70 کھرب 13 ارب روپے کا بجٹ برائے 2020-2021 پیش، کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان

جاسم محمد

محفلین
مالی سال 21-2020 کا 72 کھرب 95 ارب روپے کا وفاقی بجٹ، کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا
مالی سال 20-2019 کے مقابلے میں اس بار بجٹ کا مجموعی حجم 11 فیصد کم ہے، بیرونی وسائل سے 810 ارب روپے آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا ہے، بجٹ دستاویز

ویب ڈیسک
12 جون ، 2020
مالی سال 21۔2020 کا بجٹ پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوگیا جس میں وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر بجٹ پیش کررہے ہیں۔

بجٹ دستاویز کے مطابق مالی سال 21-2020 کے وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 772 کھرب 95 ارب روپے رکھا گیا ہے جو مالی سال 20-2019 کے مقابلے میں 11 فیصد کم ہے۔

بجٹ دستاویز کے مطابق بیرونی وسائل سے 810 ارب روپے آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے دوران براہ راست ٹیکسوں سے 2 ہزار 43 ارب روپے آمدن کا تخمینہ ہے، آئندہ مالی سال کے دوران بلواسطہ ٹیکسوں سے 2 ہزار 920 ارب روپے آمدن کا تخمینہ ہے۔

آئندہ مالی سال میں پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 450 ارب روپے کی آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے، قابل تقسیم محصولات سے آمدن کا تخمینہ 2 ہزار 817 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

بجٹ دستاویز کے مطابق اگلے سال صوبوں کومجموعی طورپر2ہزار874 ارب روپےمنتقل کیےجانےکاتخمینہ ہے، قابل تقسیم محصولات میں سے پنجاب کو ایک ہزار 439 ارب روپے دیے جانے کا تخمینہ ہے۔

قابل تقسیم محصولات میں سے سندھ کو 742 ارب روپے دیے جانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ خیبرپختونخوا کو 478 ارب روپے، بلوچستان کو 265 ارب روپے دیے جانے کا تخمینہ ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت 34 کھرب روپے سے زائد خسارے کا بجٹ پیش کرے گی، وفاقی بجٹ کا مجموعی تخمینہ 88 کھرب روپے سے زائد لگایا گیا ہے۔

وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں آج بجٹ تجاویز کی منظوری دی جائے گی، کابینہ کے اجلاس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا بھی فیصلہ کیا جائے گا۔

آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی بجٹ میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 49 کھرب 50ارب روپے مقرر کیے جانے کی تجویز ہے جب کہ بجٹ خسارے کا تخمینہ 34 کھرب 27 ارب روپے سے زائد رہنے کا امکان ہے۔

وفاقی بجٹ میں سود اور قرضوں کی ادائیگی پر 31 کھرب 50 ارب روپے، دفاع کے لیے بجٹ میں 12 کھرب 80 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

بجٹ میں پنشن کے لیے چار کھرب 75 ارب ارب روپے کے فنڈز مختص کرنے کی تجویز ہے جب کہ وفاقی وزارتوں اور محکموں کے لیے چار کھرب 95 ارب روپے کا بجٹ مختص کیے جانے کا امکان ہے، وفاق سبسڈی پر دو کھرب 60 ارب روپے خرچ کرسکتا ہے، گرانٹس کی مد میں 8 کھرب 20 ارب روپے جاری ہو سکتے ہیں۔

223740_1929617_updates.jpg

وزیراعظم عمران خان بھی بجٹ تقریر کے دوران ایوان میں موجود رہے — فوٹو؛ اے پی پی

ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاق کا ترقیاتی بجٹ 6 کھرب 50 ارب روپے رکھا جائے گا، مختلف شعبوں کے لیے سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کی سفارش ہے جب کہ نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز اور تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس میں کسی رعایت کا امکان نہیں، غیر رجسٹرڈ افراد کو ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کی سہولت بھی ختم کی جا سکتی ہے۔

نئے مالی سال کے بجٹ میں غیرملکی کرنسی کے لین دین پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیے جانے کا امکان ہے،غیرملکی کرنسی کے لین دین پر اعشاریہ چھ فیصد سے ایک فیصد تک ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے جب کہ ای سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کیے جانے کا امکان ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
70 کھرب 13 ارب روپے کا بجٹ پیش، کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 12 جون 2020

