زیک

مسافر
نیوزی لینڈ جانے کا شوق بہت عرصے سے تھا۔ لارڈ آف دا رنگز نے اسے مزید تقویت بخشی۔ لیکن نیوزی لینڈ دنیا کے ایک علیحدہ ہی کونے میں ہے لہذا پلان بن نہ پایا۔

دو سال پہلے بیگم کو احساس ہوا کہ چند ہی سال میں ہم ایمپٹی نیسٹر ہونے والے ہیں جب بیٹی کالج چلی جائے گی۔ لہذا اس کے ساتھ وقت خوب انجوائے کرنا چاہیئے۔ اسی سلسلے میں ہم نے ان جگہوں کی فہرست بنائی جہاں ہم بیٹی کو ساتھ لے کر جانا چاہتے ہیں۔ نیوزی لینڈ اس میں کافی اوپر تھا۔

نیوزی لینڈ کتنا دور ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ نیوزی لینڈ اٹلانٹا سے بھی اتنا ہی دور ہے جتنا اسلام آباد سے اور اٹلانٹا اور اسلام آباد بھی ایک دوسرے سے تقریباً اتنے ہی دور ہیں۔

اس لمبے سفر کی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا کہ نیوزی لینڈ کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا کو بھی بھگتا لیا جائے۔ جب اس پلان پر ریسرچ شروع کی تو جلد ہی احساس ہوا کہ یہ کام کافی مشکل ہے۔ دونوں ممالک میں فاصلے زیادہ ہیں اور موسم کافی فرق ہے۔ آسٹریلیا گرم ملک ہے لہذا ان کی سردیوں میں وہاں جانا مناسب ہے لیکن سردیوں میں نیوزی لینڈ کے پہاڑوں میں خوب برف ہو گی اور ہم ہائیکنگ نہیں کر سکیں گے۔

بادل ناخواستہ آسٹریلیا کو پلان سے ڈراپ کر دیا اور صرف نیوزی لینڈ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لئے ہمارے پاس ایک ہی وقت تھا: کرسمس کی چھٹیاں۔
 

زیک

مسافر
آخر نیوزی لینڈ جانے کا وقت آ گیا۔ فلائٹ سے ایک دن پہلے اٹلانٹا ائرپورٹ میں آگ لگ گئی اور پورے ائرپورٹ کی بجلی چلی گئی۔ 17 دسمبر کی شام میں باقاعدگی سے تمام خبریں اور ٹویٹر چیک کرتا رہا کہ کب یہ معاملہ ٹھیک ہوتا ہے کہ تمام فلائٹس کینسل ہو چکی تھیں اور ائرپورٹ بند پڑا تھا۔

آخر رات بارہ بجے کے بعد ائرپورٹ پر بجلی بحال ہوئی۔ چار بجے صبح ائرپورٹ کھول دیا گیا۔ صبح کی بہت سی فلائٹس کینسل ہو گئیں۔ شکر ہے ہمارے فلائٹ دوپہر کو تھی۔ ائرپورٹ پہنچے اور ہیوسٹن کے لئے فلائٹ لی۔

اڑھائی گھنٹے بعد ہم ہیوسٹن ائرپورٹ پر تھے۔ وہاں تین چار گھنٹے قیام تھا۔ ڈنر ائرپورٹ پر ایک ریستوران میں کیا اور پھر ائر نیوزی لینڈ کی آکلینڈ کے لئے فلائٹ میں سوار ہو گئے۔

یہ فلائٹ 15 گھنٹے کی تھی۔ جب ہم ہیوسٹن سے چلے تو 18 دسمبر کی شام تھی اور جب آکلینڈ پہنچے تو 20 دسمبر کی صبح۔

یہ رہی جہاز سے طلوع آفتاب کی تصویر

 

زیک

مسافر
آکلینڈ ائرپورٹ سے ہی ہم نے رینٹل کار (مزدا 3) لی اور اپنے ہوٹل چل پڑے۔

نیوزی لینڈ میں سڑک کے بائیں طرف گاڑی چلاتے ہیں لیکن اکثر سیاح دائیں طرف والے ممالک سے آتے ہیں لہذا رینٹل ایجنسی والوں نے بھی خوب تاکید کی، کار میں بھی سٹکر تھے کہ کیپ لیفٹ اور سڑکوں پر بھی جا بجا بائیں طرف رہنے کے لئے بورڈ لگے تھے یا سڑک پر تیر کے نشان پینٹ کر رکھے تھے۔

علی الصبح ہوٹل پہنچے اور وہاں اپنا سامان ان کے حوالے کر کے ڈاؤن ٹاؤن روانہ ہو گئے۔

ڈاؤن ٹاؤن آکلینڈ میں فیری ٹرمینل:
 

زیک

مسافر
وہاں سے فیری پر بیٹھ کر ہمارا ایک آتش فشاں جزیرے پر جانے کا پروگرام تھا۔

نیوزی لینڈ کی حکومت آج کل کوشش کر رہی ہے کہ مقامی پرندوں اور پودوں وغیرہ کو بچایا جائے۔ اس کوشش کا ایک حصہ دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے جانداروں کا خاتمہ ہے۔ اسی وجہ سے ائرپورٹ پر کسٹمز نے ہمارے ہائیکنگ بوٹس بہت غور سے چیک کئے تھے اور کچھ دوسرے مسافروں کے بوٹ تو صاف کرانے کو بھی بھیج دیئے تھے۔ اس کاوش کا ایک اور مظہر جزیرے پر جانے سے پہلے کھانے پینے کی اشیاء کو پلاسٹک میں سیل کرنا اور جوتوں کو اچھی طرح صاف کرنا بھی تھا۔

خیر یہ سب کر کے ہم فیری میں سوار ہوئے۔

فیری سے ڈاؤن ٹاؤن کا منظر
 

زیک

مسافر
آتش فشاں کی چوٹی پر پہنچ کر ہم نے اس کے کریٹر کے گرد چکر لگایا۔ وہاں سے لائٹ ہاؤس اور نارتھ آئی لینڈ کا منظر
 

زیک

مسافر
چوٹی پر ہم نے لنچ میں سینڈوچ کھائے جو ڈاؤن ٹاؤن سے ہم ساتھ لائے تھے۔ پھر واپس نیچے کی طرف ہائک شروع کی۔ راستے میں یہ پرندوں کی فیملی نظر آئی
 

زیک

مسافر
آخر 10 کلومیٹر کی ہائک مکمل ہوئی اور ہم واپس فیری میں سوار ہو گئے۔

سمندر کے پانی کا رنگ کافی مختلف اور اچھا لگا
 

یاز

محفلین
بہت خوب جناب..... لیکن کریٹر کی تصاویر کے بغیر آتش فشاں کو نمٹا کے آگے چل پڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی.
 

زیک

مسافر
شام کو ڈنر کے لئے ہم ایک ایشین فیوژن ریستوران گئے۔ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے کھانوں کا وہاں اچھا ملاپ تھا۔
 
Top