ،عراق اور ہر نوع کی جنگیں ایک ترجیح اقبال کے کلام کوبطور آئیڈیل پیش کرنے سے بنے۔ دن رات لوگوں کے سامنے اقبال کو ایک عظیم مفکر ، ہیرو اور مصور پاکستان کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو ان سے کہہ رہا ہے کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے! نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر۔ اقبال نے صبر کرتے مسلمانوں کو سویا ہوا مسلمان تصور کیا ۔ مسلمان ہمیشہ سے بے حد بیدار اور محتاط قوم ہے۔ لیکن ان کے ذہنوں میں شکوہ جواب شکوہ کا پروپگینڈہ ایک کہانی کے طور پر گھولا گیا جبکہ انکے شکم سودی نظام سے حاصل ہو نے والی کمائی سے بھرے ہو ئے تھے۔ یوں روحانیت سے خالی بھولے بھالے مسلمانوں کے ہا تھوں تقسیم ہند کا عظیم سانحہ ہوا۔

اقبال کی فکر نے اسلام کو اسی طرح کا نقصان پہنچایا جس طرح کہ معاشرے کی روحانی سطح بلند کرنے میں جلدی نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہنچایا۔ تیمیہؒ، اقبال اور مودودی کے قویٰ مضبوط تھے اور عقل کی فراوانی تھی لیکن وہ اتنی ہی قوت کی عقل ِباطن سے محروم تھے۔ اسلام کا لطیف نظام محض سر کی عقل سے سمجھ نہیں آسکتا۔مثلاًنماز روزہ سے افضل ہے لیکن حیض کے بعد روزوں کی قضا ہے لیکن نماز کی قضا نہیں۔اسی ضمن میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور خوارج کے درمیان مناظرہ بھی دلیل صحیح ہونے لیکن مراد غلط ہونے کی واضح مثال ہے۔

اب جبکہ حرم شریف پر صبر کیے مسلمانوں کو برطانوی سرکردگی میں قتل کرا دیا جائے اور وہاں تیمیہ کے فلسفے سے متاثرہ لوگوں کا قبضہ ہو جائے اور برصغیر میں تقسیم سے قبل اور بعد اقبال کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جائے تو نہ چاہتے ہوئے بھی پروپگینڈے کے ذریعے وہ اذیت و مشقت بھرا کام مسلمانوں کے سر ڈالا جائے گا جو رسول اور آل رسول ﷺ کے کرنے کے کام ہیں اور وہ وقت آنے پر خودبخود سرانجام پا جائیں گے۔ ایسے میں عرب سے سید قطب اور اخوان المسلمون ہی ابھریں گے کیونکہ وہاں پروپگینڈے سے صبر کرتے مسلمانوں کو پہلے ہی ختم کیا جاچکا ہے جو علم کے وارثین تھے اور یہاں پاک و ہند میں مودودی کا ہی طوطی بولے گا کہ اقبال سوئے ہوئے مسلمانوں کو سکھا رہے ہیں نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری۔

اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔ یورپی ممالک میں بسنے والے سیکولر مسلمان اور لبرل یورپین اسکالرز اقبال کے شاہین کے پروپگینڈےکا راز فاش کریں تاکہ دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔
 

سید رافع

محفلین
جب بھی کہیں علم کے حصول میں بڑھنے کی بات ہوتی ہے، عملاً خود کو آگے لانے کی بات ہوتی ہے، کسی نئی چیز کی بنیاد ڈالنے کی بات ہوتی ہے تو ایسا کیوں سمجھا جاتا ہے کہ یہ مغرب کی تقلید ہے؟

میرا خیال ہے کہ ہم کو اللہ کی پہچان کے لطیف علم سے فرصت ہی کب کہ فکر معاش سے آگے جا کر فکر ایجادات میں پڑ جائیں!
 

سید رافع

محفلین
علم مؤمن کی میراث ہے.

بہت اچھی یاددھانی کرائی آپ نے۔ علم میراث ہی نہیں زندگی ہے۔ لیکن علم کونسا؟ مادے سے اشیاء ایجاد کرنے کا علم یا اللہ کو پہچاننے کا علم؟

شاید اس دور کےلوگوں کو یہ بات عجیب معلوم ہو کہ علم سوال نہیں صبر کا نام ہے۔ چنانچہ صحیح علم وہ ہے جس سے صبر آجائے۔
 

سید رافع

محفلین
ہم اپنی عظمتِ رفتہ پر خوش ہوتے ہیں مگر میرا دل درحقیقت خون کے آنسو روتا ہے جب ہماری اپنی کھوئی ہوئی میراث کو حاصل کرنا 'اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے کرنا' بنا دیا جاتا ہے.

