9/11 کیا آپ اس واقعے/ڈرامے پر یقین رکھتے ہیں؟

دہشت گردوں کی فکر کی بنیاد "‌نظریاتی اختلاف کی سزا موت " ہے۔ چاہے یہ نظریاتی اختلافات، مذہبی ہوں، علاقائی ہوں، معیشتی ہوں‌ یا کسی بھی نوعیت کے ہوں۔ وہ کسی بحث کے قائل نہیں۔ ہر بحث کا، ہر اختلاف کا جواب " قتل و غارت گری " ہے۔ کسی بھی باہمی بحث ، فورم ، جمہوریت کا تصور دہشت گردی کی لغت میں موجود نہیں۔ بحث و مخالفت کی واحد سزا گردن زدنی ہے۔ فرد واحد کی حکومت اور دہشت گرد مذہبی عناصر کی سپورٹ ان کی حکومت کی مجوزہ تقویم ہے۔

اس کے برعکس نا پاکستانی عوام اور نا ہی پاکستانی حکومت اس قسم کے خیالات کی ترویج کرتی ہے۔ وہ تھوڑے سے لوگ جو مندرجہ بالاء نظریہ کے قائل ہیں ، امریکہ کو ایک مخالف اور ہوا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ القاعدہ کی طرف سے اس اعتراف کے باوجود کے وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے ذمہ دار تھے 9-11 کو ایک ڈرامہ کہنا انتہائی درجے کی تباہ حال فکر کی نشاندہی کرتا ہے۔ خود تالی بان (طالبان نہیں تالیبان یعنی تالیاں‌بجانے والا یا مسخرہ ) اسامہ بن لادن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ معصوم انسانوں کی قتل و غارتگری سے بھرپور "‌ اس نتیجے کی ہم (القاعدہ )کو توقع نہیں تھی " ۔۔ لاحول ولا قوۃ‌ ۔۔۔

معصوم لوگوں کا ان کے کام کرنے کی جگہ پر قتل ایک ایسا سانحہ ہے جو " نظریاتی اختلاف کی سزا موت " یعنی دہشت گردی ہے۔ یہ ایک قابل مذمت قدم تھا جس کی ہر ذی شعور مسلمان نے مذمت کی ہے۔ پہلے "‌نظریاتی اختلاف کی سزا موت "‌ یعنی دہشت گردی پر یقین رکھنا پھر اس کو اسلام سے ضہاد ثابت کرنے کی کوشش کرنا ایک باعث شرم حرکت ہے، اتنی شرمناک کہ یہ شخص اب تک کسی چوہے کے بل میں چھپا بیٹھا ہے۔

جنگ کو فوجوں کے درمیان نہ رکھنے کی اور جنگ کو عام پر امن شہریوں تک لے جانے کی قرآن ممانعت کرتا ہے۔ اور جہاد یا قتال یا جنگ کی اجازت صرف اور صرف اس صورت میں دیتا ہے جب کہ ایک نظریاتی فلاحی ریاست پر حملہ کیا جائے۔ لہذا پرامن شہریوں پر دہشت گردوں کا ایسا کوئی حملہ یقیناً ‌قابل مذمت ہے۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جنگ کو فوجوں کے درمیان نہ رکھنے کی اور جنگ کو عام پر امن شہریوں تک لے جانے کی قرآن ممانعت کرتا ہے۔ اور جہاد یا قتال یا جنگ کی اجازت صرف اور صرف اس صورت میں دیتا ہے جب کہ ایک نظریاتی فلاحی ریاست پر حملہ کیا جائے۔ لہذا پرامن شہریوں پر دہشت گردوں کا ایسا کوئی حملہ یقیناً ‌قابل مذمت ہے۔

:rolleyes: فلسطین ، عراق ، افعانستان
 

ساجد

محفلین
دوستو ، ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی اگر واقعہ ہے تو اس کی بنیاد پر امریکی حکومت نے ایک ایسا خونی ڈرامہ شروع کر رکھا ہے کہ پوری دنیا کا امن و سکون غارت ہو گیا ہے اور لاکھوں بے گناہوں کو اس کی آڑھ میں موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا ہے۔
اور اگر ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی ایک ڈرامہ تھی تو بھی بش انتظامیہ نے اس کو حقیقت ثابت کرنے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن نتیجہ یہ ہے کہ آج امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کی پہلے سے کہیں بڑی تعداد اس وقوعے پر شک و شبہ کا اظہار کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
دنیا میں کسی بھی انسان کے خون کی حرمت اتنی ہی ہے جتنی کہ ایک امریکی کے خون کی، تو کیا وجہ ہے کہ ایک عمارت کی تباہی کو بنیاد بنا کر منہ زور بش انتظامیہ ملکوں کے ملک تباہ کرنے کے بعد بھی اپنی خون آشامی کے لئیے نئے ہدف تلاش کرتی پھر رہی ہے ۔
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری مقصود ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

دوستو ، ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی اگر واقعہ ہے تو اس کی بنیاد پر امریکی حکومت نے ایک ایسا خونی ڈرامہ شروع کر رکھا ہے کہ پوری دنیا کا امن و سکون غارت ہو گیا ہے اور لاکھوں بے گناہوں کو اس کی آڑھ میں موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا ہے۔

محترم،

11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹريڈ سينٹر پر حملہ القائدہ اور اسامہ بن لادن کی جانب سے امريکہ پر پہلا حملہ نہيں تھا بلکہ اس سے پہلے دس سالہ تاريخ ہے جس ميں اسامہ بن لادن اور ان کی تنظيم کی جانب سے دنيا بھر ميں امريکی سفارت کاروں اور عمارات پر حملے کيے جا رہے تھے۔ اسامہ بن لادن کی جانب سے امريکہ کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کيا چا چکا تھا۔ افغانستان ميں بے شمار ٹرينيگ کيمپ قائم کيے جا چکے تھے جہاں دنيا بھر سے نوجوانوں کو اکٹھا کر کے انہيں دہشت گردی کی تربيت دی جا رہی تھی۔ دنيا کے بے شمار ممالک ميں القائدہ کے خفيہ سيل دہشت گردی کی مزيد کاروائيوں کے ليے تيار کيے جا رہے تھے۔

