مولانا ابوالکلام آزاد کی فارسیدوستی:
امروز مولانا ابوالکلام آزاد کے روزِ درگذشت کے موقع پر ان کی فارسی زبان و ادبیات کے لئے علاقہ مندی کے حوالے سے ایک مقالے کا خلاصہ چند سطور میں ذکر کرتا چلوں۔ یہ مقالہ مجلہٗ قندِ پارسی میں شائع ہے، جس کا پیوند (لنک) آخر میں مذکور ہے۔ مقالے کی فراہمآوری کے لئے Markaz Tahghighat Farsi Delhi کا سپاسگذار ہوں۔
ایرانی افسانہ نویس سعید نفیسی مولانا ابوالکلام سے ملاقات کے بعد ان کے بہت گرویدہ ہوئے اور وہ کہتے ہیں کہ ابوالکلام بغیر کسی غلطی کے، فارسی روانی سے بولتے تھے۔ وہ اپنی سخنرانیوں اور نگارشات میں فارسی شاعروں اور دانشوروں کے اشعار و افکار بکثرت لاتے تھے ۔ دکتر نفیسی لکھتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے ابوالکلام کے روبرو نحوی اور کشتیبان کا قصہ بیان کیا ۔ قصہ ختم ہونے کے بعد ابوالکلام ہنسے اور کہا کہ یہ حکایت تو مثنوی معنوی میں بیان ہے۔ پھراسی وقت ابوالکلام نے وہ ابیات بھی پڑھے جن میں یہ حکایت مذکور تھا۔
آزاد کا حافظہ نہایت دقیق تھا۔ ایک بار مولانا غلام رسول مہر نے آزاد کا امتحان لیتے ہوئے سعدی شیرازی کی شاعری کے ایک بیت کو اپنی اصل جگہ سے ہٹا دیا۔ آزاد نے ان کی اصلاح کی اور اس بیت کو درست پڑھا۔ بعد میں مولانا غلام کو اپنے ایک خط میں کہتے ہیں کہ اس بیت کو میں نے ۳۰ سال قبل پڑھا تھا۔ امروز میں نے اسے اصل کتاب میں کھول کر پڑھا تو خوشبختانہ، وہ شعر ویسا ہی موجود پایا جیسا میں نے اس وقت سنایا تھا۔
آزاد نے فارسی ادبیات کی تمام معروف کتب کو پڑھ رکھا تھا، اور ہزارہا فارسی اشعار انہیں از بر تھے۔ سال ۱۹۰۲ میں آزاد نے ایران کا سفر کیا۔بہت سے سیاستمداروں، دانشوروں، عالموں اور نویسندوں نے ان کا استقبال کیا۔ آزاد بغیر کسی کمک کے، تمام لوگوں سے براہِ راست باتیں کرتے رہے (یہ نقطہ اس لئے اہم ہے کیونکہ فارسی ادبیات و شعر کو پڑھنا دیگر چیز ہے، اور جب آپ کسی سے گفتگو کر رہے ہوں تو وہ قدرے مشکل ہوتی ہے کیونکہ بولتے ہوئے آپ کو زبان کے رائج محاورے کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے، اس لئے جس کو فارسیزباناں سے گفتگو کا تجربہ نہ ہو تو اسے بولتے وقت مشکل پیش آ سکتی ہے، لیکن آزاد بدونِ ہیچ مشکلے فارسی میں گفتگو کرتے رہے)
شیراز میں سعدی و حافظ کی آرامگاہوں کی سیر کرنے کے بعد وہ تہران آئے۔ تہران میں اپنی اقامت کے کوتاہ (کم) مدت میں انہوں نے اس وقت رائج فارسی کے ایرانی سبک کے نشیب و فراز سے نہ صرف یہ کہ آگاہی بھی حاصل کر لی تھی بلکہ لہجہٗ تہرانی بھی ساتھ ساتھ سیکھ رہے تھے۔ بسیار کم وقت کے فاصلے میں ان کے لئے ایک برنامہ (پروگرام) ترتیب دیا گیا جس میں انہوں نے تقریر کرنی تھی۔ ایرانی وزیرِ فرہنگ دکتر شہاب سنجانی نے ان کی تعریف میں ابرازِ نظر کیا۔ پس ازاں، مولانا نے اپنی تقریر فارسی میں شروع کی۔ ان کی تہرانی سبکِ نو میں خوشبیانی و خوشمنظری دیدنی و شنیدنی تھی۔
دو روز بعد ایک اور جگہ تالارِ فرہنگ میں انہوں نے فارسی ہی میں تقریر کی جس کا عنوان تھا ’’روابطِ باستانیِ ایران و ہند‘‘۔ وہاں موجود ایرانیوں کو ایسا لگا جیسے آزاد کی زبان سے لعل و گہر برس رہے ہیں کیونکہ اس تقریر کی زبان علمی، معلوماتی، ادبی، فرہنگی اور تاریخی تھی۔ تقریر کا دورانیہ ایک ساعت (گھنٹا) سے کچھ اوپر تھا۔تقریر کے ختم ہونے کے بعد تمام دانشجُو (طالبِ علم) کیا لڑکا، کیا لڑکی، سب ان کے دست و بازو اور پا و پیشانی کو بوسہ دینے لگے اور اس وجہ سے اس قدر ہجوم بن گیا کہ وہاں موجود بہت سے ایرانی بڑوں کو مجبوراََ آزاد کی حفاظت کے لئے انہیں اپنے حصار میں لینا پڑا تاکہ وہ اس ازدحام و مزاحمت سے محفوظ نکل سکیں۔ بہت سے دانشجُو بعد میں آزاد کی طرف رجوع کرتے رہے تاکہ ان سے دستخط لے سکیں،
(اریب آغا ناشناس)
عنوانِ مقاله:
علاقهمندیِ مولانا ابوالکلام آزاد به زبان و ادبیاتِ فارسی