The Venus Project ایک نئے دور کی ابتداء!

طالوت

محفلین
اس نظام کی بنیاد پر غور کرنے کی ضرورت ہے ، کہ آخر کیوں اور کیسے ایک ایسا نظام عدل قائم ہو سکا کہ مسائل نہ ہونے کے برابر رہ گئے ۔۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
مثال دیتا ہوں۔ نتیجہ خود اخذ کر لیں۔
میں مثال دینا چاہ رہا ہوں۔ اس دور کی، جس کی ابتدانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک میں‌ہوئی اور حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے دور حکومت میں‌جو نقطہ عروج حاصل ہوا۔ اس کا کوئی ثانی نہیں۔ کسی قسم کا کوئی موازنہ کر لیں ۔ وہ نظام بہتر نظر آئے گا۔
یہ مثال تو آپنے ایسے دی ہے جیسے اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی چارا نہیں۔ بھائی آپ وہ زمانہ اور حالات آج کیسے لائیں گے؟!
کیااس زمانے میں موجودہ ایجادات یا ٹیکنالوجیز تھیں۔ کیا اس زمانے میں‌موجودہ معاشی نظام تھا۔ نیز کیا اس زمانے میں‌مسلمانوں کے متعدد فرقے یا مختلف ممالک تھے؟ نہیں ،اس وقت مسلمانوں کی ایک ریاست تھی جو 30 سال بعد ہی چکنا چور ہو گئی۔ نیز حضرت عمر ؓاور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں فتوحات ہوتی رہیں اور یوں مال غنیمت ہاتھ آیا، جسکی وجہ سے لوگ غنی ہوگئے۔ جونہی فتوحات کا سلسلہ ختم ہوا، ساتھ ہی بغاوتیں شروع ہو گئیں اور مسلمان فرقہ واریت میں بٹ گئے اور خلافت نام کی رہ گئی۔ نتیجہ: وہ اسلامی نظام بھی بے کار تھا!
 

فخرنوید

محفلین
چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی کچھ لوگوں نے آپ کے خلاف چلنا شروع کر دیا تھا ۔ یہ وہ لوگ تھے ۔
جنہوں نے اسلام کا لبادہ اس لئے اوڑھا کہ صرف مالی مفادات اور معاشرتی مفادات حاصل کر سکیں ۔ انہی کو منافق کہا گیا۔
یہی وہ لوگ تھے ۔ جن کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے لے کر اپنی مھٍل سے نکالا تھا۔ وہ سمجھتے تھے۔ کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہیں ہے۔
جوں جوں دین اسلام کی روشنی پھیلی تو اسی طرح ان شیاطین و منافقین کی تعداد بھی بڑھی۔ جنہوں نے اسلام کے لبادے اوڑھ کر اسلام کی بنیادوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔
انہوں نے اپنے آپ کو نبی کہلوانا شروع کر دیا۔ زکوۃ کے حکم سے انکاری ہو گئے۔اور نئے نئے رنگوں میں لوگوں کو ورغلانا شروع کر دیا۔ جب جب ان لوگوں کو موقع ملا انہوں نے خلافت راشدہ کے سر کردہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی کو شہید کیا اور اسلامی نظام حکومت کو نقصان پہنچایا۔ ابھی بھی ایسے کئی قوانین اور اصول اب تک ہمارے معاشرے میں قائم ہیں۔ آخر کار انہوں نے اپنا حلقہ احباب اس قدر بڑھا لیا تھا ۔ کہ ان کا ایک گروپ نعوذباللہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی کی شان میں گستاخیاں کرنے لگے اور ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے لگے اس طرح اسلامی نظام حکومت ختم ہونا شروع ہوئی اور یہ منافق لوگ اس پر قابض ہوگئے۔ چونکہ عروج کبھی بھی ہمیشہ نہیں رہتا۔ اللہ اپنے لوگوں کا امتحان لینے کو اور دوسروں کے لئے کو مشعل راہ بنانے کے لئے اپنے لوگوں کو کڑی مشکلات میں ڈال کر انہیں روشنی کا دیا بنا دیتا ہے ۔ جس کی روشنی میں ہم اپنے عقائد اور اصولوں پر قائم رہ سکیں۔
ان کے اس نظام حکومت پر قبضہ کے بعد انہوں نے کئی من مانی شریعتیں بنا لیں ۔ اور اہل بیت ا ور ان کے ساتھیوں کے ساتھ سلوک ناروا رکھا۔ انہوں نے ہی اسلامی نظام حکومت اور اسلام کے سنہری اصولوں کو نا پید کر دیا۔ جس کی وجہ سے نئی آنے والی نسل اسلام میں وہ دین باقی نہ رہا جو ان کے ابا نے آگے پیش کرنا تھا۔
اور آخر کار مسلمانوں پر زوال آنا شروع ہو گیا۔