بقول آپکے امريکہ نے 911 کو بنیاد بنا کر افغانستان پر حملہ کيا اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کيا۔ ميرا آپ سے سوال ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد امريکہ کو کيا کرنا چاہيے تھا؟ کيا اسامہ بن لادن کو مذاکرات کی ميز پر بلوا کر ان کے مطالبات سنے جاتے اور ان پر بحث کے ليے کميٹياں تشکيل دی جاتيں۔ اگر تھوڑی دير کے ليے يہ غير منطقی بات مان بھی لی جائے تو اس کا نتيجہ کيا نکلتا؟

ياد رہے کہ 11 ستمبر 2001 کے بعد امريکہ نے افغانستان پر اندھا دھند چڑھائ نہيں کی تھی بلکہ اسامہ بن لادن تک رسائ کے ليے طالبان سے دو ماہ تک مسلسل مذاکرات کيے تھے جس دوران حکومت پاکستان کی جانب سے 5 وفود افغانستان بيجھے گئے۔ تمام سفارتی کوششوں کی ناکامی کے بعد انتہاہی قدم اٹھايا گيا۔ کيا اسامہ بن لادن کو افغانستان ميں کھلی چھٹی دے کر القائدہ کو مزيد فعال کرنے کے مواقع دينا "عالمی امن" کے ليے درست فيصلہ ہوتا؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.govو
 

ساجداقبال

محفلین
بقول آپکے امريکہ نے 911 کو بنیاد بنا کر افغانستان پر حملہ کيا اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کيا۔ ميرا آپ سے سوال ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد امريکہ کو کيا کرنا چاہيے تھا؟ کيا اسامہ بن لادن کو مذاکرات کی ميز پر بلوا کر ان کے مطالبات سنے جاتے اور ان پر بحث کے ليے کميٹياں تشکيل دی جاتيں۔ اگر تھوڑی دير کے ليے يہ غير منطقی بات مان بھی لی جائے تو اس کا نتيجہ کيا نکلتا؟

ياد رہے کہ 11 ستمبر 2001 کے بعد امريکہ نے افغانستان پر اندھا دھند چڑھائ نہيں کی تھی بلکہ اسامہ بن لادن تک رسائ کے ليے طالبان سے دو ماہ تک مسلسل مذاکرات کيے تھے جس دوران حکومت پاکستان کی جانب سے 5 وفود افغانستان بيجھے گئے۔ تمام سفارتی کوششوں کی ناکامی کے بعد انتہاہی قدم اٹھايا گيا۔ کيا اسامہ بن لادن کو افغانستان ميں کھلی چھٹی دے کر القائدہ کو مزيد فعال کرنے کے مواقع دينا "عالمی امن" کے ليے درست فيصلہ ہوتا؟
مجھے یاد پڑتا ہے کہ طالبان نے آفر کی تھی کہ اسامہ اینڈ کمپنی کیخلاف انہیں ثبوت پیش کیے جائیں تو وہ خود انکے خلاف کاروائی کرینگے۔ کیا یہ مسئلے کا دانشمندانہ حل نہیں تھا؟ اور کیا اس آپشن کو آزمانے کے بعد تک کاروائی مؤخر نہیں کی جا سکتی تھی؟
 
اعتراف کے بعد ثبوت کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔ جب ہم افغانستان پر امریکہ کے حملے کو "یاد"‌ کرتے ہیں تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس سے پیشتر امریکی عمارات پر کئی حملے اس ایک شخص کی ہدایت پر ہوئے۔ جس کی ذمہ داری خود اس تالی بان نے قبول کی۔ یہ شخص "‌نظریاتی اختلافات کی سزا موت" کے اصول کا قائل ہے۔ اس نظریہ کو بنیاد بنا کر ہزاروں افراد کا جن میں ایک بڑی تعداد میں پاکستانی بھی شامل ہیں ، یہ شخص قاتل ہے۔ ان اعترافی بیانات کے بعد کیا ثبوت درکار ہیں‌؟
 
گستاخی معاف لیکن تحقیر کا یہ انداز انتہائی گرا ہوا ہے۔
کوئی گستاخی نہیں۔ کسی چھپ کر حملہ کرنے والے کو آج تک مرد نہیں کہا گیا۔ یہ تالی بان چھپ کر حملہ کرتا ہے۔ علی الاعلان سامنے نہیں آتا۔ لوگوں کو فلسفہ دہشت گردی، یعنی "‌نظریاتی اختلاف کی سزا موت " کے لئے راغب کرتا ہے، اسلام کو اپنے فلسفہ کی ترویج کے لئے استعمال کرکے تمام مسلمانوں کو اور ان کے مذہب پر داغ لگاتا ہے۔ اس علاقہ کا امن تہہ و بالا کیا ہوا ہے۔
ان تالی بانوں کے عام افراد پر قاتلانہ حملہ ، جگہ جگہ بموں کے دھماکے اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ لوگ مردوں کی طرح نہیں بلکہ زنخوں کی طرح لڑتے ہیں۔ کمزور پر شیر اور مظبوط کے سامنے گیدڑ۔ ایسوں کو تالی بان نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ ان کی بہادری تو کافی عرصے سے عیاں ہے۔ کبھی چھپ کر اِدھر دھماکہ ، کبھی اُدھر دھماکہ۔ اتنے سارے پاکستانیوں کے دھماکوں میں قتل کے بعد بھی کوئی ایسے تالی بانوں کی طرف داری کرے تو بیجا ہے۔
 

ساجد

محفلین
محترم،

11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹريڈ سينٹر پر حملہ القائدہ اور اسامہ بن لادن کی جانب سے امريکہ پر پہلا حملہ نہيں تھا بلکہ اس سے پہلے دس سالہ تاريخ ہے جس ميں اسامہ بن لادن اور ان کی تنظيم کی جانب سے دنيا بھر ميں امريکی سفارت کاروں اور عمارات پر حملے کيے جا رہے تھے۔ اسامہ بن لادن کی جانب سے امريکہ کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کيا چا چکا تھا۔ افغانستان ميں بے شمار ٹرينيگ کيمپ قائم کيے جا چکے تھے جہاں دنيا بھر سے نوجوانوں کو اکٹھا کر کے انہيں دہشت گردی کی تربيت دی جا رہی تھی۔ دنيا کے بے شمار ممالک ميں القائدہ کے خفيہ سيل دہشت گردی کی مزيد کاروائيوں کے ليے تيار کيے جا رہے تھے۔