صحیح فرمایا آپ نے لوگ خلط مبحث کرتے ہیں۔ مغربی علوم موجودہ سودی دنیا کو چلانے میں معاون ہیں لیکن اصل علم سود ہی کی نفی کر رہا ہے۔ یعنی اگر سود جاری رکھیں گے تو صبر نہیں کر پائیں گے۔ جب صبر نہیں تو اصل علم کے لیے قرار نہیں آئے گا۔
 

سید رافع

محفلین
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

یہ علم کے موتی سود اور سود سے چلنے والی مغربی صنعتوں کا علم نہیں بلکہ صاف ظاہر ہے کہ مسلم علماء کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں جن کو استعمال کرتے ہوئے مغرب نے ویلفیر اسٹیٹ کے تمام شعبے قائم کیے، عدل اور علم دوستی اختیار کی۔
 

سید رافع

محفلین
ہم غیر کے ہاتھ کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی غیرت کیونکر قائم رکھ سکتے ہیں؟

ہر انسان ایک دوسر ے کا محتاج ہے۔ ایسا سوچنا کہ ہم بے نیاز ہیں علت سبحانی کے خلاف ہے۔ امام الناس بننے کے لیے اگر ایجاد ہی سب کچھ ہوتیں تو ہر امریکی صدر بشمول ٹرمپ سب سے عزت والا ہوتا۔ سب سے غیرت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ کو پہچانتا ہے۔ جب یہ اعتماد دل میں جگہ کر جائے تو ہر جلی کٹی پر صبر آ جاتا ہے۔
 

سید رافع

محفلین
کیونکہ وہ کام جو آپ کو پیسہ دے رہا ہے اس سے کچھ ڈھنگ کا نکالنا بس ترجیح نہیں ہے!

صحیح کہا آپ نے کہ کام ڈھنگ سے کرنے چاہیں۔ لیکن اعضاء بشمول دماغ سے صحیح کام صحیح علم دل میں قرار پکڑنے کے بعد ہی آتا ہے۔
 

سید رافع

محفلین
یہ نہ تو اقبال کہہ کر گئے ہیں کہ اپنا کام کرتے ہوئے بس اتنا سا ہی کرنا کہ دال روٹی چلتی رہے اور امام مہدی کے آنے کا انتظار کرنا، نہ ہمارے آباء نے کہا تھا اور نہ ان کے آباء نے.

اقبال تو منتظر رہنے کے بجائے اقدام کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں۔

تھے تو آبا وہ تمھارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!

اصل بات ہے بے قراری اور بے صبری کا خاتمہ۔ امام مہدیؑ کا منتظر رہنا صبر لاتا ہے۔ اپنی بساعت بھر کام کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ انکساری پیدا کرتا ہے کہ بعض کام رسول اور آل رسول ﷺ کے کرنے کے ہیں۔ ماحول چاہے کتنا کٹھن ہو امید قائم رکھتا ہے اور برائی پر ضرب پر ضرب لگانے پر آمادہ کرتا ہے۔
 
ٓ
ثبوت فراہم کرتا ہوں، سوالات کا جواب دے کٓر ہمارے خیالات کو منور فرمائیے۔
برادر محترم،، زیادہ تر لوگوں نے دین اجرت پر آؤٹ سورس کردیا ہے، اور نا تو خود سمجھتے ہیں اور نا ہی سمجھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ میں آپ کو موقع دیتا ہوں کہ آپ ہمیں سمجھائیں۔ ہمین سمجھانے کے لئے اجازت دیجئے تو بہت ہی آسان ، آسان 4 سوالات کرتا ہوں۔ بناء کسی ٓسنی یا شیعہ فرقے سے متاثر ہو کر جواب دیجئے۔ آپ کا خلوص اس بات کا ضامن ہوگا کہ میرے آسان سوالات کا سلسلہ جاری رہے۔ ان سوالات کے جو بھی جوابات آپ دیں گے، آٓپ خود نتیجہ اخذ کرسکیں گے۔