اس کے بعد انہی منافقین نے اپنے آپ کو کبھی خدا کہلوایا ، کبھی خلیفہ اور بعد میں کہنے لگے ہم تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے و سیلے سے نبی بنے ہیں ۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں (انا خاتم النبین ) لا نبی بعدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔
مگر ان منافقین و شیاطین نے من گھڑت عقائد اور حوالوں اور دلیلوں سے خود کو نبی کہلوانا شروع کیا ۔ اور یوں مسلمانوں میں فرقہ پرستی ہونا شروع ہو گئی۔

انہی کی وجہ سے امت مسلمہ انتشار کا شکار ہوئی اور انہی خبیث لوگوں کی وجہ سے مسلمان اپنا اثاثہ اتحاو و یگانگت کو کھو بیٹھے۔

یہی اسلامی نظام کے ختم ہونے کی وجہ بنی۔


وسلام
 

arifkarim

معطل
چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی کچھ لوگوں نے آپ کے خلاف چلنا شروع کر دیا تھا ۔ یہ وہ لوگ تھے ۔
جنہوں نے اسلام کا لبادہ اس لئے اوڑھا کہ صرف مالی مفادات اور معاشرتی مفادات حاصل کر سکیں ۔ انہی کو منافق کہا گیا۔
یہی وہ لوگ تھے ۔ جن کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے لے کر اپنی مھٍل سے نکالا تھا۔ وہ سمجھتے تھے۔ کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہیں ہے۔
جوں جوں دین اسلام کی روشنی پھیلی تو اسی طرح ان شیاطین و منافقین کی تعداد بھی بڑھی۔ جنہوں نے اسلام کے لبادے اوڑھ کر اسلام کی بنیادوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔
انہوں نے اپنے آپ کو نبی کہلوانا شروع کر دیا۔ زکوۃ کے حکم سے انکاری ہو گئے۔اور نئے نئے رنگوں میں لوگوں کو ورغلانا شروع کر دیا۔ جب جب ان لوگوں کو موقع ملا انہوں نے خلافت راشدہ کے سر کردہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی کو شہید کیا اور اسلامی نظام حکومت کو نقصان پہنچایا۔ ابھی بھی ایسے کئی قوانین اور اصول اب تک ہمارے معاشرے میں قائم ہیں۔ آخر کار انہوں نے اپنا حلقہ احباب اس قدر بڑھا لیا تھا ۔ کہ ان کا ایک گروپ نعوذباللہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی کی شان میں گستاخیاں کرنے لگے اور ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے لگے اس طرح اسلامی نظام حکومت ختم ہونا شروع ہوئی اور یہ منافق لوگ اس پر قابض ہوگئے۔ چونکہ عروج کبھی بھی ہمیشہ نہیں رہتا۔ اللہ اپنے لوگوں کا امتحان لینے کو اور دوسروں کے لئے کو مشعل راہ بنانے کے لئے اپنے لوگوں کو کڑی مشکلات میں ڈال کر انہیں روشنی کا دیا بنا دیتا ہے ۔ جس کی روشنی میں ہم اپنے عقائد اور اصولوں پر قائم رہ سکیں۔
ان کے اس نظام حکومت پر قبضہ کے بعد انہوں نے کئی من مانی شریعتیں بنا لیں ۔ اور اہل بیت ا ور ان کے ساتھیوں کے ساتھ سلوک ناروا رکھا۔ انہوں نے ہی اسلامی نظام حکومت اور اسلام کے سنہری اصولوں کو نا پید کر دیا۔ جس کی وجہ سے نئی آنے والی نسل اسلام میں وہ دین باقی نہ رہا جو ان کے ابا نے آگے پیش کرنا تھا۔
اور آخر کار مسلمانوں پر زوال آنا شروع ہو گیا۔

اس کے بعد انہی منافقین نے اپنے آپ کو کبھی خدا کہلوایا ، کبھی خلیفہ اور بعد میں کہنے لگے ہم تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے و سیلے سے نبی بنے ہیں ۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں (انا خاتم النبین ) لا نبی بعدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔
مگر ان منافقین و شیاطین نے من گھڑت عقائد اور حوالوں اور دلیلوں سے خود کو نبی کہلوانا شروع کیا ۔ اور یوں مسلمانوں میں فرقہ پرستی ہونا شروع ہو گئی۔