بقول آپکے امريکہ نے 911 کو بنیاد بنا کر افغانستان پر حملہ کيا اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کيا۔ ميرا آپ سے سوال ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد امريکہ کو کيا کرنا چاہيے تھا؟ کيا اسامہ بن لادن کو مذاکرات کی ميز پر بلوا کر ان کے مطالبات سنے جاتے اور ان پر بحث کے ليے کميٹياں تشکيل دی جاتيں۔ اگر تھوڑی دير کے ليے يہ غير منطقی بات مان بھی لی جائے تو اس کا نتيجہ کيا نکلتا؟

ياد رہے کہ 11 ستمبر 2001 کے بعد امريکہ نے افغانستان پر اندھا دھند چڑھائ نہيں کی تھی بلکہ اسامہ بن لادن تک رسائ کے ليے طالبان سے دو ماہ تک مسلسل مذاکرات کيے تھے جس دوران حکومت پاکستان کی جانب سے 5 وفود افغانستان بيجھے گئے۔ تمام سفارتی کوششوں کی ناکامی کے بعد انتہاہی قدم اٹھايا گيا۔ کيا اسامہ بن لادن کو افغانستان ميں کھلی چھٹی دے کر القائدہ کو مزيد فعال کرنے کے مواقع دينا "عالمی امن" کے ليے درست فيصلہ ہوتا؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.govو
فواد صاحب ،
محترم ، میرا مقصد امریکہ کے خلاف بے مقصد پروپیگنڈہ نہیں ہے۔ بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر اسامہ بن لادن دہشت گرد گروپ ہے تو اس کی بنیاد رکھنے اور اس کی آبیاری کرنے والا بھی امریکہ ہی ہے ۔ یہ وہی امریکہ ہے جس کو افغانستان کی جنگ کے دوران اسامہ بن لادن سے بڑا کوئی مجاہد دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس وقت طالبان دہشت گرد نہیں بلکہ مجاہدین تھے۔امریکی حکومتیں ان کے صدقے واری جاتی تھیں اور ڈالروں کی بوریوں کے منہ ان کے لئیے کھلے تھے۔اس وقت بھی ان (دہشت گردوں) کی ٹریننگ پاکستان کے انہی قبائلی علاقوں میں ہوتی تھی جو آج امریکہ بہادر کو دہشت گردی کے اڈے دکھائی دے رہے ہیں۔ اور پاکستان کی آئی ایس آئی بھی امریکہ کے ساتھ اس گناہ میں برابر کی شریک رہی جس کا خمیازہ پاکستان خودکش حملوں کی صورت میں بھگت رہا ہے۔
جب روس شکست کھا گیا تو پھر اس کہانی نے بھی رخ بدلا۔ نیو ورلڈ آرڈر کا واویلا مچا۔ اس مبینہ ورلڈ آرڈر میں اب طالبان کا کردار ختم ہو چکا تھا اور پاکستان کے لئیے نہ صرف امریکی امداد بند کر دی گئی بلکہ اس کو دہشت گرد بھی کہا جانے لگا۔ محترم پریسلر صاحب کی ترمیم نے محرم کو مجرم بنانے میں ایک لمحہ بھی نہ لگایا۔ اب امریکی حکومت پاکستان کے ساتھ اپنی روایتی بے وفائی پر اتر آئی تھی۔ اس کو اب پاکستان کی ضرورت نہ تھی۔
ان (دہشت گردوں) نے ہی امریکہ کو واحد سوپر پاور بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب تک یہ امریکہ کے مفاد کے لئیے لڑتے تھے تو امریکی حکومت ان کو مجاہدین اور آزادی کے متوالے کہتی تھی اب جب کہ امریکہ کا ہاتھ روکنے والا روس نہ رہا تو وہی بھیڑ کے بچے اور بھیڑئیے والی کہانی عملی طور پر ہم سب نے دیکھی۔ اور امریکہ کو یہ لاڈلے ایک آنکھ نہ بھاتے تھے اور وہ اپنے ہی تربیت یافتہ سورماؤں سے ڈائریکٹ ٹکر لینے سے بھی بچنا چاہتا تھا۔ کیوں کہ سمجھداری اسی میں تھی کہ اپنی فوج مروانے کی بجائے کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جائے کہ عالمی حمایت بھی مل جائے اور اپنے سیاسی عزائم بھی حاصل کر لئیے جائیں۔
اب پھر سے پاکستان کا بازو مروڑا گیا۔ اس پر بے بنیاد الزامات لگائے جانے لگے اور جب تک ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا یہ ڈرامہ ایکٹ کیا جانا تھا پاکستان کو اس سے پہلے ہی اس قدر زچ کر دیا گیا تھا کہ پاکستان امریکہ کی بات ماننے پر مجبور ہو جائے۔
امریکہ کی بات مان کر جو نقصان پاکستان نے اٹھایا اس کا عشر عشیر بھی امریکہ کو پہنچتا تو بش اینڈ کمپنی کے ہوش ٹھکانے آ جاتے۔ ہوا کیا کہ چھوٹے موٹے مزید ڈرامے ایکٹ کر کے خود کو مضلوم بنا کر پیش کیا گیا۔ کبھی اینتھریکس کا حملہ خطوط کے ذریعے کئیے جانے کی خبر ملتی تو کبھی طالبان کی طرف سے کسی دھمکی آمیز ای میل کا شور سنائی دیتا۔اور جب سارے پتے کھیلے جا چکے تو بش صاحب کو خدا کی طرف سے مسلم ممالک پر حملوں کے اشارے بھی ملنے لگے۔
بہت کچھ اور بھی ہے لکھنے کو ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک انصاف پسند ذہن اگر درج بالا واقعات کا غیر جانبداری سے جائزہ لے کر کوئی تصویر بنائے تو اس میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کے ڈرامے کو سمجھنے کے لئیے بہت کچھ ہے۔
اب پھر سے راگ الاپا جا رہا ہے کہ اگر مزید حملے ہوئے تو پاکستان ذمہ دار ہو گا۔ اوبامہ اور ہیلری پھر سے "خدا کی مرضی" پر چلنے کا ذکر فرما رہے ہیں۔بش صاحب کسی بھی قسم کی شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کو فاشسٹ کہہ چکے ہیں۔
اب انتظار ہے تو اس بات کا کہ اس ڈرامے کی اگلی قسط امریکی حکومت کب شروع کرے گی۔اور آیا کہ یہ کام موجودہ بش انتظامیہ ہی کرے گی یا آنے والی حکومت تک اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
ياد رہے کہ 11 ستمبر 2001 کے بعد امريکہ نے افغانستان پر اندھا دھند چڑھائ نہيں کی تھی بلکہ اسامہ بن لادن تک رسائ کے ليے طالبان سے دو ماہ تک مسلسل مذاکرات کيے تھے جس دوران حکومت پاکستان کی جانب سے 5 وفود افغانستان بيجھے گئے۔ تمام سفارتی کوششوں کی ناکامی کے بعد انتہاہی قدم اٹھايا گيا۔ کيا اسامہ بن لادن کو افغانستان ميں کھلی چھٹی دے کر القائدہ کو مزيد فعال کرنے کے مواقع دينا "عالمی امن" کے ليے درست فيصلہ ہوتا؟

