یہ مثال تو آپنے ایسے دی ہے جیسے اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی چارا نہیں۔ بھائی آپ وہ زمانہ اور حالات آج کیسے لائیں گے؟!مثال دیتا ہوں۔ نتیجہ خود اخذ کر لیں۔
میں مثال دینا چاہ رہا ہوں۔ اس دور کی، جس کی ابتدانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک میںہوئی اور حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے دور حکومت میںجو نقطہ عروج حاصل ہوا۔ اس کا کوئی ثانی نہیں۔ کسی قسم کا کوئی موازنہ کر لیں ۔ وہ نظام بہتر نظر آئے گا۔
چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی کچھ لوگوں نے آپ کے خلاف چلنا شروع کر دیا تھا ۔ یہ وہ لوگ تھے ۔
جنہوں نے اسلام کا لبادہ اس لئے اوڑھا کہ صرف مالی مفادات اور معاشرتی مفادات حاصل کر سکیں ۔ انہی کو منافق کہا گیا۔
یہی وہ لوگ تھے ۔ جن کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے لے کر اپنی مھٍل سے نکالا تھا۔ وہ سمجھتے تھے۔ کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہیں ہے۔
جوں جوں دین اسلام کی روشنی پھیلی تو اسی طرح ان شیاطین و منافقین کی تعداد بھی بڑھی۔ جنہوں نے اسلام کے لبادے اوڑھ کر اسلام کی بنیادوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔
انہوں نے اپنے آپ کو نبی کہلوانا شروع کر دیا۔ زکوۃ کے حکم سے انکاری ہو گئے۔اور نئے نئے رنگوں میں لوگوں کو ورغلانا شروع کر دیا۔ جب جب ان لوگوں کو موقع ملا انہوں نے خلافت راشدہ کے سر کردہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی کو شہید کیا اور اسلامی نظام حکومت کو نقصان پہنچایا۔ ابھی بھی ایسے کئی قوانین اور اصول اب تک ہمارے معاشرے میں قائم ہیں۔ آخر کار انہوں نے اپنا حلقہ احباب اس قدر بڑھا لیا تھا ۔ کہ ان کا ایک گروپ نعوذباللہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی کی شان میں گستاخیاں کرنے لگے اور ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے لگے اس طرح اسلامی نظام حکومت ختم ہونا شروع ہوئی اور یہ منافق لوگ اس پر قابض ہوگئے۔ چونکہ عروج کبھی بھی ہمیشہ نہیں رہتا۔ اللہ اپنے لوگوں کا امتحان لینے کو اور دوسروں کے لئے کو مشعل راہ بنانے کے لئے اپنے لوگوں کو کڑی مشکلات میں ڈال کر انہیں روشنی کا دیا بنا دیتا ہے ۔ جس کی روشنی میں ہم اپنے عقائد اور اصولوں پر قائم رہ سکیں۔
ان کے اس نظام حکومت پر قبضہ کے بعد انہوں نے کئی من مانی شریعتیں بنا لیں ۔ اور اہل بیت ا ور ان کے ساتھیوں کے ساتھ سلوک ناروا رکھا۔ انہوں نے ہی اسلامی نظام حکومت اور اسلام کے سنہری اصولوں کو نا پید کر دیا۔ جس کی وجہ سے نئی آنے والی نسل اسلام میں وہ دین باقی نہ رہا جو ان کے ابا نے آگے پیش کرنا تھا۔
اور آخر کار مسلمانوں پر زوال آنا شروع ہو گیا۔
اس کے بعد انہی منافقین نے اپنے آپ کو کبھی خدا کہلوایا ، کبھی خلیفہ اور بعد میں کہنے لگے ہم تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے و سیلے سے نبی بنے ہیں ۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں (انا خاتم النبین ) لا نبی بعدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔
مگر ان منافقین و شیاطین نے من گھڑت عقائد اور حوالوں اور دلیلوں سے خود کو نبی کہلوانا شروع کیا ۔ اور یوں مسلمانوں میں فرقہ پرستی ہونا شروع ہو گئی۔
انہی کی وجہ سے امت مسلمہ انتشار کا شکار ہوئی اور انہی خبیث لوگوں کی وجہ سے مسلمان اپنا اثاثہ اتحاو و یگانگت کو کھو بیٹھے۔
یہی اسلامی نظام کے ختم ہونے کی وجہ بنی۔
وسلام
کہنے کو بہت کچھ مگر بحث کا رخ کہیں اور مڑتا دکھائی دیتا ہے ۔۔
وسلام
انسانی تقدیر کیا ہے؟
