شاعری سیکھیں۔ (ابتدائی تین قسطیں ) ۔ قوافی کی ابتدائی پہچان

تمام قسطیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
”شاعری سیکھیں“ سلسلے کی ابتدائی تین قسطیں
پہلی قسط
محترم قارئین!آج ہم آپ کو ایک خوشی کی بات بتاتے ہیں، مگر پہلے یہ بتائیے کہ کیا آپ نے کبھی کوئی شعر یا نظم بنائی ہے؟ اگر نہیں تو ہم آپ کو سکھاتے ہیں۔
یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ حروف سے مل کر لفظ بنتا ہے اور لفظوں سے مل کر جملہ اور جملوں سے مل کر مضمون یا کہانی وغیرہ بنتا ہے۔
بالکل اسی طرح نظم بنتی ہے شعروں سے مل کر اور شعر بنتا ہے مصرعوں اور قافیے سے مل کر اور مصرع بنتا ہے ارکان سے مل کر اور قافیہ بنتا ہے دماغ سے۔
معلوم ہوا کہ اگر آپ کوقافیہ اور ارکان بنانا آگیا تو مصرع اور شعر بنانا بھی آجائے گا اور جب شعر بنانا آجائے گا تو کچھ اشعار بناکر آپ ایک نظم بھی بنالیں گے، پھر آپ کی نظم پڑھ کر لوگ آپ کو ڈھیر ساری داد دیں گے تو آپ کو کتنی خوشی ہوگی۔
ہے نا خوشی کی بات!

تو آئیے، اب ہم شعر مصرع، ارکان اور قافیہ بنانا سیکھتے ہیں…

سب سے پہلے ہم آپ کو قافیے سے متعلق کچھ فائدے کی باتیں بتاتے ہیں:

شعر کے آخر میں جو باوزن الفاظ آتے ہیں انھیں ’’قافیہ‘‘ کہتے ہیں، جیسے:

خوشیوں کو کرلیں عام کہ ہے عید کا یہ دن!
سب کو کریں سلام کہ ہے عید کا یہ دن!
اس شعر میں ’’عام‘‘ اور ’’سلام‘‘ قافیے ہیں۔

ان دونوں لفظوں میں غور کریں، دونوں کے آخر میں ’’م‘‘ ہے، اس کو ’’حرفِ روی‘‘ کہتے ہیں۔

آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہورہا ہوگا کہ ’’عام‘‘ اور ’’سلام‘‘ قافیہ ہیں تو ان دونوں کے بعد ’’کہ ہے عید کا یہ دن‘‘ بھی تو آرہا ہے، یہ کیا ہے؟ تو یہ بھی جان لیجیے کہ ایسے الفاظ جو نظم میں قافیے کے بعد بار بار آرہے ہوں، انھیں ’’ردیف‘‘ کہا جاتا ہے۔

ماشاءاللہ اب تک آپ نے تین چیزیں سمجھ لی ہیں:
1۔قافیہ
2۔حرفِ روی
3۔ردیف

اب انھی تین چیزوں کو ایک اور مثال سے سمجھ لیتے ہیں:

ہر اک ہے مجھ سے تنگ تو میرا ہے کیا قصور!
مجھ کو نہیں ہے ڈھنگ تو میرا ہے کیا قصور!
اس شعر میں ’’تنگ‘‘ اور ’’ڈھنگ‘‘ قافیہ ہیں۔
ان دونوں لفظوں میں ’’گ‘‘ حرفِ روی ہے۔
’’تو میرا ہے کیا قصور‘‘ ردیف ہے۔

کام:
کسی بھی نظم میں غور کیجیے اور اس کے تمام قافیے، ان قافیوں میں آنے والا حرفِ روی اور ردیف لکھیے۔