انہی کی وجہ سے امت مسلمہ انتشار کا شکار ہوئی اور انہی خبیث لوگوں کی وجہ سے مسلمان اپنا اثاثہ اتحاو و یگانگت کو کھو بیٹھے۔

یہی اسلامی نظام کے ختم ہونے کی وجہ بنی۔


وسلام

یہ کہانی تو تاریخی ہے۔ اسکا تعلق تقدیر سے ہے نہ کہ انسانی اعمال سے۔ آج بھی مسلمان اسی پرانے معاشرے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ خلافت راشدہ کا تیس سالہ دور تو پیشگوئی کے مطابق تھا، اسلئے اسکے اختتامی حالات کا پیدا ہونا رضائے الہیٰ تھا۔ آپ کی اس کہانی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موجودہ مسلمانوں کو ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر "مزید" پیش گوئیوں کے از خود پورا ہونے کا انتطار کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہماری پوری زندگی تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی لکھ دی سو کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بس دنیا میں آؤ ، کھاؤ اور دفع ہو جاؤ۔
اگر معاشرہ خراب ہے یا مسلمان فرقوں میں بٹے ہیں تو خاص فرقوں کو کافر کذاب اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر دائرہ اسلام سے خارج کر دو اور انکو بموں سے اڑا کر جنت کا وارث بنو۔ پچھلے 1400 سالوں میں یا تو ہمنے اجتماعی جنگیں لڑی ہیں یا اجتماعی پستی کاٹی ہے۔ یہی تقدیر میں لکھا تھا، اسلئے ہمیں فی الحال کچھ عملی طور پر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا رول ماڈل مغرب ہے اور اسی پر چلنا ہمارا دین ایمان ہے!:mad:
 

arifkarim

معطل
کہنے کو بہت کچھ مگر بحث کا رخ کہیں اور مڑتا دکھائی دیتا ہے ۔۔
وسلام

جی میں یہاں پرانی اسلامی بحثوں میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ ہم کبھی بھی ایک بات پر متفق نہیں‌ہو سکتے۔ اسلئے بہتر یہی ہے کہ موجودہ مسائل کا حل نئے طور پر تلاش کیا جائے۔ یاد رکھیں‌یہ 21 ویں صدی ہے۔ 600 عیسوی نہیں!
 

فخرنوید

محفلین
انسانی تقدیر کیا ہے؟

انسانی تقدیر کو اس طرح سمجھ لو۔ کہ اللہ تعالی نے ہمیں ایک پاوں پر کھڑا کیا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اوپر اٹھایا ہوا پاوں آگے رکھیں یعنی بہتری کی طرف یا پیچھے رکھیں برائی کی طرف یا زوال کی طرف۔

انسانی اعمال:
اللہ تعالی نے اعمال کا اختیار انسان کے ہاتھ مین دیا ہے جیسا کرو گے ویسا بھروگے۔

کافر اور کذاب:
کافر وہ ہے جو حق کو چھپائے
کذاب وہ ہے جھوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی جوٹ بولے۔

امت مسلمہ میں ہر کذاب کا قتل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرض ہے ۔ کیونکہ وہ اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اور ہر وہ شخص جو فتنہ پروری کو ہوا دے۔ اور دین میں شر کو داخل کرے وہ واجب القتل ہے۔ تا کہ آئندہ کوئی ایسی گھناونی حرکت نہ کرے۔

مغرب اگر اچھی چیزیں اسلام کی قبول کر سکتا ہے۔ تو ہم اگر وہی اسلامی اچھی چیزیں اپنا لیں تو اس میں مگرب پسندی نہین کہہ سکتے۔

اور جو مغرب کی بے راہ روی والی تہذیب پسند کرتے ہیں اور اسے دین کا حصہ بناتے ہیں وہ اسلام کے مظابق نہیں چل رہے ہیں۔

وہ لوگ جو مغرب میں بیٹھ کر خود کو مسلمان بھی کہلواتے ہیں اور نبی ہونے کے دعوے بھی کرتے ہیں۔ ان کی تہذیب اور رہن سہن دیکھو تو آپ لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں

وسلام

اللہ سب وک ہدایت دے آمین
 

arifkarim

معطل
انسانی تقدیر کیا ہے؟

انسانی تقدیر کو اس طرح سمجھ لو۔ کہ اللہ تعالی نے ہمیں ایک پاوں پر کھڑا کیا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اوپر اٹھایا ہوا پاوں آگے رکھیں یعنی بہتری کی طرف یا پیچھے رکھیں برائی کی طرف یا زوال کی طرف۔