واہ! مان گئے آپ کی امریکی طرف داری کو۔ اگر القاعدہ عالمی امن کیلئے خطرہ ہے تو جو آپ کے امریکہ صاحب اس کی آڑ میں ‌افغانستان اور عراق میں گھس آئیں ہیں اور وہاں ہم مسلمانوں‌ کا تیل پی رہیں جسکی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں‌قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں ہے۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان ترقی پزیر ممالک کو ہوا ہے اور آج ہمارے ملک سخت غربت و مہنگائی کی لپیٹ‌میں‌ ہے۔ یہ سب کچھ تو القاعدہ کی کاروائیوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ جس عالمی امن کو امریکی قائم رکھنا چاہتے ہیں اس کو انہوں نے خود تباہ و برباد کیا ہے، صرف منافع کے حصول کی خاطر :mad:
اگر امریکہ کو عالمی امن کا اتنا ہی خیال تھا تو یو این او سمیت پوری دنیا کے احتججاج کے باوجود ایک ایسے ملک پر حملہ کیوں کیا جس نے آج تک کسی امریکی شہری کو نہیں مارا، یعنی عراق! صرف weapons of mass destruction کی خاطر، جو کہ آج تک کبھی ملے نہیں۔۔۔۔۔ یا عراقی تیل کی خاطر؟
پہلے اس بات کا جواب دیں؟؟؟؟ :mad:
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اور وہاں ہم مسلمانوں‌ کا تیل پی رہیں جسکی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں‌قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں ہے۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان ترقی پزیر ممالک کو ہوا ہے اور آج ہمارے ملک سخت غربت و مہنگائی کی لپیٹ‌میں‌ ہے۔ یہ سب کچھ تو القاعدہ کی کاروائیوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ جس عالمی امن کو امریکی قائم رکھنا چاہتے ہیں اس کو انہوں نے خود تباہ و برباد کیا ہے، صرف منافع کے حصول کی خاطر :mad:

پہلے اس بات کا جواب دیں؟؟؟؟ :mad:

محترم،

آپ کی بات ميں وزن ہوتا اگر تيل کا بحران محض ترقی پذير ممالک تک محدود ہوتا اور امريکہ ميں لوگ بقول آپکے عراق اور افغانستان سے چرائے ہوئے تيل کے عوض سستے تيل کے مزے لوٹ رہے ہوتے۔ تيل کے عالمی بحران کا اثر امريکہ ميں بھی اتنا ہی پڑا ہے جتنا کہ باقی دنيا ميں۔ اس کے ثبوت کے ليے مجھے آپکو اعداد وشمار اور مختلف رپورٹس کے حوالے دينے کی ضرورت نہيں ہے۔ آپ امريکہ کے کسی بھی نشرياتی ادارے کی گزشتہ چند ہفتوں کی سرخياں ديکھ ليں، آپ کو اس حقيقت کا علم ہو جائے گا کہ تيل کے بحران کے سبب امريکہ کا غريب طبقہ ہی نہيں بلکہ متوسط طبقہ بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔

عراق کے تيل پر امريکی قبضے کے حوالے سے کچھ عرصہ پہلے اسی فورم پر ميں نے کچھ اعداد وشمار ديے تھے۔ پيش خدمت ہيں۔

عراق کے تيل پر قبضے کی امريکی سازش

يہ وہ نقطہ ہے جس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا گيا ہے۔ اس فورم پر بھی کچھ دوستوں نے عراق پر حملہ بلکہ افغان جنگ کو بھی عراق کے تیل پر امريکی قبضے کی ايک عالمگير سازش قرار ديا ہے۔ يہ تاثر بھی عام ہے کہ امريکہ حکومت کے صدام حسين کے ساتھ دیرينہ تعلقات رہے ھيں۔ اور پھر يہ دليل بھی دی کہ امريکہ نے عراق پر تيل کے ليے حملہ کيا۔ اگر امریکہ کے صدام کے ساتھ تعلقات اتنے ہی ديرينہ تھے تو اسےاربوں ڈالرز کی لاگت سے جنگ شروع کر کے اپنے ہزاروں فوجی جھونکنے کی کيا ضرورت تھی۔ امريکہ کے ليے تو آسان راستہ يہ ہوتا کہ وہ صدام کے توسط سے تيل کی درآمد کے معاہدے کرتا۔

اس حوالے سے ميں نے يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے جو اعداد وشمار حاصل کيے ہيں وہ آپ کے سامنے رکھ کر ميں فيصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ سچ کيا ہے اور افسانہ کيا ہے۔