دوسری قسط
پچھلی قسط میں ہم نے قافیہ، ردیف اور حرفِ روی کو مثالوں سے سمجھا تھا، اس دفعہ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم قافیہ خود بنانا سیکھیں گے۔
یہ تو معلوم ہو ہی گیا ہے کہ شعر کے آخر میں جو ہم آواز الفاظ آتے ہیں انھیں ’’قافیہ‘‘ کہتے ہیں۔ اب اسے مثالوں سے سمجھیں:
مثال نمبر۱: کامل، عامل، شامل، عادل، ساحل، باطل، قاتل، جاہل، کاہل، حاصل، قابل، نازل۔
مثال نمبر۲: رحمان،ارمان، مہمان، نعمان، احسان، انسان، سنسان،گھمسان، سلطان، شیطان۔
مثال نمبر۳: آم، بام، تام، جام، خام، دام، شام، عام، کام، گام، لام، نام۔
مثال نمبر۴: اور، بور، چور، ، زور، شور، ، مور۔
مثال نمبر۵: اٹک، بھٹک، پھٹک، چٹک، کھٹک، لٹک، کسک، چسک، سسک، بلک، پلک، جھلک، چھلک، ڈھلک، فلک، چمک، دھمک، نمک، کمک۔
اب ہم آپ کو قافیے سے متعلق کچھ اہم باتیں بتاتے ہیں:
٭قافیہ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کی عربی جمع ’’قوافی‘‘ اور اردو جمع ’’قافیوں‘‘ اور ’’قافیے‘‘ ہے۔
٭قافیوں میں آخری اصلی حرف کا بالکل ایک جیسا ہونا ضروری ہے، دیکھیے مثال نمبر۱ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ل‘‘ آرہا ہے۔اسی طرح مثال نمبر۲ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ن‘‘۔ مثال نمبر ۳ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’م‘‘۔ مثال نمبر۴ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ر‘‘ اور مثال نمبر۵ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ک‘‘ آرہا ہے، اسی کو حرفِ روی کہتے ہیں۔
٭قافیوں میں آخری اصلی حرف اگر ساکن ہو تو اس سے پہلے والے حرف کی حرکت کا ایک ہونا بھی ضروری ہے، دیکھیے مثال نمبر۱ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ل‘‘ سے پہلے والے حرف کے نیچے زیر ہے۔
٭اگر پہلے قافیے میں آخری اصلی ساکن حرف سے پہلے ’و‘، ’ی‘ یا ’ا‘ ہو اور ساکن ہو تو ہر قافیے میں آخری اصلی ساکن حرف سے پہلے اس ’و‘، ’ی‘ یا ’ا‘ کا ہونا ضروری ہے۔ دیکھیے مثال نمبر۲ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ن‘‘ ہے اور ’’ن‘‘ سے پہلے ’’ا‘‘ ہے، اسی طرح مثال نمبر۳ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’م‘‘ اور اس سے پہلے ’’ا‘‘ ہے، اسی طرح مثال نمبر۴ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ر‘‘ سے پہلے ’’و‘‘ ہے۔
٭قافیوں کے آخر میں کم از کم ایک حرف کا بار بار آنا تو ضروری ہے، مگر ایک سے زیادہ جتنے حروف بار بار آئیں گے تو قافیوں میں اتنا ہی حسن پیدا ہوگا، دیکھیے مثال نمبر۱ میں عامل اور کامل، ان دونوں میں آخر میں ’’ل‘‘ ہے اور دونوں میں ’’ل‘‘ سے پہلے ’’ام‘‘ بھی ہے۔ اسی طرح مثال نمبر۲ میں رحمان، ارمان، مہمان، نعمان۔ ان چاروں کے آخر میں ’’م‘‘، ’’ا‘‘ اور ’’ن‘‘ تینوں آرہے ہیں۔

کام:
’’اطاعت‘‘، ’’کریم‘‘، ’’عابد‘‘، ’’ولی‘‘ ، ’’انوار‘‘ ، ’’معصوم‘‘ ، ’’اقوال‘‘ ، ’’آباد‘‘ ان میں سے ہر ایک کے وزن پر کم از کم دس دس الفاظ لکھیے۔


تیسری قسط
محترم قارئین! سب سے پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ کیا پچھلی دونوں قسطوں میں دیا گیا کام آپ نے کرلیا ہے یا نہیں؟ اگر کرلیا ہے تو ’’اَلْحَمْدُ ِﷲ!‘‘ کہیں۔
اور اگر آپ نے پچھلا کام نہیں کیا تو پہلے پچھلا کام کریں، پھر یہ قسط حل کریں۔
پچھلی قسط میں ہم نے ’’قافیہ‘‘ خود بنانا سیکھا۔ قافیے سے متعلق بہت سی اہم اہم باتیں بھی سامنے آئیں، اب ہم ان شاء اللہ قافیے سے متعلق مزید دل چسپ باتیں سیکھیں گے۔
قافیوں کے آخر میں جتنے حروف ایک جیسے ہوں گے، قوافی اتنے ہی عمدہ ہوں گے، اس لحاظ سے قوافی کے ہم عقلی طور پر چار درجات بناسکتے ہیں:
1۔درست قافیے 2۔اچھے قافیے 3۔بہتر قافیے 4۔بہترین قافیے۔

