فکر و فن ( ٹائپنگ جاری۔۔)

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۰۶

حرف روی ہے یا گنواروں اور کہاروں میں "رون" حرف روی ہیں مگر دل اور کابُل کا قافیہ اس لئے نہیں ہو سکتا کہ حرکت ما قبل بدل جاتی ہے جس کا ابھی ذکر کیا جائیگا۔ اسی طرح جوتیوں اور چپلوں کا قافیہ بھی غلط ہو گا۔ حالانکہ یہاں واؤ اور نون دونوں حرف روی ہیں مگر یہ دونوں اردو جمعہ کے ہیں۔ جوتی اور چپل ہم قافیہ نہیں۔

حرکت ما قبل روی : قافیہ میں اس حرکت کا ہونا بہت ضروری ہے اور یہ حرکت مستقل ہونا چاہیے ورنہ قافیہ غلط ہو جائے گا۔ یہ حرکت روی سے پیشتر ہوتی ہے اور بعد میں بھی۔ بہرحال حروف روی کی حرکت یکساں ہونا لازمی ہے۔ تماشوں اور ہمایوں کا قافیہ ناجائز ہو گا کہ حرکت ما قبل روی میں اختلاف ہے اور اس کا اثر حروف روی واؤ نون کے تلفظ میں اختلاف پیدا کرتا ہے۔

ایطا : بٖغیر اس کے کام نہیں چلتا۔ بظاہر چپلوں اور جوتیوں، بیسیوں قافیہ بنانے میں کوئی عیب نہیں مگر ان میں حروف روی ندارد ہونے کی وجہ سے قافیہ غلط ہو جاتا ہے اور حروف روی پر قافیہ کی اساس قائم ہے۔ اس سبب سے ایطا اور وہ بھی جلی کو جز و قافیہ تصور کرنا چاہیے۔

نوٹ : میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مذکورہ بالا اصول پر اگر قافیہ کو جانچا جائے اور ترکیب دی جائے تو مبتدی حضرات کو فن قافیہ میں بہت زیادہ آسانی ہو جائیگی۔ کوئی چھوٹا یا بڑا قافیہ ایسا نہیں ہو سکتا جو اس اصولوں پر منطبق نہ کیا جا سکے۔ لزوم ما لا یلزم بھی ان اصولوں کے سامنے کوئی عمومیت نہیں رکھتا۔

ردیف : (ء) بروزن خفیف بمعنی وہ شخص جو سوار کے پیچھے ہو، چونکہ ردیف بیت کے آخر میں واقع ہوتی ہے اس لیے ردیف کہا گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۰۷

اصطلاحات علم ہجا

ہجا : (ء) بروزن ندا، بمعنی ہجو کرنا۔ اصطلاحاً وہ علم جس سے حروف کی آوازیں اور ان کا متحرک و ساکن ہونا معلوم ہو۔

حرف : (ء)، برون صرف، بمعنی سخن، کنارہ۔ اس کی جمع حروف ہے۔ انسان کے منہ سے جو مختلف آوازیں نکلتی ہیں ان کو تحریر میں لانے کے لئے جو علامتیں اور نشان مقرر کئے گئے ہیں ان کو حروف کہتے ہیں۔ حروف مقررہ کے ملنے سے لفظ بنتا ہے مگر لفظ کے لئے حرکات و سکنات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جملہ حروف مفردہ کو حروف تہجی کہتے ہیں۔

لفظ : (ء) بروزن شرم، بمعنی جو منہ سے نکلے۔ الفاظ اس کی جمع ہے۔الفاظ ان مختلف آوازوں کو کہتے ہیں جو انسان کے منہ سے اظہارِ خیال کے موقع پر نکلتی ہیں۔ جیسے دل، نظر وغیرہ۔

کلمہ : (ء) بروزن کلمن، معنی مفرد لفظ بامعنی۔ الفاظ کے باہمی مجموعہ کو کلمہ کہتے ہیں۔ اساتذہ اس کو بروزن عرصہ بھی لکھتے ہیں۔

اعراب : (ء)، بروزن انعام۔ بمعنی واضح اور روشن کرنا۔ وہ حرکات و سکنات جن کی مدد سے لفظ بنتے ہیں۔ حرکات حسب ذیل ہیں :

فتحہ، کسرہ اور ضمہ۔

فتحہ : (ء) بروزن پردہ، بمعنی زبر۔ اردو میں اس کو زبر ہی کہتے ہیں۔ یہ حرکت ہمیشہ حرف کے اوپر ہوتی ہے اور اس کی یہ علامت ( َ ) ہے۔ عربی میں اس کو نصب و فتحہ کہتے ہیں اور یہ حرکت جس حرف پر ہوتی ہے اس کو
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۰۸

منصوب و مفتوح کہتے ہیں جیسے سَر میں سین مفتوح ہے۔

کسرہ : (ء) بروزن پردہ، بمعنی زیر۔ فتحہ کی ضد۔ اس حرکت کو ہمیشہ حرف کے نیچے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس کی علامت زبر کی طرح ہوتی ہے۔ عربی میں اس جریا و کسرہ کہتے ہیں اور جس حرف سے یہ حرکت متعلق ہوتی ہے اس کو مجرورا در مکسور کہتے ہیں۔ جیسے دل میں دال مکسور ہے۔ اردو میں اس کو زیر کہتے ہیں۔

ضمہ : (ء) بروزن لمحہ۔ بمعنی پیش کی حرکت۔ یہ حرکت بھی ہمیشہ حروف کے اُوپر ہوتی ہے۔ اور اس کی علامت یہ ( ُ ) ہے۔ عربی میں اس کو رفع اور ضمہ کہتے ہیں اور جس حرف پر یہ حرکت ہوتی ہے اس کو مرفوع و مضموم کہتے ہیں۔ جیسے ظلم میں طوئے مضموم ہے۔

