ٓ
ثبوت فراہم کرتا ہوں، سوالات کا جواب دے کٓر ہمارے خیالات کو منور فرمائیے۔
برادر محترم،، زیادہ تر لوگوں نے دین اجرت پر آؤٹ سورس کردیا ہے، اور نا تو خود سمجھتے ہیں اور نا ہی سمجھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ میں آپ کو موقع دیتا ہوں کہ آپ ہمیں سمجھائیں۔ ہمین سمجھانے کے لئے اجازت دیجئے تو بہت ہی آسان ، آسان 4 سوالات کرتا ہوں۔ بناء کسی ٓسنی یا شیعہ فرقے سے متاثر ہو کر جواب دیجئے۔ آپ کا خلوص اس بات کا ضامن ہوگا کہ میرے آسان سوالات کا سلسلہ جاری رہے۔ ان سوالات کے جو بھی جوابات آپ دیں گے، آٓپ خود نتیجہ اخذ کرسکیں گے۔
سوال نمبر 1 ، درج ذیل آیت وَأُولَ۔ئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَٓ یعنی متقی لوگوں کا تعین کرتی ہے، جو متقی نہیں، اس آیت میں دو اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں - وَآتَى الْمَالَ ، اور وَآتَى الزَّكَاةَ-۔ کیا آپ ان دونوں اصطلاحات کا فرق جانتے ہیں۔ یا پھر نعوذ باللہ ، اللہ تعالی نے وَآتَى الْمَالَ کئ ضمن میں خواہ مخواہ اپنے الفاظ ضائع کئے ہیں۔ اگر فرق جانتے ہیں تو بتائیے ، ورنہ فرمادیجئے کہ نہیں جانتا۔ یا پھر مولانا تقی عثمانی کی اتنی ساری تصنیفات میں سے کوئی ریفرنس فراہم کیجئے کہ وہ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ ان کی تصنیفاتٓ میں، اس بارے میں ان کو معلومات صفر ہیں۔ اب آپ پر ہے کہ اس نمبر 1 کو غلط ثابت کیجئے۔ اور ہمیں بتائیے کہ وہ اس بارے میں کیا جانتے ہیں یا آپ کیا جانتے ہیںٓ یا پھر کوئی دوسرا ملاء کیا جانتا ہے۔؟
2:177 البقرۃ ، آیت 177
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَ۔كِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَ۔ئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَ۔ئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں
والسلام
۔
مریم اور رافع آپ نے بہت ہی اچھے نکات پیش کئے، عام انسانوں اور اسلامی اصولوں یا قرآنی اصولوں کے مقابلے میں اصولوں کی زیادہ اہمیت ہے، آپ کے نکات پر بات تھوڑی دیر بعد۔
ہمیں ابھی تک پہلے سوال کا جواب نہیں ملا تو وعدے کے مطابق، اب دوسرا سوال، - یہ سوال دو آیات پر مبنی ہے؟
پچھلی آیت 2:177 ہی کے حوالے سے ہمیں یہ بتائیے کہ درج ذیل دو آیات میں کن رقوم کی بات کی گئی ہے اور یہ رقوم کن ڈیپارٹمنٹ آف لائف کے لئے مختص کی گئی ہیں اور کس وقت واجب الادا ہیں ، زیادہ تر مترجمین نے
الصَّدَقَاتُ کا ترجمہ زکواۃ کیوں کیا ہے؟
سورۃ التوبہ ، آیت 60
9:60 إِنَّمَا
الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ
وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
زکواة مفلسوں اور محتاجوں او
راس کا کام کرنے والوں کا حق ہے اورجن کی دلجوئی کرنی ہے اور غلاموں کی گردن چھوڑانے میں اور قرض داروں کے قرض میں اور الله کی راہ میں اورمسافر کو یہ الله کی طرف سے مقرر کیاہوا ہے اور الله جاننے والا حکمت والا ہے