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اپنا دوسرا وفاقی بجٹ برائے مالی سال 21-2020 قومی اسمبلی میں پیش کر رہی ہے۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر بجٹ پیش کر رہے ہیں۔

قومی اسمبلی میں مالی سال 21-2020 کی بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے صنعت حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز اور مسرت کی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اگست 2018 میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، ہم نے ایک مشکل سفر سے ابتدا کی اور معیشت کی بحالی کے لیے اپنی کاوشیں شروع کی تاکہ وسط مدت میں معاشی استحکام اور شرح نمو میں بہتری لائی جاسکے، ہماری معاشی پالیسی کا مقصد اس وعدے کی تکمیل ہے جو ہم نے نیا پاکستان بنانے کے لیے عوام سے کر رکھا ہے اور ہر گرزتے سال کے ساتھ ہم اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 سال کے دوران ہمارے رہنما اصول رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، سرکاری اداروں میں زیادہ شفافیت لائی جائے، احتساب کا عمل جاری رکھا جائے اور ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں میرٹ پر عمل درآمد کیا جائے۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے عوام کی صلاحیت پر پورا اعتماد ہے اور مطلوبہ اہداف کے حصول میں ان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے، تحریک انصاف سماجی انصاف کی فراہمی، معاشرے کے کمزور طبقات کے حالات بہتر کرنے کے اصول پر کاربند ہے اور پسے طبقے کے لیے کام کرنے کا عزم رکتھی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے سے قبل میں ایوان کو یہ بتانا چاہوں گا کہ گزشتہ حکومت سے ورثے میں ہمیں کیا ملا، جب 2018 میں ہماری حکومت جب آئی تو ایک معاشی بحران ورثے میں ملا، اس وقت ملکی قرض 5 سال میں دوگنا ہوکر 31 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا، جس پر سود کی رقم کی ادائیگی ناقابل برداشت ہوچکی تھی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب روپے جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب روپے کی حد تک پہنچ چکا تھا اور برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا اور ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا گیا تھا جس سے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا۔

بجٹ 21-2020 کے اہم نکات:
  • دفاعی بجٹ 1290 ارب روپے رکھنے کی تجویز
  • ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے رکھنے کی تجویز
  • نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے رکھنے کی تجویز
  • این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے 2 ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
  • وفاقی حکومت کا خالص ریونیو کا تخمینہ 3 ہزار 700 ارب روپے ہے
  • اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے
  • مجموعی بجٹ خسارہ 3 ہزار 195 ارب روپے تجویز
  • وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز
  • سبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے رکھنے کی تجویز
  • پنشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے کی تجویز
  • صوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز
  • دیگر گرانٹس کی مد میں 890 ارب روپے رکھنے کی تجویز
  • آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے رکھنے کی تجویز
  • نیا پاکستان ہاؤسنگ کے لیے 30 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
  • احساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
  • سول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
وفاقی وزیر نے بتایا کہ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے کم ہوکر 10 ارب ڈالر رہ گئے تھے جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب آگیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ بجٹ خسارہ 2300 ارب روپے کی بلند سطح پر پہنچ چکا تھا، ناقص پالیسیوں اور بد انتظامیوں کے باعث بجلی کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے کی انتہائی حد تک جاپہنچا تھا۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرکاری اداروں کی تعمیر نو نہ ہونے سے ان کو 1300 ارب سے زائد کے نقصان کا سامنا تھا، اسٹیٹ بینک سے بہت زیادہ قرضے لیے گئے، منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا تھا۔

بجٹ اجلاس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے 20-2019 کا آغاز پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جس کے لیے موزوں فیصلے اور اقدامات اٹھائے، جس کی وجہ سے مالی سال 19-2018 کے مقابلے میں 20-2019 میں اہم معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 20-2019 کے پہلے 9 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 73 فیصد کم کیا گیا، تجارتی خسارے میں 21 فیصد کمی کی گئی، اس کے علاوہ بجٹ خسارہ 5 فیصد کم کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے 6 ارب ڈالر کے بیرون قرضے کی ادائیگی کی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 4 ارب ڈالر تھی، اس کے باوجود اس سال زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم سطح پر رہے۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہم نے 5 ہزار ارب روپے کا سود ادا کیا جو گزشتہ قرضوں پر دیا گیا، اس کے علاوہ بیرون سرمایہ کاری تقریباً دوگنی ہوگئی۔