نوٹ : کبھی مذکورہ بالا حرکات کو کھینچ کر ظاہر کیا جاتا ہے اور ایسی صورت میں زبر الف کی آواز، زیر ‘ی‘ کی آواز اور پیش واؤ کی آواز دیتا ہے۔ اس کو اثباع کہتے ہیں۔ جیسے رحمن، لہٰ بہ لکھنے میں، مگر پڑھنے میں اور تقطیع میں رحمان، لہو، بہی تصور کرتے ہیں۔

رُوم : (ء) بروزن نُوم۔ چُھپی ہوئی حرکت کو کہتے ہیں۔ جیسے پیار، پیاس میں ی کی حرکت۔

[TODO: Add Chart]​
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۰۹

سکنات : (ء) بروزن درجات۔ بمعنی ساکنیں اصطلاح میں جزم اور وقف کو کہتے ہیں۔

جزم : (ء) بروزن بزم، بمعنی ساکن کرنا۔ یہ علامت حرف پر آواز ٹھہرنے کو ظاہر کرتی ہے اور اس کو (’ ) اس طرح ظاہر کرتے ہیں۔ جس حرف پر یہ علامت ہوتی ہے اس کو رَدَہ یا ساکن کہتے ہیں۔ جیسے دِل’ میں دال مکسور اور لام ساکن ہے۔

وَقف : (ء) بروزن حرف بمعنی ٹھہرنا۔ یہ بھی آواز ٹھہرنے کو ظاہر کرتا ہے مگر یہ ساکن کے بعد آتا ہے۔ اور جس حرف پر ہوتا ہے اس کو موقوف کہتے ہیں۔ جیسے شام میں ش مفتوح، الف ساکن اور میم موقوف ہے۔ واضح ہو کہ ساکن سے پہلے ہمیشہ متحرک حرف ہو گا۔ اور موقوف سے پہلے ساکن کا ہونا لازمی ہے۔

تشدید : (ء) بروزن تردید، بمعنی سخت کرنا۔ اصطلاحاً ایک ہی حرف کے متحرک اور ساکن ہونے کو کہتے ہیں۔ لکھنے میں یہ حرف دو جگہ نہیں لکھا جاتا مگر پڑھنے میں اور تقطیع میں دو حرف شمار ہوتے ہیں۔ پہلا ساکن دوسرا متحرک۔ اس کو ہمیشہ حرف کے اوپر ( ّ ) اس نشان سے ظاہر کرتے ہیں۔ تشدید جس پر ہوتی ہے اس کو مشدّد کہتے ہیںس۔ جیسے بلّی، کتّا میں لام اور ت مشدّد ہے۔

تنوین : (ء) تنوین صرف عربی الفاظ کے ساتھ مستعمل ہے۔ اردو فارسی میں نہیں آتی۔ افضل التفضیل پر بھی تنوین نہیں آتی ہے۔ جس عربی لفظ کے آخر میں حرف تا نہ ہو تو زبر کی تنوین ظاہر کرنے کے لئے اس لفظ
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۱۰

کے آخر میں الف بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے نسل سے نسلاً مگر زیر اور پیش کی صورت میں الف نہیں بڑھاتے جیسے نسل، صم۔ جس حرف پر تنوین آتی ہے اس کو مُنون کہتے ہیں۔

[TODO: Add Chart]
حروف تہجی : (ء) حروف کی مختلف آوازیں اور جملہ حرکات و سکنات کی وہ علامتیں جو تحریر میں لانے کے لئے وضع کی گئی ہیں، عربی میں اٹھائیس ۲۸ ہیں۔ ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ع غ ف ک ق ل م ن و ہ ی۔

فارسی میں بتیس ۳۲ حروف ہیں یعنی پ چ ژ گ زائد ہیں۔ اردو میں ٹ ڈ ڑ لا ھ ء اور ے زائد ہیں یعنی انتالیس ۳۹ حروف ہیں۔ موجودہ ادب میں بھ پھ تھ ٹھ جھ چھ دھ ڈھ رح ڑھ کھ گھ لھ مھ نھ ہندی کے لئے مخصوص کر دیئے گئے ہیں۔ حروف تہجی کو ابجد بھی کہتے ہیں۔

ابجد : (ء) بروزن سرکش۔ بمعنی آغاز کرو۔ حروف تہجی کے چار ابتدائی حروف – حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں اٹھائیس ۲۸ حروف کو سات مربع الفاظ میں تقسیم کر دیا گیا تھا اور ان کی شکل حسب ذیل تھی :

انتث، جمحذ، ذرزس، شفظ، ظعفف، قکلم، نوہی (۷)

حضرت ادریس علیہ السلام نے حسب ذیل آٹھ لفظوں میں بامعنی ترتیب دیا۔

(۱) ابجد، (۲) ہوز - درپیوست، (۳) حطی – واقف گشت (۴) کلمن - بنحنگوشد (۵) سعفص – ازوبیا موخت، (۶) قرشت – ترتیب کرد، (۷) ثخذ – دردل گرفت، (۸)
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۵۱

[TODO: Add Chart]

اسم کا بیان أ اسم اپنی ساخت اور بناوٹ کے اعتبار سے تین قسم کا ہوتا ہے :

جامد – مصدر – مشتق

جامد : (ء) بروزن زاہد، بمعنی بستہ، منجمد، جما ہوا۔ یہ وہ اسم ہوتا ہے جس سے نہ کوئی لفظ نکلے نہ وہ کسی لفظ سے حاصل کیا گیا ہو۔ جیسے اونٹ، پہاڑ، ندی وغیرہ۔

اسم جامد کی دو قسمیں ہیں۔ اسم خاص یر معرفہ اور اسم عام یا نکرہ۔ ان اقسام کے متعلق آئندہ لکھا جائے گا۔

مصدر : (ء) بروزن سرور۔ بمعنی نکلنے کی جگہ۔ وہ کلمہ جس سے اور بہت سے الفاظ نکلتے ہوں جیسے کھانا، کھاؤ، کھایا، کھائیں وغیرہ۔ مصدر کی علامت نا ہے جو لفظ کے آخر میں ہو۔ جیسے جانا، آنا، لکھنا وغیرہ میں مگر یہ کلیہ اس وقت تک بروئے کار نہیں آ سکتا جب تک اس نا سے لفظ میں کام کرنے یا ہونے کے معنی مراد نہ ہوں۔ چنانچہ پرانا، گھرانا، تانا اور بانا میں نا موجود ہے، مگر کام کرنے کے معنی نہیں ہیں اس لئے ان کو مصدر نہیں کہہ سکتے۔ مصدر کی خاص پہچان یہ ہے کہ اگر لفظ نا دور کر دیا جائے تو امر کا صیغہ رہ جائے۔ جیسے پڑھنا سے نا دور کر دیا تو پڑھ رہ گیا جو امر کا صیغہ ہے۔

مُشتق : (ء) بروزن مضطر، بمعنی نکالا ہوا۔ وہ کلمہ جو کسی اور کلمہ سے نکلا ہو۔ واضح ہو کہ مشتق اسم بھی ہوتا ہے۔ اور فعل بھی۔ جیسے کرنا سے کرنے والا، کیا ہوا، نکلے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۵۲

[TODO: Add Chart]

اسم معرفہ : وہ اسم کسی خاص شخص، شے یا مقام کا نام ہو۔ جیسے زید، ہمالہ، دہلی۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔ علم، اسم موصول، اسم اشارہ (۳)

اسم نکرہ : وہ اسم جو ایک قسم کے تمام افراد کے لیئے استعمال ہو۔ جیسے کتاب، قلم، داوات۔ اس کی نو (۹) قسمیں ہیں۔

اسم ذات، اسم کیفیت، حاصل مصدر، اسم کنایہ، اسم استفہام، اسم فاعل، اسم مفعول، اسم حالیہ، اسم معاوضہ (۹)

[TODO: Add Chart]

عَلَم : (ء) بروزن قلم، بمعنی نام خاص، جھنڈہ، نشان، کسی مشہور مقام یا چیز کا مشہور نام جیسے رحیم بخش، کلکتہ، گنگا وغیرہ۔ اس کی پانچ قسمیں ہیں۔

تخلص، خطاب، عرف، کنیت، لقب (۵)

تخلص : (ء) بروزن توکل، بمعنی چھٹکارا، بچاؤ، اصطلاحاً وہ نام جو شاعر اپنے اصلی
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۵۳

نام کی جگہ مقطعوں میں لکھتا ہے اور یہ نام سے مختصر ہوتا ہے۔ جیسے اسد اللہ خان کا تخلص غالبؔ ہے۔

خطاب : (ء) بروزن حساب، بمعنی روبرو بات کرنا۔ وہ نام جو کسی دربار شاہی یا کسی مستند جماعت سے اعزازی طور پر عطا ہو جیسے آصف جاہ، جنگ بہادر، شمس العلماء، خان بہادر، ملک الشعراء وغیرہ۔

عُرف : (ء) بروزن سرخ، بمعنی پہچان، مشہور، وہ نام جو محبت یا حقارت کی وجہ سے پڑ جائے یا اصلی نام مخفف کر کے بولا جائے۔ شریف الحسن عُرف منو میاں، یا بدایع الدین عرف بدھو یا بدھو سے بدھوا۔

کُنیت : (ء) بروزن مہلت، بمعنی عربی میں وہ نام جو خاندان یا رشتہ کی بنا پر استعمال ہوں اور بالعموم یہ نام اب بمعنی باپ اور اُم بمعنی ماں اور ابن بمعنی بیٹا علم کے ساتھ لگا کر بولتے ہیں۔ جیسے ابو الحسن، ام زہرا، اور ابن حیدر وغیرہ۔ مگر ہندوستان میں اس قسم کے نام بطور علم مستعمل ہیں۔ اور ان سے کوئی رشتہ مراد نہیں ہوتا۔ تاہم ماں باپ کی نسبت سے اولاد کو پُکارتے ہیں۔ جیسے زاہد کا لڑکا، کریمن کی لڑکی وغیرہ۔

لقب : (ء) بروزن عجب۔ بمعنی وہ نام جس میں معنی تعریف یا مذمت کے نکلیں۔ علم کے برخلاف کہ اُس میں کوئی معنی منظور نہیں ہوتے، اس نام کو کہتے ہیں۔ جو کسی خاص وصف یا خصوصیت کی وجہ سے پڑ جائے۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ، حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ کہتے ہیں۔

نوٹ : بعض حالات میں علم اسمِ صفت کے طریقے پر استعمال ہوتا ہے جیسے اقبالؔ اپنے وقت کا غالبؔ ہے۔ یہاں غالبؔ صفت ظاہر کرتا ہے۔ آجکل
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۵۴

کراچی پیرس ہو رہا ہے۔ یہاں پیرس صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔

[TODO: Add Chart]

اسم موصول : اس کو اسم ناقص بھی کہتے ہیں کیونکہ کہ یہ بغیر دوسرے جملہ کی مدد کے جملہ کا فاعل و مفعول یا مبتداد خبر نہیں ہو سکتا ہے اور اس کے بعد جو جملہ آتا ہے اس کو صلہ کہتے ہیں اور یہ دونوں مل کر جملہ کے اجزا ہوتے ہیں۔ مثلاً جو کتاب خریدی تھی وہ پڑھی یا نہیں۔ یہاں کتاب اسم نکرہ ہے اور جو اسم موصول۔ گویا اسم موصول، اسم نکرہ کی حالت اور کیفیت کا تعین کر دیتا ہے۔ حسب ذیل اسمائے موصولہ ہیں۔ جو، جو جو، جون، جون جون، جسے، جس کو، جس جس کو، جن کو، جنہیں، جن جن کو، جس جس نے۔ جنھوں نے، جیسا، جہاں جہاں، جدھر وغیرہ۔

نوٹ (۱) : پہلے اسم موصول کے ساتھ "کہ" زائد مستعمل تھا۔ جیسے "کہ جو" یا "جو کہ" وغرہ مگر اب فصحائے حال کہ زائد کو استعمال نہیں کرتے۔

نوٹ (۲) : اسم موصول حرف شرط کا کام بھی دیتا ہے مگر اس کی خبر میں حرف جزا کا ہونا ضروری ہے جیسے جہاں تم دو دن تک رخصت پر رہو گے وہاں ایک دن اور سہی۔ یہاں لفظ جہاں اسم موصول ہے مگر حرف شرط کا کام دیتا ہے۔ اور خبر میں وہاں حرف جزا موجود ہہے۔

نوٹ (۳) : اسماء موصولہ میں جب ظرف زماں، جہاں، جدھر ظرف مکاں، جتنا مقدار اور جیسا حرف تشبیہہ کا کام دیتے ہیں۔

اسم اشارہ : اس کو کہتے ہیں جو اسم نکرہ سے پہلے آئے اور اشارہ قریب و بعید ظاہر کرے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۵۵

جیسے یہ کتاب اچھی ہے۔ وہ کتاب بوسیدہ تھی۔ اس کتاب کا سبق دیکھو۔ اُس کتاب کو بند کرو۔ یہاں یہ وُہ اس اور اُس اسم اشارہ ہیں اور کتاب جو اسم نکرہ ہے اس کو مشارً الیہ کہتے ہیں۔

ضمیر : (ء)بروزن خمیر۔ بمعنی وہ چیز جو دلمیں گزرے۔ اسم اشارہ اور ضمیر میں صرف یہ فرق ہے کہ اسم اشارہ اسم نکرہ سے پہلے آتا ہے۔ اور ضمیر اسم کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسم نہیں آتا جیسے ہم بریلی جا رہے ہیں۔ تم کب تک پہونچو گے۔ یہاں ہم اور تم ضمیر کے کلمے ہیں۔

نوٹ (۱) : اسم اشارہ ہمیشہ اسم نکرہ کو اسم معرفہ بنا دیتا ہے کیونکہ یہ اسم نکرہ کی تعین اور تخصیص ہوتی ہے۔

نوٹ (۲) : اسم معرفہ کبھی اسم نکرہ بن جاتا ہے لیکن جب کثرت پائی جائے، جیسے دنیا میں جتنے بدھو ہیں سب بیوقوف ہیں کہاں بدھو اسم نکرہ کا کام دیتا ہے۔

نوٹ (۳) : حسب ذیل صورتوں میں اسم نکرہ کو اسم معرفہ تصور کرنا چاہیے۔

الف : حرف ندا۔ (اَے) کے بعد جب منادی ہو جیسے :

اَے دل ابھی تو دن ہیں ترے کھیل کود کے
پیری میں یاد آئے گا عالم شباب کا
یہاں دل نکرہ ہے مگر "کے" کیوجہ سے معرفہ ہو گیا۔

ب : اضافت کی حالت میں بھی نکرہ معرفہ ہو جاتا ہے۔ جیسے :

جو تم چاہو تو حالت روبصحت ہو تو سکتی ہے
مریضِ ہجر کے جینے کی صورت ہو تو سکتی ہے
یہاں مریض اضافت کی وجہ سے معرفہ ہو گیا۔

ج : معہود ہونے کی حالت میں خواہ وہ ذہنی ہو یا خارجی، معہود ذہنی جیسے عشاق کے لئے گریباں چاک لکھیں۔ یا محبوب کے لئے پیکر دلجو تحریر کریں۔ معہود خارجی جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے مسیح لائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۵۶

اسم ذات : یہ اسم کسی چیز کی ذات پر دلالت کرتا ہے مگر اس چیز کی صفت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جیسے کتا، بلی، چاند، سورج، ہوا، پانی وغیرہ۔ اس کی چھ قسمیں ہیں۔ اسم ظرف، اسم آلہ، اسم الجمع، اسم صوت، اسم مصغر، اسم بکر۔

ظرف : (ء) بروزن حرف۔ بمعنی برتن، اصطلاحاً وہ اسم جو مقام و وقت ظاہر کرے۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ ظرف مکاں جیسے گھر۔ مکان، آشیاں قفس وغیرہ۔

ظرف اماں – جیسے صبح، شام، دوپہر، سہ پہر وغیرہ۔

نوٹ : اُردو میں اسم بنانے کا کوئی قاعدہ نہیں۔

نوٹ (۲) : ہندی میں سال، سالہ، شالہ، گھٹ، گھاٹ جیسے کلموں سے پہلے دوسرے لفظ ملا کر اسم ظرف بنا لیتے ہیں۔ مثلاً ٹکسال، دھرم شالہ، پاٹ شالہ، مرگھٹ اور دھوبی گھاٹ۔

