اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لائبریری ٹیگ کھیل
السلام علیکم​
لائبریری ٹیگ کھیل کے حوالے سے آپ سب کی آراء و دلچسپی کے لیے شکریہ اور اب اس سلسلے کا آغاز کرتے ہیں ۔ اس کے لیے مختلف عنوانات منتخب کیے جائیں گے اس وقت جو عنوان منتخب کیا ہے وہ ڈپٹی نذیر احمد کا ناول "ابن الوقت" ہے۔​
لائبریری ٹیگ کھیل میں​
  • روزانہ ایک سیشن ہو گا۔ ہر ایک سیشن میں کم از کم پندرہ اسکین صفحات فراہم کیے جائیں گے۔ پندرہ سیشنز مکمل ہو جانے کے بعد لائبریری ٹیگ کھیل کا رزلٹ اعلان کیا جائے گا۔
  • اسکین صفحات کے روابط فراہم کرنے کے بعد لائبریری اراکین میں سے کسی ایک رکن کو پہلے صفحہ کی ٹائپنگ کے لیے ٹیگ کیا جائے گا۔ اور وہ رکن دیا گیا صفحہ ٹائپ کر کے اسی دھاگے میں پوسٹ کر دیں گے۔ اور اگلے صفحہ کے لیے لائبریری اراکین میں سے کسی دوسرے رکن کو ٹیگ کریں گے۔ اور یہ سلسلہ یوں آگے بڑھے گا۔
  • اگر کوئی رکن ترتیب میں اگلا صفحہ خود ٹائپ کرنا چاہیں تو خود کو بھی ٹیگ کر سکتے ہیں تاہم مسلسل تین بار سے زائد خود کو ٹیگ نہیں کرنا۔
  • اگر کوئی رکن اپنی پوسٹ میں خود کو یا کسی بھی دوسرے لائبریری رکن کو ٹیگ کرنا بھول جائیں تو آنلائن موجود اراکین میں سے کوئی بھی رکن ٹیگ کرنے کی ذمہ داری انجام دے سکتے ہیں ۔
  • پہلے پندرہ صفحات ٹائپ ہونے کے بعد پروف ریڈنگ کا مرحلہ شامل ہو گا اور ایک لائبریری رکن کو پروف ریڈنگ کے لیے ٹیگ کیا جائے گا اور دوسرے لائبریری اراکین کو مزید صفحات کی ٹائپنگ کے لیے ٹیگ کرنے کا سلسلہ ساتھ ساتھ جاری رہے گا ۔
  • اگر ٹیگ کیے جانے والے رکن دستیاب نہ ہوں ٹائپ کرنے کے لیے تو وہ مطلع کر دیں اور اپنی بجائے کسی دوسرے رکن کو ٹیگ کر سکتے ہیں اور سلسلہ آگے بڑھتا رہے گا۔
  • ٹیگ کھیل کا نتیجہ مشاورت سے مرتب ہو گا ۔ اس کھیل میں شریک ہونے اور ٹیگ کیے جانے والے اراکین اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ دئیے گئے صفحہ کا ٹیگ ٹارگٹ کتنے مختصر دورانیہ میں مکمل کر کے اس دھاگہ پر پوسٹ کرتے ہیں علاوہ ازیں چند دیگر چیزوں کے ساتھ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ تمام سیشنز میں آپ کی پیش رفت کیا رہی ۔
یہ چند ضروری نکات لائبریری ٹیگ کھیل کے حوالے سے ۔ (ضرورت کے لحاظ سے ان میں ترمیم و اضافہ کیا جا سکے گا اور اس پوسٹ کو اپڈیٹ کر دیا جائے گا۔)​
چلیں پھر آغاز کرتے ہیں ۔​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لائبریری ٹیم
الف عین​
الف نظامی​
حسن نظامی​
@ساجد​
سند باد​
شاکر القادری​
فاتح​
فرخ منظور​
@محب علوی​
محمد وارث​
مصباح​
مہوش علی​
mr-pakistani​
نبیل​
وجی​

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس وقت لائبریری اراکین میں سے مقدس آنلائن نظر آ رہی ہیں اس لیے مقدس کو ہی ٹیگ کر دینا چاہیے : )
اور لائبریری ٹیگ کھیل کا پہلا صفحہ یہ رہا ۔