1۔درست قافیے: وہ قافیے جن میں صرف آخری حروف ایک جیسے ہوں، باقی سب الگ الگ ہوں، جیسے: جمالی اور گاڑی۔ یہ دونوں لفظ باوزن تو ہیں، مگر ان میں عمدگی نہیں ہے۔

2۔اچھے قافیے: وہ قافیے جن کے آخر میں ایک سے زیادہ حروف ایک جیسے ہوں، جیسے: جمالی اور چنبیلی، ان دونوں کے آخر میں ’’ی‘‘ بھی ہے اور ’’ل‘‘ بھی، لہٰذا یہ قافیے پہلی قسم کی نسبت اچھے ہیں۔

3۔بہتر قافیے: وہ قافیے جن میں زیادہ تر حروف ایک جیسے ہوں، جیسے جمالی اور کمالی، ان دونوں میں صرف ’’ج‘‘ اور ’’ک‘‘ کا فرق ہے۔ دونوں میں ’’مالی‘‘ آرہا ہے، لہٰذا یہ قافیے دوسری قسم سے بھی زیادہ اچھے اور بہتر ہیں۔

4۔بہترین قافیے: وہ قافیے جن میں سارے حروف ایک جیسے ہوں، جیسے جمالی(جمال سے) اور جما لی(جمانا سے)، ان دونوں میں سارے حروف ایک جیسے ہیں ، مگر لفظ دونوں الگ الگ ہیں ، لہٰذا یہ سب سے اچھے اور عمدہ قافیے ہیں۔
بالآخر ہم نے بھی محفل جمالی ہے
یہ محفل کتنی پیاری اور جمالی ہے​

ایک اور مثال ملاحظہ کریں: ’’بتانا‘‘ اس لفظ کے بھی ہم چار طرح کے قافیے بناسکتے ہیں:
1۔درست قافیے: سہارا، تماشا، تقاضا، گوارا، نکھارا، نکالا، جھماکا، پکایا۔
2۔اچھے قافیے: بہانہ ، زمانہ ، سہانا ، خزانہ ، فسانہ
3۔بہتر قافیے: جتانا، ستانا۔
4بہترین قافیہ: بتانا(امرِ تاکیدی) اور بِتانا (گزارنا)

کام:
لفظِ ’’بہانہ‘‘ سے پہلی قسم(درست قافیے) کی آٹھ مثالیں، دوسری قسم(اچھے قافیے) کی پانچ مثالیں، تیسری قسم(بہتر قافیے) کی تین مثالیں اور چوتھی قسم(بہترین قافیے) کی ایک مثال لکھیے۔

(واضح رہے کہ ’’ہ‘‘ اور ’’ا‘‘ ایک ہی حرفِ روی شمار ہوتے ہیں۔)

الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔

اگلی قسط
 
مدیر کی آخری تدوین:
بہت اعلی جناب ۔ ۔ بہت اچھے سے پڑھ لیا سب میں نے ۔ ۔ آج سے ہی میری پہلی کلاس شروع انشاللہ۔ ۔ ۔
السلام علیکم۔
محترم جناب سلمان انصاری صاحب!
محفل پر خوش آمدید۔
آپ کو اس اردو محفل اور بالخصوص اس کے ادبی زمروں میں ان شاء اللہ بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا، کیوں کہ ہم بھی قریب ایک سال سے مسلسل یہاں کے شاگردوں میں شامل ہیں۔
بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آپ اس سلسلے میں دل چسپی لے رہے ہیں۔
 

