فاروق سرور خان
محفلین
دہشت گردوں کی فکر کی بنیاد "نظریاتی اختلاف کی سزا موت " ہے۔ چاہے یہ نظریاتی اختلافات، مذہبی ہوں، علاقائی ہوں، معیشتی ہوں یا کسی بھی نوعیت کے ہوں۔ وہ کسی بحث کے قائل نہیں۔ ہر بحث کا، ہر اختلاف کا جواب " قتل و غارت گری " ہے۔ کسی بھی باہمی بحث ، فورم ، جمہوریت کا تصور دہشت گردی کی لغت میں موجود نہیں۔ بحث و مخالفت کی واحد سزا گردن زدنی ہے۔ فرد واحد کی حکومت اور دہشت گرد مذہبی عناصر کی سپورٹ ان کی حکومت کی مجوزہ تقویم ہے۔
اس کے برعکس نا پاکستانی عوام اور نا ہی پاکستانی حکومت اس قسم کے خیالات کی ترویج کرتی ہے۔ وہ تھوڑے سے لوگ جو مندرجہ بالاء نظریہ کے قائل ہیں ، امریکہ کو ایک مخالف اور ہوا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ القاعدہ کی طرف سے اس اعتراف کے باوجود کے وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے ذمہ دار تھے 9-11 کو ایک ڈرامہ کہنا انتہائی درجے کی تباہ حال فکر کی نشاندہی کرتا ہے۔ خود تالی بان (طالبان نہیں تالیبان یعنی تالیاںبجانے والا یا مسخرہ ) اسامہ بن لادن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ معصوم انسانوں کی قتل و غارتگری سے بھرپور " اس نتیجے کی ہم (القاعدہ )کو توقع نہیں تھی " ۔۔ لاحول ولا قوۃ ۔۔۔
معصوم لوگوں کا ان کے کام کرنے کی جگہ پر قتل ایک ایسا سانحہ ہے جو " نظریاتی اختلاف کی سزا موت " یعنی دہشت گردی ہے۔ یہ ایک قابل مذمت قدم تھا جس کی ہر ذی شعور مسلمان نے مذمت کی ہے۔ پہلے "نظریاتی اختلاف کی سزا موت " یعنی دہشت گردی پر یقین رکھنا پھر اس کو اسلام سے ضہاد ثابت کرنے کی کوشش کرنا ایک باعث شرم حرکت ہے، اتنی شرمناک کہ یہ شخص اب تک کسی چوہے کے بل میں چھپا بیٹھا ہے۔
جنگ کو فوجوں کے درمیان نہ رکھنے کی اور جنگ کو عام پر امن شہریوں تک لے جانے کی قرآن ممانعت کرتا ہے۔ اور جہاد یا قتال یا جنگ کی اجازت صرف اور صرف اس صورت میں دیتا ہے جب کہ ایک نظریاتی فلاحی ریاست پر حملہ کیا جائے۔ لہذا پرامن شہریوں پر دہشت گردوں کا ایسا کوئی حملہ یقیناً قابل مذمت ہے۔
اس کے برعکس نا پاکستانی عوام اور نا ہی پاکستانی حکومت اس قسم کے خیالات کی ترویج کرتی ہے۔ وہ تھوڑے سے لوگ جو مندرجہ بالاء نظریہ کے قائل ہیں ، امریکہ کو ایک مخالف اور ہوا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ القاعدہ کی طرف سے اس اعتراف کے باوجود کے وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے ذمہ دار تھے 9-11 کو ایک ڈرامہ کہنا انتہائی درجے کی تباہ حال فکر کی نشاندہی کرتا ہے۔ خود تالی بان (طالبان نہیں تالیبان یعنی تالیاںبجانے والا یا مسخرہ ) اسامہ بن لادن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ معصوم انسانوں کی قتل و غارتگری سے بھرپور " اس نتیجے کی ہم (القاعدہ )کو توقع نہیں تھی " ۔۔ لاحول ولا قوۃ ۔۔۔
معصوم لوگوں کا ان کے کام کرنے کی جگہ پر قتل ایک ایسا سانحہ ہے جو " نظریاتی اختلاف کی سزا موت " یعنی دہشت گردی ہے۔ یہ ایک قابل مذمت قدم تھا جس کی ہر ذی شعور مسلمان نے مذمت کی ہے۔ پہلے "نظریاتی اختلاف کی سزا موت " یعنی دہشت گردی پر یقین رکھنا پھر اس کو اسلام سے ضہاد ثابت کرنے کی کوشش کرنا ایک باعث شرم حرکت ہے، اتنی شرمناک کہ یہ شخص اب تک کسی چوہے کے بل میں چھپا بیٹھا ہے۔
جنگ کو فوجوں کے درمیان نہ رکھنے کی اور جنگ کو عام پر امن شہریوں تک لے جانے کی قرآن ممانعت کرتا ہے۔ اور جہاد یا قتال یا جنگ کی اجازت صرف اور صرف اس صورت میں دیتا ہے جب کہ ایک نظریاتی فلاحی ریاست پر حملہ کیا جائے۔ لہذا پرامن شہریوں پر دہشت گردوں کا ایسا کوئی حملہ یقیناً قابل مذمت ہے۔