انسانی اعمال:
اللہ تعالی نے اعمال کا اختیار انسان کے ہاتھ مین دیا ہے جیسا کرو گے ویسا بھروگے۔

کافر اور کذاب:
کافر وہ ہے جو حق کو چھپائے
کذاب وہ ہے جھوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی جوٹ بولے۔

امت مسلمہ میں ہر کذاب کا قتل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرض ہے ۔ کیونکہ وہ اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اور ہر وہ شخص جو فتنہ پروری کو ہوا دے۔ اور دین میں شر کو داخل کرے وہ واجب القتل ہے۔ تا کہ آئندہ کوئی ایسی گھناونی حرکت نہ کرے۔

مغرب اگر اچھی چیزیں اسلام کی قبول کر سکتا ہے۔ تو ہم اگر وہی اسلامی اچھی چیزیں اپنا لیں تو اس میں مگرب پسندی نہین کہہ سکتے۔

اور جو مغرب کی بے راہ روی والی تہذیب پسند کرتے ہیں اور اسے دین کا حصہ بناتے ہیں وہ اسلام کے مظابق نہیں چل رہے ہیں۔

وہ لوگ جو مغرب میں بیٹھ کر خود کو مسلمان بھی کہلواتے ہیں اور نبی ہونے کے دعوے بھی کرتے ہیں۔ ان کی تہذیب اور رہن سہن دیکھو تو آپ لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں

وسلام

اللہ سب وک ہدایت دے آمین

میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ اس دھاگے کو سائنسی گفتگو ہی رہنے دیں۔ براہ کرم اسے مذہبی، تفرقانانہ بحث نہ بنائیں۔
 

arifkarim

معطل

فخرنوید

محفلین
اس میں کہیں پر بھی کوئی مذہبی بات لکھی نظر نہیں آئی ہے۔

جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے وہ خود ہی غائب ہوجاتا ہے۔
 

محمدصابر

محفلین
یہ مثال تو آپنے ایسے دی ہے جیسے اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی چارا نہیں۔ بھائی آپ وہ زمانہ اور حالات آج کیسے لائیں گے؟!
کیااس زمانے میں موجودہ ایجادات یا ٹیکنالوجیز تھیں۔ کیا اس زمانے میں‌موجودہ معاشی نظام تھا۔ نیز کیا اس زمانے میں‌مسلمانوں کے متعدد فرقے یا مختلف ممالک تھے؟ نہیں ،اس وقت مسلمانوں کی ایک ریاست تھی جو 30 سال بعد ہی چکنا چور ہو گئی۔ جونہی فتوحات کا سلسلہ ختم ہوا، ساتھ ہی بغاوتیں شروع ہو گئیں اور مسلمان فرقہ واریت میں بٹ گئے اور خلافت نام کی رہ گئی۔ نتیجہ: وہ اسلامی نظام بھی بے کار تھا!

کیاآپ کے خیال میں ترقی اور خوشحال کی وجہ ٹیکنالوجی ہے ،معاشی نظام یا کسی ملک کا چھوٹا یا بڑا ہونا ہے۔

نیز حضرت عمر ؓاور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں فتوحات ہوتی رہیں اور یوں مال غنیمت ہاتھ آیا، جسکی وجہ سے لوگ غنی ہوگئے۔
یہ بات بھی غلط ہے۔

نتیجہ: وہ اسلامی نظام بھی بے کار تھا!
اور اُس نظام کو بے کار مت کہیں۔ کیونکہ یہی کام میں آپ والے نظام کے بارے میں بہت شروع میں کر سکتا تھا۔
 

arifkarim

معطل
کیاآپ کے خیال میں ترقی اور خوشحال کی وجہ ٹیکنالوجی ہے ،معاشی نظام یا کسی ملک کا چھوٹا یا بڑا ہونا ہے۔
اور اُس نظام کو بے کار مت کہیں۔ کیونکہ یہی کام میں آپ والے نظام کے بارے میں بہت شروع میں کر سکتا تھا۔

جی ہاں! میری ناقص رائے میں‌انسانی فلاح و ترقی :ٹیکنالوجی اور قدرتی وسائل کے بالکل صحیح و منصفانہ استعمال پر انحصار کرتی ہے!
میں ابتدائی اسلامی معاشرہ کے اسلئے خلاف ہوں کہ گو یہ بظاہر بالکل پرفیکٹ تھا۔ لیکن اسمیں بھی سارا انحصار ایک اچھے لیڈر یا خلیفہ پر تھا۔ جنکو نعوذ باللہ شہید کرنے کے بعد منافقین با آثانی مسلمانوں پر حکومت کر سکتے تھے۔ اور ایسا ہی ہوا! اسلئے میں‌ایک ایسے نظام کی تلاش میں ہوں جہاں طاقت کرپٹ نہ ہو سکے!
 

