محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
بقلم خود۔محمد خلیل الرحمٰن
تعارف لکھنے کی فرمائش ہوئی تو جی چاہا کہ فوراً کہہ دیں‘‘ کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے’’ لیکن پھر قبل اسکے کہ کوئی اور ہم پر ہنستا، ہمیں خود اپنے آپ پر ہنسی آگئی۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں، بہت بڑے لکھاری ہیں، لیکن ان سے ایک غلطی سرزد ہوہی گئی۔ تزکِ یوسفی میں اپنے بجائے ہمارا تعارف لکھ مارا۔ لکھتے ہیں‘‘ یہ سرگزشت ایک عام آدمی کی کہانی ہے، جس پر بحمد اللہ کسی بڑے آدمی کی پرچھائیں تک نہیں پڑی۔ ۔ ایک ایسے آدمی کے شب و روز کا احوال جو ہیرو تو کجا اینٹی۔ ہیرو ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتا۔ عام آدمی تو بیچارہ اتنی سکت اور استطاعت نہیں رکھتا کہ اپنی زندگی کو مردم آزاری کے تین مسلمہ ادوار میں تقسیم کرسکے ۔ یعنی جوانی میں فضیحت، ڈھلتی عمر میں نصیحت اور بڑھاپے میں وصیت۔ یہ طغیانِ شباب ، لاف ہائے شادکامی، معاصرانہ چشمکوں اور سیاست کی شورا شوری کی داستان نہیں۔نہ کسی کی مہم جوئی اور کشور کشائی کا ‘‘ساگا’’ ہے۔ ’’حلیہ بیان کرتے وقت بھی یہی غلطی دہرائی، سوائے ناک کے، کہ یوسفی صاحب، صاحبِ ناک ہیں اور اِدھر ہمارے مدعا کی طرح ناک بھی عنقا ہے۔ لکھتے ہیں۔‘‘ نہاں خانہ دل کی ہیرو گیلری پر نگاہ کی تو کسی کی رمق تک اپنی ذات میں نظر نہ آئی۰۰۰ ہنری ہشتم، سیموئل جانسن، گوتم بدھ، فالسٹاف، بابر، غالب، پک وک، بچے، امیر خسرو۔۔ ہاں ذہن پر ذرا زور ڈالا تو بعض مشاہیر کے جن چیدہ چیدہ اوصاف اور شباہتوں کا اپنی ذات میں جمگھٹا نظر آیا ، کاش وہ نہ ہوتیں تو زندگی سنور جاتی۔مثلاً نپولین کا قد، جولیس سیزر کا چٹیل سر، جینا لولو برجیدا کا وزن، سیموئل جانسن کی بینائی، ناک بالکل قلوپطرہ کی مانند کہ اگر ۱یک بٹا بارہ انچ بھی چھوٹی ہوتی تو اس دکھیا کا شمار بد صورتوں میں اور اپنا خوبصورتوں میں ہوتا۔’’ وغیرہ وغیرہ
ہاتھی اور چوہے کی کہانی تو آپ نے سن رکھی ہوگی جنھوں نے ایک دوسرے سے اسکی عمر دریافت کی تھی۔چوہے کا جواب کہ عمر تو میری بھی اتنی ہی ہے پر میں بچپن میں ذرا بیمار رہتا تھا، دراصل ہمارا بھی جواب ہے۔ بچپن میں ایک مرتبہ ٹائیفائڈ نے آگھیرا تو جان کے لالے پڑ گئے۔ ماں پیاری نے ، روتے ہوئے بچے کو گود میں اٹھا کر کئی کئی راتیں جاگ کر گزاریں۔ باپ فقیر منش آدمی تھے ( جن کی سادہ زندگی اور محیر العقل کارناموں پر کتاب لکھ ماری ہے، جو تقریباً مکمل ہے۔ یعنی لکھ چکے ہیں، بس ایک عدد پبلشر کا ملنا باقی ہے) ،ایک خیراتی شفا خانے سے دوا لینے کے لیے گئے اور لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ باری آنے پر کاونٹر کلرک نے دوا دیتے وقت کہا کہ یہ دوا فلاں جماعت کی جانب سے ہے تو اسی وقت دوا زمین پر انڈیل دی اور گھر چلے آئے۔
ہمیں شاعری اور لکھنے لکھانے کا شوق بھی بچپن ہی سے تھا۔ ایک مرتبہ سوتے سے اٹھے اور کچی نیند میں بڑ بڑائے
لنگڑ دین بھائی لنگڑ دین
سالن تھوڑا روٹی تین
بجاو بین۔
اور پھر سوگئے۔ اباجان جو مطالعے کا بیحد شوق رکھتے تھے، جاگ رہے تھے۔ انھوں نے یہ ساری کارروائی دیکھی ۔ بعد میں اکثر سنایا کرتے اور خوب ہنستے۔سالن تھوڑا روٹی تین
بجاو بین۔
جب ذرا اور بڑے ہوئے تو ‘‘ بہتا تکیہ ’’ کے نام سے ایک کہانی لکھی، جس میں ایک بچے کو پانی پر بہتا ہوا ایک تکیہ ملتا ہے جس پر سونے کا ایک تاج محل بنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ترنگ میں آئے تو اس وقت کے ڈکٹیٹر کی تعریف میں ایک نظم لکھ ماری اور اباجان کو دکھائی۔ اباجان جو اس ڈکٹیٹر کے سخت خلاف تھے، انھوں نے شفقتِ پدری سے اس نظم کو دیکھا ، نظرِ ثانی اور تصحیح فرمائی۔ پھر ہم نے وہ نظم ریڈیو پاکستان پر بچوں کے پروگرام میں پڑھی اور داد سمیٹی۔