ساقی۔

محفلین
السلام علیکم

جناب محمد اسامہ سَرسَری آپ کے شروع کیے گئے سلسلے "شاعری سیکھیں" سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے بھی شوق چرایا ہے ۔ پہلی قسط کی پہلی مشق حاضر ہے "جنت کی خوشبویں" نامی نظم تو مجھے ملی نہیں اس لیے اس غزل سے پہلی مشق حاضر ہے ۔ جو غلطیاں میری مشق میں پائیں مجھے ان کے بارے میں بتا دیا کریں ۔
آپ نے مجھے پہلی قسط کی ایک اور مشق دینی ہے ۔ یعنی قافیہ، حرف روی اور ردیف نکالنے کے لیے کوئی نظم یا غزل دینی ہے ۔


جس طرف بزم میں وہ آنکھ اٹھا دیتے ہیں
دل عشاق میں ہلچل سی مچا دیتے ہیں

جام و مینا ہی پہ موقوف نہیں ان کا کرم
موج میں آئیں تو آنکھوں سے پلا دیتے ہیں

مسلک فقر کے وارث ہیں حقیقت میں وہی
گالیاں سن کے بھی جو لوگ دعا دیتے ہیں

کوئی بیٹھے تو سہی اہل نظر میں جا کر
دل کو اک آن میں آیئنہ بنا دیتے ہیں

حال دل اس نے جو پوچھا تو بھر آئے آنسو
نرم الفاظ بھی زخموں کو ہوا دیتے ہیں

تو نے دیکھا کے تیرے ہجر میں رونے والے
ہنستے ماحول میں اک آگ لگا دیتے ہیں

ایک لغزش پہ ہمیں جنت ارضی بخشی
دیکھنا یہ ہے کہ اس بار وہ کیا دیتے ہیں

خود شناسی بھی ہے تعلیم فنا کا حصہ
کوں کہتا ہے کہ ہم درس انا دیتے ہیں

وجہ بربادی دل اگر کوئی پوچھتا ہے
رونے والے تیری تصویر دکھا دیتے ہیں

اب یہی شغل ہے دن رات محبّت میں نصیر
اشک بیتے ہوئے لمحوں کو صدا دیتے ہیں

قافیہ: اٹھا ، مچا،پلا،دعا،بنا،ہوا،لگا،کیا، فنا،انا، دکھا ، صدا
حرف روی: ا (الف)
ردیف: دیتے ہیں
 
السلام علیکم

جناب محمد اسامہ سَرسَری آپ کے شروع کیے گئے سلسلے "شاعری سیکھیں" سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے بھی شوق چرایا ہے ۔ پہلی قسط کی پہلی مشق حاضر ہے "جنت کی خوشبویں" نامی نظم تو مجھے ملی نہیں اس لیے اس غزل سے پہلی مشق حاضر ہے ۔ جو غلطیاں میری مشق میں پائیں مجھے ان کے بارے میں بتا دیا کریں ۔
آپ نے مجھے پہلی قسط کی ایک اور مشق دینی ہے ۔ یعنی قافیہ، حرف روی اور ردیف نکالنے کے لیے کوئی نظم یا غزل دینی ہے ۔


جس طرف بزم میں وہ آنکھ اٹھا دیتے ہیں
دل عشاق میں ہلچل سی مچا دیتے ہیں

جام و مینا ہی پہ موقوف نہیں ان کا کرم
موج میں آئیں تو آنکھوں سے پلا دیتے ہیں

مسلک فقر کے وارث ہیں حقیقت میں وہی
گالیاں سن کے بھی جو لوگ دعا دیتے ہیں

کوئی بیٹھے تو سہی اہل نظر میں جا کر
دل کو اک آن میں آیئنہ بنا دیتے ہیں

حال دل اس نے جو پوچھا تو بھر آئے آنسو
نرم الفاظ بھی زخموں کو ہوا دیتے ہیں

تو نے دیکھا کے تیرے ہجر میں رونے والے
ہنستے ماحول میں اک آگ لگا دیتے ہیں

ایک لغزش پہ ہمیں جنت ارضی بخشی
دیکھنا یہ ہے کہ اس بار وہ کیا دیتے ہیں

خود شناسی بھی ہے تعلیم فنا کا حصہ
کوں کہتا ہے کہ ہم درس انا دیتے ہیں

وجہ بربادی دل اگر کوئی پوچھتا ہے
رونے والے تیری تصویر دکھا دیتے ہیں

اب یہی شغل ہے دن رات محبّت میں نصیر
اشک بیتے ہوئے لمحوں کو صدا دیتے ہیں

قافیہ: اٹھا ، مچا،پلا،دعا،بنا،ہوا،لگا،کیا، فنا،انا، دکھا ، صدا
حرف روی: ا (الف)
ردیف: دیتے ہیں
بہت خوب جناب۔۔۔۔۔

اب اس غزل کے قوافی ، حرف روی اور ردیف کا تعین فرمادیں:

وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں

دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں

تھی وہ اک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں

ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں‌طاقت، جگر میں حال کہاں

ہم سے چھوٹا "قمار خانۂ عشق"
واں جو جاویں ، گرہ میں مال کہاں

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں

مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
 

ساقی۔

محفلین
بہت خوب جناب۔۔۔ ۔۔

اب اس غزل کے قوافی ، حرف روی اور ردیف کا تعین فرمادیں:

وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں

دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں

تھی وہ اک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں

ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں‌طاقت، جگر میں حال کہاں

ہم سے چھوٹا "قمار خانۂ عشق"
واں جو جاویں ، گرہ میں مال کہاں

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں

مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
بہت شکریہ، نوازش۔

قافیہ: وصال، سال ،جمال،خال ،خیال،حال،مال، وبال، اعتدال
حرف روی: ل
ردیف: کہاں
 

ساقی۔

محفلین
قسط نمبر دو کی اسائنمنٹ حاضر ہے ۔ بھائی محمد اسامہ سَرسَری

اطاعت ، شجاعت، ذراعت، عنایت، فراغت،حفاظت،رقابت، نیابت،کتابت،اشاعت، نقاہت،امامت
کریم ،سلیم،ندیم،نسیم،حطیم،شمیم،حلیم،نیم،میم،
عابد،زاہد،ساجد،جدو جہد،واجد،ماجد،حاسد،واحد،احد،بد،قاصد
ولی،علی،کلی،نلی،گلی،قلی،چلی،ملی،املی،دلی،کھلی،جھلی
انوار،احرار،اقرار،اقتدار،شاہسوار،قرار،پیار،ہزار،بیوپار،سزاوار،پیداوار
معصوم،مسموم،نجوم،قیوم،مقسوم،مخدوم،کروموسوم،موم،ہجوم،
اقوال،احوال،اشکال،نکال،دجال،کمال،ہلال،حلال،زوال،شوال،غزال،قوال
آباد،برباد،شداد،اجداد،حماد،کماد،ضماد،شمشاد،شہزاد،اضداد

مزید اپنی طرف سے اضافہ

کرسی، جرسی، چرسی،سی سی ،پیپسی،حبیبی،برسی،جلیبی،جالی،کالی، مالی، لالی، حالی، سوالی،دجالی، قوالی
انعام، غلام، اکرام،اسلام، انتقام،حمام، نظام، انتظام،اختتام،اختشام،کلام،مقام،زکام،کام،نام،ناکام، بدنام، ہم نام،گم نام،بے نام،انضمام،عظام
موبائل، حمائل،رزائل،آئل،مائل،دلائل،میکائل،عزائیل،اسرا ئیل،جبرائیل،
کمپیوٹر، کبوتر،کمتر،برتر،مہتر،بہتر،بدتر،شتر،چلتر،سوتر
کتاب،مہتاب،آفتاب،عقاب،گلاب،شراب،شباب، نواب، حجاب، ثواب، عذاب،شتاب،خراب
ملک،فلک، جھلک، ملک،تک،بک،شک،کسک،دھک،چک
جلدی، ہلدی، حیدری،الماری،دری،چوہدری،سرسری،ہری،شہری،انصاری،اقراری،زرداری،بیماری،غمخواری،افطاری،مداری،کٹاری،کستوری،
کوٹ،بوٹ،لوٹ،سوٹ، ریموٹ،ہوٹ،چوٹ،کھوٹ،ووٹ،نوٹ،چنیوٹ،اخروٹ
شیشہ، تیشہ، پیشہ، پتیسہ،تپسیہ،سندیسہ،ہریسہ،سیسہ،نفیسہ،حریصہ
ملالہ،لالہ،نوالہ،حلالہ،سلالہ،پیالہ،شملہ،شمیلہ،لیلہ،ژالہ
 