محمدصابر

محفلین
جی ہاں! میری ناقص رائے میں‌انسانی فلاح و ترقی :ٹیکنالوجی اور قدرتی وسائل کے بالکل صحیح و منصفانہ استعمال پر انحصار کرتی ہے!
میں ابتدائی اسلامی معاشرہ کے اسلئے خلاف ہوں کہ گو یہ بظاہر بالکل پرفیکٹ تھا۔ لیکن اسمیں بھی سارا انحصار ایک اچھے لیڈر یا خلیفہ پر تھا۔ جنکو نعوذ باللہ شہید کرنے کے بعد منافقین با آثانی مسلمانوں پر حکومت کر سکتے تھے۔ اور ایسا ہی ہوا! اسلئے میں‌ایک ایسے نظام کی تلاش میں ہوں جہاں طاقت کرپٹ نہ ہو سکے!

آپ کی خلافت راشدہ کے بارے میں‌تحقیق مکمل نہیں‌ہے یا آپ نے اس نظام کا پڑھنے یا جاننے کی ضرورت محسوس نہیں‌کی۔ اسلامی نظام جب تک اپنی مکمل حالت میں‌نافذ رہا کامیاب رہا۔ناکامی کی ابتداْ اس کے نفاذ میں‌جزوی ناکامی کے بعد شروع ہوئی۔

اورآپ دو مختلف باتیں کر رہے ہیں۔ اچھے لیڈر کی بات کرتے ہیں اور اس کے بالکل الٹ طاقت کے کرپٹ ہونے کی بات بھی کرتے ہیں۔ اپنی بات کی وضاحت کریں۔
 

فخرنوید

محفلین
:grin: ہاں جیسے آپ محفل سے بھاگنے کی تاریخ تک دیکر پھر واپس آگئے!:grin:

اس بات کو یہ جواب نہیں تھا۔

تم نے تو اس میراثی والی بات کی ہے!

جو ایک مکان بنا رہا ہوتا ہے ۔ تو اس کی دیوار ٹیڑھی بناتا جاتا ہے ۔ ایک بندہ قریب سے گزرتا ہے اسے کہتا ہے اوئے میراثیا
تو دیوار ٹیڑھی بنا رہا ہے۔
میراثی اسے جواب دیتا ہے کہ تیری وی تے کُڑی نس گئی سی


:eek:
 

arifkarim

معطل
آپ کی خلافت راشدہ کے بارے میں‌تحقیق مکمل نہیں‌ہے یا آپ نے اس نظام کا پڑھنے یا جاننے کی ضرورت محسوس نہیں‌کی۔ اسلامی نظام جب تک اپنی مکمل حالت میں‌نافذ رہا کامیاب رہا۔ناکامی کی ابتداْ اس کے نفاذ میں‌جزوی ناکامی کے بعد شروع ہوئی۔

چلیں آپکی بات مان لیتے ہیں کہ ابتدائی اسلامی نظام ہی ہر لحاظ سے مکمل اور جامع تھا۔ اب بتائیں 21 صدی میں اسکا دوبارہ نفاز کیسے ہوگا؟
 

محمدصابر

محفلین
اس کے لئے ہمیں‌ایک نیا دھاگہ شروع کرنا چاہیے۔ اس دھاگے میں‌صرف آپ کا نظام ہی زیر بحث ہونا چاہیے۔ آپ نے ابھی اپنے نظام کی کوئی خوبی/خصوصیت نہیں‌گنوائی۔
 

arifkarim

معطل
اس کے لئے ہمیں‌ایک نیا دھاگہ شروع کرنا چاہیے۔ اس دھاگے میں‌صرف آپ کا نظام ہی زیر بحث ہونا چاہیے۔ آپ نے ابھی اپنے نظام کی کوئی خوبی/خصوصیت نہیں‌گنوائی۔

اس نظام کی خوبیاں میں اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ میں گنوا چکا ہوں۔ نیز میں یہ نظام کسی پر ٹھونس نہیں رہا بلکہ صرف‌یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر ہم چاہیں تو ایسا "سود" سے آزاد معاشی نظام بنا سکتے ہیں۔ باقی اگر آپ ابتدائی اسلامی نظام کے قصیدے پڑھنا چاہتے ہیں تو آپکیلئے یہ دھاگہ بنا دیا ہے:
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?p=419387
 
Top