MQM (الطاف) کی اخلاقی اقدار کا جنازہ

مہوش علی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
مہوش علی نے کہا:
ہمت علی نے کہا:
اختلافات اور ذھن سازی ایک چیز مگر ایسے الفاظ جن پر گالی کا گمان ہو گالی ہی میں شمار ہوتے ہیں ۔ حیران ہوں کہ یہ زبان اس جگہ بھی در ائی (۔۔۔ جیو سائیٹ ھیک ہو کر جب ایک نطفہ ??? نے مشرف صاحب کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے تو بھی ایسی ہی خاموشی تھی

بہت اچھا ہمت علی، آپ نے واقعی بہت اچھا پوائنٹ نوٹ کیا ہے اور میں یقینا اسے ڈیلیٹ کر دوں گی۔
مگر عرض کر دوں کہ میرے مطابق دو اصول ہیں۔

1۔ اگر کسی کو کافر کہا جائے تو (میرے مطابق) اسلام یہ کہتا ہے کہ یہ کہنے والا خود کافر ہو گیا اور اس کہنے والے کو ضروری طور پر کافر کہا جائے تاکہ اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہو۔

2۔ اور دوسرا (میرے مطابق) اسلام کہتا ہے کہ جو گالی دے، اُسے جواب میں ایسی ہی گالی دی جا سکتی ہے تاکہ اُسے احساس ہو کہ وہ کیا حرکت کر رہا ہے۔
(نوٹ: اگرچہ اسلام معاف کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے، مگر یہ ایک لمبی بحث ہے جو پھر کبھی)۔

مہوش مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ آپ مشرف اور اس کی حلیف جماعتوں کی حمایت میں بہت آگے جا رہی ہیں ذرا ٹھہریں اور ایک دفعہ ٹھنڈے دل سے غور کریں۔

آپ کے بیان کردہ نکات وضاحت طلب ہی نہیں تصدیق طلب بھی ہیں چونکہ آپ نے اسلام کا نام استعمال کیا ہے اس لیے اس پر آپ کو مکمل حوالہ پیش کرنا چاہیے ورنہ یہ خیالات پڑھ کر کوئی بھی
اسے مستقبل میں حوالے کے طو رپر استعمال کر سکتا ہے۔

دوسرا سوال یہ کہ جیو کی سائٹ پر جس نے بھی نازیبا حرکت کی یقینا وہ اردو محفل پر نہیں ہے اور نہ ہی اس بحث میں شریک ہے تو آپ کے ہی اصول کے مطابق آپ کسے احساس دلا رہی ہیں کہ اس نے کیا حرکت کی ہے۔

محب،
آپ نے اسلام کے حوالے سے سوال کیا ہے۔ اس حوالے سے بہت روایات موجود ہیں:

ابو ہریرہ نبی (صلی اللہ علیہ و آل وسلم) سے روایت کرتے ہیں:
4916 - حدثنا محمد بن الصباح البزاز، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا سفيان الثوري، عن منصور، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث فمن هجر فوق ثلاث فمات دخل النار
http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=7&CID=88#s1

"رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آل وسلم) نے ارشاد فرمایا: یہ کبیرہ گناہ ہے کہ کسی مسلمان کی عزت کے خلاف ناحق باتیں کی جائیں اور یہ بھی کبیرہ گناہ ہے کہ ایک دفعہ گالی دینے پر دو دفعہ گالی دی جائے۔
سنن ابو داؤد، کتاب 41 (کتاب الادب)، حدیث 4859

پس ثابت ھوا کہ کسی مسلمان کی ‎شان میں ناحق باتیں کرنا کبیرہ گناہ ہے مگر اس کی سزا میں زیادہ سے زیادہ جواب میں ایک دفعہ گالی دی جا سکتی ھے ( اور اگر جواب میں دو دفعہ گالی دے دی جائے تو یہ بھی گناہ کبیرہ ھو گا)۔

محب،
کیا آپ اس موضوع پر مزید بحث کرنا چاہتے ہیں؟
اگر ہاں، تو نیا ڈورا کھول سکتے ہیں (مگر مجھے ذرا انتباہ کر دینا چاہیے کہ کچھ روایات تھوڑی (\زیادہ) سخت ثابت ہو سکتی ہیں اور کچھ صحابہ کرام کے نام ان روایات میں شامل ہیں)۔

میری رائے میں تو اس موضوع کو معاف رکھتے ہیں (کیونکہ یہ خارجی موضوع ہے) اور اس موضوع کی طرف آتے ہیں کہ کیا صرف ایک قوم اور تنظیم کو اخلاقی انحطاط کا یکطرفہ نشانہ بنانا درست ہے؟ اور کیا پنجاب میں نئی نسل کا تہذیبی انحطاط موجود نہیں؟

اور پنجاب کے حوالے سے آپ نے صرف قیصرانی کی تحریر پر جرح کی اور میری تحریر پر کوئی رائے زنی نہیں کی۔ تو کیا میں سمجھوں کہ آپ اس معاملے میں مجھ سے متفق ہیں؟

آپ نے حدیث‌پیش کی جس کے جواب میں میری ذاتی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور جب تک میں بھی کوئی صحیح حدیث پیش نہ کروں دلیل کا جواب دلیل نہ ہوگا۔ بہرحال اتنا تو آپ مانیں گی کہ احسن عمل خاموش رہنا اور ایسی زبان استعمال نہ کرنا ہے، اس پر انشاءللہ میں ایک اور پوسٹ پر بات کروں گا اور اسے تنہا نہیں چھوڑوں گا۔

کیا پنجاب میں نئی نسل کا تہذیبی انحطاط موجود نہیں؟
اس پر میں ایک اور دھاگہ کھول رہا ہوں جس کا لنک یہ ہے

پنجاب کی نئی نسل اور تہذیبی انحطاط
 

شمشاد

لائبریرین
مہوش علی نے کہا:
تو "کالا پانی" صاحب، میری فیملی کا تعلق تو پنجاب سے ہے۔۔۔۔ تو کیا میں آپ کو بتاؤں کہ پنجاب میں فحش زبان کا استعمال کتنا ہے؟ کیا آپ کو نہیں علم کہ پنجاب کی نئی نسل ایسی غلیظ زبان استعمال کرتی ہے کہ ہر جملے کا شروع گالی، درمیان گالی اور اختتام گالی ہے؟؟؟ تو اس گالیوں سے بھرپور اس جدید نسل کی پنجابی تہذیب کا قصوروار بھی کیا ایم کیو ایم ہے؟؟؟

مہوش مجھے آپ کی اس بات سے سخت اختلاف ہے۔ معلوم نہیں اپ لاھور کے کس محلے کی کس گلی سے گزریں اور آپ کو یہ سب نظر آیا کہ ہر فقرہ گالیوں سے بھر پور تھا۔ اس کا اطلاق آپ کے کیسے پورے پنجاب پر کر دیا؟ اور پنجاب صرف لاہور تک ہی محدود نہیں۔

اور یہ جو آپ نے لکھا ہے یہ بھی پورے لاہور میں تو نہیں ہوتا، ہوتا ہو گا کہیں لاکھوں میں ایک جگہ پر۔

مجھے آپ سے سخت اختلاف ہے اور اس بات پر میں بھرپور احتجاج کرتا ہوں۔
 

زیک

مسافر
موضوع سے ہٹنے پر معذرت۔

مہوش: اگر ایم قیوایم کی عوامی مینڈیٹ کا ہمیں خیال رکھنا چاہیئے (جس سے میں متفق ہوں) تو پھر آپ نواز شریف یا بینظیر کی عوامی مینڈیٹ کا احساس کیوں نہیں کرتیں؟ اور نہ ہی موجودہ حکومت کے سیاسی حصے کا۔
 
قیصرانی نے کہا:
لہجے کی بات کر رہے ہو اور گالی سے انکار ہے؟ کفر یا کسی کو کافر قرار دینے سے بڑی بھی کوئی گالی ہے؟ اس کی کتنی پوسٹس اس لفظ سے بھری ہوئی ہیں۔ حیرت ہے کہ تم کس بات کو کس سے ملا رہے ہو

