زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
نودہ/navda/навда
اکادمیِ علومِ تاجکستان کی شائع کردہ فارسی لغت میں اس لفظ کا یہ معنی درج ہے: درخت کی چھوٹی اور نوجواں شاخ۔۔۔ (شاخچۂ نورسِ درخت)
یہ لفظ آج تک ایران اور افغانستان میں لکھی گئی تحریروں میں نظر نہیں آیا۔ ماوراءالنہر میں بھی اس کا استعمال نادر ہے اور مجھے کل پہلی بار یہ لفظ نظر آیا ہے۔ البتہ چونکہ یہ لفظ تاجکستان کی ایک معتبر لغت میں مندرج ہے، لہٰذا یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لفظ وہاں عامیانہ کی سطح سے بلند ہو کر ادبی وقار پا چکا ہے۔
نیٹ پر تلاش کے دوران اس لفظ کے ازبکی زبان میں استعمال کیے جانے کی بھی اطلاع ملی ہے۔

فیس بُک سے اس لفظ کے استعمال کی ایک مثال:
آدمان یک عالمِ بزرگ را با خوبی تقسیم کرده نمی‌توانند، اما پرنده‌ها با مهر و محبت در یک نوده قامت راست می‌کنند۔
ترجمہ: انسان ایک اتنی بڑی دنیا کو خوب طریقے سے تقسیم نہیں کر پاتے، لیکن پرندے مہر و محبت کے ساتھ ایک ہی شاخ پر بیٹھتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یہاں "به" کا مقام ہے!
شکریہ مہدی بھائی! :)
غیر اہلِ زبان ہونے کے ناطے میں نے اصل متن ہی من و عن چسپاں کیا ہے۔

نوده می‌تواند در اشاره به موارد زیر باشد:
نوده از ویکی‌پدیا، دانشنامهٔ آزاد
شکریہ شعیب بھائی! :)
ممکن ہے کہ ایران کے اتنے سارے قریوں کے نام 'نودہ' اور مذکورۂ بالا تاجک فارسی لفظ کے درمیان لفظی و معنوی قرابت ہو۔ لیکن ایسی صورت میں پرانی فارسی لغات اور لغت نامۂ دہخدا میں یہ لفظ ضرور درج ہونا چاہیے تھا۔ صرف ایک جدید تاجک لغت میں اس لفظ کی موجودگی بتاتی ہے کہ یہ لفظ زمانۂ اخیر ہی میں تاجک ادبی فارسی کا حصہ بنا ہے اور اس لفظ کا مولد و منشاء بھی ماوراءالنہر ہی ہے۔
ویسے، لغت نامۂ دہخدا میں لفظ 'نوادہ' کی ایک متبادل شکل کے طور پر 'نوَدَہ' درج ہے لیکن اُس کے معنی پوتا یا فرزند زادہ ہیں، اور تاجک لفظ کے معنی سے یہ سراسر مختلف ہے، علاوہ بریں دونوں لفظوں کے تلفظ میں بھی ذرا سا فرق ہے۔ اس سے بھی یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ 'نودہ' بمعنی شاخ تاجک فارسی میں نسبتاً نئی شمولیت ہے اور فی الحال اس کا استعمال وہیں تک محدود ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برین/barin/барин

یہ ماوراءالنہری فارسی میں استعمال ہونے والا ایک حرفِ جر ہے جس کا کلاسیکی/معیاری ایرانی فارسی میں مطلب ہے: مانندِ، مثلِ، چون وغیرہ
جبکہ اردو میں اس کا ترجمہ یہ ہو گا: ۔۔۔ کی طرح، ۔۔۔ کی مانند، ۔۔۔ جیسا وغیرہ۔

اس کے استعمال کی مثالیں دیکھیے:

"احمد برین شطرنج باز را من تا حال ندیدم."
ترجمہ: میں نے احمد جیسے (کسی) شطرنج باز کو ابھی تک نہیں دیکھا ہے۔

"خون برین سرخ"
ترجمہ: خون کی طرح سرخ

"به مدرسه‌های بخارا داخل شدن و دانش گرفتن برای عینی برین فقیرزادگانِ علم‌جو خیلی مشکل بود."
ترجمہ: (صدرالدین) عینی جیسے علم جو فقیرزادوں کے لیے بخارا کے مدرسوں میں داخل ہونا اور علم حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔

اس تاجکی حرفِ جر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اسماء کے بعد آتا ہے جبکہ فارسی کے دیگر جتنے بھی حروفِ جر ہیں وہ اسماء سے پہلے آتے ہیں۔ اس لفظ کا ایسا استعمال وسطی ایشیائی فارسی پر ازبکی ترکی کے عمیق اثرات کی وجہ سے ہے کیونکہ ترکی میں بھی اردو کی طرح حروفِ جر اسماء کے بعد آتے ہیں۔
دراصل، شوروی دور کی ابتداء میں تاجکستان اور ازبکستان کے نام سے دو الگ ریاستوں کی تشکیل سے قبل تاجکوں اور ازبکوں میں قومیت کا جدید تصور ندارد تھا، اور لوگ اپنے آپ کو تاجک یا ازبک کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے، اس لیے ماوراءالنہر کی آبادی عموماً دولسانی تھی اور اور اگرچہ ادبی حلقوں میں فارسی کا غلبہ تھا لیکن اہلِ قلم حضرات فارسی اور ترکی دونوں میں روانی سے لکھا کرتے تھے۔ اس وسیع دولسانیت کی وجہ سے ازبکی ترکی اور تاجک فارسی نے ایک دوسرے پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ موجودہ زمانے میں اکثر تاجک ادباء ایرانی اسلوب کی پیروی کرتے ہیں اس لیے پس شوروی وسطی ایشیائی ادبی فارسی میں اس لفظ کا استعمال کم ہو گیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کارآگاہ
بادی النظر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گویا اس لفظ کا فارسی میں مطلب ہو گا: کسی کام سے آگاہ شخص۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ معاصر ایرانی فارسی میں یہ لفظ جاسوس اور مفتش کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے اور ایران میں جاسوسی ادب کے لیے 'ادبیاتِ کارآگاہی' مستعمل ہے۔ البتہ لفظ کا یہ استعمال افغانستان اور تاجکستان میں تا حال رائج نہیں ہے۔

× مفتش (مُ فَ تْ تِ شْ) = تفتیش کرنے والا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی زبان میں انگریزی کے 'پاپولر' کے لیے 'عامّہ پسند' مستعمل ہے اور میری نظر میں اردو میں استعمال کے لیے بھی یہ اصطلاح بالکل مناسب ہے۔ اسی طرح، 'پاپ موسیقی' کی جگہ پر بھی ہم فارسی کی پیروی میں 'عامّہ پسند موسیقی' استعمال کر سکتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
میری نظر میں اردو میں استعمال کے لیے بھی یہ اصطلاح بالکل مناسب ہے۔
اگر فارسی پر مبنی اصطلاحات ہی اردو میں استعمال کرنا مقصود ہے تو بہتر ہے بندہ فارسی سیکھ لے بجائے اردو سیکھنے کے:)
Popularکو اردو میں مشہور ، مقبول، ہر دلعزیز، عوامی ہی کہا جائے گا نہ کہ ’’عامہ پسند‘‘
اسی طرح Pop Music کو عوامی موسیقی یا عوام میں عام مقبول موسیقی ہی کہا جا ئے گا نہ کہ ’’عامہ پسند موسیقی‘‘
کسی بھی زبان میں نئے الفاظ کے تراجم کرتے وقت انہیں مقامیانے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ ہم ہزار سال پرانا فارسی لوک ورثہ یہاں برصغیر میں لاگو نہیں کر سکتے خاص طور پر اگر عام لوگ خود فارسی کی باریکیوں سے ناآشنا ہوں۔
یاد رہے کہ مجھے بذات خود اردو کیلئے نئی اصطلاحات بناتے وقت فارسی ، عربی اور اس سے منسلک دیگر زبانوں سے انہیں مستعار لینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ البتہ مفاد عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کرنے سے آئندہ آنے والے وقتوں میں نقصان زیادہ نظر آتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ لوگ عام حالات میں ان نئی ’’مشکل‘‘ اصطلاحات کو استعمال کرنے کی بجائے سیدھا انگریزی کی طرف واپس لوٹ جاتے ہیں۔ الغرض نئی اردو اصطلاحات کا عام فہم ہونا بھی ضروری ہے :)
 