بات کا جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کے جن معاشی فیصلوں کے ذریعے معاشی استحکام پیدا ہوا اس میں بجٹ اصلاحات کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک سے قرض لینا بند کیا گیا، اس کے علاوہ کوئی سپلمنٹری گرانٹ نہیں دی گئی، ترقیاتی اخراجات میں حائل سرخ ٹیپ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ نومبر 2019 میں نیشنل ٹیرف پالیسی کی منظوری دی گئی، اس کے علاوہ میک ان پاکستان کے تحت پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں متعارف کروایا گیا۔

حماد اظہر کا کہنا تھا حکومت نے اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت پبلک فنانس منیجمنٹ اصلاحات شروع کیں، جس سے وفاقی حکومت کی مالی انتظامی معاملات میں بہتری آئی ہے۔

وزیر صنعت کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ احساس کے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو کرکے شفافیت لائی گئی جبکہ پاکستان پورٹل کا آغاز کرکے ادائیگیوں کے نظام میں بہتری لائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ آر ایل این جی پلانٹس جو بند ہونے کے قریب تھے ان کی بحالی کے ٹھوس اقدامات کیے گئے، جس سے ان کی کارکردگی میں قابل قدر بہتری آئی، اس کے علاوہ کلیدی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا گیا، این ایچ اے، پاکستان پوسٹ، کراچی پوسٹ جیسے اہم اداروں کی آمدن میں بالترتیب 70 فیصد، 50 فیصد اور 17 فیصد اضافہ کیا گیا اور ان کی استطاعت، کارکردگی اور شفافیت میں بہتری لائی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کاروبار اور صنعت کو ترقی دینے اور بیرونی سرمایہ کاری کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کے لیے کاروبار میں آسانیوں کے انڈیکس کے لیے اقدامات اٹھائے جس کے نتیجے میں پاکستان کاروبار میں آسانیوں کی رینکنگ میں پوری دنیا کے 190 ممالک میں 136ویں نمبر سے بہتری حاصل کر کے ایک سال میں 108ویں نمبر پ پہنچ گیا ہے اور انشااللہ اس میں مزید بہتری آئے گی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کو 'گرے لسٹ' میں ڈال دیا گیا اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایکشن پلان کے 27 قابل عمل نکات پر عملدرآمد کا مطلبہ کیا گیا، ہماری حکومت نے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے زبردست کاوشیں کیں تاکہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔

اس ضمن میں وفاقی حکومت نے قومی اور بین الاقوامی اینٹی منی لانڈرنگ ، ٹیرر فنانسنگ سرگرمیوں اور حکمت عملی کی تشکیل اور نفاذ کے لیے نیشنل ایف اے ٹی ایف کوآرڈینیشن کمیٹی کی سربراہی مجھے سونپی ہے۔ جامع قسم کی ٹیکنیکل اور قانونی اصلاحات شروع کی گئی ہیں، ان اقدامات سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ بہتر ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نتیجتاً ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کے 27 قابل عمل نکات کے سلسلے میں ہم نے قابل ذکر پیشرفت کی ہے، ایک سال کے عرصے میں 14 نکات پر مکمل عمل کیا گیا اور 11 پر جزوی طور ر عملدرآمد کیا گیا ہے جبکہ دو شعبوں میں عملدرآمد کے لیے زبردست کوششیں کی جارہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے کورونا وائرس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے دنیا کو سنگین سماجی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے، خاص طور پر ترقی پذٰیر ممالک کے لیے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، پہلے تو اسے انسانی صحت کے لیے مسئلہ سمجھا گیا، لیکن جلد ہی اس کے معاشی اور سماجی مضرمات بھی سامنے آئے۔

حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان بھی کورونا کے اثر سے محفوظ نہیں رہا اور اس نے معیشت کے استحکام کے لیے جو کاوشیں اور محنت کی تھیں اس آفت سے ان کو شدید دھچکا لگا ہے، اس مشکل وقت میں عوام کو زندگی کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے جس کے لیے ایسے اقدامات اور فیصلے کیے جا رہے ہیں جن سے لوگوں کی زندگی اور ذریعہ معاش کم سے کم متاثر ہو۔

