"فارسی تقریباً ساڑھے آٹھ سو سال تک برِ صغیر کی علمی، ادبی، ثقافتی، تدریسی اور سرکاری زبان رہی ہے۔ اس عرصے میں یہاں کے اہلِ علم و ادب نے بڑی کامیابی سے فارسی نظم و نثر کو ذریعۂ اظہار بنایا اور تمام رائج علوم و فنون پر ہزاروں اہم کتابیں لکھیں۔ خاص طور پر اس سرزمین کی ایک ہزار سالہ اسلامی تاریخ فارسی ہی میں لکھی گئی۔ ہماری قومی زبان اردو کی نشو و نما بھی فارسی ہی کے زیرِ سایہ ہوئی اور اردو ادب نے فارسی کی درخشاں ادبی روایت سے بھی گہرے اثرات قبول کیے۔ فارسی ہمارا تہذیبی ورثہ ہے اور زندہ قومیں اپنی ثقافتی میراث کو نظر انداز نہیں کیا کرتیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم فارسی سے آشنائی کے بغیر اپنی گذشتہ صدیوں کی تاریخ، ثقافت اور ادب سے پوری طرح آگاہ نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری آنے والی نسلیں اپنے عظیم ماضی سے کٹ کر رہ جائیں تو ہمیں بہ ہر طور فارسی کی شمع جلائے رکھنا ہو گی۔
ہمارے حال اور مستقبل کے لیے بھی فارسی کی اہمیت مسلّم ہے کیونکہ ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کے ساتھ ہمارے رابطے کی زبان یہی ہے۔"
"فارسی کا چلن اٹھ جانے سے ہماری روحانی اور تہذیبی اساس ہل کر رہ گئی ہے۔ ہم نے اپنا تخلیقی اور فکری شعور اسی زبان سے تشکیل دیا تھا۔ اس کے فراموش ہو جانے سے ہماری باطنی ساخت متغیر ہو گئی ہے۔ خود کو اپنی حقیقی بنیادوں پر نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیے ہمیں فارسی دانی کی روایت کا احیا کرنا ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم انسانیت کی زندہ اور بامعنی سطح پر موجود نہیں رہنا چاہتے۔"
"علامہ محمد اقبال ہماری تہذیب اور ادبی تاریخ کی توانا ترین شخصیت ہیں ۔ دنیا بھر کے دانشوروں نے فکر اقبال کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور اسلامی ممالک کے فکری حلقوں میں اقبال کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اقبال کے افکار کا بہترین اظہار ان کی شاعری میں ہوا ہے اور اس کا بیشتر حصہ فارسی میں ہے ۔ اقبال کے زندہ پیغام کو مکمل اور بہتر طور پر سمجھنے کے لیے فارسی سے آگاہی ضروری ہے اور اس کے بغیر اقبال شناسی کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔"
ماخذ