محمد وارث

لائبریرین
اگر فارسی پر مبنی اصطلاحات ہی اردو میں استعمال کرنا مقصود ہے تو بہتر ہے بندہ فارسی سیکھ لے بجائے اردو سیکھنے کے:)
Popularکو اردو میں مشہور ، مقبول، ہر دلعزیز، عوامی ہی کہا جائے گا نہ کہ ’’عامہ پسند‘‘
اسی طرح Pop Music کو عوامی موسیقی یا عوام میں عام مقبول موسیقی ہی کہا جا ئے گا نہ کہ ’’عامہ پسند موسیقی‘‘
کسی بھی زبان میں نئے الفاظ کے تراجم کرتے وقت انہیں مقامیانے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ ہم ہزار سال پرانا فارسی لوک ورثہ یہاں برصغیر میں لاگو نہیں کر سکتے خاص طور پر اگر عام لوگ خود فارسی کی باریکیوں سے ناآشنا ہوں۔
یاد رہے کہ مجھے بذات خود اردو کیلئے نئی اصطلاحات بناتے وقت فارسی ، عربی اور اس سے منسلک دیگر زبانوں سے انہیں مستعار لینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ البتہ مفاد عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کرنے سے آئندہ آنے والے وقتوں میں نقصان زیادہ نظر آتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ لوگ عام حالات میں ان نئی ’’مشکل‘‘ اصطلاحات کو استعمال کرنے کی بجائے سیدھا انگریزی کی طرف واپس لوٹ جاتے ہیں۔ الغرض نئی اردو اصطلاحات کا عام فہم ہونا بھی ضروری ہے :)

آپ کی بات کسی حد تک درست ہے کہ جو اصطلاحات اردو میں پہلے ہی سے رائج اور مقبول ہو چکی ہیں اور وہ بھی اگر اردو یا مقامی زبانوں کی ہوں تو ان کی مکرر اصطلاحات بنانا مناسب نہیں اور وہ بھی اُس صورت میں جب نئی اصطلاحات نامانوس بھی ہوں۔

لیکن دوسری طرف بہت سے ایسے الفاظ ابھی تک اردو میں موجود ہیں جو انگریزی کے ہیں اور ویسے کے ویسے ہی چلے آ رہے ہیں، ان اصطلاحات اور الفاظ کا مانوس عربی یا فارسی میں ترجمہ ہونا ضروری ہے۔

مثلا شاید مختار مسعود نے کئی دہائیاں پہلے کہا تھا کہ "ریفرنڈم" کو ایران میں "ہمہ پُرسی" کہتے ہیں، اس کو اپنانے میں کیا حرج ہے۔ اسی طرح "لاؤڈ اسپیکر" ہے، اس کا عربی مترادف اتنا ہی بھاری بھر کم اور اس سے کہیں ثقیل "آلہ صوت المکبر" ہے لیکن فارسی مترادف انتہائی رواں اور شستہ "بلند گو" ہے، اس کو بھی لے لینا چاہیے اور رواج دینا چاہیے۔
 

حسان خان

لائبریرین
'برادرِ پدر' یعنی چچا/تایا کے لیے افغان فارسی میں کاکا، تاجک فارسی میں عمَک اور ایرانی فارسی میں عمو رائج ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی کسی غیر کی نہیں، بلکہ میری اپنی زبان ہے، اس لیے اردو میں کسی انگریزی اصطلاح کی جا پر فارسی (یا عربی) کی اصطلاح کو رائج کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔

اس کی ایک اور مثال دیکھیے۔ اردو کی صحافتی زبان میں 'پراکسی وار' کی نامتناسب اصطلاح بہت عام ہے۔ لیکن فارسی نویس اس کی جگہ پر 'جنگِ نیابتی' استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارے پاس اردو میں اس انگریزی اصطلاح کا کوئی مناسب متبادل موجود نہیں ہے، لہٰذا ہم بھی فارسی نویسوں کی کی پیروی میں 'پراکسی وار' کی بجائے آسانی سے 'نیابتی جنگ' کا اردو میں استعمال کر سکتے ہیں۔
× نیابتی = نِ یا بَ تی

پس نوشت: عارف کریم کے اعتراض کا تفصیلی جواب:
انگریزی زبان کے لاطینی و یونانی الاصل الفاظ کی کُل فیصد
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تاریخ کا ایک ورق
"جب جرمن قیصر ولہلم ثانی کو عثمانی سلطان، سلطان عبدالحمید ثانی کے دل کو متاثر کرنے کی خواہش ہوئی تو اُس نے سلطان سلیم اول کا فارسی دیوان برلن میں بہترین کاغذ پر چھپوایا اور سلطان عبدالحمید کو ہدیے کے طور پر پیش کیا۔"
ماخذ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(اعتراف)
عموماً‌ لوگ سب سے زیادہ اپنی مادری زبان سے محبت کرتے ہیں، لیکن میں اپنی مادری زبان کی بجائے زبانِ فارسی سے محبت کرتا ہوں، کیونکہ میری تمام روحانی، ادبی، شناختی، ثقافتی اور تمدنی تمنّائیں اور ضروریات ہر زبان سے بیشتر فارسی ہی کے توسط سے پوری ہوتی ہیں۔ اسی لیے میں اِس شہد سے شیریں زبان کو عزیز از جان رکھتا ہوں اور اس کی ترویج کے لیے شب و روز کوشاں ہوں۔ اگر صاف صاف کہوں تو اردو میری مادری زبان صرف ایک حادثۂ ولادت کے باعث ہے، ورنہ میں تو اپنی حقیقی قلبی زبان فارسی کو تصور کرتا ہوں اور میرے اختیار میں ہوتا تو میں کسی فارسی گو خانوادے میں پیدا ہونا اپنے لیے منتخب کرتا اور اِسے باعثِ صد افتخار و نازش جانتا۔
"طرزِ گفتارِ دری شیرین‌تر است"
(علامہ اقبال)