انہوں نے کہا کہ طویل لاک ڈاؤن، ملک بھر میں کاروبار کی بندش، سفری پابندیوں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں جس کی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو اور سرمایہ کاری پر منفی اثرات متب ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بے روزگاری بڑھنے سے ترقی پذیر ممالک میں مشکلات میں مزید اضافہ ہوا جس سے پاکستان بھی نہ بچ سکا، مالی 20-2019 کے دوران پاکستان پر کورونا کے جو فوری اثرات ظاہر ہوئے ان کی تفصیل یہ ہے:
  • تقریباً تمام صنعتیں، کاروبار بری طرح متاثر ہوئے۔
  • جی ڈی پی میں اندازاً 3300 ارب روپے کی کمی ہوئی جس سے اس کی شرح نمو 3.3 فیصد سے کم ہو کر منفی 0.4 فیصد تک رہ گئی۔
  • مجموعی بجٹ خسارہ جو ڈی پی کا 7.1 فیصد تھا وہ 9.1 فیصد تک بڑھ گیا۔
  • ایف بی آر محصولات میں کمی کا اندازہ 900 ارب روپے ہے، وفاقی حکومت نان ٹیکس ریونیو 102 ارب روپے کم ہوا۔
  • ترسیلات زر اور برآمدات بری طرح متاثر ہوئیں اور بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔
حماد اظہر نے کہا کہ حکومت اللہ کے کرم سے اس سماجی اور معاشی چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے، اس مقصد کے لیے معاشرے کے کمزور طبقے اور شدید متاثر کاروباری طبقے کی طرف حکومت نے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے تاکہ کاروبار کی بندش و بے روزگاری کے منفی اثرات کا ازالہ کیا جا سکے۔

بجٹ کے نمایاں خدوخال
وفاقی وزیر نے کہا کہ بجٹ 21-2020 میں عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لیے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مجوزہ ٹیکس مراعات معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی، ان تجاویز میں کورونا اخراجات اور مالیاتی خسارے کے مابین توازن قائم رکھنا، پرائمری بیلنس کو مناسب سطح پر رکھنا، معاشرے کے کمزور اور پسماندہ طبقات کی مدد کے لیے احساس پروگرام کے تحت سماجی اخراجات کا عمل جاری رکھنا، آئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی سے جاری رکھنا، کورونا کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے مالی سال میں عوام کی مدد جاری رکھنا، ترقیاتی بجٹ کو موزوں سطح پر رکھنا شامل ہیں تاکہ معاشی نمو میں اضافے کے مقاصد پورے ہوسکیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیں۔

حماد اظہر نے کہا کہ بجٹ میں ملک کے دفاع اور داخلی تحفظ کو خاطر خواہ اہمیت دی گئی ہے، ٹیکسز میں غیر ضروری رد و بدل کے بغیر محصولات کی وصولی میں بہتری لانا، تعمیرات کے شعبے میں مراعات بشمول نیا پاکستان ہاؤسنگ پروجیکٹ کے لیے وسائل مختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خصوصی علاقوں یعنی سابق فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے بھی فنڈز رکھے گئے ہیں تاکہ وہاں بھی ترقی اور معاشی نمو کا عمل یقینی بنایا جاسکے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم کی قیادت میں خصوصی پروگرامز یعنی کامیاب جوان، صحت کارڈ، بلین ٹری سونامی وغیرہ کا بھی تحفظ کیا گیا ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ کفایت شعاری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی یقینی بنائی جائے گی، معاشرے کے مستحق طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کے لیے سبسڈی کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے گی اور سابقہ فاٹا کے علاقوں کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے وقت صوبوں نے مالیاتی اعانت کے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کرنے کے لیے رابطے تیز کیے جائیں گے۔

حکومتی آمدن، اخراجات و خسارہ
انہوں نے کہا کہ کُل ریونیو کا تخمینہ 6 ہزار 573 ارب روپے ہے جس میں ایف بی آر ریونیو 4 ہزار 963 روپے ہیں اور نان ٹیکس ریونیو ایک ہزار 610 ارب روپے ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 2 ہزار 874 ارب روپے کا ریونیو صوبوں کو منتقل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ نیٹ وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3700 ارب روپے ہے، کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے، اس طرح بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے تک رہنے کی توقع ہے جو جی ڈی پی کا 7 فیصد بنتا ہے اور پرائمری بیلنس منفی 0.5 فیصد ہوگا۔