لہجے اور گالی کو ایک سمجھنا آج پہلی بار پڑھ رہا ہوں۔ اب اپنی مرضی سے بات کا مطلب نکالنا ہو تو پھر بات کو جو چاہو رخ دو۔ بہت سے لوگ اپنے عقائد کی بنیاد پر دوسروں کو گمراہ یا کافر سمجھتے ہیں جی بنیاد ان کے عقائد ہیں اور وہ اسے سچ سمجھتے ہوئے قرار دیتے ہیں جس میں اکثر ان کے عقائد کا قصور ہوتا ہے مگر اسے گالی کسی صورت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لوگ جھوٹے نبیوں کو ماننے والوں کو بھی کافر کہنے سے منع کرتے ہیں اپنے عقائد کی بنیاد پر ، اسی طرح خدا کے بارے میں مشکوک ہو کر بھی مسلمان کہلانے پر مصر ہوتے ہیں ۔

سب سے اہم بات یہ کہ پہلے تو ان پوسٹس کا حوالہ دو جہاں الف نظامی نے یہ کہا ہو اور اس کے بعد الف نظامی سے ہی اس کا جوا ب پوچھتے ہیں کہ اس نے کس طرح یہ کہا اور کس بنیاد اور کیا واقعی وہی مطلب ہے جو تم نے نکالا۔ اگر الف نظامی نے یہ نہیں سمجھا اور تم نے اپنی طرف سے سمجھ لیا تو بہتان کے بھی مرتکب ہوئے ہو۔

آٹھ کروڑ لوگوں کی نوجوان نسل کو تم اپنے محدود اور ناقص علم کی بنیاد پر گالیوں کی زبان میں بات کرنے والا کہہ رہو؟ اس سے بڑھ کر اور اس سے آگے اور کیا بہتان لگا سکتے ہو ؟
اس سے سخت لہجہ کیا ہوسکتا ہے ؟

میں پھر دہراؤں گا کہ جتنے ممبران کا میں نے ذکر کیا ان میں کتنے تمہیں اس مشاہدے کے مطابق ہیں اور تم نے اپنے 12 سالہ مشاہدے کی بنیاد پر ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی کی گفتگو کو بلا استثنا ایسے ٹھہرایا ہے ، کیا اتنے بڑے بہتان کے لیے تم نے کیا ثبوت فراہم کیے ہیں؟
 

شمشاد

لائبریرین
مہوش علی نے کہا:
[quoteاور دوسرا (میرے مطابق) اسلام کہتا ہے کہ جو گالی دے، اُسے جواب میں ایسی ہی گالی دی جا سکتی ہے تاکہ اُسے احساس ہو کہ وہ کیا حرکت کر رہا ہے۔
(نوٹ: اگرچہ اسلام معاف کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے، مگر یہ ایک لمبی بحث ہے جو پھر کبھی)۔
"رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آل وسلم) نے ارشاد فرمایا: یہ کبیرہ گناہ ہے کہ کسی مسلمان کی عزت کے خلاف ناحق باتیں کی جائیں اور یہ بھی کبیرہ گناہ ہے کہ ایک دفعہ گالی دینے پر دو دفعہ گالی دی جائے۔
سنن ابو داؤد، کتاب 41 (کتاب الادب)، حدیث 4859
[/quote]

مجھے یہاں بھی آپ سے اختلاف ہے۔ اسلام میں گالی دینا منع ہے۔
آپ نے جو حدیث بیان کی ہے مجھے لگتا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ اگرچہ میں اس وقت حوالہ نہیں دے سکتا لیکن میں نے جو حدیث سنی ہے وہ کچھ اسطرح ہے کہ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے ماں باپ کو گالی نہ دو۔ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ کوئی اپنے ماں باپ کو کیسے گالی دے سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کسی کو ماں باپ کی گالی دو گے تو وہ بھی جواب میں تمہیں ماں باپ کی گالی دے گا۔ پس تم کسی کو گالی مت دو۔“
 
مہوش علی نے کہا:
اور پنجاب کے حوالے سے آپ نے صرف قیصرانی کی تحریر پر جرح کی اور میری تحریر پر کوئی رائے زنی نہیں کی۔ تو کیا میں سمجھوں کہ آپ اس معاملے میں مجھ سے متفق ہیں؟

چونکہ قیصرانی نے تصدیق کے ساتھ ساتھ تمام نوجوانوں کو لڑکے لڑکیوں سمیت ایسا کہا تھا اس لیے میں نے پہلے قیصرانی کو جواب دیا۔
میں اس معاملے پر سخت ترین اعتراض کرتا ہوں اور اس موضوع کے لیے خاص ایک الگ دھاگہ کھولا ہے جس کا لنک پھر دے رہا ہوں وہاں صرف اسی موضوع پر بات ہوگی۔
پنجاب کی نئی نسل اور تہذیبی انحطاط
 

ظفری

لائبریرین
میری حتی الامکان یہ کوشش ہوتی ہے کہ سیاسی اور مذہبی بحث سے دور رہوں ۔مگر کچھ دنوں سے مہاجر اور ایم کیو ایم کے حوالے سے مختلف نظریات کے ساتھ کچھ ایسا رحجان بھی دیکھ رہا ہوں ۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مہاجر واقعی ایک انتہائی درجے کی نیچ قوم ہے ۔ اور اس کی حمایت جو بھی اور کسی بھی سطح سے کرے وہ بھی نفرت کے قابل ہے ۔ اس کا ایک منہ بولتا ثبوت اس ٹاپک کا عنوان ہے جو مہاجر کو ایک حقیر قوم گردان رہا ہے ۔ تو پھر رہا نہ گیا ۔ اس کے علاوہ اس بحث سے کچھ اور اعتراضات اور تنازعات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جن کے بارے فی الحال ابھی میں بحث ‌نہیں کرنا چاہوں گا ۔

ایم کیو ایم 80 کی دھائی کی ایک تنظیم ہے ۔ جو اس وقت کے پنجاب کے ہی ایک سپہ سالار کے تعاون ہی سے وقوع پذیر آئی ۔ اس سپہ سالار کے کیا مقاصد تھے ۔ یہ الگ بحث ہے ۔ مگر اس ٹولے میں ایک عام سا کراچی کا شہری جسے حرفِ عام میں اب مہاجر کہتے ہیں ۔ ( ورنہ پہلے یہ مٹروے یا پھر بہت عزت مل گئی تو اردو اسپیکنگ کہلاتے تھے ) کیوں شامل ہوا ۔ اور پھر یہ تنظیم کس مقاصد کے لیئے استعمال ہوئی ( اور اب بھی ہورہی ہے ۔) اور وہ کون لوگ ہیں ۔ جنہوں نے اس تنظیم کے نام پر کراچی کے مہاجروں کو سب کی آنکھوں کے سامنے یرغمال بنایا ۔ ان سب کا دیکھا جانا بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ اگر آپ اس پہلو سے نہیں سوچیں گے تو یہ بلکل ایسا ہوگا کہ خود دونوں بغلوں میں تعصب اور عصبیت کی پوٹلی دبائی ہوئی ہے ۔ اور کسی اور لسانی تنظیم کی اخلاقی اقدار کی پستی کی طرف اشارہ کرر ہے ہیں ۔ کیونکہ یہاں عنوان سے بحث تک مسلسل صرف اور صرف ایک قوم کی مخالفت ہورہی ہے ۔ جبکہ چند افراد جو کہ اس سارے فسانے کے قلمبردار ہیں ۔ ان کو سب نظرانداز کررہے ہیں۔