اطاعت ، شجاعت، ذراعت(زراعت) ، عنایت، فراغت،حفاظت،رقابت، نیابت،کتابت،اشاعت، نقاہت،امامت
کریم ،سلیم،ندیم،نسیم،حطیم،شمیم،حلیم،نیم،میم،
عابد،زاہد،ساجد،جدو جہد،احد،بد(حرف روی ساکن ہو تو ماقبل کی حرکت میں مطابقت ضروری ہے) ،واجد،ماجد،حاسد،واحد،قاصد
ولی،علی،کلی،نلی،گلی،قلی،چلی،ملی،املی،دلی،کھلی،جھلی
انوار،احرار،اقرار،اقتدار،شاہسوار،قرار،پیار،ہزار،بیوپار،سزاوار،پیداوار
معصوم،مسموم،نجوم،قیوم،مقسوم،مخدوم،موسوم،ہجوم، موم(اگر حرف روی ساکن ہو اور اس کا ماقبل بھی ساکن ہو تو ماقبل کی مطابقت ضروری ہے، جبکہ تمام قوافی میں میم ساکن سے پہلے و ساکن معروف ہے ، لہذا موم جس میں و مجہول ہے معصوم وغیرہ کا قافیہ نہیں بن سکتا)
اقوال،احوال،اشکال،نکال،دجال،کمال،ہلال،حلال،زوال،شوال،غزال،قوال
آباد،برباد،شداد،اجداد،حماد،کماد،ضماد،شمشاد،شہزاد،اضداد

مزید اپنی طرف سے اضافہ (بہت عمدہ)

کرسی، جرسی، چرسی،سی سی ،پیپسی،حبیبی،برسی،جلیبی،جالی،کالی، مالی، لالی، حالی، سوالی،دجالی، قوالی
انعام، غلام، اکرام،اسلام، انتقام،حمام، نظام، انتظام،اختتام،اختشام،کلام،مقام،زکام،کام،نام،ناکام، بدنام، ہم نام،گم نام،بے نام،انضمام،عظام
موبائل، حمائل،رزائل،آئل،مائل،دلائل،میکائیل،عزائیل،اسرا ئیل،جبرائیل، (آخری چار الفاظ شروع کے تمام الفاظ کا قافیہ نہیں بن سکتے ، کیوں کہ شروع کے تمام قوافی میں حرف روی جو کہ ل ہے اس کا ماقبل مکسور ہے ، جبکہ آخری چاروں الفاظ میں حرف روی کا ماقبل ی ساکن ہے)
کمپیوٹر، کبوتر،کمتر،برتر،مہتر،بہتر،بدتر،شتر،چلتر،سوتر
کتاب،مہتاب،آفتاب،عقاب،گلاب،شراب،شباب، نواب، حجاب، ثواب، عذاب،شتاب،خراب
ملک،فلک، جھلک، ملک،تک،بک،شک،کسک،دھک،چک
جلدی، ہلدی، حیدری،الماری،دری،چوہدری(اس کا درست املا ہے: چودھری) ،سرسری ،ہری ،شہری ،انصاری، اقراری، زرداری، بیماری، غمخواری،افطاری،مداری،کٹاری،کستوری،
کوٹ،بوٹ،لوٹ،سوٹ، ریموٹ،ہوٹ،چوٹ،کھوٹ،ووٹ،نوٹ،چنیوٹ،اخروٹ(و معروف اور مجہول کا فرق ضروری ہے)
شیشہ، تیشہ، پیشہ، پتیسہ،تپسیہ،سندیسہ،ہریسہ،سیسہ،نفیسہ،حریصہ
ملالہ،لالہ،نوالہ،حلالہ،سلالہ،پیالہ،شملہ،شمیلہ،لیلہ،ژالہ
 

ساقی۔

محفلین
بھائی جی محمد اسامہ سَرسَری جی وضاحت درکار ہے۔


عابد،زاہد،ساجد،جدو جہد،احد،بد(حرف روی ساکن ہو تو ماقبل کی حرکت میں مطابقت ضروری ہے) ( تھوڑی سی وضاحت کریں ۔۔سمجھا نہیں )،واجد،ماجد،حاسد،واحد،قاصد