تعلیم
بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ تعلیم کے شعبے کے لیے 30 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یکساں نصاب کی تیاری، معیاری نظام، امتحانات وضع کرنے، اسمارٹ اسکولوں کا قیام، مدرسوں کی قومی دھارے میں شمولیت سے تعلیمی نظام میں بہتری لائی جائے گی، جس کے لیے رقم مختص کردی گئی ہے اور ان اصلاحات کے لیے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، مزید برآں ہائر ایجوکیشن ترجیحی شعبہ جات میں سے ایک ہے۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ 21ویں صدی کے معیاری تعلیم پر پورا اترنے کے لیے تحقیق اور دیگر جدید شعبہ جات مثلات آرٹیفیشل انٹیلی جنس، روبوٹکس، آٹومیشن اور اسپیس ٹیکنالوجی کے شعبے تحقیق اور ترقی کے لیے کام کیا جاسکتا، لہٰذا تعلیم کے شعبے میں جدت اور اس حصول کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی
انہوں نے بتایا کہ امرجنگ ٹیکنالوجی اور نالج اکانومی کے اقدامات کو فروغ دینے کے لیے تحقیقی اداروں کی صلاحیت اور گنجائش کو بڑھانا اشد ضرورت ہے، مزید برآں ای گورننس اور آئی ٹی کی بنیاد پر چلنے والی سروسز، 5 جی سیلولر سروسز کے آغاز پر حکومت کی توجہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان شعبوں میں منصوبوں کے لیے 20 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے کیمیکل، الیکٹرانک، پروسیجن ایگری کلچرل کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جائے گا اور آر این ڈی کا صنعت کے ساتھ رابطہ مضبوط کیا جائے گا۔

قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا۔

اجلاس کے دوران آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ تجاویز کی منظوری دی گئی۔

اس سال کے بجٹ اجلاس کو محض رسمی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اس مقصد پر رائے دہی کے لیے دباؤ نہ ڈالنے اور 30 جون تک بجٹ کی منظوری تک کورم کی نشاندہی نہ کرنے پر متفق ہوگئی ہیں۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے مالی سال 20-2019 میں 70 کھرب 22 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا اور اس سے قبل پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے بعد محض 5 ماہ کے عرصے میں 2 منی بجٹ بھی پیش کیے تھے۔

مالی سال 21-2020 کے بجٹ کو مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی جانب سے 'کورونا بجٹ' کا نام دیا گیا ہے۔

رواں سال کا بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا جارہا ہے جب ملک کو عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث صحت کے بحران کے سامنا ہے جس نے ملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

اس حوالے سے یہ بھی مدنظر رہے کہ 9 جون کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات میں وفاقی حکومت کے اخراجات منجمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

مالی سال 20-2019
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے مکمل بجٹ میں سال 20-2019 کے لیے 70 کھرب 22 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ پیش کیا تھا جس میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 31 کھرب 512 ارب روپے اور 7.2 فیصد تجویز کیا گیا تھا۔

گزشتہ بجٹ میں ایف بی آر کی جانب سے وصولی کا ہدف 55 کھرب 50 ارب روپے رکھا گیا تھا جسے بعد ازاں کم کرکے 48 کھرب کیا گیا تھا لیکن کورونا وائرس کے باعث اس میں مزید کمی کرتے ہوئے 38 کھرب کردیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں مالی سال 20-2019میں وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے رکھا گیا تھاجو 19-2018 کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ تھا۔

قرضوں پر سود کی ادائیگی کا تخمینہ 28 کھرب 914 ارب روپے، اعلیٰ تعلیم کے لیے 45 ارب روپے، وفاقی ترقیاتی بجٹ میں زراعت کے لیے 1200 ارب روپے رکھے گئے تھے۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں کابینہ کے تمام وزرا کی تنخواہ میں 10 فیصد کمی کی تھی جبکہکم از کم تنخواہ بڑھا کر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ مقرر کی تھی۔

قبل ازیں مالی سال 19-2018 میں 52 کھرب 46 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا جبکہ اخراجات 53 ارب 85 ارب روپے ہوگئے تھے۔

اس سے قبل مالی سالی 17-2018 میں 47 کھرب 53 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا جبکہ اخراجات 48 کھرب 57 ارب روپے ہوگئے تھے۔

17-2016 میں 43 کھرب 96 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا لیکن اخراجات 42 کھرب 56 ارب روپے رہے۔

مالی سال 16-2015 میں 40 کھرب 86 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا اور اس سال بھی اخراجات بجٹ کے اندر رہتے ہوئے 40 کھرب 69 ارب رہے تھے۔

جی ڈی پی
اس سے قبل مالی سال 18-2017 میں جی ڈی پی کا ہدف 6 فیصد مقرر تھا، مالی سال 17-2016 میں 5.7 فیصد، 16-2015 میں 5.5 فیصد، 15-2014 میں 5.1 فیصد اور 14-2013 میں اس کا ہدف 4.4 فیصد رکھا گیا تھا۔

خیال رہے کہ جی ڈی پی میں زراعت کے حصے پر نظر ڈالیں تو مالی سال 19-2018 کیلئے یہ 3.8 فیصد مقرر کیا گیا تھا تاہم یہ 0.8 رہا، 17-2016 میں عارضی طور پر 3.46 فیصد رہا، 16-2015 میں 0.27 فیصد، 15-2014 میں 2.13 فیصد اور 14-2013 میں یہ 2.5 فیصد تھا۔

جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا حصہ مالی سال 19-2018 کے لیے 8.1 فیصد مقرر کیا گیا تھا لیکن یہ منفی 0.3 فیصد رہا، 17-2016 میں عارضی طور پر 5 فیصد رہا، 16-2015 میں 5.8 فیصد، 15-2014 میں 5.2 فیصد اور 14-2013 میں یہ 4.53 فیصد تھا۔

جی ڈی پی میں اشیاء کی پیداوار کے شعبے کا حصہ مالی سال 19-2018 کے لیے 7.6 فیصد مقرر کیا گیا لیکن یہ 1.40 رہا، 17-2016 میں عارضی طور پر 4.3 فیصد، 16-2015 میں 3 فیصد، 15-2014 میں 3.6 فیصد، 14-2013 میں 3.49 فیصد تھا۔

سروسز کے شعبے میں شرح نمو کی ترقی مالی سال 19-2018 کے لیے 6.5 فیصد مقرر کی گئی تھی لیکن یہ 4.71 رہی، 17-2016 میں عارضی طور پر 5.6 فیصد، 16-2015 میں 5.6 فیصد، 15-2014 میں 4.4 فیصد اور 14-2013 میں 4.46 فیصد رہی۔

گزشتہ بجٹس کے دوران جی ڈی پی کی شرح میں ٹیکس ریونیو کی شرح 19-2018 میں 12.6 رہی، 17-2016 میں 8.5 فیصد، 16-2015 میں 12.6 فیصد، 15-2014 میں 11 فیصد اور 14-2013 میں یہ 10.2 فیصد رہی۔

اقتصادی جائزہ رپورٹ
گذشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے وزیراعظم کےمشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ آنے والے بجٹ میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو مزید مراعات اور مزید ریلیف دیں اور سماجی تحفظ کے پروگرامز میں مزید فنڈنگ دیں تاکہ وہ لوگوں تک پہنچ سکیں اور ہم اپنی صنعت کو اچھے انداز میں چلا سکیں۔

مشیر خزانہ نے کہا تھا کہ ہماری خصوصی طور پر کوشش ہو گی کہ نئے ٹیکسز نہ لگائے جائیں اور ٹیکسز کا بھی جائزہ کے لر ان میں کمی لائی جائے تاکہ لوگوں کو معاشی ریلیف پیکج مل سکے اور صورتحال سے بہتر انداز میں نمٹ سکیں۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ مالی سال 20-2019 میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو کا تخمینہ منفی 0.4 فیصد ہے، اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد ہے جس میں صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ خدمات کا شعبہ جس میں کاروباری طبقہ ہے جسے ہم ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ کہتے ہیں اس میں منفی 3.4 فیصد شرح نمو ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا تھا کہ مینوفیکچرنگ میں کافی کمی ہوئی جو منفی 22.9 فیصد رہی۔

انہوں نے کہا تھا کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ، ریلوے اور ایئر ٹرانسپورٹ بند رہے تو اس میں منفی ترقی ہوئی اور یہ شرح منفی 7.1 ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا تھا کہ ہمارے پورے ملک کی آمدنی 0.4 فیصد کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ آمدنی 3 فیصد بڑھے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آمدن میں 3 سے ساڑھے 3 فیصد نقصان دیکھنا پڑا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے باعث ملکی آمدن میں 30 کھرب روپے کا نقصان ہوا۔

مجموعی سرکاری قرض جی ڈی پی کا 88 فیصد
قومی اقتصادی سروے کے مطابق جولائی 2019 سے مارچ 2020 تک کے عرصے میں ملک کا مجموعی قرض اور واجبات 20 کھرب 59 ارب 70 کروڑ روپے تک جا پہنچے۔

قرض و واجبات مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کے 102.6 فیصد تک پہنچ چکے ہیں، سروے کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2020 تک سرکاری قرض جی ڈی پی کے 84.4 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔

گزشتہ روز مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے پریس کانفرنس میں سرکاری قرض جی ڈی پی کے 88 فیصد تک پہنچے کا اعلان کیا جس میں مارچ سے اب تک لیے گئے قرض مثال کے طور پر اپریل میں آئی ایم ایف سے لیے گئے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر بھی شامل ہیں۔

افراط زر
اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق جولائی 2019 سے اپریل 2020 کے عرصے کے دوران صارف قیمت اشاریہ (چی پی آئی) افراط زر 11.22 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال اس عرصے میں 6.51 فیصد تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جلدی خراب ہونے والی کھانے کی اشیا کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور اس شعبے میں مہنگائی کی شرح 34.7 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

ٹیکس مراعات سے 11 کھرب 49 ارب روپے کا نقصان ہوا
اقتصادی سروے 20-2019 کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں ٹیکس مراعات کی لاگت گزشتہ سال کے 972 ارب 04 کروڑ کے مقابلے میں 18.25 فیصد اضافے کے ساتھ 11 کھرب 49 ارب روپے ہوگئی۔ انکم ٹیکس مراعات سال 2019۔20 میں بڑھ کر 378 ارب روپے ہوگئی جو گزشتہ سال میں 141 ارب 64 کروڑ روپے تھی 166.88 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

اس ٹیکس مراعات میں کل آمدنی سے 212.07 ارب روپے اور کاروباری افراد کو دیے گئے 104.498 ارب روپے شامل ہیں۔

سب سے زیادہ اس ٹیکس مراعات سے فائدہ اٹھانے والے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) ہیں۔

سیلز ٹیکس میں مراعات 2019-2020 میں کم ہوکر 518.8ارب روپے ہوگئی جو 2018-19 میں 597.7 ارب روپے تھی جو 13 فیصد کی کمی ظاہر کرتی ہے۔

ایک کروڑ افراد کے خط غربت سے نیچے جانے کا خدشہ
اقتصادی سروے پاکستان مطابق ملک میں کورونا وائرس کے اثرات سے مزید ایک کروڑ افراد کے خطِ غربت سے نیچے جانے کا خدشہ ہے۔

سروے میں کہا گیا کہ ’کورونا وائرس کے باعث پاکستان کی معیشت پر منفی اثر پڑنے کی توقع ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 5 کروڑ سے بڑھ کر 6 کروڑ ہو سکتی ہے‘۔

پلاننگ کمیشن نے ضروریات زندگی کی لاگت یا کوسٹ آف بیسک نیڈ (سی بی این) کے طریقے سے غربت کا تخمینہ لگایا جس کے مطابق ماہانہ 3 ہزار 250 روپے فی بالغ شخص رقم بنتی ہے، اس طریقہ کار کے مطابق 24.3 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
یہ کیسا بجٹ ہے جس میں پہلی مرتبہ نہ تنخواہوں میں اضافہ ہے نہ پینشنرز کو کوئ ریلیف اللہ رحم فرمائے
 

آورکزئی

محفلین
ٹیکس فری بجٹ کا دعوی جھوٹا ہے حکومت نے اپنے شماریے میں ایک ہزار 55 ارب روپے کے اضافی ریونیو کا عندیہ دیا ہے کچھ مہینے بعد منی بجٹ لا کر یہ ایک ہزار 55 ارب روپے قوم کا خون نچوڑ کر وصول کیے جائیں گے
 

وصی اللہ

محفلین
ہاسا نکل گیا۔۔۔۔۔ ان یوتھیوں کی آخر جانیں ہی جاتیاں ہے
نے پی ٹی کو ہے صرفہ نا آئی کو محابہ
 

جاسم محمد

محفلین
ہاسا نکل گیا۔۔۔۔۔ ان یوتھیوں کی آخر جانیں ہی جاتیاں ہے
نے پی ٹی کو ہے صرفہ نا آئی کو محابہ
ن لیگیوں سے کہیں قوم سے جھوٹ بولنا چھوڑ دیں۔ تجارتی اور مالی خسارہ ہی دراصل وہ چیز ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو بار بار آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کر جانا پڑتا ہے۔ ان دو اہم خساروں کے ہوتے ہوئے کوئی اور مالی عشاریہ جیسے جی ڈی پی بہتر کر لینے سے پوری معیشت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

 

جاسم محمد

محفلین
ہمیں ہر سال بجٹ کے موقع پر ن لیگیوں کو اعدادوشمار سمجھانے پڑجاتے ہیں، چنانچہ اس دفعہ بھی یہ ناخوشگوار فریضہ انصافیوں کو ہی سرانجام دینا ہوگا۔

سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ اگر آپ کی ماہانہ تنخواہ پچاس ہزار ہے اور ایک دوسرے شخص کی ماہانہ تنخواہ چالیس ہزار ہے تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ پچاس ہزار کمانے والا آج سے پانچ سال بعد زیادہ خوشحال ہوگا۔ اس کیلئے آپ کو مندرجہ ذیل فیکٹرز دیکھنا ہوں گے:

1۔ دونوں اشخاص میں سے کس کے اخراجات کا تناسب زیادہ ہے؟
2۔ دونوں اشخاص میں سے غیرضروری اخراجات کون زیادہ کرتا ہے؟

بجٹ کے اعدادوشما کا موازنہ بھی اسی بنیاد پر کرنا ہوگا۔

ن لیگ نے جب حکومت چھوڑی تو اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالرز ہوچکا تھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی امپورٹس (یعنی بیرون ممالک سے اشیا کی خریداری ) اور آپ کی ایکسپورٹس (یعنی بیرون ممالک کو اشیا کی فروخت) کے درمیان 20 ارب ڈالرز کا فرق تھا۔ آسان الفاظ میں یوں کہیں کہ آپ اپنی گنجائش اور اوقات سے بڑھ کر خریداری کررہے تھے۔

20 ارب ڈالرز کے فرق کا مطلب ہے کہ آپ کو پیمنٹ کیلئے 20 ارب ڈالرز کا قرضہ ہر سال لینا ہوگا، کیونکہ پاکستانی کرنسی میں تو ادائیگی ہونہیں سکتی۔جون 2018 میں تجارتی خسارہ اس سے بھی اوپر یعنی 32 ارب ڈالرز کی سطح پر تھا۔

تحریک انصاف کی حکومت نے پچھلے دو سال میں مشکل فیصلے کئے جن کی بدولت یہ خسارہ 20 ارب ڈالرز سے کم کرکے 3 ارب ڈالرز کردیا۔

تجاری خسارہ 32 ارب ڈالرز سے کم کرکے 15 ارب ڈالرز کردیا۔

ن لیگ کی تاریخ ایک طرف رکھیں اور تحریک انصاف کی صرف کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کی کاوش کو دوسری طرف رکھیں تو پھر بھی تحریک انصاف کا سکور ہزار گنا زیادہ ہوگا ۔

2018 میں جب نون لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو اس وقت جی ڈی پی کا حجم 38 کھرب روپے تھا۔

آج دو سال بعد تحریک انصاف کی حکومت میں جی ڈی پی کا حجم بڑھ کرپونے 42 کھرب روپے ہوگیا۔یاد رہے، کہ ان دو سالوں میں چار مہینے کرونا کے بھی تھے،

کرونا کے دوران برطانوی معیشت بیس فیصد سکڑ کررہ گئی، امریکی معیشت تیس فیصد تک سکڑنے کا امکان ہے ۔

لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے نہ صرف جی ڈی پی میں اضافہ کیا، بلکہ 10 ارب ڈالرز کا قرضہ بھی واپس کیا ہے۔

یہ کارکردگی پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی حکومت نے اپنے پہلے دو سال میں نہیں دکھائی۔

!!! بقلم خود باباکوڈا
 
Top