عراق جنگ پر امريکہ کے مالی اخراجات کا تخمينہ کئ ٹرلين ڈالرز لگايا گيا ہے۔ اگر ان اخراجات کا مقابلہ عراق ميں تيل کی مجموعی پیداوار سے لگايا جائے تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ عراق پر امریکی حکومت کے اخراجات عراق کی مجموعی پيداوار سے کہيں زيادہ ہيں۔ لہذا معاشی اعتبار سے يہ دليل کہ عراق پر حملہ تيل کے ليے کيا گيا تھا، بے وزن ثابت ہو جاتی ہے۔

ايک اور تاثر جو کہ بہت عام ہے اور اس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا جاتا ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ میں تيل کے استعمال کا مکمل دارومدار عرب ممالک سے برامد کردہ تيل کے اوپر ہے لہذا امريکی حکومت عرب ممالک اور اس کی حکومتوں پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ اعداد وشمار پيش خدمت ہيں۔

امریکہ اس وقت دنيا ميں تيل کی مجموعی پيداوار کے حساب سے تيسرے نمبر پر ہے۔ 1973 سے 2007 تک کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی ضروريات کا 57 فيصد حصہ خود پورا کيا ہے۔ باقی 43 فيصد ميں سے صرف 8 فيصد تيل کا استعمال گلف ممالک کے تيل پر منحصر ہے۔ مغربی ممالک سے تيل کے استعمال کا 20 فيصد حصہ پورا کيا جاتا ہے اور 15 فيصد تيل کی ضروريات توانائ کے ديگر ذرائع سے پوری کی گئ۔

http://img522.imageshack.us/my.php?image=29687811xz8.jpg

جہاں تک تيل کی درآمد کا تعلق ہے تو 1973 سے 2007 کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی درآمد کا 47 فيصد حصہ مغربی ممالک سے درآمد کيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 20 فيصد ہے۔ اسی عرصے ميں 34 فيصد افريقہ، يورپ اور سابق سوويت يونين سے درآمد کيا گيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 15 فيصد بنتا ہے۔ گلف ممالک سے درآمد کردہ تيل کا تناسب صرف 19 فيصد رہا جو کہ مجموعی استعمال کا محض 8 فيصد ہے۔

http://img253.imageshack.us/my.php?image=48710539xs7.jpg


اسی حوالے سے اگر آپ دنيا کے ديگر ممالک کا گلف مما لک کے تيل پر انحصار اور اس حوالے سے اعدادوشمار ديکھیں تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ جاپان امريکہ کے مقابلے ميں گلف ممالک کے تيل پر کہيں زيادہ انحصار کرتا ہے۔ 1992 سے 2006 کے درميانی عرصے ميں جاپان نے اوسطا 65 سے 80 فيصد تيل گلف ممالک سے درآمد کيا۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کے مقابلہ ميں جاپان کا گلف ممالک پر انحصار بتدريج بڑھا ہے۔ مندرجہ ذيل گراف سے يہ بات واضح ہے کہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کا گلف ممالک کے تيل پر انحصار مسلسل کم ہوا ہے۔

http://img253.imageshack.us/my.php?image=54869245hl7.jpg

يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امريکی حکومت بذات خود تيل کی خريدوفروخت کے عمل ميں فريق نہيں ہوتی۔ بلکہ امريکہ کی نجی کمپنياں اپنے صارفين کی ضروريات کے تناسب سے سروس فراہم کرتی ہيں۔ امريکی کمپنياں انٹرنيشنل مارکيٹ ميں متعين کردہ نرخوں پر عراق سے تيل درآمد کرتی ہيں جو کہ عراق سے برآمد کيے جانے والے مجموعی تيل کا محض ايک چوتھائ حصہ ہے۔ باقی ماندہ تيل عراقی حکومت کی زير نگرانی ميں نا صرف دوسرے ممالک ميں برآمد کيا جاتا ہے بلکہ عراق کی مجموعی توانائ کی ضروريات پوری کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ عراق تيل کے توسط سے ماہانہ 2 بلين ڈالرز سے زيادہ کا زرمبادلہ حاصل کرتاہے۔

ان اعداد وشمار کی روشنی ميں يہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ يہ تاثر دينا کہ امريکہ عراق ميں تيل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے منصوبے پر عمل پيرا ہے يا امريکہ تيل کی سپلائ کے ليے سارا دارومدار عرب ممالک کے تيل پر کرتا ہے قطعی بے بنياد اور حقيقت سے روگردانی کے مترادف ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

arifkarim

معطل
فواد: اگر آپ کے ان اعداد و شمار کےبل بوتے پر یہ مان لیا جائے کہ ٹھیک ہے امریکہ نے عراق پر حملہ تیل کیلئے نہیں کیا۔ تو پھر اس بات کی بھی وضاحت کر دیں کہ آخر امریکہ کو عراق کی پتھریلی زمین میں ایسا کیا نظر آیا کہ کھربوں ڈالرز کا خرچہ کرکے وہاں جا گھسا اور نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا!
اگر آپ امریکی پالیسی کے تحت weapons of mass destruction کی وجہ بتلائیں گے، تو وہ تو آج تک ملے نہیں، اور اگر مل بھی جاتے تو اپنی ہی دی ہوئی چیز واپس ڈھونڈھنے کے مترادف تھا۔ :grin:
 

ساجد

محفلین
فواد: اگر آپ کے ان اعداد و شمار کےبل بوتے پر یہ مان لیا جائے کہ ٹھیک ہے امریکہ نے عراق پر حملہ تیل کیلئے نہیں کیا۔ تو پھر اس بات کی بھی وضاحت کر دیں کہ آخر امریکہ کو عراق کی پتھریلی زمین میں ایسا کیا نظر آیا کہ کھربوں ڈالرز کا خرچہ کرکے وہاں جا گھسا اور نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا!
اگر آپ امریکی پالیسی کے تحت weapons of mass destruction کی وجہ بتلائیں گے، تو وہ تو آج تک ملے نہیں، اور اگر مل بھی جاتے تو اپنی ہی دی ہوئی چیز واپس ڈھونڈھنے کے مترادف تھا۔ :grin:

میں بھی محترم فواد صاحب سے یہی دریافت کرنا چاہوں گا کہ بقول آپ کے امریکہ ٹریلینز آف ڈالرز خرچ کر کے عراق میں براجمان ہے تو اس کے پیچھے کیا فلسفہ ہے؟ جب کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اقوام متحدہ نے امریکہ کو عراق پر حملہ کرنے کی قطعا اجازت نہیں دی تھی۔ اور اقوام متحدہ کے اسلحہ کے معائنہ کار اس بات کا اعلان کر چکے تھے کہ عراق کے پاس کوئی ایسا ہتھیار نہیں ہے جسے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا کہا جا سکے۔ تو ایسی صورت میں بش اینڈ کمپنی امریکی عوام کے ٹیکسوں کو اس بے دردی سے معصوم لوگوں کے قتل اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کیوں خرچ کر رہی ہے؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ایک ایسے ملک پر حملہ کیوں کیا جس نے آج تک کسی امریکی شہری کو نہیں مارا، یعنی عراق! صرف weapons of mass destruction کی خاطر، جو کہ آج تک کبھی ملے نہیں۔۔۔ ؟
:mad:


ڈبليو – ايم – ڈی ايشو

امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے جانے والے سارے فيصلے مکمل اور غلطيوں سے پاک نہيں ہيں اور نہ ہی امريکی حکومت نے يہ دعوی کيا ہے کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی 100 فيصد درست ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ عراق ميں مہلک ہتھياروں کے ذخيرے کی موجودگی کے حوالے سے ماہرين کے تجزيات غلط ثابت ہوئے۔ اور اس حوالے سے امريکی حکومت نے حقيقت کو چھپانے کی کوئ کوشش نہيں کی۔ بلکل اسی طرح اور بھی کئ مثاليں دی جا سکتی ہيں جب امريکی حکومت نے پبلک فورمز پر اپنی پاليسيوں کا ازسرنو جائزہ لينے ميں کبھی قباحت کا مظاہرہ نہيں کيا۔

اس ايشو کے حوالے سے بل کلنٹن انتظاميہ اور موجودہ امريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جائے گی۔ اس حوالے سے خود صدام حسين کی مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔

1995 ميں جب صدام حسين کے داماد حسين کمل نے عراق سے بھاگ کرجارڈن ميں پناہ لی تو انھوں نے بھی صدام حسين کے نيوکلير اور کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے منصوبوں سے حکام کو آگاہ کيا۔ 2003 ميں امريکی حملے سے قبل اقوام متحدہ کی سيکيورٹی کونسل عراق کو مہلک ہتھياروں کی تياری سے روکنے کے ليے اپنی کوششوں کا آغاز کر چکی تھی۔

يہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کئ تحقيقی ٹيموں کو عراق ميں داخلے سے روک ديا گيا تو نہ صرف امريکہ بلکہ کئ انٹرنيشنل ٹيموں کی يہ مشترکہ رپورٹ تھی کہ صدام حکومت کا وجود علاقے کے امن کے ليے خطرہ ہے۔ ميں آپ کو يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ايک رپورٹ اور ايک ویب سائيٹ کا لنک دے رہا ہوں جس ميں صدام کے ظلم کی داستان تفصيل سے پڑھ سکتے ہيں۔


يہ رپورٹ پڑھنے کے بعد يہ فيصلہ ميں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ عراق کے مستقبل کے ليے کيا صورتحال زيادہ بہتر ہے صدام حسين کا وہ دوراقتدار جس ميں وہ اپنے کسی عمل کے ليے کسی کے سامنے جوابدہ نہيں تھے اور سينکڑوں کی تعداد ميں عراقيوں کو قید خانوں ميں ڈال کر ان پر تشدد کرنا معمول کی بات تھی يا 12 ملين عراقی ووٹرز کی منتخب کردہ موجودہ حکومت جو عراقی عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کے ليے جوابدہ ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حکومت سازی کے حوالے سے ابھی بھی بہت سے مسائل ہيں ليکن مستقبل کے ليے اميد افزا بنياديں رکھ دی گئ ہيں۔

عراق کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے يہ حقيقت بھی مد نظر رکھنی چاہيے کہ امن وامان کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دارامريکی افواج نہيں بلکہ وہ دہشت گرد تنظيميں ہيں جو بغير کسی تفريق کے معصوم عراقيوں کا خون بہا رہی ہيں۔ حال ہی ميں الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے جسم پر بم باندھ کر ان کے ذريعے کروائے جانے والے دھماکے اور اس کے نتيجے ميں سو سے زيادہ بے گناہ عراقيوں کی موت اس سلسلے کی تازہ مثال ہے۔

کيا آپ تصور کر سکتے ہيں کہ عراق کی صورت حال کيا ہو گی اگر ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ نہ کی جائے جو بس اسٹيسن، بازاروں اور سکولوں پر حملہ کرنے ميں کوئ عار محسوس نہيں کرتے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اگر اسامہ بن لادن دہشت گرد گروپ ہے تو اس کی بنیاد رکھنے اور اس کی آبیاری کرنے والا بھی امریکہ ہی ہے ۔ یہ وہی امریکہ ہے جس کو افغانستان کی جنگ کے دوران اسامہ بن لادن سے بڑا کوئی مجاہد دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس وقت طالبان دہشت گرد نہیں بلکہ مجاہدین تھے۔امریکی حکومتیں ان کے صدقے واری جاتی تھیں اور ڈالروں کی بوریوں کے منہ ان کے لئیے کھلے تھے۔اس وقت بھی ان (دہشت گردوں) کی ٹریننگ پاکستان کے انہی قبائلی علاقوں میں ہوتی تھی جو آج امریکہ بہادر کو دہشت گردی کے اڈے دکھائی دے رہے ہیں۔