IbW-0001.gif
 

مقدس

لائبریرین
فصل اول

ابن الوقت کی تقریب

آج کل کا سا زمانہ ہوتا تو کانوں کان کسی کو خبر بھی نہ ہوتی۔ ابن الوقت کی تشہیر کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ اس نے ایسے وقت میں انگریزی وضع اختیار کی جب کہ انگریزی پڑھنا کفر اور انگریزی چیزوں کا استع،ال ارتداد سمجھا جاتا تھا۔ یہ تو ہماری آنکھوں سیکھی باتیں ہیں کہ ریل می بہ ضرورت کوئی بھلا مانس چرٹ پیتا تو جان پہچان والوں سے چراتا چھپاتا۔ ایک دوست کہیں باہر بندوبست میں نوکر تھے اور جانچ پڑتال کے لیے ان کو کھیت کھیت پھرنا پڑتا تھا' ہندوستانی جوتی اس رپڑ میں کیا ٹھہرتی' ناچار انگریزی بوٹ پہننے لگے تھے مگر دو چار دن کے لیے دہلی آتے تو گھر میں کبھی کے پڑے ہوئے پھٹے پرانے لیتر ڈھونڈ کر پاؤں میں ہلگا لیتے' تب کہیں گھر سے باہر نکلتے۔
دہلی کالج ان دنوں بڑے زوروں پر تھا۔ ملکی لاٹ آئے اور تمام درسگاہوں کو دیکھتے بھالتے پھرے۔ قدردانی ہو تو ایسی ہو کہ جس جماعت میں جاتے' مدرس سے ہاتھ ملاتے۔ بڑے مولوی صاحب نے طوعاً کرہاً بادل نخواستہ آدھا مصافحہ کیا تو سہی مگر اس ہاتھ کو عضو نجس کی طرح الگ تھلگ لیے رہے۔ لاٹ صاحب کا منہ موڑنا تھا کہ بہت مبالغے کے ساتھ (انگریزی صابون سے نہیں بلکہ مٹی سے) رگڑ رگڑ کار اس ہاتھ کو دھو ڈالا۔ ابن الوقت جیسے ملامتی نہیں تو اس کے ہم خیال خال خال اور بھی چند مسلمان تھے جن کے لڑکے اکا دکا انگریزی کالج میں انگریزی پڑھتے تھے۔ اب لڑکوں میں
 

مقدس

لائبریرین
مقدس
میں لائبریری میں پوسٹ نہیں کرسکتا ۔ اس لئے یہاں پوسٹ کررہا ہوں اور اب میں @شگفتہ بہن کو ٹیگ کررہا ہوں