مجھے 80 کا وہ دور بھی یاد ہے ، جب آپ کراچی کے کسی بھی کالج ، اسکول اور یونیورسٹی چلیں جائیں ۔ خصوصا ً امتحانوں یا داخلوں کے موسم میں تو آپ کو ہر جگہ بھانت بھانت کے اسٹال نظر آتے تھے اور ہر اسٹال مخلتف لسانی اور سیاسی پارٹیوں کے بینر سے سجا ہوتا تھا ۔ جن میں پختون اسٹوڈینٹس فیڈریشن ، پنجابی اسٹوڈینٹس فیڈریشن ، بلوچ و سندھی اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن کے علاوہ پپلیز پارٹی ( پی ایس ایف) اور جماعت اسلامی ( جمعیت ) کے بینر ہر جگہ عام ہوتے تھے ۔ اور ان کے عقب میں ایک شامیانہ گڑا ہوتا تھا ۔ جن میں “رکھوالے “ ماحول پر نظر رکھے ہوتے تھے ۔ ایسے میں اگر کوئی مہاجر غلطی سے کسی اسٹال پر داخلے فارم کے بارے میں استفسار کرتا تو اس سے اس کی شناخت پوچھی جاتی اور جب اس کا تعلق کراچی سے ہوتا یا پھر کسی بھی سیاسی پارٹی سے نہیں نکلتا تو وہاں سے دھتکار دیا جاتا تھا ۔ اور کبھی کبھی رکھوالے کسی کے ایسے سوال پہ کہ ہم داخلہ فارم لینے کہاں جائیں کہ کالج سے سارے فارم تو آپ لوگوں نے ہتھیا لیئے ہیں تو اس کی ایسی طبیعت صاف کرتے تھے کہ وہ کئی کئی ہفتے مدارس کی طرف رخ کرنے کی ہمت نہیں کرتا تھا ۔ کئی سال سے متواتر جاری اس قسم کی بدمعاشی اور دہشت گردی کے بعد کچھ لوگوں نے جن کا تعلق انہی مدارس سے بنتا تھا ۔ ایک فیڈریشن تشکیل دی ۔ جس کا نام آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن رکھا گیا ۔ ( اس سے پہلے اندورن ِ سندھ میں بھٹو کے دور میں اردو اسپیکنگ کے ساتھ سلوک بھی سب کے ذہن میں تازہ تھا ) ۔

تو ہم سب نے پہلے پختون ، پنجابی ، سندھی اور بلوچ بن کر اس قوم کو مجبور کیا کہ وہ بھی اپنی کوئی شناخت رکھ لے ۔ سو وہ رکھ لی گئی ۔ اس وقت جماعت اسلامی کا کراچی میں راج تھا۔ ۔ ضیاء کو ان سے خطرہ لاحق تھا سو اس “لسانی“ تنظیم کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔ الطاف کو شکاگو میں کیب ڈرائیونگ سے اٹھا کر راتوں رات پاکستان لایا گیا اور اس کو مکمل ایک پروکوٹول کے ساتھ یہ کہا گیا کہ وہ کراچی اور حیدرآباد میں جہاں چاہے جلسے جلوس کر سکتا ہے ۔ اور جنتی جلدی ہوسکے اپنی پارٹی کی داغ بیل دے ۔ جو کچھ عرصے میں بیل دی گئی ۔ جماعت اسلامی ایک منظم اور تجربہ کار تنظیم تھی ۔ وہ سمجھ گئی اور راستے میں کھڑی ہوگئی ۔ جب مہاجر اسٹوڈینٹس کے کئی طلباء جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو الطاف حسین مے اپنے مددگار کی طرف دیکھا اور پھر اس کو وہ عسکری صلاحیت سے ایسا نوازا گیا کہ آج تک اس کا استعمال جاری ہے ۔

جماعت ِ اسلامی جو کہ ایک مضبوط سیاسی جماعت ہونے کے ساتھ عسکری صلاحیت سے بھی مالا مال تھی ۔ ( میں دہشت گردی کا لفظ استعمال نہیں کر رہا کہ یہ نام اب صرف مہاجروں سے منسلک ہوگیا ہے ) ۔ اس کا مضبوط گڑھ کراچی ہی تھا ۔ اور کراچی کے لوگ جن میں احساس ِ محرومی ( اس وقت جو بھی تھا) جو دو دہائیوں سے جاری تھا‌ ۔ ان کو مہاجر نام میں ایک کشش محسوس ہوئی اور لوگ در جوق اس میں شمولیت اختیار کرتے گئے اور ان کو بہت بعد میں احساس ہوا کہ مہاجر قومی موومنٹ ۔۔مہاجروں کے ساتھ مخلص نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی ایک ایسی پیدا وار ہے ۔ جو آنے والوں وقتوں میں انہی کی بیج کنی کرے گی ۔ ( اور ایسا ہی ہوا اور ہورہا ہے ) ۔
تنظیم کی ہائی کمان میں شامل افراد عسکری لحاظ سے انتہائی تربیت یافتہ تھے ۔ اور بعض کی آمد اس تنظیم میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی سے ہوئی ۔ ضیاء کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی ترجیعات بدلیں تو اس پارٹی کی لگام کسی کے ہاتھوں میں نہ رہی ۔ بنیادی طور سے سب ہائی کمان میں شامل افراد چونکہ مار دھاڑ پر پھرپور یقین رکھتے تھے کہ ان کو پچھلے دور میں یہی سیکھایا گیا تھا ۔ اور لانڈھی میں ان کا مہاجر خیل ایک تربیت گاہ کے علاوہ ایک عقوبت خانہ بھی ثابت ہوا ۔ ( جس کی بنیاد دوسری لسانی اور سیاسی جماعتوں کے طرز پر رکھی گئی تھی ) ۔ کچھ عرصے بعد پیپلز پارٹی حکومت میں آئی ۔ اور پھر مہاجر ، سندھی فساد کی وجہ بنائی گئی ۔ پیپلز پارٹی کی ایم کیوایم کے کچھ سرگردہ لوگوں سے ڈیل کی وجہ سے 89 میں ایم کیو ایم کا ایک دھڑا الگ ہوگیا ۔ اور ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے وجود میں آیا ۔ اس دھڑے میں 95 فیصد لوگ ماردھاڑ پر یقین رکھتے تھے اور اس دھڑے کی نظامت آفاق احمد کے ہاتھوں آئی ۔ جو مہاجر خیل کا بانی تھا ۔ وہ دور مہاجر قوم کے لیئے انتہائی مشکل اور کڑا وقت تھا ۔ جب ایک مہاجر دوسرے مہاجر کی لاش پر کھڑا ہوکر تصویریں کھنچواتا تھا ۔ جون 92 سے لیکر اکتوبر 99 میں سینکڑوں مہاجر ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے گئے ۔ ایک سپہ سالار نے ان کے ہاتھوں میں بارود دیکر کراچی کی گلیوں میں کھلا چھوڑ دیا تھا ۔ مہاجر قوم جو ان کو نجات دہندہ سمجھ رہی تھی ۔ خود ان کی عفیریت کا شکار ہوگئی ۔ یہ لوگ جنکا پٹا پکڑنے والا کوئی نہیں تھا ۔ مہاجر قومیت کے نام پر دنگا فساد اور خون کا وہ بازار گرم کیا کہ عام لوگ اپنی جان بچانے کے لیئے ملک چھوڑ چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ خواتین کی عزت تارتار کی گئی ۔ بھتہ اور غندہ ٹیکس قانون بن گئے ۔ اغوا و قتل برائے تاوان سب سے آسان آمدنی کا ذریعہ بن گئے ۔ عظیم طارق سے لیکر حکیم محمد سعید کو بیدردی سے قتل گیا ۔ وہ سب لوگ کون تھے ۔ سینکڑوں یا ہزاروں اس دوران مارے گئے وہ کس قوم کے تھے ۔ بھتہ ، تاوان ، زنا بالجبر کے سینکڑوں واقعات کس کے ساتھ ہوئے ۔ یہ سب مہاجر قوم کے ساتھ ہی ہوئے ۔ جنہوں نے کیا وہ بھی مہاجر ہی تھے ۔
مگر ملک کے کسی حصے سے 92 سے لیکر 99 تک کوئی آواز نہ اٹھی ۔۔۔ کسی کو انسانی جان کے تقدس کی پامالی کا خیال نہ آیا ۔ سینکڑوں عزتیں تار تار ہوئیں ۔ کوئی مذہبی جماعت یا این جی او محترک نہ ہوئی ۔ کیونکہ کہ یہ اردو اسپینگ لوگوں کے ساتھ ہورہا تھا ۔ کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ ایم کیو ایم کچھ لوگوں پہ مشتمل ایک ایسا ٹولہ ہے جس کو اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور سپورٹ ہے ۔ مگر انہوں نے اپنی نفرت کا اظہار پوری مہاجر قوم پر کردیا ۔ یہ حقیقت جانتے ہوئے بھی کہ مہاجروں کا پڑھا لکھا طبقہ پہلے ہی دن سے ان کے خلاف تھا ، اور جو مہاجر ان کا ساتھ دینے پر مجبور تھے اس کی وجہ ۔۔۔ ایم کیو ایم کے چند شر پسند ( جو کہ سارے کراچی پر قابض تھے ) ان کی دہشت تھی ۔ اور وہ بوری بند لاشیں بننے سے ڈرتے تھے ۔ کلاشنکوف خود ووٹ کا بلیٹ بکس تھی ۔ اسکی وجہ سے ووٹ آتے اور وہ جیت جاتے ۔ کسی نے نہیں سوچا کہ آخر کس نے ان چند لوگوں کو کراچی کے مہاجر لوگوں کی قسمت بنا دیا ۔ وہ کونسے عوامل تھے کہ یہ مجبور ہوئے کہ خود کو مہاجر کہلوائیں ۔ اور یہ چند لوگ چلے جاتے ہیں اور پھر منظرِ عام پر واپس آجاتے ہیں تو کیوں ۔۔۔ آخر اس سارے کھیل کے پیچھے کس کے ہاتھ ساری ڈور ہے جو ہلا رہا ہے ۔ جب آپ یہ سوچیں گے اور بات کی تہہ میں پہنچیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ ایم کیو ایم مہاجروں کی جماعت نہیں ۔ بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں تخلیق ہوئی ایسی جماعت ہے ۔ جو اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق کراچی کا موسم رکھے ۔ سارا جھگڑا کراچی کی سیاسی شعور کا تھا کہ جب بھی حکومیتیں ختم ہوئیں ۔ کراچی ہی کی تحریکوں سے ہوئی ۔لہذاٰ وہ سیاسی شعور ماردیا گیا ہے ۔ مگر اس سارے قصے میں سب سے بڑی بدقسمتی مہاجروں کی یہ رہی کہ وہ کراچی میں رہتے ہیں اگر کہیں اور رہتے تو ایم کیو ایم نہ بنتی ۔ کوئی سندھ الگ تحریک یا کراچی تحریک وجود میں آتی ۔ اور ان کو ایم کیو ایم کے حوالے سے اپنوں سے اور دوسروں سے بھی اس قدر ذلت کے ساتھ بربادی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے کہ مہوش علی بھی یہی کہنے کی کوشش کر رہیں ہیں کہ عمران خان کے خلاف نازیبہ وال چاکنگ کسی پوری قوم کی ذہن کی عکاسی نہیں کرتی ۔ بلکہ یہ غیراخلاقی بیماری اور پستی پورے ملک کے بہت سے حصوں میں پھیل چکی ہے کہ جہاں غیر اخلاقی گفتگو ‌ رویہ اور عادت بنتا جارہا ہے ۔ اور ہمارے غیر اخلاقی پن کا یہ پہلو جس طرح کراچی کے ایک مخصوص گروپ کی کارستانی کی وجہ سے سامنے آیا ہے ۔ اسی طرح ملک کے دوسرے حصوں میں بھی یہ غیراخلاقی رویہ کسی گروپ یا اس طرح کی مخصوص سوچ کے حامل افراد کی مذہوم سازش کے وجود کا احساس دلا رہا ہے مگر اس میں کسی بھی طرح کسی کی ثفافت اور زبان کا کوئی قصور نہیں کیونکہ یہ مخصوص لوگوں کا ٹولہ کسی بھی پوری قوم کی نمائندگی بلکل نہیں کرتے ۔

