سوری ٹو سے، انتہائی سطحی سوچ۔ یعنی جس فرد نے اتنی محنت کر کے اتنا خرچہ کر کے اعلٰی تعلیم حاصل کی، اس کی بجائے اس کے سسرال کو یہ حق دیا جا رہا ہے کہ وہ اس "لونڈی" سے جو چاہے کام لے لیں۔ بہت افسوس ہوا ایسی سوچ کا جان کرشکریہ ۔۔ ٹیگ کرنے کا ۔۔
میری رائے بہت ٹپکل سی ہے ۔۔ سیدھی اور صاف ۔۔
شادی ہوگئی ۔۔ آپ اپنے گھر کی ہوگئے ۔۔ اب آپ جانیں اور آپ کے گھر والے ۔۔ کہ وہ آپ سے پریکٹس کرواتے ہیں یا گھر کے کام ۔۔
سوری ٹو سے، انتہائی سطحی سوچ۔ یعنی جس فرد نے اتنی محنت کر کے اتنا خرچہ کر کے اعلٰی تعلیم حاصل کی، اس کی بجائے اس کے سسرال کو یہ حق دیا جا رہا ہے کہ وہ اس "لونڈی" سے جو چاہے کام لے لیں۔ بہت افسوس ہوا ایسی سوچ کا جان کر
اللہ آپ کا بھلا کرے، یہی تو بات ہے کہ مرد بے چارہ تو اپنی کامیابی کے لئے عورت کا محتاج ہے تو وہ اکیلا کیسے پورے معاشرے کو سدھارے گا؟کسی بھی قوم کی ترقی و تنزلی میں عورت بڑا کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔صنف ِ نازک کا کسی بھی جائز پیشے کو اختیار کرنا نہایت قابلِ ستائش عمل ہے۔ معاشرتی و ذاتی بہبود کے لیے عورت کا میدان عمل میں آنا نہ تو غیر روایتی ہے نا غیر اسلامی مثال ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا۔
تاہم اگر یہ کارِ خیر اس قیمت پر انجام دیا جا رہا ہے کہ اپنے بچوں کو نوکروں کے سپرد کر کے ان کی اعلٰی تربیت و پرورش سے چشم پوشی کی جائے تو پھر معاشرے میں باکمال اور کامیاب افراد کے قحط سے کون نجات دلائے گا۔ صحت مند اور مثبت سوچ کو کون پروان چڑھائے گا۔
یاد رہے ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ضرور گردانا جاتا ہے چاہے وہ عورت مثالی ماں ہو، بیوی ہو، بہن ہو یا بیٹی ہو۔
سوری ٹو سے، انتہائی سطحی سوچ۔ یعنی جس فرد نے اتنی محنت کر کے اتنا خرچہ کر کے اعلٰی تعلیم حاصل کی، اس کی بجائے اس کے سسرال کو یہ حق دیا جا رہا ہے کہ وہ اس "لونڈی" سے جو چاہے کام لے لیں۔ بہت افسوس ہوا ایسی سوچ کا جان کر
آپ نے "" نہیں دیکھے؟بھائی "لونڈی" لفظ مناسب نہیں ہے۔ بیوی بہت ہی قابلِ احترام رشتہ ہے ۔یہ میاں بیوی کاآپس کا معاملہ ہے۔ ایسی صورتِ حال میں شادی سے پہلے اس پر بات ہوجانی چاہیئے۔ اگر لڑکے والے پریکٹس کی اجازت نہیں دینا چاہتے تو وہاں شادی کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
جی قیصرانی بھائی معاشرے کی ترقی اور مثبت سوچوں کی ترویج کے لیے عورت ہی بنیاد ہے۔ سب سے پہلےتعلیم یافتہ ماں۔ جو کامیاب قومیں تشکیل دے سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کے ہم لوگ پڑھے لکھے جاہل ہیں۔ کوئی بھی شخص (بلا تخصیصِ جنس) اعلٰی تعلیم حاصل کرتا ہے تو وہ عموماً چاکری کو ہی ترجیح دیتا ہے اور ساری عمر اپنے علم و مشاہدے کو بھاڑے پہ دئیے رکھتا ہے اور پھر عدم سدھار جاتا ہے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد شعور و آگہی کا حصول ہے نہ کہ صرف نوکری کا۔ اس لیے اگر مختصر مدتی فائدے کے لیے طویل مدتی فائدے کو قربان کیا جاے تو یہ کوئی دانشمندانہ اقدام نہ ہوگا۔ سو جو توازن رکھ سکے وہ کرے۔ مردوں اور عورتوں سے جہاں تک ممکن ہو تاجر کا ایندھن بننے کی بجائے انفرادی بنیادوں پر چھوٹے پیمانے پر ہی سہی اپنا علم و مشاہدہ نوکری کے علاوہ بھی بہتریں آپشنز پر صرف کرنا چاہیے۔اللہ آپ کا بھلا کرے، یہی تو بات ہے کہ مرد بے چارہ تو اپنی کامیابی کے لئے عورت کا محتاج ہے تو وہ اکیلا کیسے پورے معاشرے کو سدھارے گا؟
سوری ٹو سے، انتہائی سطحی سوچ۔ یعنی جس فرد نے اتنی محنت کر کے اتنا خرچہ کر کے اعلٰی تعلیم حاصل کی، اس کی بجائے اس کے سسرال کو یہ حق دیا جا رہا ہے کہ وہ اس "لونڈی" سے جو چاہے کام لے لیں۔ بہت افسوس ہوا ایسی سوچ کا جان کر
آپ نے "" نہیں دیکھے؟