پس نوشت: مجھے کلاسیکی اردو اور کلاسیکی ترکی فقط اس لیے عزیز ہیں کہ یہ دو زبانیں براہِ راست فارسی زبان و ادب کی پروردہ زبانیں ہیں اور اپنے عالمِ طفولیت سے زمانۂ شباب تک یہ دو زبانیں اپنی رضاعی مادر فارسی کے زیرِ سایہ نشو و نما پاتی اور اپنی رہنمائی کے لیے ہمیشہ فارسی کی جانب نگاہ کرتی رہی ہیں۔ جبکہ عربی زبان مجھے اس لیے عزیز ہے کہ فارسی زبان و ادب کے ساتھ اس کا ہزار سالہ قریبی تعلق ہے اور عربی کی واقفیت سے فارسی دانی کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ مسلّم حقیقت ہے کہ فارسی پر عربی سے بیشتر کوئی اور زبان اثر انداز نہیں ہوئی ہے، بلکہ فارسیِ دری کی بنیاد ہی عربی کے زیرِ اثر رکھی گئی تھی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی زبان میں خودکُش دھماکے کو 'انفجارِ انتحاری' کہتے ہیں۔ یہ دونوں عربی سے ماخوذ الفاظ ہیں۔ انفجار کا مطلب 'پھٹنا' اور 'دھماکا' ہے، جبکہ انتحار عربی، فارسی، اناطولیائی ترکی اور آذربائجانی ترکی میں 'خودکُشی' کو کہتے ہیں۔ فارسی زبان میں لفظِ 'خودکُشی' کا استعمال بھی بہت عام ہے، بس 'انتحار' ذرا زیادہ رسمی اور اصطلاحی لفظ ہے۔
تاجکستان میں انفجار کے علاوہ 'ترکش' بھی مرسوم ہے۔ یہ مصدرِ ترکیدن کا اسمِ مصدر ہے جس کا لفظی مطلب بھی 'پھٹنا' ہے۔
عربی زبان میں 'انفجار' کا مادّہ 'ف ج ر' ہے، یعنی یہ لفظ اور لفظِ فجر ایک ہی مادّے سے مشتق ہیں۔ صبح کو فجر اسی لیے کہتے ہیں کہ اس وقت سیاہیِ شب کا پردہ پھٹتا ہے اور روشنی نمودار ہوتی ہے۔

× انفجار = اِ نْ فِ جا رْ
× انتحار = اِ نْ تِ حا رْ
× ترکش = تَ رْ کِ شْ
× فجر = فَ جْ رْ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں کا اور"
چند روز قبل یہ دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ ایران میں گِدھ کو کافِ تازی کے ساتھ 'کرکس' لکھا اور پڑھا جاتا ہے، جبکہ کافِ عجمی کے ساتھ 'کرگس' ماوراءالنہر اور افغانستان کی فارسی میں رائج ہے۔ چونکہ علامہ اقبال کا مشہور مصرع زبانوں پر ہے، اس لیے اس لفظ کو ایک فارسی شعر میں 'کرکس' کی شکل میں دیکھ کر ذرا عجیب لگا تھا، اور میں پہلی نظر میں اسے کاتب کی غلطی سمجھا تھا، لیکن بعد میں عیاں ہوا کہ ایرانیوں میں یہی تلفظ مدتِ دراز سے رائج ہے۔

اسی طرح ہمارا ایک کثیرالاستعمال لفظ 'خزاں' صرف افغانستان کی گفتاری زبان میں رائج ہے۔ ایران اور تاجکستان کے مردم یہ لفظ صرف ادبی زبان میں استعمال کرتے ہیں اور اپنے لہجوں میں اس فصلِ برگ ریزاں کو بالتریب 'پائیز'، اور 'تیرہ‌ماہ' کہتے ہیں۔ 'پائیز' تاجکستان اور افغانستان کی ادبی زبانوں میں بھی مستعمل ہے، لیکن 'تیرہ‌ماہ' صرف تاجکستان ہی میں استعمال ہوتا ہے۔ (تیرہ‌ماہ = тирамоҳ = tiramoh)
میر تقی میر نے بھی خزاں کے لیے 'پائیز' کا لفظ استعمال کیا ہے، اور میری رائے میں معاصر اردو میں اس نفیس اور دل پذیر لفظ کا دوبارہ احیاء ہونا چاہیے۔