تو پس ہم کو اس غیر اخلاقی اقدام اور مذہبی اقدار کی تنزلی کے بارے میں سوچنا چاہیئے ناکہ سیاستدانوں کی ہاں میں ہاں ملا کر مسئلے کی طرف سوچنے کے بجائے ملک میں دوسرے رہنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنائیں کہ اس طرح ہم کو صرف کمزور ہونا ہے ۔ اور ساتھ ساتھ ہم کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ وہی بات ( جس کا مرکز کراچی اور مہاجر ہیں ) اگر ہمارے اپنے صوبوں یا شہروں میں پائی جاتی ہے تو اس حقیقت کو خندہ پیشانی سے مانتے ہوئے اس کے سدباب کے لیئے سرجوڑ بیٹھنا چاہیئے ناکہ اس بات پر چراغ پا ہونا چاہیئے کہ ہم لوگوں کو ان سے نہ ملایا جائے ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
umeedaurmohabbat نے کہا:
عموما بہت خاموشی سے ہر پوسٹ پڑھنے کی عادت سی ہو گئی ہے پر اسے پڑھتے ہوئے یک دم دل چاہا کہ کم از کم کل کی بات رقم کی جائے ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ کہ جب


اردو کے نئے نئے الفاظ سیکھنے کی شوقین میری 6 سالہ بھانجی نے کل بازار سے گزرتے ہوئے یہ پوچھا

“ یہ دیوار پر کیا لکھا ہے؟؟؟؟

تو ان الفاظ نے ناصرف مجھے نگاہیں چرانے پر مجبور کیا (پتہ نہیں میری طرح کتنے لوگوں نے خواتین، بچوں نے نگاہیں چرائی ہونگی)۔

بلکہ بہت دیر محو سوچ میں بھی رکھا کہ

آخر کتنی نسلوں تک؟؟

یہ دیکھ کر انجان بننے کا عمل جاری رہے گا؟؟؟

آآخر کب تک؟؟ اس شہر میں بڑے ہونے والے ہر بچے کو یہ آگاہی ہو گی کہ
۔ ۔ ۔

ہمارے شہر میں راج ج ج ج ج چلتا ہے

۔ ۔ ۔جہاں ہونیورسٹیز میں امتحان لیتے ہوئے اساتذہ کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ ان خاص لوگوں کی طرف نہیں دیکھنا ۔ ۔ ۔ ان کو ہر عمل کی اجازت ہے ۔ ۔


۔ ۔ ۔جہاں بڑے سے بڑے بازار یا گلی کی چھوٹی سی دکان کے مالک ہوتے ہوئے بھی آپ ُ کو ہر ماہ اپنی آمدنی کا کچھ حصہ دینا پڑتا ہے ۔ ۔جس سے انکار ممکن نہیں ۔ ۔

۔ ۔ ۔یہاں تک کہ تعلیمی اداروں کو بھی تعلیم دینے کے جرم میں ہر ماہ تاوان ادا کرنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔جہاں لوگوں کو ووٹ ڈالنے آنے کی زحمت نہ ہو اس لئے خود ہی ووٹ بھرنے کا کام کیا جاتا ہے ۔۔ ۔ ۔


۔ ۔ ۔جہاں آپ کو اپنے علاقے میں کچھ کرتے ہوئے اجازت ت ت ت لینی پڑتی ہے۔ ۔۔


۔ ۔جہاں جوان ہوتے ہوئے لڑکوں کو گھروں میں یہ سیکھایا جاتا ہے کہ آپ نے صحیح ہوتے ہوئے بھی نہیں بولنا ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ جہاں دیکھ کر انجان بننا سیکھایا جاتا ہے ۔ ۔