ایک رات اباجان کو مطالعہ کرتے دیکھا تو خود بھی ان کے شیلف سے ایک کتاب ‘‘ الفاروق’’ نکال کر بیٹھ گئے اور کاغذ پینسل سنبھال کر کئی صفحوں پر مشتمل ایک ضخیم مضمون لکھ مارا۔ ماہنامہ تعلیم و تربیت کو یہ مضمون بھیجا تو انھوں نے ہماری اس مساعی کی لاج رکھتے ہوئے ایک صفحے کا مضمون بعنوان’’ بھوکے بچے خالی ہنڈیا’’ شایع کیا۔
‘غالبیات’ پر کام کا شوق چرایا تو دیوانِ غالب نکال لی اور غالب سے ایک انٹرویو لے ڈالا جسے بعد میں ماہنامہ غنچہ کراچی کی ادبی نشست میں پڑھنے کا موقع ملا۔ اسی رسالے کے لیے ایک یتیم بچے کی دکھ بھری داستان ایک خط کی صورت میں لکھی جو شایع ہوئی۔ ایک دن اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ بیٹھے اور بہت سی پاکستانی فلموں کے نام ایک کاغذ پر لکھ لیے ، پھر اس فہرست سے ریڈیو پاکستان کے ایک کمرشیل پروگرام کے ماڈریٹر کے نام ایک خط لکھا، جس کے ہرہر جملے میں کئی ایک فلموں کے نام آتے تھے۔ ماڈریٹر صاحب کو وہ خط اتنا بھایا کہ انھوں نے وہ خط نشر کرتے ہوئے سامعین سے سوال کیا کہ دو دوستوں کے اس خط میں کتنی فلموں کے نام آئے ہیں۔
اور پھر یوں ہوا کہ ہم انجینیرنگ کالج کے ادبی مجلے کے منظوم حصے کے ایڈیٹر بنا دیے گئے۔ خوش خوش گھر آئے اور چھ ماہ تک سوتے رہے۔ اس دوران صرف اتنا کیا کہ ہر ایرے غیرے سے ایک عدد نظم یا غزل لکھوا لی۔ چھ ماہ اور مسلسل کئی یاد دہانیوں کے بعد جب عمیر بھائی نے الٹی میٹم دیدیا کہ کل نظم سیکشن مکمل چاہیے تو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا، ساری رات جاگے اور دوستوں کی لکھی ہوئی ان ‘نظموں’ اور غزلوں’ کا ڈائی سیکشن کیا۔ اگلے روز اپنی ‘چھ ماہ ’کی عرق ریزیوں کا نچوڑعمیر بھائی کے حوالے کیا تو وہ پھولے نہ سمائے۔ البتہ ہمارے ایک کلاس فیلو کئی دنوں تک ہم سے ناراض رہے کہ ہم نے ان کی نظم کو کیوں ‘بدل’ دیا۔
لگے ہاتھوں اب یہ بھی بیان ہوجائے کہ ہمارا ذریعہ معاش کیا ہے۔
آٹھویں جماعت میں پہنچے تو یہ سوال ہمارے سامنے آیا کہ ہم بیالوجی پڑھیں یا ریاضی۔ گویا یہ شعبے کے انتخاب کا پہلا مرحلہ تھا۔ ہم نے اباجان سے پوچھا کہنے لگے‘‘ اسکول میں طیب صاحب سے پوچھ لو’’۔ طیب صاحب ہمارے استاد تھے اور اباجان سے ان کی دوستی ہوچکی تھی۔ اسکول پہنچے تو طیب صاحب کا یہ فرمان سننے کو ملا ‘‘ خبردار! کوئی بچہ بیالوجی نہ لے۔’’ اللہ جانے اس میں کیا رمز تھا، لیکن ہم نے میٹرک پری انجینئرنگ میں پاس کرلیا۔
انٹر میڈیٹ میں داخلے کا مرحلہ آیا تو بڑے بھائی( مرحوم) نے صاف صاف کہہ دیا۔ جائو اور پولی ٹیکنیک میں داخلہ لے کر تکنیکی مہارت بہم پہنچائو۔ انٹر، بی اے وغیرہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ہم پولی ٹیکنیک اداروں کے چکر کاٹتے رہے اور ادِھر ڈی جے اور آدمجی کالج سمیت تمام اچھے کالجوں میں داخلہ بند ہوگیا۔ اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا۔ آدمجی کالج کے پرنسپل صاحب نے ہماری رہنمائی نوٹس بورڈ تک کی جہاں پر داخلے بند ہوجانے کا نوٹس جلی حروف میں آویزاں تھا۔عائشہ باوانی کالج پہنچے۔ پرنسپل صاحب نے ہماری مارکس شیٹ دیکھی تو ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا ۔فوراً ہمارے فارم پر اپنے دستخط کیے اور ہمیں داخلہ کلرک کے پاس بھجوادیا۔ جمعے کا دن تھا۔ وہ اپنا کھاتا بند کرچکا تھا۔ اس نے معذرت کی اور ہمیں ہفتے کے روز آنے کا کہہ کر کھڑکی بند کردی۔