اسامہ بن لادن اور افغان جنگ ميں امريکی کردار

امريکہ کو دہشت گرد قرار دينے کے حوالے سے ايک دليل جو ميں نے اکثر فورمز پر ديکھی ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ اگر 80 کی دہاہی ميں افغانستان ميں مداخلت نہ کرتا تو يہ دہشت گرد کبھی پيدا نہ ہوتے۔ اس حوالے سے ہم کچھ تاريخی حقاۂق ہميشہ پس پشت ڈال ديتے ہيں۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کيا تھا تو صرف امريکہ ہی وہ ملک نہيں تھا جس نے افغانستان کی فوجی اور مالی مدد کی تھی۔ اس ميں امريکہ سميت پاکستان، چين، سعودی عرب، شام اور برطانيہ شامل تھے۔

برگيڈير محمد يوسف 1983 سے 1987 تک آئ– ايس - آئ ميں افغان بيرو کے انچارج تھے۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب "بير ٹريپ" کے صفحہ 81 پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ افغان جہاد کے دوران جتنی مالی امداد امريکہ نے دی تھی اتنی ہی سعودی عرب نے بھی دی تھی۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ساری امداد افغانستان تک منتقل کرنے کی ذمہ داری پاکستان نے لی تھی۔ اس وقت کے زمينی حقاۂق کے حوالے سے افغانستان کی مدد کرنے کا فيصلہ درست تھا۔ کيا افغانستان جيسے چھوٹے سے ملک کو روس جيسی سپر پاور کے رحم وکرم پر چھوڑ دينا صحيح فيصلہ ہوتا ؟

افغانستان ميں جنگ کے دوران بہت سے عرب مختلف ممالک سے آ کر اس جنگ ميں شامل ہو گئے۔ يہی عرب بعد ميں القاعدہ کی بنياد بنے۔ امريکی ادارے سی – آئ – اے کی طرف سے جو فوجی اور مالی امداد پاکستان کے ذريعے افغانستان تک پہنچی اس کا محور مقامی افغان باشندے تھے نا کہ باہر سے آئے ہوئے عرب۔ اس بات کا اعتراف القاعدہ کے نمبر دو ليڈر ايمن الزواری نے بھی اپنی کتاب " ناۂٹس انڈر دی پرافٹ بينر" ميں کيا ہے۔ ان کی يہ کتاب کثير الاشعاعت سعودی اخبار" شرک الاوسط" ميں دسمبر 2001 ميں سلسلہ وار شائع ہوئ تھی۔ اس کتاب سے ايک اقتباس – "افغان جہاد ميں امريکہ نے پاکستان اور مقامی افغان مجاہدين کی مالی اور فوجی مدد کی تھی۔ ليکن عرب سے آئے ہوئے مجاہدين اس ميں شامل نہيں تھے۔ ان عرب مجاہدين کی مالی امداد بہت سی نجی عرب تنظيموں نے کی تھی اور يہ امداد بہت بڑی تعداد ميں تھی"۔

ملٹ بيرڈن 1986 سے 1989 کے درميانی عرصے ميں پاکستان ميں سی – آئ – اے کے اسٹيشن چيف تھے۔ افغانستان تک پہنچائ جانے والی امداد انہی کی زير نگرانی ہوتی تھی۔ وہ اپنی سوانح حيات "مين اينمی" کے صفحہ 219 پر لکھتے ہيں کہ" افغان مجاہدين کو مالی اور فوجی امداد دينے کے ضمن ميں امريکہ، پاکستان، سعودی عرب، چين اور شام اہم کھلاڑی تھے۔ اس ضمن ميں سی – آئ – اے نے کبھی بھی عرب سے آئے ہوئے مجاہدين کو ٹرينيگ دی اور نہ ہی انہيں اسلحہ فراہم کيا"۔

ان حقاۂق کی روشنی ميں افغان جہاد کے دوران دی جانے والی فوجی اور مالی امداد کو موجودہ دور کی دہشت گردی کی وجہ قرار دينا سرار غلط ہے۔ افغان جہاد کے دوران امريکہ اور سعودی عرب سميت ديگر ممالک نے جو فوجی اور مالی امداد کی تھی وہ افغان عوام کو روسی جارحيت سے نجات دلانے کے ليے تھی ۔ اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ القاۂدہ کی بنياد امريکہ نے نہيں رکھی تھی اس کے ذمہ دار وہ عرب جنگجو تھے جو اس جنگ کا حصہ بنے تھے اور اس بات کا اظہار القاۂدہ کی ليڈرشپ بارہا کر چکی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

میں بھی محترم فواد صاحب سے یہی دریافت کرنا چاہوں گا کہ بقول آپ کے امریکہ ٹریلینز آف ڈالرز خرچ کر کے عراق میں براجمان ہے تو اس کے پیچھے کیا فلسفہ ہے؟

پہلی بات تو يہ ہے کہ اس وقت عراق ميں پر تشدد واقعات کی ذمہ دار امريکی افواج نہيں بلکہ القائدہ اور اس سے معلقہ انتہا پسند تنظيميں اوردہشت گرد ہيں جو خودکش حملوں کے ذريعے معصوم عراقيوں کو قتل کر رہے ہيں۔ کچھ عرصہ پہلے بغداد کے الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے ذريعے کرايا جانے والا خودکش حملہ اس کا ثبوت ہے-

جہاں تک آپ کا يہ کہنا ہے کہ امريکی افواج کو عراق سے فوری طور پر نکل جانا چاہيےتو اس حوالے سے يہ بتا دوں کہ امريکی حکام بھی يہی چاہتے ہيں کہ جلد از جلد فوجيوں کو واپس بلايا جائے ليکن آپ کچھ زمينی حقائق نظرانداز کر رہے ہيں۔

اس وقت امريکی افواج عراق ميں منتخب عراقی حکومت کے ايما پر موجود ہيں اور عراقی افواج کی فوجی تربيت کے ذريعے اس بات کو يقينی بنا رہی ہيں کہ عراق سے امريکی افواج کے انخلا کے بعد سيکيورٹی کے حوالے سے پيدا ہونے والے خلا کو پر کيا جا سکے۔ بہت سے فوجی ماہرين نے اس خدشے کا اظہار کيا ہے کہ اگر امريکی افواج کو فوری طور پر عراق سے واپس بلا ليا گيا تو پر تشدد کاروائيوں پر قابو پانا ممکن نہيں رہے گا اور خطے ميں امن کا قيام محض ايک خواب بن کر رہ جائے گا۔