سوال نمبر 1 ، درج ذیل آیت وَأُولَ۔ئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَٓ یعنی متقی لوگوں کا تعین کرتی ہے، جو متقی نہیں، اس آیت میں دو اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں - وَآتَى الْمَالَ ، اور وَآتَى الزَّكَاةَ-۔ کیا آپ ان دونوں اصطلاحات کا فرق جانتے ہیں۔ یا پھر نعوذ باللہ ، اللہ تعالی نے وَآتَى الْمَالَ کئ ضمن میں خواہ مخواہ اپنے الفاظ ضائع کئے ہیں۔ اگر فرق جانتے ہیں تو بتائیے ، ورنہ فرمادیجئے کہ نہیں جانتا۔ یا پھر مولانا تقی عثمانی کی اتنی ساری تصنیفات میں سے کوئی ریفرنس فراہم کیجئے کہ وہ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ ان کی تصنیفاتٓ میں، اس بارے میں ان کو معلومات صفر ہیں۔ اب آپ پر ہے کہ اس نمبر 1 کو غلط ثابت کیجئے۔ اور ہمیں بتائیے کہ وہ اس بارے میں کیا جانتے ہیں یا آپ کیا جانتے ہیںٓ یا پھر کوئی دوسرا ملاء کیا جانتا ہے۔؟

2:177 البقرۃ ، آیت 177
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَ۔كِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَ۔ئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَ۔ئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

والسلام

۔
مریم اور رافع آپ نے بہت ہی اچھے نکات پیش کئے، عام انسانوں اور اسلامی اصولوں یا قرآنی اصولوں کے مقابلے میں اصولوں کی زیادہ اہمیت ہے، آپ کے نکات پر بات تھوڑی دیر بعد۔

ہمیں ابھی تک پہلے سوال کا جواب نہیں ملا تو وعدے کے مطابق، اب دوسرا سوال، - یہ سوال دو آیات پر مبنی ہے؟

پچھلی آیت 2:177 ہی کے حوالے سے ہمیں یہ بتائیے کہ درج ذیل دو آیات میں کن رقوم کی بات کی گئی ہے اور یہ رقوم کن ڈیپارٹمنٹ آف لائف کے لئے مختص کی گئی ہیں اور کس وقت واجب الادا ہیں ، زیادہ تر مترجمین نے الصَّدَقَاتُ کا ترجمہ زکواۃ کیوں کیا ہے؟

سورۃ التوبہ ، آیت 60
9:60 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
زکواة مفلسوں اور محتاجوں اوراس کا کام کرنے والوں کا حق ہے اورجن کی دلجوئی کرنی ہے اور غلاموں کی گردن چھوڑانے میں اور قرض داروں کے قرض میں اور الله کی راہ میں اورمسافر کو یہ الله کی طرف سے مقرر کیاہوا ہے اور الله جاننے والا حکمت والا ہے

درج ذیل آیت میں اللہ تعالی کس مال کے بارے میں حکم دیتے ہیں کہ یہ مال جونہی کاٹو، اللہ کا حق ادا کردو۔ اللہ کے اس حق کا کیا تعلق، ان احکامات سے ہے جو 2:177 اور 9:60 میں فراہم کئے گئے ہیں؟

6:141 وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اور اسی نے وہ باغ پیدا کیے جو چھتو ں پر چڑھائے جاتے ہیں او رجو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت او رکھیتی جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے جو ایک دوسرے سے مشابہاور جدا جدا بھی ہیں ان کے پھل کھاؤ جب وہ پھل لائیں اور جس دن اسے کاٹو اس کا(اللہ کا) حق ادا کرو اور بے جا خرچ نہ کرو بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا


تیسرا سوال:
البقرۃ 177 میں اللہ تعالی نے اجتماعی طور پر ، سب کو مال دینے کا حکم دیا ہے،
سورۃ توبہ آیت 60 میں اس مال کو جمع کرنے والے کارندوں (ایف بی آر) کو بھی ان کی تنخواہیں ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
سورۃ الانعام، ایت 141 میں فصل اترتے ہی، اس مال میں سے ، اللہ تعالی کا حق فوری ادا کرنے کا حکم دیا ہے