ہم روتے روتے نیشنل کالج پہنچےاور ابھی کالج کی خوبصورت عمارت کو دیکھ کر عش عش کر ہی رہے تھے کہ یارِ جانی شیخ صاحب نے ہمیں دیکھ لیا ۔ پہلے تو ہمیں کئی موٹی موٹی گالیوں سے نوازا، پھر ہمیں لیے ہوئے کشاں کشاں پرنسپل صاحب کے کمرے میں پہنچےاور ان سے استدعا کی کہ ’ مانا کہ داخلے بند ہوچکے ہیں ، لیکن اگر وہ ہمارے جیسے اچھے رزلٹ والے لڑکے کو کھو دیں گے تو کیا کریں گے۔’ آخر کار انھیں منالیا اور یوں ہم نے انٹر کالج میں داخلہ لیا اور اڑتے ہوئے رنگوں میں انٹر پاس کیا۔
اب گویا ایک ہی چوائس باقی رہ گئی تھی۔ شیخ صاحب کی دم سے بندھے ہوئے دائود کالج پہنچے اور الیکٹرانکس میں سند یافتہ انجینئر بن کر نکلے۔دو سال اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بعد اباجان کی کوششوں سے ایک اچھی کمپنی میں ہمارا داخلہ ہوا اور اگلے کچھ سالوں میں ان چند بین الاقوامی کمپنیوں اور ان کے ترتیب دیے ہوئے تربیتی کورسوں نے ہمیں بائیو میڈیکل انجینئر بنادیا۔
تو صاحبو! گویا یوں ہم نے اپنی مرضی کے بغیر اپنے آپ کو تلاشِ معاش میں کھودیا۔ اگر آج الہ دین کا چراغ ہمارے پاس ہوتا اور ہمیں تلاشِ معاش میں یوں در بدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں تو آج ہم بھی لکھاری ہوتے۔ اب تو ہم ہیں اور ہماری عزیز ترین سہیلی ردی کی ٹوکری ہے۔جو کچھ لکھتے ہیں ، اس کی نذر کردیتے ہیں۔
ابنِ صفی بقلم خود کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں۔‘‘ بقلم خود، اتنا کچھ لکھ دینے کے بعدسوچ رہا ہوں کہ اپنے بارے میں کچھ لکھنا بڑا جان جوکھم کا کام ہے۔ کہاں تک انانیت کو دبایا جاسکتا ہے۔ تھوڑی بہت لاف گزاف بھی ہوجاتی ہے۔ اسی لیے میرا اپنا ہی خیال ہے کہ اپنے بارے میں گفتگو کرنے والے اوّل درجے کے بے وقوف ہوتے ہیں۔ لیکن مجھ سے یہ بے وقوفی سرزد کرائی گئی ۔ میں خود اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ اللہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔’’
ہم سے یہ بے وقوفی سرزد کرانے والے حضرات میں شمشاد بھائی، استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب، حافظ سمیع اللہ فاروقی بھائی اور محفل کے دیگر تمام کرم فرما شامل ہیں جنھوں نےہماری تحریروں کی حوصلہ افزائی کی۔
اپنی تعلیمی و تربیتی اسناد کی فائل کے سرنامے پر ہم نے فیض صاحب کا یہ قطعہ چسپاں کررکھا ہے ، سو وہ آپ کی بھی نذر ہے، جو مزاجِ یار میں آئے۔ ہم تہی دامنوں کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا، سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مئے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں
جو عمر سے ہم نے بھر پایا، سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مئے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں
محفل کا شکریہ کہ انھوں نے ہماری تخلیقات کو اس لائق سمجھا کہ انھیں جگہ عطا فرمائی۔
1. http://www.urduweb.org/mehfil/showt...ینات-(-صلی-اللہ-علیہ-و-سلم)-محمد-خلیل-الرحمٰن
2. http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33141-دیباچہ-بانگِ-درا-ایک-ایکٹ-کا-کھیل
3. http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33140-فسانہ-آزاد-اباجان-چلے-گئے-(-پیش-لفظ)
4. http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33164-ہیری-پوٹر-اِن-ٹربل-ایک-کھیل(-فارس)
5. http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33546-جیون-میں-ایک-بار-آنا-سنگا-پور
6. http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33694-جب-اسکی-آنکھ-سے-ٹپکے-کو-تم-نے-سچ-جانا
7. http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33415-How-to-write-a-Robert-Langdon-murder-mystery
8. http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33199-How-to-become-a-successful-American-President