نوٹ (۳) : فارسی علامات اسم ظرف حسب ذیل ہیں : خانہ، دان، دانی، زار، شن، بان، ستان، سار، کدہ، سرا، آباد، بار، لاخ، گاہ۔ جیسے قید خانہ، قلم دان، سرمہ دانی، گلزار، گلشن، سائبان، گل ستان، کوہسار، میکدہ، مہمان سرا، اورنگ آباد، بردبار، سنگلاخ، چراگاہ، وغیرہ۔ اس کے علاوہ فارسی میں اسم کے بعد امر کا صیغہ بڑھا کر اسم ظرف بنا لیتے ہیں۔ جیسے خیز سے زرخیز، وغیرہ۔

نوٹ (۴) : اردو میں کبھی فعل سے اسم ظرف بنا لیتے ہیں جیتے بیٹھنا سے بیٹھک۔

نوٹ (۵) : کبھی مصدر سے اسم ظرف کے معنی مراد ہوتے ہیں جیسے جھرنا، رسنا وغیرہ۔

نوٹ (۶) : کبھی حسب ذیل علامتیں اسم ظرف بنانے کی معاون ہوتی ہیں۔ جیسے پور سے کان پور، نگر سے دولت نگر، ٹولہ سے فرشوری ٹولہ، وغیرہ۔

نوٹ (۷) : عربی کے اسم ظرف اردو میں بہت زیادہ مستعمل ہیں۔ اور ان کی شناخت یہ ہے کہ اس لفظ کے اول میم مفتوح ہوتی ہے اور بالعموم مفعلہ اور مفعل کے وزن پر آتے ہیں جیسے مدرسہ، مقبرہ، محفل، مجلس،
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۵۷

مسکن، مقتل، مشرق، مغرب، محشر، وغیرہ۔

نوٹ (۸) : اردو میں بعض الفاظ کے ساتھ دان فارسی کا لگا کر اسم ظرف بنا لیا ہے۔ اس کو عطف و اضافت کیساتھ لکھنا غلط ہے۔ جیسے اگالدان، پاندان، پیکدان، خاصدان، وغیرہ۔

نوٹ (۹) : ظرف مکاں، کہاں، جہاں، وہاں، کدھر، جدھر۔ یہاں وغیرہ بھی میں جیسے تم کہاں سے آئے ہو کدھر جانا ہے۔ یہاں کس مقام سے آئے ہو اور کس جگہ جاؤ گے، مراد ہے۔ ظرف زماں، جب اور جیسے ہیں۔ مثلاً جب وہ آئیں گے تو میں جاؤں گا۔ یہاں جب سے مراد جس وقت ہے۔

آلہ : (ء) بروزن پالا، بمعنی آواز۔ اردو میں وزن اور صیغہ کے لحاظ سے اسم آلہ نہیں ہے تاہم کبھی فعل سے کبھی اسم سے کبھی دو اسموں سے کبھی فارسی ہندی اسماء کے آگے کوئی علامت لگا کر یا لفظ بڑھا کر بنا لیتے ہیں۔ جیسے :

الف : فعل سے مثلاً بیلنا سے بیلن، جھولنا سے جھولا وغیرہ۔

ب : اسم میں الف، نون اور یل کے اضافے سے مثلاً ہتھوڑا، دتون، نکیل، وغیرہ۔

ج : دو اسموں سے ملکر جیسے دستپناہ، منہال وغیرہ۔

د : فارسی اسم کے بعد آنہ، ہ، گیر، کش، تراش، جیسے الفاظ سے دستانہ، چشمہ، گلگیر، بادکش، قلم تراش یا رومال وغیرہ۔

ہ : عربی کے اسم آلہ بھی اردو میں بہت زیادہ مستعمل ہیں اور ان کی شناخت یہ ہے کہ لفظ کے شروع میں میم مکسور ہوتی ہے۔ اور اکثر مفعل، مفعلہ اور مفعال کے وزن پر آتے ہیں۔ جیسے مقراض، مشعل، مسطر، منطقہ، وغیرہ۔

و : اردو میں بعض اسمائے جامد اسمائے آلہ کا کام دیتے ہیں اور وہ سماعی ہوتے ہیں جیسے، چاقو، قینچی، تلوار، چھری، توپ، بلم، پتوار، وغیرہ۔

ز : عربی اسم ظرف اور اسم آلہ کی شناخت یہ ہے کہ اسم ظرف کے شروع میں میم
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۵۸

مفتوح ہوتا ہے۔ اور اسم آلہ میں میم مکسور۔

جمع : (ء) بروزن شمع، بمعنی بہت، مجموعہ۔ اصطلاحاً وہ اسم جس میں ایک ہی قسم کی بہت سی چیزوں کا مجموعہ ہو اور اس کا ایک خاص نام مشہور ہو جائے۔ جیسے بہت سے جہازوں کے مجموعہ کو بیڑا اور بہت سی دوکانوں کے مجموعے کو بازار کہتے ہیں۔ حسبِ ذیل اسماء جمع اردو میں مستعمل ہیں۔ مدرسہ، مکتب، جماعت، انجمن، فوج، لشکر، ٹولی، قافلہ، کارواں، گروہ، غول، جُھنڈ، بھیڑ، مجمع، قطار، صف، گلہ، برات، خلقت، مخلوق، وغیرہ۔

صوت : (ء) بروزن موت، بمعنی آواز۔ وہ اسم جس سے جاندار اور بے جان چیزوں کی آواز سمجھئ جائے۔ جیسے کوکو، غڑغوں، اغوں، دھم، چھم چھم، وغیرہ۔

مصغر : (ء) بروزن مُردہ۔ بمعنی صغر کے منسوب ہے۔ یہ وہ اسم ہوتا ہے جو بڑی چیز کو چھوٹی چیز کے طور پر بولا جائے۔ جیسے لکڑ سے لکڑی۔ اردو میں اس کا کوئی خاص قاعدہ نہیں تاہم ان تین طریقوں پر کبھی کبھی بنا لیتے ہیں۔

(1) کبھی اصلی اسم کے آخر میں ی بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے پہاڑ سے پہاڑی۔

(2) کبھی لفظ ‘یا‘ کا اضافہ کر دیا جاتا ہے جیسے کھاٹ سے کھٹیا۔

(3) کبھی اسم کے آخر میں الف بڑھا دیتے ہیں جیسے لونڈی سے لونڈیا۔

نوٹ :

(1) اردو میں اکثر اسم تصغیر بھی مصغر ہوتے ہیں۔ جیسے ڈبے سے ڈبی اور ڈبی سے ڈبیہ۔

(2) کبھی لفظ ‘وا‘ بڑھا مر مصغر بنا لیتے ہیں۔ جیسے مرد سے مردوا

(3) بعض اسماء مصغر سماعی ہوتے ہیں جیسے ڈھول سے ڈھولک۔ کھاٹ سے کھٹولا، دیگچہ سے دیگچی، بھائی سے بھیا، بہن سے بھنو، وغیرہ۔

(4) فارسی میں حسبِ ذیل علامتیں ہیں جن کے ملانے سے اسم مصغر بنتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۵۹

چہ، ک، یچہ، یزہ جیسے سینچہ، باغیچہ، غالیچہ، طفلک، مردک، مشکیزہ، وغیرہ۔

مُکبر : (ء) بروزن مصور، بمعنی کبر سے منسوب ہے۔ یہ اسم مصغر کے برعکس ہے۔ یہاں چھوٹی چیز کو بڑی چیز کر کے بولا جاتا ہے۔ جیسے بات سے بتنگڑ، پگڑی سے پگڑ۔ اردو میں اس کے بنانے کا کوئی قاعدہ نہیں۔ فارسی میں خر، شاہ اور شہ لگا کر اسم مکبر بنا لیتے ہیں۔ جیسے خر مہرہ، شاہراہ، شہسوار، وغیرہ۔

[TODO: Add Chart]

اسم کیفیت : یہ اسم کسی چیز کی کیفیت ظاہر کرتا ہے اور وہ کیفیت تین حالتوں میں پائی جاتی ہے۔

(1) کسی چیز کی حالت کا اظہار ہو جیسے صحت، بیماری، سچ، جھوٹ، وغیرہ۔

(2) دلی کیفیت کا اظہار ہو، جیتے خوشی، غصہ، رنج، نشہ، خُمار، وغیرہ۔

(3) صفت کا اظہار ہو، جیسے درد، مطالعہ، وغیرہ۔

نوٹ : یہ اسم ہمیشہ صفت اور اسم سے بنائے جاتے ہیں۔ انکا فعل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کیونکہ فعل سے ہمیشہ حاصل مصدر بنتا ہے۔ اردو میں عام طور پر ان کے بنانے کے یہ قاعدے ہیں۔

الف : کبھی صفت کے بعد ‘ی‘ بڑھا کر اسم کیفیت بناتے ہیں جیسے بُرا سے بُرائی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۶۰

ب : کبھی ہٹ کے اضافہ سے بناتے ہیں۔ جیسے نیلا سے نیلاہٹ۔

ج : کبھی اسم یا صفت کے بعد حسب ذیل علامتیں بڑھا دیتے ہیں۔ پن اور پنا۔ جیسے لڑکپن، دیوانہ پن، بچپن یا بچپنا اور چھٹپنا، وغیرہ۔

د : کبھی دو لفظوں کو ملا کر بنا لیتے ہیں۔جیسے چھان بین۔

ہ : بعض الفاظ اسمائے کیفیت سماعی کا کام دیتے ہیں جیسے مٹھاس، کھٹاس، ٹھنڈک، جلن، لمبان، چوڑان، مٹاپا، بڑھاپا، وغیرہ۔

و : فارسی میں بندگی، زندگی، تازگی، وغیرہ اسم کیفیت کا کام دیتے ہیں۔

حاصل مصدر : یہ اسم مصدر سے بنایا جاتا ہے اور لفظاً و معنیً اپنے مصدر سے مشابہت اور لگاؤ رکھتا ہے اور یہ بھی اسم کیفیت کی طرح کوئی خاص حالت ظاہر کرتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اسم کیفیت اسم اور صفت سے بنتا ہے۔ اور یہ محض مصدر سے متعلق ہوتا ہے۔ اردو میں اس کے بنانے کے قاعدے یہ ہیں :

(1) کبھی علامت نا کو دور کر کے نون کو ساکن اور ما قبل نون کو مفتوح کر دیتے ہیں جیسے چلنا سے چلن۔ تھکنا سے تھکن وغیرہ۔

(2) کبھی علامت نا کو ساقط کر دیا جاتا ہے جیسے کھکارنا سے کھکار۔ دابنا سے داب، جاگنا سے جاگ، وغیرہ۔

(3) بعض حالات میں امر کے آخری حرف سے پہلے الف یا ی بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے چل سے چال، اتر سے اُتار یا مل سے میل وغیرہ۔

(4) بعض اوقات ماضی سے حاصل مصدر کا کام لیا جاتا ہے جیسے کھاسنا۔

(5) کبھی امر کی تکرار سے بھی بن جاتا ہے۔ جیسے بک بک

(6) کبھی دو مختلف امر ملانے سے بھی جیسے مار پیٹ، جان پہچان، وغیرہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۶۱

(1) کبھی امر کے بعد ان علامات کے بڑھا دینے سے، آؤ، ہٹ، آپ، آئی، واس، ی، وٹ، وا، نت، ت، ک، ان، پا، جیسے چڑھاؤ، گھبراہٹ، ملاپ، لڑائی، بکواس، ہنسی، لگاوٹ، چڑھاوا، گڑھنت، چاہت، لپک، اڑن، جلاپا، وغیرہ۔

(2) فارسی حاصل مصدر بھی اردو میں کثرت سے مستعمل ہیں۔ مثلاً رسائی، انداز، شکن، برداشت، جستجو، گفتگو، دیدار، گفتار، خوراک، پوشاک وغیرہ۔

اسم کنایہ : وہ اسم جو ذہن میں ہو مگر زبان سے ادا نہ ہو۔ یا اختصار کے طور پر مستعمل ہو۔ جیسے فلاں شخص، اتنی سی بات، ایسی بات، کوئی بات، اور کیسی بات میں، فلاں، اتنی، ایسی، کوئی، کیسی، اسم کنایہ ہیں۔

اسم استفہام : یہ اسم سوال کے موقع پر استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے کون آیا، کس نے دیکھا، کہاں گیا، کتنے دن ہوئے، کے آدمی تھے، میزاج کیسا تھا، کیوں کر میں کہوں، تم کیوں نہیں کہتے، کن باتوں کا خیال ہے، یہاں، کون، کس، کہاں، کتنے، کسے، کیسا، کیوں کر اور کہوں، کن، وغیرہ اسمائے استفہام ہیں۔ ان کی تین قسمیں ہیں۔ اقراری، انکاری، استخباری (۳)

نوٹ :

(1) کون بالعموم ذی روح کے لئے آتا ہے۔ مگر اس کے بعد (نے) اور حرف عاملہ نہیں آ سکتے۔ اگر حروف عاملہ ہوں گے تو بحالت وحدت، کس اور بصورت جمع کن لکھیں گے جیسے کون کہتا ہے، کس نے کہا اور کن نے کہا مگر یہاں کنہوں نے کہا لکھنا فصیح ہے۔

(2) کیا، یہ زیادہ تر غیر ذی روح کے لئے آتا ہے۔ جیسے یہ کیا بات ہے۔ اُردو محاورے میں تم بھی کیا آدمی ہو، کہتے ہیں مگر یہاں آدمی اور کیا کے درمیان اچھے یا بُرے کا لفظ مقدر ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ یہ لفظ کیا بھی
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۶۲

حروف عاملہ سے پہلے کس اور کن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس نے تم سے کس بات کو کہا، یا کن باتوں کو کہا۔ اس نے تم سے کیا بات کی۔

(1) کَے، مقدار جنس کے لئے ہوتا ہے، جیسے وہاں آدمی کَے ہونگے۔

(2) کتنے، مقدار جنس کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اس پیالے میں کتنا دودھ آتا ہے۔

(3) کہاں، کدھر، ظرف مکاں ہیں۔

(4) کب، ظرف زماں ہے۔

(5) کون سا، اس کا استعمال انتخاب کے لیے ہوتا ہے، جیسے کون سا کپڑہ تم چاہتے ہو۔

(6) کیوں، کا استعمال کس واسطے کے محل پر ہوتا ہے۔ جیسے تم کیوں آئے۔ یعنی تم کس واسطے آئے۔ لیکن تخاطب میں صرف سوالیہ صورت اختیار کر لیتا ہے۔ جیسے کیوں جی آج کیا حال ہے۔

(7) کیونکر کا استعمال کس طرح کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے میں وہاں کیونکر جاؤں یعنی کس طرح جاؤں۔

(8 ) کیسے – کا استعمال ہمیشہ اسم باضمیر کی صفت دریافت کرنے کے موقع پر ہوتا ہے جیسے یہ کتاب کیسی ہے، لیکن کیوں کر ہمیشہ فعل کی حالت معلوم کرتا ہے، جیسے تم نے کیونکر ایسا جانا، جس طرح کیوں کر اور کیوں کر کے محل استعمال میں فرق ہے اسی طرح کیوں کر اور کیسے کے استعمال میں کافی تضاد ہے۔ اس کے استعمال میں اکثر پڑھے لکھے حضرات بھی غلطی کر جاتے ہیں۔

استفہام اقراری : جیسے اس جملہ میں، کیا یہ حقیقت نہیں کہ تم بیوقوف ہو۔

استفہام انکاری : جیسے اس جملہ میں، کیا یہ حقیقت ہے کہ تم بے وقوف ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۶۳

استفہام استخباری : جیسے اس جملہ میں، تم کیا چاہتے ہو۔

[TODO: Add Chart]

اسم فاعل : وہ اسم جس سے کوئی فعل صادر ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ قیاسی اور سماعی۔

نوٹ : فاعل اور اسم فاعل میں یہ فرق ہے کہ فاعل وہ ہے جس سے کوئی کام ہو جیسے زید نے کھانا کھایا۔ یہاں زید فاعل ہے۔ چونکہ زید کھانے والا ہوا، اس لئے کھانے والا اسم فاعل ہو گیا۔ گویا فاعل اسم ذات ہوتا ہے اور اسم فاعل صفت کا کام دیتا ہے۔

قیاسی : بروزن براتی۔ بمعنی قیاس سے منسوب ہے۔ یہ وہ اسم ہوتا ہے جو قاعدے کی رو سے بنا لیا جائے۔ جیسے محبت کے ساتھ والا کا اضافہ کریں تو محبت والا اسم فاعل قیاسی ہوا۔

سماعی : بروزن براتی، بمعنی سُنا ہوا۔ یہ وہ اسم ہے جس کے بنانے کا کوئی قاعدہ نہیں۔ جس طرح بھی اہل زبان اس کے استعمال کو جائز کر دیں اسی طرح بولا جاتا ہے۔ جیسے بنجارا، سنار، کھلاڑی، گویا، ہونہار، تیراک، وغیرہ۔

نوٹ :

(1) اسم فائل قیاسی محبت والا میں محبت اور والا کے درمیان ‘کرنے‘ فعل مخذوف ہوتا ہے۔ یعنی محبت کرنے والا۔ اس کو اسم فائل ترکیبی بھی کہتے ہیں۔

(2) دو لفظ مل کر بھی فاعلی معنی دیتے ہیں۔ جیسے دودھ پیتا بچہ، ناسمجھ، بیقرار، یہ بھی اسم فاعل ترکیبی ہیں۔

(3) جملہ پیشہ وروں کے نام بھی اسم فاعل شمار ہوتے ہیں۔ جیسے جولاہا، کمہار، تیلی، لوہار، بڑھئی، وغیرہ
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۶۴

(1) فارسی میں حسبِ ذیل علامتیں اسم فاعل کی ہیں۔ بر، دار، بان، وان، کار، گار، مند، آور، ور، ندہ، گر (ترکی علامت چی اردو میں بھی مستعمل ہے) جیسے راہبر، وفادار، باغبان، کوچوان، دستکار، خدمت گار، دولتمند، زور آور، سخنوار، پرندہ، زرگر، باورچی، وغیرہ۔

(2) مذکورِ بالا فارسی صورتوں کے علاوہ اور کئی طرح بھی اسم فائل ترکیبی بنتے ہیں۔ جن کا استعمال اردو میں بکثرت ہے۔ اور وہ حسبِ ذیل صورتیں ہیں :

الف ) امر پر کوئی اسم بڑھا دینے سے جیسے جانباز، کارساز، نام آور، دور اندیش، خطا بخش، عیب پوش، وغیرہ۔

ب) دو اسم ملنے سے جیسے خوش رو۔ خوشنما، نیک دل، خوبصورت، صاحب دل، خود غرض، بدکار، وغیرہ۔

(3) عربی کے بہت زیادہ اسم فاعل اردو میں مستعمل ہیں۔ عربی میں اسم فاعل بنانے کے اوزان بہت ہیں۔ لیکن حسبِ ذیل اوزان ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے۔

ناعل کے وزن پر جاہل، عالم، قاتل، ناظر، حاکم، غالب، وارث، وغیرہ۔

فعیل کے وزن پر رحیم، شفیق، تلیم، سخی، بھی اسی وزن پر آتا ہے کہ ی مشدد ہے۔

مُفعل کے وزن پر منصف، محسن، مرشد، موجد، مشکل، مسلم، مومن وغیرہ۔

مُفاعل کے وزن پر مقابل، مناسب، موافق، محاسب، وغیرہ۔

مفتعل کے وزن پر متصل، محترز، معقد، ملتجی، منجمد، ممتحن، وغیرہ۔

متفاعل کے وزن پر متواضع متساوی، متعارف وغیرہ۔

مفتل کے وزن پر مدبر، متحرک، موید، محرر، مقرر، وغیرہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۶۵

متفعل کے وزن پر متکبر، متحمل، متوجہ، متصرف، متوکل، وغیرہ۔

منفعل کے وزن پر منحرف، منہدم، منقبض، منجلی، وغیرہ۔

عربی تمام اسمائے فاعل سوائے فاعل اور رعیل کے جس قدر بھی ہیں، ان کے اول میم مضموم ضرور ہو گا۔ اور حرف آخر سے پہلے مکسور ہونا ضروری ہے۔ جیسا اوپر کی مثالوں سے ظاہر ہے لیکن یہ کلیہ دو صورتوں پر منطبق نہیں ہوتا۔

الف : جب حرف آخر متشدد ہوتا ہے تو زیر کی جگہ زبر ہو جاتا ہے جیسے منجم۔

ب : جب حرف آخر سے پہلے یا ئے علت ہو تو وہ یا ساکن ہو گی۔ اور ما قبل مکسور ہو گا۔ جیسے مرید، مقیم، منیر، مفید، مستقیم، مستطیل، مستفیض، مستفید، وغیرہ۔

(1) عربی پیشہ وروں کے نام بھی اردو میں مستعمل ہیں۔ مگر وہ بعض حالات میں اسم مبالغہ کے وزن پر آتے ہیں۔ جیسے خیاط بمعنی درزی، نجار بمعنی بڑھئی، صباع بمعنی رنگریز، بزار بمعنی کپڑا بیچنے والا، دلال بمعنی رہبر، حجام بمعنی نائی، فصاد بمعنی فصد کھولنے والا۔ جراح بمعنی زخموں کا علاج کرنے والا، عطار بمعنی درا فروش، وغیرہ۔

[TODO: Add Chart]

اسم مفعول : یہ وہ اسم ہوتا ہے جس پر فعل کیا گیا ہو اور یہ ماضی مطلق کے صیغہ واحد مذکر کے آخر میں ہوا، ہوئے، ہوئی اور ہوئیں، بڑھانے سے بنتا ہے جیسے کھایا ہوا، سنے ہوئے، پڑھی ہوئی اور دیکھی ہوئیں، وغیرہ۔

نوٹ :

(1) مفعول اور اسم مفعول میں فرق یہ ہے کہ مفعول اسم ذات ہوتا
 
Top