عشق کے حوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
درد کی مثالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
میں کہوں محبت میں جان بھی لٹا دونگا
میرے ان خیالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
عاجزی تو لازم ہے پر اَنا کے عادی ہیں
سر جھکانے والوں سے اُن کو خوف آتا ہے
پوچھ لوں کبھی اُن سے ساتھ کب تلک دینگے
میرے ان سوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
بوجھ اپنے کاندھے پہ میں اُٹھاوں صدیوں کا
گزرے چند سالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
کیوں عظیم آئیں وہ تجھ سے ملنے اس گھر میں
اُجڑے گھر کے جالوں سے اُن کو خوف آتا ہے