معصوم،مسموم،نجوم،قیوم،مقسوم،مخدوم،موسوم،ہجوم، موم(اگر حرف روی ساکن ہو اور اس کا ماقبل بھی ساکن ہو تو ماقبل کی مطابقت ضروری ہے، جبکہ تمام قوافی میں میم ساکن سے پہلے و ساکن معروف ہے ، لہذا موم جس میں و مجہول ہے معصوم وغیرہ کا قافیہ نہیں بن سکتا)(یہ معروف و مجہول کس بلا کا نام ہے):(



موبائل، حمائل،رزائل،آئل،مائل،دلائل،میکائیل،عزائیل،اسرا ئیل،جبرائیل، (آخری چار الفاظ شروع کے تمام الفاظ کا قافیہ نہیں بن سکتے ، کیوں کہ شروع کے تمام قوافی میں حرف روی جو کہ ل ہے اس کا ماقبل مکسور ہے ، جبکہ آخری چاروں الفاظ میں حرف روی کا ماقبل ی ساکن ہے)(شکریہ)

ملک،فلک، جھلک، ملک،تک،بک،شک،کسک،دھک،چک(مُلک،مِلک)

کوٹ،بوٹ،لوٹ،سوٹ، ریموٹ،ہوٹ،چوٹ،کھوٹ،ووٹ،نوٹ،چنیوٹ،اخروٹ(و معروف اور مجہول کا فرق ضروری ہے) (یہ بلا پھر آگئی)
 
عابد،زاہد،ساجد،جدو جہد،احد،بد(حرف روی ساکن ہو تو ماقبل کی حرکت میں مطابقت ضروری ہے)( تھوڑی سی وضاحت کریں ۔۔سمجھا نہیں )
حرف روی قوافی کے آخر میں آنے والے اس حرف کو کہتے ہیں جس کا تمام قوافی میں آنا ضروری ہے ، جیسے عابد ، زاہد ساجد تینوں قوافی ہیں ، ان کے آخر میں د ہے جو کہ حرف روی ہے، اب اگر حرف روی ساکن ہو یعنی اس پر زبر زیر اور پیش نہ ہو تو اس سے پہلے والے حرف کی حرکت یعنی زبر ، زیر یا پیش کا ایک جیسا ہونا ضروری ہے جیسے عابد ، زاہد اور ساجد میں د سے پہلے والے حرف کے نیچے زیر ہے ، اب ان تینوں مثالوں کے مقابلے میں ہم لفظ ”جہد“ کو دیکھیں ، اس کے آخر میں د تو ہے مگر د سے پہلے والے حرف یعنی ہ کے نیچے زیر نہیں ہے بلکہ ہ ساکن ہے لہذا ”جہد“ کو ”ساجد“ ، ”زاہد“ وغیرہ کا قافیہ نہیں بنایا جاسکتا۔
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
حرف روی قوافی کے آخر میں آنے والے اس حرف کو کہتے ہیں جس کا تمام قوافی میں آنا ضروری ہے ، جیسے عابد ، زاہد ساجد تینوں قوافی ہیں ، ان کے آخر میں د ہے جو کہ حرف روی ہے، اب اگر حرف روی ساکن ہو یعنی اس پر زبر زیر اور پیش نہ ہو تو اس سے پہلے والے حرف کی حرکت یعنی زبر ، زیر یا پیش کا ایک جیسا ہونا ضروری ہے جیسے عابد ، زاہد اور ساجد میں د سے پہلے والے حرف کی نیچے زیر ہے ، اب ان تینوں مثالوں کے مقابلے میں ہم لفظ ”جہد“ کو دیکھیں ، اس کے آخر میں د تو ہے مگر د سے پہلے والے حرف یعنی ہ کے نیچے زیر نہیں ہے بلکہ ہ ساکن ہے لہذا ”جہد“ کو ”ساجد“ ، ”زاہد“ وغیرہ کا قافیہ نہیں بنایا جاسکتا۔
ایک سوال ذہن میں آیا ہے، سو پیشِ خدمت ہے:
بعض الفاظ جیسا کہ مُلحد ہے، میں ح اور د کے جوڑ میں ح پر نہ تو زبر ہے، نہ زیر اور نہ ہی پیش اور نہ ہی کچھ اور علامت، پھر بھی یہ ح ساکن نہیں ہے۔ اس علامت یا اس کو کیا نام دیں گے؟
 
Top