آخر کب تک ۔ ۔ ۔

امید اور محبت،

یہ ایک ون سائیڈڈ پوسٹ ہے اور اگر آپ تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو آپ کو ایم کیو ایم بشمول کراچی کے عوام کے دوسرا ہی رونا روتا ہوا دکھائی دیں گے اور اُن پر کیے جانے والے ظلموں کی لمبی داستان جس میں بقیہ اہل پاکستان سے شکوہ کہ کبھی انہوں نے کراچی و مہاجروں کی مظلومی پر احتجاج نہیں کیا۔
اور ون سائیڈڈ پوسٹ اس لیے کہ آپ کو مستقل طور پر ایم کیو ایم ہی نظر آتی ہے کہ امتحانات میں نقل کروا رہی ہے، مگر سالہا سال تک آپ کو یہ نظر نہیں آتا رہا جب اندرون سندھ یہی کام ہوتا رہا اور وہ (اہل کراچی کے مطابق) ان کی سیٹیں کاٹتے رہے۔
تو مجھے اختلاف ہے آپکے اس ون سائیڈڈ رویے پر کہ آپ مسئلے کی ظاہری رخ کو لیکر ایک قوم یا جماعت کے خلاف تو ٖفورا صف آراء ہو جائیں، مگر ان مسائل کے اصل محرکات کو نہ سمجھیں۔ اس طرح کے رویوں سے مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ مشرقی پاکستان کی طرح بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔

یقین جانئے، ایم کیو ایم سے مجھے نظریاتی طور پر بہت ہی بڑا اختلاف ہے اور میری اپنی رائے انکے متعلق منفی ہے۔ مگر اہل کراچی جن حالات سے گذر کر آج یہاں پہنچے ہیں، اس بنیاد پر ان میں بہتری بھی آہستہ آہستہ ہی آئے گی (اور حالات سے پتا بھی چل رہا ہے کہ چیزوں میں بہتری ہے اور 1990 کی دھائی جیسے حالات نہیں رہے)۔ ایم کیو ایم اگرچہ ابھی تک لسانی بنیادوں پر قائم ہے، مگر مثبت پہلو یہ ہے کہ ایم کیو ایم سے آگے بڑھ کر متحدہ بننا چاہتی ہے۔ شمالی علاقوں میں زلزلے کے دوران انہوں نے مثبت رویہ اپنانے کی کوشش کی۔ تعلیمی اداروں کی حالت بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ غنڈہ کلچر 1990 کی نسبت بہت کم ہے۔۔۔۔
 

غازی عثمان

محفلین
مصروفیت کی بناء پر میں تفصیلی جواب نہیں دے پارہا
لیکن میں عرض کردوں کے میں بھی ایک مہاجر ہوں میرے گھر والے بھی ایم کیو ایم میں رہے ہیں اور اس کی سزا بھی بھگتی ہے


عنوان میں میں نے مہاجروں کی بے عزتی کی کوشش نہیں کی ( تفصیل بعد میں )‌

میں نبیل کو اختیار دیتا ہوں کہ عنوان تبدیل کر دے۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پاکستان کی بات کیجییے۔ صوبائیت کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم نہ کریں۔ صوبے صرف انتظامی وجوہات کی بنا پر ہوتے ہیں اور ان میں رہنے والے تمام اس ملک پاکستان کے باشندے ہیں۔
خدارا پنجابی ، مہاجر، پٹھان ، سندھی ،بلوچی کے نام ہر تفریق نہ ڈالیں۔

جہاں تک نئی پاکستانی نسل کے تہذیبی انحطاط کا سوال ہے
تو
ہاں ایسا ہو رہا ہے اور اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں،
عوام ، سیاہ ست دان ، حکمران ، براکریسی،


اس کی وجہ:
مغربی ثقافت کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے اہلِ پاکستان پر مسلط کرنا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
میں پھر دہراؤں گا کہ جتنے ممبران کا میں نے ذکر کیا ان میں کتنے تمہیں اس مشاہدے کے مطابق ہیں اور تم نے اپنے 12 سالہ مشاہدے کی بنیاد پر ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی کی گفتگو کو بلا استثنا ایسے ٹھہرایا ہے ، کیا اتنے بڑے بہتان کے لیے تم نے کیا ثبوت فراہم کیے ہیں؟
اپنے کھولے ہوئے دھاگے پر جا کر دوست بھائی کی پوسٹ دیکھ لو۔ اگر کوئی بھی اس سے انکار کرے تو بتانا
 

قیصرانی

لائبریرین
اور محب بھائی، اتنی جذباتیت کاش تم نے اس دھاگے کے نام یا پہلی پوسٹ کے متن پر بھی دکھا دی ہوتی تو اب تمہاری بات میں کچھ وزن ہوتا۔ ابھی تو یہی لگ رہا ہے کہ بحث برائے بحث کے موڈ میں ہو
 

خاور بلال

محفلین
بہت سے ساتھیوں کو اعتراض ہے کہ لفظ مہاجر استعمال نہ کیا جائے۔ بات مناسب ہے لیکن ایسا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کی مہاجر آبادی کی اکثریت ایم کیو ایم کی پشت پر رہی ہے، سانپ کو دودھ پلاکر اسکی پرورش کے بعد اس سانپ سے اظہار لاتعلقی اتنا آسان نہیں۔ اگر “چماروں کی نفسیات“ ترک کرکے ایم کیو ایم پر ایک نظر ڈالی جائے تو صرف خون نظر آئے گا۔ مہاجر قومی موومنٹ (الطاف) کے نام سے جب یہ تنظیم اپنے جرائم کی انتہا پر تھی تو کیوں مہاجروں کی اکثریت ان کے ساتھ تھی، اس وقت کرتے اظہار لاتعلقی۔ کہتے کہ داغ، شیفتہ، میر، حسرت موہانی، نواب بہادر یار جنگ، جوہر برادران کے نام لیواقاتل اور پاکستان دشمن نہیں ہوسکتے۔ جب الطاف بھائی نے دوقومی نظرئے پر اپنی گندی انگلی اٹھائی تو مہاجروں کی اکثریت نے اظہار لاتعلقی کیوں نہ کیا۔ کیوں شرم سے سر نہ جھکے۔ “ناہید بٹ، شازیہ، سیما زریں،فرزانہ سلطان“ جانتے ہیں ان ناموں کو؟ الطاف حسین کے عزائم کی بھینٹ چڑھنے والی اور نجانے کتنی عصمتیں ہوں، ریپ کے کیسز جن پر ایم کیو ایم نے سیاست کرنا چاہی لیکن ہاسپٹل کی رجسٹرڈ میڈیکل رپورٹس جلادوں کے مسکن کا سراغ دیتی ہیں۔ اگر ایم کیو ایم مہاجروں کی نمائندہ نہیں تھی تو مہاجروں نے کیوں نفرتوں کو بونے میں ان کی مدد کی، کیاجان کا خوف تھا؟ ہاں۔ یقینا جان کا خوف تھا، گیدڑ کی سو سالہ زندگی عزیز تھی۔

مہوش علی نے کہا:
مجھے اہل پاکستان کے رویے سے شکایت ہو جاتی ہے کہ‌نہوں نے ایم کیو ایم اور اسکے مینڈیٹ کو "دل" سے کبھی قبول نہیں کیا (جیسے جنونی ہندؤوں نے آجتک دل سے پاکستان کو وجود قبول نہیں کیا)۔

‌جنہوں نے ایم کیو ایم کو دل سے قبول نہیں کیا وہ آپ کے نزدیک جنونی پاکستانی ہیں۔ واہ داد دینے کیلئے الفاظ نہیں مل رہے۔

مہوش علی نے کہا:
اور اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ اگر "آج" ٹی وی آپ کو ایم کیو ایم کے مسلح ورکر دکھاتا ہے تو آپ ایم کیو ایم کے میڈیا پر جا کر دوسری تنظیموں کے مسلح ورکر بھی دیکھ سکیں۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ ایم کیو ایم اپنے میڈیا پر اپنے ہی کارکنان کی دہشت گردی دکھائے گی؟ ایم کیو ایم کا تو ایجنڈا ہی یہی ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ لگنے لگے۔ اور یہ کس نے کہہ دیا کہ آج ٹی وی ایم کیو ایم کا دشمن ہے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان کی قریب کی نظر خراب نہیں اسی لئے انہوں نے جو دیکھا وہ دکھایا۔

مہوش علی نے کہا:
تو میں ذاتی بنیادوں پر الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے جتنا بھی اختلاف کر لوں، مگر جو چیزیں مجھ پر واضح ہوں اُن سے میں انکار نہیں کر سکتی۔

لفظ “واضح“ کی جتنی بے عزتی آپ نے کی شاید ہی کسی نے کی ہو، آئیے کچھ واضح باتوں کی بات ہوجائے

[align=left:f07636c229]October 25, 1986: Altaf Hussain says in Hyderabad, Sindh, that Mohajir youth should "collect arms. If our rights are not given to us, we will use every kind of force".