سے اگر کوئی عربی فارسی جماعتوں میں آنکلتا اور آنکھ بچا کر پانی پی لیتا تو مولوی لوگ مٹکے تڑوالے ڈالتے۔
ہر چند تعصبات ِ لغو کی کوئی حد نہ تھی ‘ بایں ہمہ انگریزی حکومت جیسے ان دنوں کی مطمئن تھی‘ آئندہ تابقائے سلطنت انگریزوں کو خواب میں بھی نصیب ہونے والی نہیں۔ لوگوں کو مفید و مضر کے تفرقے کا ‘ برے بھلے کے امتیاز کا سلیقہ نہ تھا۔ سرکار بہ منزلہ مہربان باپ کے تھی اور بھولی بھالی رعیت بجائے معصوم بچوں کے ۔ انگریزی کا پڑھنا ہمارے بھائی بندوں کے لئے کچھ ایسے نا سزا وار ہوا جیسے آمد اور اس کی نسل کے ھق میں گہیوں کا کھا لینا۔ گئے تھے نماز معاف کرانے ‘ الٹے روزے اور گلے پڑے۔ انگریزی زبان‘ انگریزی وضع کو اوڑھنا بچھونا بنایا تھا اس غرض سے کہ انگریزوں کے ساتھ لگاوٹ ہو‘ اختلاط ہو‘ مگر دیکھتے ہیں تو لگاوٹ کے عوض رکاوٹ ہے اور اختلاط کی جگہ نفرت۔ حاکم و محکوم میں کشیدگی ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ ” دریا میں رہنا مگر مچھ سے بیر“ ۔ دیکھیں آخر کار یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔
ذرا مشکل سے اس بات کا پتہ لگے گا کہ کون سی چیز ابن الوقت کو انگریزی وضع اختیار کرنے کی محرک ہوئی۔ وہ ایک ایسے خوشحال اور شریف خاندان کا آدمی تھا جس کے لوگ پاس وضوع کو شرط ِ شرافت سمجھتے تھے۔ شرف ِ علم ان میں متوارث تھا۔ اس خاندان کے لوگ بعض طبیب تھے ‘ بعض مدرس( سرکاری نہیں) بعض مفتی‘ بعض واعظ‘ بعض حافظ‘ بعض صاحب سجادہ طریقت ۔ الغرض ‘ ابن خانہ تمام آفتاب است ‘ لوگ سب نہیں تو اکثرو للاکثر حکم الکل ‘ ہر طرح کے ہنروں سے متصف اور ہر طرح کے کمالات سے متجلی تھے۔ شاہی قلعہ ان سب کے معاش کا متکفل تھا۔ انگریزوں کے ساتھ ان لوگوں کو اگر تعلق تھا تو اسی قدر کہ انگریزی عمل داری میں رہتے تھے ‘ وہ بھی اپنے زعم میں نہیں ۔
ابن الوقت کے کالج میں داخل ہونے کا بھی یہ سبب ہوا کہ شہر کے مشاہیر جو عربی فارسی میں مستند تھے سرکار نے چن چن کر سب کو پابند مدرسہ کرلیا تھا۔ پس ابن الوقت مدرسے میں داخل کیا گیا نہ اس غرض سے کہ مدرسے کی طالب العلمی کو ذریعہ معاش قرار دے کر بلکہ صرف اس لیے کہ اس کی عربی فارسی ٹکسالی ہو ۔ ابن الوقت اپنے وقت کے منتخب نہیں بھی تو اچھے طلباءمیں شمار کیا جاتا تھا۔ مناسب طبیعت کی وجہ سے اس کے بعض ہم جماعت اس سے خاص خاص چیزوں میں اچھے بھی تھے مگر اس کے مجموعی نمبر کبھی کسی سے ہیٹے نہیں رہے ۔ وجہ کیا تھی کہ جس قدر وہ ریاضی میں کچا تھا ‘ تاریخ‘ جغرافیہ ‘ سیاست مدن ‘ اخلاق وغیرہ سے جن کا اس کو شوق تھا‘ اس خامی کی تلافی بخوبی ہوتی رہتی تھی۔ مدرسے کی ساری پڑھائی میں اس کی پسند کی چیز تاریخ تھی‘ کسی ملک اور کسی وقت کی کیوں نہ ہو۔ اس کی طبیعت عام باتوں میں خوب لگتی تھی۔ جواب مضمون پر ہر سال ایک نقرئی تمغہ ملا کرتا تھا۔ چھ سال ابن الوقت مدرسے میں رہا‘ کسی برس کسی وقت اس نے وہ تمغہ انگریزی‘ عربی‘ فارسی‘ سنسکرت میں کسی کو لینے ہی نہیں دیا۔ جب موقع ملتا تھا ابن الوقت پرانی دلی کے کھنڈروں میں تعطیل کے دنوں کو ضرور صرف کرتا۔غیر ممالک کے لوگ تجارت‘ سیاحت یا کسی دوسری ضرورت سے شہر میں آنکلتے تو ابن الوقت اوبداًان سے ملتا اور ان کے ملک کے حالات و عادات کی تفتیش کرتا۔ اس کا حافظہ معلومات تاریخی کے ذخیرے سے اس قدر معمور تھا کہ وہ معمولی بات چیت میں واقعات زمانہ گزشتہ سے اکثر استشہاد کیا کرتا۔ ایک بار اس نے باتوں ہی باتوں میں سلیٹ پر اپنی یاداشت سے ایشیا کا نقشہ کھینچا اور مشہور شہروں اور پہاڑوں اور دریاﺅں کے مواقع اس میں ثبت کئے ۔ پھر جو ملا کر دیکھا تو بہ تفاوت ِ یسیر اکثر صحیح ۔وہ دنیا کی قوموں اور ذاتوں اور رسموں کی ٹوہ میں لگا رہتا۔ مذہب کے بارے میںاس کی معلومات کتاب الملل و النمل سے کہیں زیادہ تھی ۔جب کوئی کتاب جماعت میں شروع ہوتی ‘اس کا پہلا سوال یہ ہوتا کہ اس کا مصنف کون تھا‘ کہاں کا رہنے والا تھا‘ کس زمانے میں تھا‘ کس سے اس نے پڑھا‘ اس کے معاصر کون کون تھے‘ اس کی وقاع عمری میں کون کون سی بات قابل یادگار ہے ۔
تعزز اور ترفع ابن الوقت کے مزاج میں اس درجے کا تھا کہ لوگ اس کی خود داری کو منجربہ کبر خیال کرتے ۔ دوسرے کا احسان اٹھانے کی اس کو سخت عار تھی‘ یہاں تک کہ وہ استاد کی بجائے کسی ہم جماعت سے پوچھنے تک میں مضائقہ کرتا۔ وہ ہمیشہ ایسے مدرس کی جماعت میں رہنا چاہتا جس کی پرنسپل زیادہ عزت کرتا ہو اور اسی سبب سے وہ کئی بار عربی سے فارسی اور فارسی سے عربی میں بدلتا پھرا۔