اب تک عراق ميں 4 ہزارامريکی فوجی ہلاک ہو چکے ہيں۔ امريکہ عراق سے جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ عراقی حکومت اس قابل ہو جائے کہ امريکی افواج کے انخلا سے پيدا ہونے والے سيکيورٹی کے خلا کو پورا کر سکے بصورت ديگر وہاں پر متحرک انتہا پسند تنظيميں جوکہ اس وقت بھی روزانہ عام عراقيوں کو قتل کر رہی ہيں، مزيد مضبوط ہو جائيں گی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
ط
 

ساجد

محفلین
پہلی بات تو يہ ہے کہ اس وقت عراق ميں پر تشدد واقعات کی ذمہ دار امريکی افواج نہيں بلکہ القائدہ اور اس سے معلقہ انتہا پسند تنظيميں اوردہشت گرد ہيں جو خودکش حملوں کے ذريعے معصوم عراقيوں کو قتل کر رہے ہيں۔ کچھ عرصہ پہلے بغداد کے الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے ذريعے کرايا جانے والا خودکش حملہ اس کا ثبوت ہے-

جہاں تک آپ کا يہ کہنا ہے کہ امريکی افواج کو عراق سے فوری طور پر نکل جانا چاہيےتو اس حوالے سے يہ بتا دوں کہ امريکی حکام بھی يہی چاہتے ہيں کہ جلد از جلد فوجيوں کو واپس بلايا جائے ليکن آپ کچھ زمينی حقائق نظرانداز کر رہے ہيں۔

اس وقت امريکی افواج عراق ميں منتخب عراقی حکومت کے ايما پر موجود ہيں اور عراقی افواج کی فوجی تربيت کے ذريعے اس بات کو يقينی بنا رہی ہيں کہ عراق سے امريکی افواج کے انخلا کے بعد سيکيورٹی کے حوالے سے پيدا ہونے والے خلا کو پر کيا جا سکے۔ بہت سے فوجی ماہرين نے اس خدشے کا اظہار کيا ہے کہ اگر امريکی افواج کو فوری طور پر عراق سے واپس بلا ليا گيا تو پر تشدد کاروائيوں پر قابو پانا ممکن نہيں رہے گا اور خطے ميں امن کا قيام محض ايک خواب بن کر رہ جائے گا۔

اب تک عراق ميں 4 ہزارامريکی فوجی ہلاک ہو چکے ہيں۔ امريکہ عراق سے جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ عراقی حکومت اس قابل ہو جائے کہ امريکی افواج کے انخلا سے پيدا ہونے والے سيکيورٹی کے خلا کو پورا کر سکے بصورت ديگر وہاں پر متحرک انتہا پسند تنظيميں جوکہ اس وقت بھی روزانہ عام عراقيوں کو قتل کر رہی ہيں، مزيد مضبوط ہو جائيں گی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
ط

محترم فواد صاحب ،
آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ امریکہ کی طرف داری میں حقائق سے کوسوں دور ایک آرٹیکل ضرور لکھ دیا ہے۔
غور فرمائیے کہ آپ نے میرا سوال کیا تھا اور آپ نے جواب کیا تحریر فرما دیا۔
یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر امریکہ عراق میں داخل ہوا ہی کیوں؟ اب 4 ہزار فوجی مریں یا لاکھوں معصوم عراقی جان سے گئے ہیں تو بھی آپ کی بیان کردہ منطق سے اس کی ذمہ داری ہر صورت امریکہ پر ہی آتی ہے۔
جب کہ امریکہ کے پاس عراق پر حملہ کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا تو ایک آزاد ملک پر حملہ کر کے امریکہ نے کون سی اچھی مثال قائم کی؟
اب اگر امریکی انخلا کے بعد عراق میں سیکورٹی کے خدشات پیدا ہونے کا امکان ہے تو براہِ مہربانی یہ ضرور بتائیے گا کہ امریکہ کے موجود رہنے سے وہاں کون سا امن قائم ہے؟ بلکہ سچ تو یہ ہے اس ملک میں ان سب تباہیوں کا ذمہ دار القاعدہ سے بھی زیادہ خود بش اینڈ کمپنی کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔
امریکہ ، عراق پر بغیر کسی قانونی جواز کے حملہ آور ہوا ہے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کی خواہش کرنے والوں کو کسی طور بھی دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا۔ یہ میرا خیال نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے کہ جارحیت کرنے والے کو روکا جائے گا۔
 

arifkarim

معطل
اب تک عراق ميں 4 ہزارامريکی فوجی ہلاک ہو چکے ہيں۔ امريکہ عراق سے جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ عراقی حکومت اس قابل ہو جائے کہ امريکی افواج کے انخلا سے پيدا ہونے والے سيکيورٹی کے خلا کو پورا کر سکے بصورت ديگر وہاں پر متحرک انتہا پسند تنظيميں جوکہ اس وقت بھی روزانہ عام عراقيوں کو قتل کر رہی ہيں، مزيد مضبوط ہو جائيں گی۔

واہ واہ واہ! چار ہزار امریکیوں کی اتنی فکر اور جو انگنت عراقی اب تک اس جنگ میں مر چکے ہیں، انکا کیا۔ اور جو ہزاروں عراقی، امریکی جیلوں میں پڑے روزانہ تشدد کا نشانہ بنتے ہیں، اسکا کیا جواب ہے آپ کے پاس؟ صدام کے عراقیوں پر مظالم تو آپ کو بہت برے لگے۔ امریکیوں کے عراقیوں پر مظالم کی رپورٹ ہے آپ کے پاس؟ کس طرح وہ قرآن پاک کے نسخوں کو پیروں تلے روندھتے ہیں اور ہمارے مقدس مقامات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اور عراقیوں کا تیل پی رہے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں آپ کی آؤٹ ریچ کیا جواب دیتی ہے۔ ۔ ۔
 
Top