تو اب ہمیں یہ بتائیے کہ سورۃ الانفال ، آیت 41 میں کسی بھی پیداوار، اضافے یا بڑھوتری کے پانچویں حصے کو اللہ کا حق قرار دیا گیا ہے تو اس کی بنیاد وہی مال نہیں جس کا ذکر مندرجہ بالاء آیات میں آیا ہے ؟ کیوں سنیوں نے اللہ تعالی کا یہ حق، مدینے کی حکومت کو ادا کرنے سے انکار کردیا تھا؟ کیوں ملاء نے اس صاف اور واضح حکم کو چھپایا؟ کیا ہونے والے منافع ، بڑھوتری، اضافہ، فصل کی کٹائی میں 'خمس' اللہ کا حق (ربا یا سود) ہے یا نہیں؟ کیا اپنے منافع، اضافہ ، بڑھوتری میں سے اللہ کے حق کا منافع (ربا یا سود) کھا جانا ، یہی سود خوری ہے یا نہیں؟ کیوں چھپاتے ہیں یہ احکامات ، اور کیوں سود کی تعریف ہی بدل دی؟ میں شیعہ نہیں ہوں ، لیکن خمس کی درست تعریف، کسی بھی شیعہ عالم سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ اور یہ بھی کہ سنی ملاؤں نے (علماء نے نہیں) ،حضرت امام حسین کو یہی خمس ادا کرنے سے صاف انکار کردیا تھا، حتی کہ اللہ کے حق اس سود کی تعریف تک بدل دی اور اس طرح سنی طبقے یا فرقے کی بنیاد رکھی۔ یہی ملاء آج بھی پیسے کے لئے یہی کاروبار کرتے ہیں۔ چاہے وہ منیب الرحمان ہو یا تقی عثمانی۔ کام سب کا صرف اللہ کا حق جمع کرکے اپنے ذاتی استعمال میں لانا ہے ۔ ورنہ یہی لوگ اس مال کی بیت المال میں جمع کرانے کی سفارش کرتے۔ اللہ کے حق کے لئے درج ذیل آیت دیکھئے۔ کیا اس حق کا کھاجانا ہی سود کا کھاجانا ہے؟ اس بارے میں سنی علماء اور شیعی علماء کی رائے اتنی مختلف کیوں ہے؟

8:41 سورۃ الانفال، آیت 41
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

اور جان لو کہ جو کچھ بڑھوتری (اضافہ، منافع، سود) تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر فیصلے کے دن نازل فرمائی ، اس دن سے ڈرو، جب دونوں ( بندے اور اللہ کا حق ) جمع ہوجائیں گے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
 
آخری تدوین:
یہ صرف صحیح علم کو تھامنے سے آئے گا۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو جو بغیر کسی غلو کے جناب علی کرم اللہ وجہ کو اصل منبع علم بتاتا گیا وہ نہ ہی دجل کر پایا اور نہ ہی فتنہ میں مبتلا ہوا۔ نہ خود اسامہ بن لادن بن کر ہلاک ہوا اور نہ دوسروں کو مولانا سید مودودی یا سید قطب بن کر ہلاک کیا۔ نہ ہی دہشت گرد بنا اور نہ ہی معصوم لوگوں کو قتل کر کے اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔

رافع، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سنی ملاؤں (علماء نیہں ) نے، دمشق، کوفے اور بغداد کی حکومت کی طرف سے 'خمس' ، مدینہ کی ریاست کو ادا کرنے سے صاف انکار کردیا، اور امام حسین کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ جبکہ شیعہ عالم، رسول اکرم سے قربت اور ہدایت کی بنیاد پر ، کسی بھی اضافے ، بڑھوتری یا منافع کے پانچویں حصے (خمس) کو اللہ کا حق سمجھتے رہے اور اللہ کے اس حق کو اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرنے پر زور دیتے رہے۔ منافع یا سود میں سے اللہ تعالی کے اسی حق (رباء) کو کھا جانے کو ہی سود کھانا قرار دیتے رہے، لیکن سنی ملاؤں نے کچھ ایسا کنفیوژن پھیلایا کہ سود یا رباء کی تعریف ہی بدل دی۔ آج 'روپے سے روپیہ ' کمانا سود کمانا قرار پاتا ہے۔ جبکہ عوام کو اس 20 فی صد کا فیض پہنچے ، اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر سنی ملاء ، انہی نظریات کو پڑھتے ہیں اور انہی نظریات پر عمل کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج اللہ کا حق بیس فی صد سود منافع بڑھوتری میں سے حصہ ، کسی طور بھی عوام کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ یہنظریات تلوار کی نوک پر پھیلائے گئے ، اور آج مسلم اقوام کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس دولت کی گردش بالکل ختم ہوگئی ہے۔
 
Top