انسانی تقدیر کو اس طرح سمجھ لو۔ کہ اللہ تعالی نے ہمیں ایک پاوں پر کھڑا کیا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اوپر اٹھایا ہوا پاوں آگے رکھیں یعنی بہتری کی طرف یا پیچھے رکھیں برائی کی طرف یا زوال کی طرف۔
انسانی اعمال:
اللہ تعالی نے اعمال کا اختیار انسان کے ہاتھ مین دیا ہے جیسا کرو گے ویسا بھروگے۔
کافر اور کذاب:
کافر وہ ہے جو حق کو چھپائے
کذاب وہ ہے جھوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی جوٹ بولے۔
امت مسلمہ میں ہر کذاب کا قتل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرض ہے ۔ کیونکہ وہ اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اور ہر وہ شخص جو فتنہ پروری کو ہوا دے۔ اور دین میں شر کو داخل کرے وہ واجب القتل ہے۔ تا کہ آئندہ کوئی ایسی گھناونی حرکت نہ کرے۔
مغرب اگر اچھی چیزیں اسلام کی قبول کر سکتا ہے۔ تو ہم اگر وہی اسلامی اچھی چیزیں اپنا لیں تو اس میں مگرب پسندی نہین کہہ سکتے۔
اور جو مغرب کی بے راہ روی والی تہذیب پسند کرتے ہیں اور اسے دین کا حصہ بناتے ہیں وہ اسلام کے مظابق نہیں چل رہے ہیں۔
وہ لوگ جو مغرب میں بیٹھ کر خود کو مسلمان بھی کہلواتے ہیں اور نبی ہونے کے دعوے بھی کرتے ہیں۔ ان کی تہذیب اور رہن سہن دیکھو تو آپ لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں
وسلام
اللہ سب وک ہدایت دے آمین
آپ نے ہی اس میں مذہبی بحث شروع کی اب چیخ رہے ہو۔
وسلام
اس میں کہیں پر بھی کوئی مذہبی بات لکھی نظر نہیں آئی ہے۔
جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے وہ خود ہی غائب ہوجاتا ہے۔
یہ مثال تو آپنے ایسے دی ہے جیسے اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی چارا نہیں۔ بھائی آپ وہ زمانہ اور حالات آج کیسے لائیں گے؟!
کیااس زمانے میں موجودہ ایجادات یا ٹیکنالوجیز تھیں۔ کیا اس زمانے میںموجودہ معاشی نظام تھا۔ نیز کیا اس زمانے میںمسلمانوں کے متعدد فرقے یا مختلف ممالک تھے؟ نہیں ،اس وقت مسلمانوں کی ایک ریاست تھی جو 30 سال بعد ہی چکنا چور ہو گئی۔ جونہی فتوحات کا سلسلہ ختم ہوا، ساتھ ہی بغاوتیں شروع ہو گئیں اور مسلمان فرقہ واریت میں بٹ گئے اور خلافت نام کی رہ گئی۔ نتیجہ: وہ اسلامی نظام بھی بے کار تھا!
یہ بات بھی غلط ہے۔نیز حضرت عمر ؓاور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں فتوحات ہوتی رہیں اور یوں مال غنیمت ہاتھ آیا، جسکی وجہ سے لوگ غنی ہوگئے۔
اور اُس نظام کو بے کار مت کہیں۔ کیونکہ یہی کام میں آپ والے نظام کے بارے میں بہت شروع میں کر سکتا تھا۔نتیجہ: وہ اسلامی نظام بھی بے کار تھا!
کیاآپ کے خیال میں ترقی اور خوشحال کی وجہ ٹیکنالوجی ہے ،معاشی نظام یا کسی ملک کا چھوٹا یا بڑا ہونا ہے۔
اور اُس نظام کو بے کار مت کہیں۔ کیونکہ یہی کام میں آپ والے نظام کے بارے میں بہت شروع میں کر سکتا تھا۔
جی ہاں! میری ناقص رائے میںانسانی فلاح و ترقی :ٹیکنالوجی اور قدرتی وسائل کے بالکل صحیح و منصفانہ استعمال پر انحصار کرتی ہے!
میں ابتدائی اسلامی معاشرہ کے اسلئے خلاف ہوں کہ گو یہ بظاہر بالکل پرفیکٹ تھا۔ لیکن اسمیں بھی سارا انحصار ایک اچھے لیڈر یا خلیفہ پر تھا۔ جنکو نعوذ باللہ شہید کرنے کے بعد منافقین با آثانی مسلمانوں پر حکومت کر سکتے تھے۔ اور ایسا ہی ہوا! اسلئے میںایک ایسے نظام کی تلاش میں ہوں جہاں طاقت کرپٹ نہ ہو سکے!
ہاں جیسے آپ محفل سے بھاگنے کی تاریخ تک دیکر پھر واپس آگئے!
آپ کی خلافت راشدہ کے بارے میںتحقیق مکمل نہیںہے یا آپ نے اس نظام کا پڑھنے یا جاننے کی ضرورت محسوس نہیںکی۔ اسلامی نظام جب تک اپنی مکمل حالت میںنافذ رہا کامیاب رہا۔ناکامی کی ابتداْ اس کے نفاذ میںجزوی ناکامی کے بعد شروع ہوئی۔
اس کے لئے ہمیںایک نیا دھاگہ شروع کرنا چاہیے۔ اس دھاگے میںصرف آپ کا نظام ہی زیر بحث ہونا چاہیے۔ آپ نے ابھی اپنے نظام کی کوئی خوبی/خصوصیت نہیںگنوائی۔