درج ذیل آیت میں اللہ تعالی کس مال کے بارے میں حکم دیتے ہیں کہ یہ مال جونہی کاٹو، اللہ کا حق ادا کردو۔ اللہ کے اس حق کا کیا تعلق، ان احکامات سے ہے جو 2:177 اور 9:60 میں فراہم کئے گئے ہیں؟
6:141 وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اور اسی نے وہ باغ پیدا کیے جو چھتو ں پر چڑھائے جاتے ہیں او رجو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت او رکھیتی جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے جو ایک دوسرے سے مشابہاور جدا جدا بھی ہیں
ان کے پھل کھاؤ جب وہ پھل لائیں اور جس دن اسے کاٹو اس کا(اللہ کا) حق ادا کرو اور بے جا خرچ نہ کرو بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
تیسرا سوال:
البقرۃ 177 میں اللہ تعالی نے اجتماعی طور پر ، سب کو مال دینے کا حکم دیا ہے،
سورۃ توبہ آیت 60 میں اس مال کو جمع کرنے والے کارندوں (ایف بی آر) کو بھی ان کی تنخواہیں ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
سورۃ الانعام، ایت 141 میں فصل اترتے ہی، اس مال میں سے ، اللہ تعالی کا حق فوری ادا کرنے کا حکم دیا ہے
تو اب ہمیں یہ بتائیے کہ سورۃ الانفال ، آیت 41 میں کسی بھی پیداوار، اضافے یا بڑھوتری کے پانچویں حصے کو اللہ کا حق قرار دیا گیا ہے تو اس کی بنیاد وہی مال نہیں جس کا ذکر مندرجہ بالاء آیات میں آیا ہے ؟ کیوں سنیوں نے اللہ تعالی کا یہ حق، مدینے کی حکومت کو ادا کرنے سے انکار کردیا تھا؟ کیوں ملاء نے اس صاف اور واضح حکم کو چھپایا؟ کیا ہونے والے منافع ، بڑھوتری، اضافہ، فصل کی کٹائی میں 'خمس' اللہ کا حق (ربا یا سود) ہے یا نہیں؟ کیا اپنے منافع، اضافہ ، بڑھوتری میں سے اللہ کے حق کا منافع (ربا یا سود) کھا جانا ، یہی سود خوری ہے یا نہیں؟ کیوں چھپاتے ہیں یہ احکامات ، اور کیوں سود کی تعریف ہی بدل دی؟ میں شیعہ نہیں ہوں ، لیکن خمس کی درست تعریف، کسی بھی شیعہ عالم سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ اور یہ بھی کہ سنی ملاؤں نے (علماء نے نہیں) ،حضرت امام حسین کو یہی خمس ادا کرنے سے صاف انکار کردیا تھا، حتی کہ اللہ کے حق اس سود کی تعریف تک بدل دی اور اس طرح سنی طبقے یا فرقے کی بنیاد رکھی۔ یہی ملاء آج بھی پیسے کے لئے یہی کاروبار کرتے ہیں۔ چاہے وہ منیب الرحمان ہو یا تقی عثمانی۔ کام سب کا صرف اللہ کا حق جمع کرکے اپنے ذاتی استعمال میں لانا ہے ۔ ورنہ یہی لوگ اس مال کی بیت المال میں جمع کرانے کی سفارش کرتے۔ اللہ کے حق کے لئے درج ذیل آیت دیکھئے۔ کیا اس حق کا کھاجانا ہی سود کا کھاجانا ہے؟ اس بارے میں سنی علماء اور شیعی علماء کی رائے اتنی مختلف کیوں ہے؟
8:41 سورۃ الانفال، آیت 41
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ جو کچھ بڑھوتری (اضافہ، منافع، سود) تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر فیصلے کے دن نازل فرمائی ، اس دن سے ڈرو، جب دونوں ( بندے اور اللہ کا حق ) جمع ہوجائیں گے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے