سفر منطقہ غربیہ کے از محمد خلیل الر حمٰن

سفر منطقہ غربیہ کے

آج اگر اردو حروف تہجی میں دوچشمی ہے (ھ) اور اس کی مشتقات ایجاد نہ ہوئے ہوتے تو ہم کیا کرتے۔ نہ بھرم مارسکتے، نہ دھم سے کود کر اودھم مچاسکتےاور نہ ہی الم غلم تحریروں سے اپنے قلم کو تھکا سکتے۔

کودا ترے آنگن کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا
وہ کام ہوا ہم سے جو رستم سے نہ ہوگا​

ہوا یوں کہ ہمیں عربستان میں مختصر دورانیے کا ایک کام مل گیا اور ہم زادِ سفر باندھنے لگے۔علی بابا ، الہ دین اور دیگر ایک ہزار ایک رنگینیوں سے بھرپور یہ پُراسرارجہان (ہماری مراد متحدہ عرب امارات کے اس منطقے سے ہے، جسے ہم نے اپنے اس سفر نامے کا محور بنایا ہے) دنیاکی خوبصورت ترین رنگینی سے محروم ہے۔ یہ رنگینی صنفِ نازک کا دمکتا ہوا چہرہ ہے۔

ہمارا یہ جملہ پڑھتے ہی چودھری صاحب پھڑک گئے۔ کہنے لگے
" غلط بیانی کی ابتدا تمنے کرہی دی ، بلکہ حد کردی۔ متحدہ عرب امارات تو خوبصورت رنگین چہروں سے بھرا پڑا ہے، نقاب کی اوٹ سے جھانکتی ہوئی عربنوں کی خوبصورت کاجل بھری آنکھیں، فلیپیناز، ہندی اور گوری عورتوں کے چہرے۔"
ہم نے طنطناتے ہوئے جواب دیا
"
عربنوں کی کالی آنکھوں میں جھانکنے کی ہمت ہم اپنے اندر نہیں پاتے، مبادا کسی مقامی عرب کا ہاتھ ہماری گدی پر پڑے اور ہمیں پروانہٗ واپسی ہاتھ میں تھمادے، فلیپیناز کے پیلےچہروں میں نمک کی اور ہندی خواتین کے کالے چہروں میں کچھ گورے پن کی کمی ہے اور رہے گوریوں کے چہرے ، تو ان پر نظر ٹکتی نہیں نیچے پھسل جاتی ہے۔ دبئی اور ابوظبی کے ساحلوں پر پہنچتے ہی ہم نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیےتھے۔ اللہ بچائیو!
ہمارا "ہم دیکھیں گے" کا مترنم نعرہ فوراً دم توڑ گیاتھا۔" البتہ خوشبووں کا دیس کہا جاسکتا ہے اسے۔ کسی چنچل حسینہ کے گزرنے کے آدھے گھنٹے بعد بھی مہکتے برآمدے ہمیں استاد کے شعر میں تبدیلی پر مجبور کرگئے۔

ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی اس ہوا کی​

اس جملہٗ معترضہ اور اس کی مشتقات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئےکمپنی کے اُس ای میل کی جانب بڑھتے ہیں جسے پڑھ کر ہم اچھل پڑے تھے۔لکھا تھا
"
خلیل صاحب ! آپ کے سفر کے تمام انتظامات مکمل ہیں۔ جبل ظنہ میں آپ کے رہنے کے لیے کمرہ تیار ہے"
ہم نے فوراً گوگل کی خدمات حاصل کیں اور جبل ظنہ کی تلاش میں سرگرداں ہوئے۔ نتیجہ دیکھا تو ہمارا دل بلیوں اچھلنے لگا۔

جبل ظنہ متحدہ عرب امارات میں ابوظبی کے منطقہ غربیہ میں ایک ساحلی تفریحی مقام ہے۔"
ہم ان الفاظ کی نغمگی میں کھوئے سے گئے۔ بچوں نے واویلا مچایا کہ پاپا! یہ جگہ تو ابو ظبی شہر سے کئی سو کلومیٹر دور ہے۔
ہم نے اپنے دل کو تسلی دی" دور ہے تو ہوا کرے۔ تفریحی مقامات عموماً شہر سے دور ہی ہوتے ہیں،" اور ایک تفریحی مقام پر رہنے کے خواب دیکھنے لگے۔

ہم تویوں کریں گے کہ ہر روز دفتر سے واپسی پر اپنا بیگ کمرے میں پھینکتے ہوئے دوبارہ باہر نکل جائیں گے۔ رات گئے تک شاپنگ سنٹرز میں آوارہ گردی کریں گے۔ جب تھکن سے چور ہوجائیں گے تب ہی کمرے کا رُخ کریں گے۔ ویک اینڈ ساحل کی نرم ریت پر لیٹ کر دھوپ کھاتی ہوئی، سمندر کی چنچل لہروں کے ساتھ چُہلیں کرتی، نیم عریاں حسیناؤں کو دیکھتے ہوئے اور تصورِ جاناں کیے ہوئےگزاریں گے۔
چودھری صاحب نے بھی ہمیں یاد دلایا کہ چونکہ ہم اکیلے ہی سفر کررہے ہیں لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ایک اکیلے مسافر کی مانند زندگی کی مسرتوں سے لطف اندوز ہوں اورکلفتوں سے دور رہیں۔ ہم نے اس دوست کی نصیحتوں کو پلے باندھ لیا اور بیوی بچوں کو خدا حافظ کہتے ہوئے عازمِ سفر ہوئے۔

جہاز پر چڑھے تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔ اندر گوری میمیں ہمارا سواگت کرنے کو بے چین تھیں۔ ہم ایک گوری میم کی راہنمائی میں اپنی نشست تک پہنچے اور آرام سے نیم دراز ہوگئے۔ ابھی تھوڑی دیر میں جہاز اُڑ جائے گا اور اس کے بعد ہماری میزبان خواتین ہمارے آگے پیچھے گھومنے لگیں گی۔ ہم عشائیے کے تصور سے ہی جھوم گئے۔

جہاز فضا ئ میں بلند ہوا تو ہم دیر تک عروس البلاد کی روشنیوں کو دیکھتے رہے جو امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں کچھ مدھم پڑ گئی تھیں۔ جہاز نے ٹیک آف مکمل کیا تو ہمارے ارد گرد چڑیاں چہچہانے لگیں۔ ٹرالیاں لیے میزبان خواتین کی چہل پہل شروع ہوئی تواور ہم اپنی باری کے انتظار میں محو ہوگئے۔ کچھ دیر گزری کہ ٹرالی ہماری سیٹ کے سامنے آکر رک گئی۔ ہم نے براہِ راست مخاطب کیے جانے سے قبل اس پری کی جانب دیکھنا مناسب نہ سمجھتے ہوئے، اسے کنکھیوں سے گھورنا شروع کردیا۔ چونکہ ہم جہاز کی کھڑکی کی جانب بیٹھے تھے، ہماری باری باقی دونوں ہم سفروں کے بعد ہی آئی ۔ یہ چند لمحے بھی ہمارے لیے بلائے جاں کی مانند تھے۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اور ہمارے کانوں میں اس حور کی شیریں آواز نے رس گھولا۔

پینے کے لیے آپ کیا لیں گے؟
ہم نے چند لمحے سوچنے کی اداکاری کی اور کہا
ہم آرینج جوس پینا پسند کریں گے
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
کاغذ کا چھوٹا گلاس جو آدھا آرینج جوس سے بھرا تھا ، ہمارے ہاتھ میں تھمادیا گیا۔ ابھی ہم اس صدمے سے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ ٹشو پیپر وغیرہ کا ایک پیکٹ اور سینڈوچ کا ایک پیکٹ ہماری جانب بڑھا کر وہ قاتل حسینہ آگے بڑھ گئی۔آدھا سینڈوچ جوں توں کرکے زہر مار کیا اور آرینج جوس بھی یوں قطرہ قطرہ حلق سے اتارا گویا خونِ جگر پی رہے ہوں۔بعد میں جب وہ حسینہ زخم شمار کرنے اور لاشہ اٹھانے آئی تو ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی
۔
جہاز ابوظبی ائر پورٹ پر اترا تو ہم نے اپنا دستی سامان سمیٹا اور جہاز کے صدر دروازے کی جانب بڑھے۔ دروازے پر ایک جانب تمام میزبان خواتین صف باندھے کھڑی تھیں اور اپنی مترنم آواز میں خدا حافظ کہہ رہی تھیں۔ ہم ان کی جانب دیکھے بغیر آگے بڑھ گئے۔ہم متحدہ عرب امارات کے صدر مقام ابوظبی پہنچ چکے تھے۔ متحدہ عرب امارات خلیج فارس کے کنارے سات امارتوں کے اتحاد سے بنایا گیا ایک ایسا ملک ہے جس میں مندرجہ ذیل امارتیں شامل ہیں

۱۔ ابوظبی
۲۔دبئی
۳۔ شارجہ
۴۔ عجمان
۵۔ ام القوین
۶۔ راس الخیمہ
۷۔ فجیرہ

ان تمام ریاستوں میں فجیرہ کے علاوہ باقی تمام ریاستیں خلیجِ فارس کے کنارے واقع ہیں جسے ایران کے ساتھ بہتر تعلقات نہ ہونے کے باعث مقامی طور پر عربین گلف یعنی خلیجِ عرب کہا جاتا ہے۔فجیرہ خلیجِ اومان کے کنارے آباد ہے۔ پورے ملک کا تقریبا پچاسی فیصد رقبہ ریاست ابوظبی پر مشتمل ہے ۔ العین اور مدینہ زید کے علاوہ تمام چھوٹے بڑے شہر اور ریاستیں سمندر کے کنارے آباد ہیں۔ شروع میں یہ کچھ مچھیروں کی بستیاں تھیں جن کی آمدنی کا دارومدار مچھلیوں اور موتیوں پر تھا۔ ۱۹۵۸ ئ میں تیل کی دریافت نے اس علاقے کی تقدیر بدل دی۔ عرب کے یہ بادیہ نشین انتہائی دولت مند ریاستوں کے طور پر ابھرے۔ شیخ زید بن سلطان النہیان کی دوررس نگاہوں نے اس کے روشن مستقبل کو بھانپتے ہوئے ایک متحدہ علاقے کا خواب دیکھا اور ۱۹۷۰ میں متحدہ عرب اماات وجود میں آگیا ، جس کی صدر اور وزیر اعظم شیخ زید خود تھے۔نائب صدر کا عہدہ دوسری بڑی ریاست کے مالک شیخ راشد کے نام لکھا گیا۔ شیخ زید کے بعد اس ملک کی دوسری زیرک ترین شخصیت دبئی کے موجودہ حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم ہیں۔

ائر پورٹ پر ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے روتانا ہوٹل ابوظبی کے نمائیندے موجود تھے، جنہوں نے ہمیں اپنی ٹیکسی میں ہوٹل روانہ کردیا۔ ہم ابوظبی پہنچے تو رات بھیگ چلی تھی۔ہماری اصل منزل تک کا سفر خاصا لمبا تھا لہٰذا ہمیں رات ہوٹل میں ٹھہرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ رات چند گھنٹے آرام کرکے ہم تازہ دم ہوگئے اور ناشتے کے لیے ہوٹل کی لابی میں داخل ہوئے۔ ریستوران میں طرح طرح کے لوازمات موجود تھے جن سے ہم نے خاطر خواہ استفادہ کیا اورلابی میں آکر گاڑی کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ آدھ گھنٹہ انتظار کے بعد بھی جب گاڑی ہمیں لینے نہ پہنچی تو ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔فوراً واپس کمرے میں پہنچے اور کمپنی کے کرتا دھرتاوں کوایک واٹس ایپ میسج اور ایک عدد ای میل لکھ مارا کہ ہم انتظار میں ہیں لیکن گاڑی ابھی تک نہیں پہنچی ہے۔ ادھر ہوٹل والوں نے ہماری حالتِ زار پر ترس کھاکر ہمیں ایک عدد مفت لوکل کال کی سہولت بھی بہم پہنچادی۔ ہم نے ڈرائیور کو ٹیلیفون کیا تو اس نے بتایا کہ وہ تو ابوظبی سے سلع کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔

مرتا کیا نہ کرتا، ہم دوبارہ لابی میں آکر بیٹھ گئے، کہ آٹھ بجے مقامی آفس کھلنے پر لوگ ہمارا پیغام پڑھ کر ضرور ہمیں لینے آئیں گے اور شاید کسی دسری گاڑی کا انتظام کیا جائے گا جو ہمیں جبل ظنہ پہنچائے گی۔ تقریباً آٹھ بجے، اپنے وقتِ مقررہ سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد گاڑی ہمیں لینے پہنچ گئی۔ سعد اللہ صاحب نے لابی میں پہنچ کر ہمارے نام کا اعلان کیا تو ہم فوراً اپنا سامان اٹھائے ان کےپاس پہنچ گئے اور ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے۔ گاڑی میں بیٹھ کر سعد اللہ صاحب نے جو کمپنی کی جانب سے پراجیکٹ آرکیٹیکچر کے فارئض سرانجام دیتے ہیں، آفس ٹیلیفون کرکے انہیں ہماری بازیابی کی اطلاع دی اور ہم جبل ظنہ کے لیے روانہ ہوئے۔

گاڑی ابوظبی سے باہر نکلی اور حمیم، بینونہ، مرفا اور طریف سے ہوتی ہوئی جبل ظنہ کی جانب رواں دواں تھی۔مرکزی شاہراہ پر روئیس کی جانب آخری موڑ کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے ہم بالآخر جبل ظنہ کی جانب مڑ گئے۔ اسی ویرانے میں کچھ دس منٹ بعد ہمیں ایک چوراہا نظر آیا جس دائیں جانب جبل ظنہ اور بائیں جانب شوئیہات کے لئے مڑنے کی ہدایات موجود تھیں۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ڈرائیور نے نہایت اطمینان کے ساتھ گاڑی بائیں جانب موڑدی۔

پانچ منٹ مزید تیز ڈرائیونگ کے بعد ہم دلما فیر ی اسٹیشن سے چند قدم پہلے نیشنل کیٹرنگ کمپنی کے کیمپ میں داخل ہوئے اور پوٹا کیبنوں کی قطار کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک جگہ جاکر رک گئے۔ قریب ہی ایک پوٹا کیبن سے ایک صاحب نکلے اور ہمیں خوش آمدید کہا اور اپنا تعارف کروایا۔ یہ صاحب بولوس ابراہیم تھے۔ اوہو تو یہی صاحب تھے جنہوں نے اسکائیپ پر کسی عبداللطیف صاحب سے ہمارا انٹرویو کروایا تھا۔یہی موجودہ مہندس تھے جن کی کرسی ہمیں سنبھالنی تھی۔انہوں نے ساتھ چل کر ایک دوسرے پوٹا کیبن میں ہمیں اپنے کمرے تک پہنچایا اور پھر واپس ہمارے ساتھ آکر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ہم اپنا سامان اپنے کمرے میں چھوڑ چکے تھے اور اب پراجیکٹ سائیٹ آفس جانے کے لیے تیار تھے۔
اس ویرانے کو دیکھ کر بار بار ہماری زبان پر فیض کا یہ شعر آرہا تھا
ہم سے کہتے ہیں چمن والے ، غریبانِ چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام​

کمپنی والوں نے دلما فیری کے اجاڑ فیری اسٹیشن کے ساتھ بنے اس ویران رہائشی کیمپ کا نام جبل ظنہ رکھ چھوڑا تھا جو اصل جبل ظنہ ہوٹل ریسورٹ سے کوسوں دور تھا۔
جاری ہے
نایاب سید عاطف علی
جاسمن الف عین فرحت کیانی راشد اشرف
محمد وارث سید شہزاد ناصر حمیرا عدنان
 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت خوب خلیل بھائی۔ حسب روایت دلچسپ اور آخر تک پڑھنے پر مجبور کرنے والی تحریر۔ بہت شکریہ :)۔

بقیہ احوال کا شدت سے انتظار رہے گا۔
 

نایاب

لائبریرین
خوب لکھا ہے محترم بھائی
لگے یوں کہ ہم بھی ساتھ ہیں ۔۔۔۔۔
منتظر مزید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
image_zpsjhasrz2r.jpeg

امارات ائر لائینز کا پرتکلف ڈنر جو ہماری بٹیا درِشہوار نے دبئی آتے ہوئے ہمیں جلانے کی خاطر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت عمدہ خلیل صاحب

خلیل بھائی ۔ کوئی دس پندرہ برس قبل کی کچھ یادیں تازہ ہو گئیں ۔
ایک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے۔۔۔:)
شاہ جی آپ کی آج کل ہائے ہائے بہت نکل رہی ہے پہلے کلکتہ ہائے ہائے اب یہاں بھی ۔ خیریت تو ہے سب؟ :)
 
بہت خوب خلیل بھائی۔ حسب روایت دلچسپ اور آخر تک پڑھنے پر مجبور کرنے والی تحریر۔ بہت شکریہ :)۔

بقیہ احوال کا شدت سے انتظار رہے گا۔
یونہی ہماری تحریریں پڑھتی رہیے اور یونہی تبصرے فرماتی رہیے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے
 
Top