November 2, 1986: Altaf Hussain and 10 other leaders are arrested on charges of attempt to murder and rioting. 72 other activists arrested with arms and explosives in different areas of Karachi.

December 9, 1986: One person killed and 40 injured during clashes following MQM’s call for strike in Karachi.

January 31, 1987: Altaf Hussain says in Liaquatabad that Mohajirs "will have to arrange for their own security"

June 21, 1987: MQM Chairman calls for boycott of Jang for its "anti-Mohajir policy". The newspaper’s office in Hyderabad is burnt down.

October 31, 1987: Two persons are killed and 85 others injured in violence during an MQM-strike in Karachi. Senior police officials are injured in violence in Hyderabad.

November 1987: MQM wins a majority of seats at the local-level elections in Karachi and Hyderabad, and emerges successful in other urban areas of Sindh.

August 30, 1988: MQM activists kill a Karachi University student.

October 1, 1988: Suspected MQM activists kill 90 Sindhis in separate attacks in Karachi.

February 23, 1989: Karachi University vice-chancellor’s office is burnt down by suspected MQM cadres.

August 19, 1989: 11 persons, including a police personnel, are killed by alleged MQM gunmen in Karachi

September 22, 1989: Sindh Deputy Inspector General (DIG) of Police says MQM is a terrorist outfit and not a political organisation.

January 30–February 3, 1990: 18 persons are killed in anti-government demonstrations in Hyderabad.

February 6-9, 1990: 64 persons are killed during an MQM-organised anti-government demonstration in Karachi.

April 12, 1990: MQM rejects government’s offer for peace talks.

June 6, 1990: President Ishaq Khan proposes all-party conference on Sindh situation. MQM refuses to participate.

April 30, 1991: Two Japanese students allegedly abducted by MQM activists for ransom are released after 45 days in captivity.

October 1, 1991: Prominent journalist Mohammad Salahuddin’s house is bombed allegedly by MQM activists in Karachi

May 28, 1992: Federal government launches military operation against "dacoits and terrorists" in Sindh.

June 22, 1992: Cases are filed against 13 MQM-A leaders, including Altaf Hussain.

November 27, 1992: MQM-A Chairman Azim Tariq comes over-ground and disowns Altaf Hussain.

May 1, 1993: Azim Tariq is killed allegedly by MQM-A cadres.

March 6, 1994: Suspected MQM-A activists kill five security force (SF) personnel, including an Army Captain, in Karachi.

June 20, 1994: A court in Karachi issues non-bailable warrants against Altaf Hussain in connection with the murder of a Senator in May 1990.

June, 1994: Altaf Hussain and 19 other MQM members sentenced in absentia by a Karachi court to 27 years imprisonment for abducting and torturing an Army intelligence officer, Major Kaleem, and his four associates in June 1991.

August 8, 1994: Altaf loyalists in Karachi allegedly kill a top-MQM-H leader.

September 26, 1994: Three MQM-A activists are arrested and a large cache of weapons is seized in several raids on their hideouts in Karachi.

May 5, 1995: US Embassy announces that issuing visas from Karachi would be stopped because of the prevalence of terrorist violence in the city.

June 24, 1995: A train carrying arms for SFs is looted and burnt down by MQM-A activists.

August 2, 1995: Top MQM-A terrorist Farooq ‘Dada’ and three of his associates are killed in Karachi.

August 6, 1995: Top MQM-A activist Fahim ‘Commando’ and three of his associates are arrested in Karachi.

August 15, 1995: Top MQM-A activist Tariq ‘Commando’ is arrested in Karachi.

February 1, 1996: MQM-A leader, Ajmal Dehlvi warns government that the outfit would disrupt World Cup cricket matches to be held in Pakistan.

April 10, 1996: MQM-A cadre Nadeem Chita, carrying reward of Rs one million, is arrested from Azizabad, Karachi

June 16, 1996: Karachi police arrest MQM-A cadres Azhar Sayyan––wanted in more than 50 cases––and Naseem Pajama, wanted in 27 cases.

October 10, 1996: United States Immigration and Naturalization Services (INS) refuses to grant asylum to three senior MQM-A leaders, including senior vice chairman Saleem Shahzad.

July 26, 1997: MQM-A renames itself as Muttahida Qaumi Mahaz.

July 4, 2000: A Karachi court issues arrest warrants against an MQM-A woman leader, Nasreen Jalil, and some other activists on charges of rioting and obstructing police in performing their duties.

December 22, 2000: An additional district and sessions court in Karachi declares MQM-A chief Altaf Hussain and three other activists absconders in a case pertaining to the killing of two persons during an MQM-A sponsored strike in Karachi in June 1995.

September 5, 2001: A leader and 14 activists of the MQM-A are acquitted in different cases by the courts in Karachi.

September 17, 2001: MQM-A Chief Altaf Hussain, in a statement from his London headquarters, says people of Pakistan in general, and Sindh in particular, must not "get distracted on the propaganda by the so-called religious and Jihadi organisations."

April 13, 2002: MQM-A chief Altaf Hussain urges President Pervez Musharraf to grant ‘complete’ autonomy to smaller provinces, including Sindh.

April 19, 2002: MQM-A chief Altaf Hussain demands a new Constitution for Pakistan.

May 15, 2002: An Anti-terrorism court in Karachi sentences two MQM-A activists to life for killing a police personnel on July 21, 1998 in Liaquatabad.[/align:f07636c229]


مہوش علی نے کہا:
اگر کسی کو کافر کہا جائے تو (میرے مطابق) اسلام یہ کہتا ہے کہ یہ کہنے والا خود کافر ہو گیا اور اس کہنے والے کو ضروری طور پر کافر کہا جائے تاکہ اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہو۔

عزیزہ! کم از کم اسلامیات ہی پڑھ لی ہوتی۔ کفر انکار کو کہتے ہیں اور انکار کرنے والے کو کافر، سو اسلام کا انکار کرنے والوں کو تو قرآن بھی کافر کہتا ہے۔ قرآن کو آپ کیا خطاب دیں گی۔

مہوش علی نے کہا:
اسلام کہتا ہے کہ جو گالی دے، اُسے جواب میں ایسی ہی گالی دی جا سکتی ہے تاکہ اُسے احساس ہو کہ وہ کیا حرکت کر رہا ہے۔

اسلام کے جس ایڈیشن کا مطالعہ آپ کررہی ہیں ہمیں بھی عنایت کردیں۔

قیصرانی نے کہا:
نبیل بھائی، براہ کرم کالا پانی کے شروع کردہ موضوع کا نام ہی تبدیل کرا دیں۔ ایک لسانی جماعت کے افعال کو نشانہ بنا کر پوری قوم کے اخلاق کا جنازہ نکلوایا جا رہا ہے

تو آپ کا کیا خیال ہے اس تھریڈ کا نام مجاہدین کی اخلاقی اقدار کا جنازہ یا اسلامی دہشت گردی رکھ دیں؟ ویسے فکر نہ کریں مخاطب تمام مہاجر نہیں بلکہ ان کی اکثریت جو ایم کیو ایم کی پشت پناہ تھی وہ ہے۔ اب اگر مہاجروں کی اکثریت کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے تو وہ مثبت اپروچ کے ساتھ اس کا ازالہ کریں کم از کم یہ تو نہ کہیں کہ ہم تو تماشا دیکھنے آئے تھے۔

مہوش علی نے کہا:
اُن کو جو اہل کراچی نے مینڈیٹ دیا ہے، میں اسے قبول کر کے اسکا احترام کرتی ہوں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ بقیہ اہل پاکستان ایم کیو ایم کی نفرت میں اُس Critical Point کو عبور کرتے ہوئے لگ رہے ہیں