یہ ستم تازہ ہوا اور کہ پائیز میں میر
دل خس و خار سے ناچار لگایا ہم نے
(میر تقی میر)

پس نوشت: فارسی میں 'خزاں' بر وزنِ جہاں تلفظ کیا جاتا ہے، یعنی خ پر زبر کے ساتھ۔
 
آخری تدوین:
فارسی کو میں کسی غیر کی نہیں، بلکہ اپنی زبان سمجھتا ہوں، اس لیے اگر اردو میں کسی انگریزی اصطلاح کا پہلے سے کوئی مناسب متبادل موجود نہ ہو، لیکن فارسی میں (یا عربی میں) ہو، تو اُس کو زبانِ اردو میں رائج کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔

یہ درست ہے اور اس کا سب سے بڑافائدہ یہ ہوگا کہ عربی اور فارسی سے ہمارا رشتہ منقطع نہیں ہوگا۔

اس کی ایک اور مثال دیکھیے۔ اردو کی صحافتی زبان میں 'پراکسی وار' کی نامتناسب اصطلاح بہت عام ہے۔ لیکن فارسی نویس اس کی جگہ پر 'جنگِ نیابتی' استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارے پاس اردو میں اس انگریزی اصطلاح کا کوئی مناسب متبادل موجود نہیں ہے، لہٰذا ہم بھی فارسی نویسوں کی کی پیروی میں 'پراکسی وار' کی بجائے آسانی سے 'نیابتی جنگ' کا اردو میں استعمال کر سکتے ہیں

اس کے لیے ایک اصطلاح "درپردہ" استعمال کی جاسکتی ہے جو اگر چہ عام نہیں ہے لیکن مناسب ہے۔

پراکسی وار = درپردہ جنگ
 
میں افغانستان کے سرود سراوں (singers) احمد ظاہر، ساربان اور ناشناس کے گانوں میں عربی کے وہ الفاظ جو فارسی اور اردو دونوں میں مستعمل ہیں، اور کچھ فارسی کے الفاظ کو سنتا ہوں تو وہ اردو میں مستعمل ہجوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ ذیل میں میں مثالیں دے رہا ہوں۔

اردو میں مستعمل ہجے ::::::::::: فارسی میں مستعمل ہجے
خَلوت :::::::::::: خِلوت ::::::: (زبر کی جگہ زیر)
جَلوت ::::::::: جِلوت
مَصلِحت :::::::::: مَصلحَت :::::: (لام پر زیر کے بجائے زبر)
فَروغ :::::::: فِروغ :::::::: (ف پر زبر کے بجائے زیر) (یاد رہے، مشہور ایرانی شاعرہ فروغ فرخزاد کے نام میں ف کے اوپر پیش پڑھا جاتا ہے)

میں نے کہیں پڑھا ہے کہ وسطی ایشیا میں بھی عربی بولی جاتی ہے۔ کیا یہ اس عربی کے الفاظ تو نہیں؟

فارسی کے بھی کچھ الفاظ ایسے سننے کو ملتے ہیں جو اردو میں مروجہ ہجوں کے خلاف ملتے ہیں یا جو عام طور پر فارسی وان بولتے ہیں۔مثلا

آتِش :::::: آتَش ::::: (ت کے اوپر زبر)
سُوئے ::::::: سَوئے ::::::: (س کے اوپر زبر)
ویران(Veeran) ::::::::::: وَیران (Vairaan)
بیا(Bya) ::::::: بیا (Beeyaa)
کے (Ke) ::::::::::: کَے(Kai)

ہوسکا تو مزید مثالوں بھی پیش کردوں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ وسطی ایشیا میں بھی عربی بولی جاتی ہے۔ کیا یہ اس عربی کے الفاظ تو نہیں؟
جی، ازبکستان میں انگشت شمار دیہات ایسے موجود ہیں جہاں ابھی بھی عربی بولی جاتی ہے، لیکن عربی کے گفتاری لہجے کبھی فارسی پر اثر انداز نہیں ہوئے، بلکہ فارسی کا تعلق ہمیشہ فصیح کتابی عربی کے ساتھ رہا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top