بالکل کریں جی مینڈیٹ کااحترام۔ لیکن ١٢مئی کی ٤٠ لاشوں کا جو مینڈیٹ ہے اس کا احترام کون کرے گا۔ دوسری بات یہ کہ سقوط پاکستان کے مجرم بھی بنگالی اور پنجابی نیشلسٹ تھے اور یہ قوم پرستی ہی ہے جو اسلامیت کی جڑ کاٹتی ہے، اسلام نے بھائی بھائی بنایا اور مہاجرین اور انصار کا نمونہ بھی پیش کیا، وطن پرستوں کی حمایت کیسے کی جائے کہ علامہ اقبال کہتے ہیں “ جو پیرہن ہے اسکا وہ مذہب کا کفن ہے“۔ نیشنلسٹ فطری طور پر مفاد پرست ہوتا ہے اور اپنی قوم کے مفاد کیلئے ہر غیر اخلاقی کام کرسکتا ہے، اسی لئے اسلام میں تو اتنی بھی گنجائش نہیں کہ آپ پاکستان کو قوم تصور کرکے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد تعمیر کریں۔پاکستان بناتے وقت تو “سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ نہیں لگاتھا۔لاالٰہ الااللہ کی بنیاد پر حاصل کردہ ملک کو خیرات تصور نہ کریں، یہ خون شہداء سے کشید کی گئی زمین بزدلوں اور نامردوں کے لئے نہیں بنی۔ ہوا کے رخ پر اڑنے والے کیڑے مکوڑوں کو اپنے لئے کوئی اور جگہ تلاش کرلینی چاہئے۔

اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت، اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

وہ حضرات جو ایم کیو ایم کے جرائم (ریفرینس؛ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ یو ایس) جاننا چاہتے ہیں خواہش ظاہر کریں تاکہ میل کردوں۔‌‌
 

جیسبادی

محفلین
اگر آپ کے پاس حوالہ جات موجود ہیں، تو mqm کی تاریخ پر ویکیپیڈیا پر ایک مضمون کی ضرورت ہے۔ یہ خیال رہے کہ ویکیپیڈیا پر مضمون غیر جذباتی انداز میں لکھنا ضروری ہے اور چونکہ واقعات متنازعہ ہو سکتے ہین، اسلیے ہر بات کا حوالہ (اخبار، تاریخ اشاعت کے ساتھ، وغیرہ) دینا انتہائی ضروری ہو گا۔


MQM
 

دوست

محفلین
میرا ایک مضمون کافی عرصہ پہلے کا لکھا ہوا شاید کسی کام آجائے۔ لیکن یہ مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتا۔ یعنی حوالہ جات وغیرہ اور شاید غیر جانبداری بھی۔ چونکہ دو تین کتابوں سے اخذ کیا گیا تھا اس لیے شاید غیر مکمل بھی۔
 

جیسبادی

محفلین
دوست، اس مضمون کا جو حصہ واقعاتی ہے وہ وکیپیڈیا پر ڈالا جا سکتا ہے۔ باقی کو افسانوی باتیں ہیں، جیسے سائیکل چلانا وغیرہ اگر وہ کسی کتاب میں بھی لکھی ہیں تو قابل اعتبار نہیں۔
 

نعمان

محفلین
مجھے اس تھریڈ کے عنوان پر شدید افسوس اور دکھ ہوا ہے۔

لیکن یہ محض ایک سوچ کا عکاس ہے۔ کہ مہاجروں کو ایم کیو ایم کے افعال سے جانچا جائے گا۔ اگر یہ بات ہے، تو کیا یہ وہی ایم کیو ایم نہیں جس پر بھتہ خوری، قتل، غنڈہ گردی، ڈکیتیوں، وغیرہ کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں؟ اگر ایم کیو ایم کے لکھوائے گئے نعرے مہاجروں سے منسوب ہیں۔ تو پھر بدتہذیب ہی کیوں، ہمیں غنڈہ بھی کہئے، قاتل بھی پکاریں، بھتہ خور اور بدمعاش بھی لکھیں۔

انتہائی افسوس کی بات ہے، کہ اگرچہ جس کسی نے بھی یہ نعرے لکھے وہ بھی پاکستانی ہیں۔ تو ہم پنجابی یا مہاجر اخلاقی گراوٹ کی کیوں بات کررہے ہیں۔ ہم پاکستانی اخلاقیات کی کیوں بات نہیں کررہے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
خاور بلال صاحب،

آپکی تحریر پڑھی۔ سب سے پہلے تو شکریہ کہ کم از کم آپ نے کھل مہاجر قوم کے متعلق اپنے نظریات بیان کیے اور کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں رکھی۔

آپ نے تحریر فرمایا ہے:

بہت سے ساتھیوں کو اعتراض ہے کہ لفظ مہاجر استعمال نہ کیا جائے۔ بات مناسب ہے لیکن ایسا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کی مہاجر آبادی کی اکثریت ایم کیو ایم کی پشت پر رہی ہے، سانپ کو دودھ پلاکر اسکی پرورش کے بعد اس سانپ سے اظہار لاتعلقی اتنا آسان نہیں۔ اگر “چماروں کی نفسیات“ ترک کرکے ایم کیو ایم پر ایک نظر ڈالی جائے تو صرف خون نظر آئے گا۔

تو خاور برادر،

مجھے آپ لوگوں سے یہی تو شکوہ رہا ہے کہ اپنی اس دشمنی میں آپ لوگ اتنا حد سے گذر گئے ہیں کہ آپ کی آنکھوں بہت سے حقائق دیکھنے سے پٹی بندھ گئی ہے۔

ایم کیو ایم لسانی بنیادوں پر قائم ہوئی اور اس وجہ سے مجھے اس کی بنیاد سے اختلاف ہے۔ مگر اختلاف اپنی جگہ، مگر انصاف اپنی جگہ۔

میرے مطابق، ایم کیو ایم ایک رد عمل کے طور پر قائم ہوئی ہے، اور جبتک ان محرکات کے فتنوں کو آپ دبائے رکھیں گے اور توپوں کا رخ صرف مہاجروں کی جانب رکھیں گے، اس وقت تک یہ انصاف ہو گا اور نہ اس مسئلے کا حل۔

تو اگر اس "چماروں کی نفسیات" کو ترک کر دیا جائے تو آپ بتائیں کے ذیل کے حقائق سے آپ اندھا بننے پر کیوں مجبور ہوئے۔

(اقتباسات از دوست (شاکر):

لنک: http://dost.ueuo.com/?p=22


1۔ پہلے الیکشن میں‌تنظیم کو خاص کامیابی نہ ملی ۔ دوسرے الیکشن میں نو سو ووٹ، تین کونسلر اور ایک فیکلٹی کا نمائندہ کامیاب ہوا۔ اس دوران داخلہ مہم میں‌طلبہ نے تنظیم پر اپنے اعتماد کا بے پناہ اظہار کیا۔ اسی دوران مہاجرسٹوڈنٹ فیڈریشن کا شوشہ بھی چھوڑا گیا جو کامیاب نہ ہوا۔ داخلہ مہم میں ‌جمعیت نے کھلی چھیڑ چھاڑ کی حتٰی کہ الطاف حسین پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کی ایف آئی آر بھی درج نہ کروائی جاسکی۔


تو مہاجر یہی تو پوچھ رہے ہیں کہ بقیہ پاکستان نے اس وقت جمعیت کو سانپ اور جماعت اسلامی پر اس سانپ کو دودھ پلانے کا الزام کیوں نہ لگایا۔


31 اکتوبر 1986 کو جماعت کے لوگوں‌ کے حیدر آباد جلسے میں‌جاتے ہوئے سہراب گوٹھ کے قریب فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ بقول الطاف حسین یہ ڈرگ مافیا کی ایجنسیوں‌کے اشارے پر کاروائی تھی تاکہ مہاجروں اور پختونوں‌کو لڑایا جاسکے۔

کیا وجہ ہے کہ آپ جیسے حضرات کو آج بھی ایم کیو ایم کے ارکان تو مسلح نظر آ جاتے ہیں، مگر جب سہراب گوٹھ کی بات ہوتی ہے تو آپ کی حلقوں سے آواز نکلنا بند ہو جاتی ہے؟؟؟ اور آنکھوں ایسی نابینا ہو جاتی ہیں کہ اسلحہ نظر آتا ہے، نہ انکی بدمعاشی اور نہ ڈرگز کا کاروبار۔

جو جب تک آپ جیسے حضرات ان مسائل پر گونگے و بہرے و نابینا بنے رہے گے، (میرے مطابق) مہاجر آپ کے "چماروں کی نفسیات" کے الزام میں آپ پر ہی اس "چماروں کی نفسیات" کا الزام لگاتے رہیں گے اور کوئی مسئلہ حل نہ ہو گا۔


یاد رہے اس علاقے میں‌ پختونوں‌کی اکثریت آباد ہے۔(بعد میں اسی طرح کے اور کئی واقعات ہوئے جن میں‌پنجابیوں‌،سندھیوں‌ اور دوسری قوموں‌کو ایم کیوایم کے خلاف کرنے کی کوشش کی گئی۔ الطاف حسین ان سب کو ایم کیوایم کے خلاف سازش سے تعبیر کرتاہے۔ حقیقت تو خدا جانتا ہے تاہم ان واقعات اور پریس کی مہربانیوں‌سے ایم کیوایم کے خلاف پنجاب اور سرحد میں‌بالخصوص اور پورے ملک میں‌بالعموم نفرت پھیلی۔) کئی لوگ مارے گئے کئی زخمی ہوئے مگر حیدر آبادکا جلسہ ناکام نہ کرایا جاسکا۔ اس روز واپسی پر گھگھر پھاٹک کے قریب الطاف حسین کو گرفتار کر لیا گیا جب وہ مقتولین سہراب گوٹھ کے جنازے میں شرکت کرنے کراچی جارہا تھا۔


نو کمینٹ۔ مگر یاد رہے کہ اس وقت الطاف اور مہاجروں کے پاس کوئی اسلحہ ہے اور نہ کوئی بدمعاشی۔


14 اور 15 دسمبر1986 کا دن شایداہل کراچی کبھی نہ بھلا سکیں‌جب علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں‌بدترین قتل عام کیا گیا۔مخالف رائے دستیاب نہیں مگر الطاف حسین کے بقول مساجد کے سپیکروں‌سے دہشت گردوں کو گائیڈ کیا جاتا رہا۔ بچے بوڑھے اور جوان کی تخصیص کے بغیر قتل عام کیا گیا۔یہ سب ڈرگ مافیا کے ذریعے کیا گیا۔ حتٰی کہ ایک جگہ ایک خاتون کے جنازے پر بھی حملہ ہوا۔

تو آپ جیسے حضرات اب دیتے رہیں مہاجروں کو چماروں کی نفسیات اور خونی ہونے کا الزام، مگر یہ چیز صرف نفرت میں اضافہ کرے گی اور پلٹ کر یہی الزام آپ پر لگے گا۔



خیر یہ بات لمبی ہو رہی ہے اس لیے میں شاکر کی تحریر سے اقتباسات بند کرتی ہوں اور آپ سب کو دعوت ہے کہ ایک مرتبہ ان کا مضمون اس لنک پر ضرور پڑھیں۔

http://dost.ueuo.com/?p=22


امید و محبت کو میرا جواب

اوپر امید اور محبت نے ایک اعتراض کیا تھا کہ ایم کیو ایم اپنے کارکنوں کو امتحانات میں نقل کرواتی ہے۔

میں چاہتی ہوں کہ اس کی تھوڑی مزید تفصیل پیش کروں تاکہ ہمیں اس مسئلے کا صحیح طور پر علم ہو سکے اور اس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ مہاجر امتحانات میں نقل نہیں کرتے تھے۔ مگر اندرون سندھ ہر امتحانی سینٹر میں نقل کروائی گی اور نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی کالجز اور یونیورسٹیز میں مہاجر بچے داخلہ لینے میں ناکام رہے۔ اور یہ سلسلہ عرصے تک چلتا رہا۔

ایم کیو ایم نے ردعمل کے طور پر مہاجروں کو کہا کہ اگر ہم نے اس سلسلے کو یونہی چلتے رہنے دیا تو یہ ہماری قوم کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔ چنانچہ پھر کراچی کے امتحانی مرکز میں بھی نقل چلنا شروع ہوئی۔

تو جو شخص دیدہ بینا سے عاری ہو وہ تو اپنی دشمنی میں صرف اور صرف مہاجروں اور ایم کیو ایم کو اسکے لیے برا بھلا کہتا رہے گا، مگر جب تک وہ تعصب کے عینک اتار کر اس مسئلے کے پس منظر میں اندرون سندھ کے مکمل ماحول کو نہیں دیکھے گا، کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔


اور خاور بلال صاحب، آپ نے لکھا ہے:

‌جنہوں نے ایم کیو ایم کو دل سے قبول نہیں کیا وہ آپ کے نزدیک جنونی پاکستانی ہیں۔ واہ داد دینے کیلئے الفاظ نہیں مل رہے۔

تو جی ہاں (میرے مطابق) یہ جنونیت کی انتہا ہے کہ آپ یکطرفہ طور پر توپوں کا رخ ایک قوم کی طرف پھیر دیں مگر آپکا تعصب و عناد آپکو اس حد تک گونگا بہرا و نابینا کر دے کہ اس قوم پر ہونے والی زیادتیوں کے متعلق لکھتے ہوئے آپکے قلموں کی سیاھیاں خشک ہو جائیں۔

تو بے شک آپکو داد دینے کے لیے الفاظ ملیں یا نہ ملیں، مگر میرے نزدیک جو انصاف کی بات ہے وہ میں نے عرض کر دی۔

خاور بلال:
آپ کا کیا خیال ہے کہ ایم کیو ایم اپنے میڈیا پر اپنے ہی کارکنان کی دہشت گردی دکھائے گی؟ ایم کیو ایم کا تو ایجنڈا ہی یہی ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ لگنے لگے۔ اور یہ کس نے کہہ دیا کہ آج ٹی وی ایم کیو ایم کا دشمن ہے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان کی قریب کی نظر خراب نہیں اسی لئے انہوں نے جو دیکھا وہ دکھایا۔

جی (میرے مطابق) آج ٹی وی اور آپ جیسے تمام حضرات کی نہ صرف دور، بلکہ قریب کی بھی نظر خراب ہے۔ آج ٹی وی کی کوریج کے متعلق ایم کیو ایم نے ویڈیو جاری کر دی ہے جس میں صاف دکھایا گیا ہے کہ اس روڈ پر پہلا حملہ ایم کیو ایم کی ریلی پر ہوا (اور اس کو آج ٹی وی والے اپنی دشمنی میں بالکل گل کر گئے) اور صرف اس حملے کے بعد ایم کیو ایم کے اراکین اسلحہ لے کر نکلے۔

تو ایم کیو ایم فرشتہ جماعت نہیں ہے اور مجھے انکے مسلح ہونے پر اعتراض ہے، مگر دوسری طرف آج ٹی وی جیسوں پر اس سے زیادہ اعتراض ہے جو اپنی دشمنی میں صرف یکطرفہ رپورٹنگ کرتے رہے اور صرف مہاجروں کے ہاتھ میں اسلحہ دکھاتے رہے جبکہ باقی سہراب گوٹھ کے پٹھانوں اور دیگر تنظیوں کے کارکن اسلحہ کے ساتھ انہیں دور کی نظر سے نظر آئے نہ قریب کی نظر سے نظر آئے۔

تو میرے مطابق یہ رپورٹنگ میں انصاف تھا نہ اسکے نتائج کبھی مثبت نکلیں گے اور اس ناانصاف رپورٹنگ کے بنیاد پر مہاجر اور مجبور ہوں گے کہ وہ ایم کیو ایم کو مزید سپورٹ کرتے رہیں۔


باقی جو ایم کیو ایم کے خلاف آپ نے چارج شیٹ پیش کی ہے تو وہ یکطرفہ ہے اور اور آپ ابھی تک اُسی اندھے پن کا شکار ہیں جو کبھی آپ کو انصاف کا دامن ہاتھ میں نہیں لینے دے گا۔
 
Top