زین بھیا کی پوسٹ

نیکسٹ سیدہ شگفتہ آپی
 

شمشاد

لائبریرین
ابن الوقت
صفحہ 42
ابن الوقت اپنی رائے بہ دیر قائم کرتا تھا مگر جب ایک بار قائم کر لیتا اس کو بدلنے کی گویا اس کو قسم تھی۔ اس کی یہ رائے کسی سے مخفی نہیں تھی۔ کہ کسی قوم میں سلطنت کا ہونا اس بات کی کافی دلیل ہے کی اس قوم کے مراسم، عادات، خیالات، افعال، اقوال، حرکات، سکنات یعنی کل حالات فرداً فرداً نہیں تو مجتمعاً ضرور بہتر ہیں۔ وہ نہایت وثوق کے ساتھ کھلم کھلا کہا کرتا کہ سلطنت ایک ضروری اور لازمی نتیجہ ہے قوم کی برتری کا۔ انگریزی نوکری کی نہ اس کو ضرورت تھی اور نہ طلب۔ پس وہ اپنی اسی رائے کی بنیاد پر بے غرضانہ ہر انگریز کو "اگرچہ گھٹیا" بے حیثیت یوریشین ہی کیوں نہ ہو، بڑی وقعت کی نظر سے دیکھتا ہے۔
اس خیال کے آدمی کو خصوصاً جب کہ وہ کالج میں داخل بھی تھا، انگریزی خوان ہونا چاہیے تھا اور اس کے دل میں انگریزی پڑھنے کا تقاضا بھی ضرور پیدا ہوتا ہو گا مگر باپ کی وفات پا جانے سے نواب معشوق محل بیگم کی سرکار کی موروثی مختاری اس کے سر پڑی۔ ہر چند اس کے بڑے بھائی ایک اور بھی تھے اور چاہتے تو مختاری کو وہ سنبھال لیتے مگر ان کو اپنے اوراد و وظائف سے مطلق فرصت نہ تھی اور وہ آدمی تھے بھی وحشت زدہ سے، ناچار اب الوقت کو اس سرکار کا بڑا بھاری کارخانہ سنبھالنا پڑا۔ چند روز تک ابن الوقت نے یوں بھی کر کے دیکھا کہ خارج از اوقات مدرسہ قلعے کا کام دیکھتا بھالتا۔ بیگم کی طرف سے تو خدانخواستہ کسی طرح کی سختی نہ تھی مگر خود ابن الوقت دیکھتا تھا کہ اس کا وقت دونوں کاموں کے لیے مساعدت نہیں کرتا۔ پس اس نے مجبور ہو کر مدرسے سے اپنا نام کٹوا لیا۔ پھر بھی وہ تاریخ وغیرہ اپنے ڈھب کی کتابوں کے لیے شاہی کتب خانے اور اخباروں کے واسطے مطبع سلطانی کے بلاناغہ حاضر باشوں میں تھا۔ تاریخ اور اخبار کی اس کو ایسی دہت تھی کہ وہ کبھی ان چیزوں سے ملول ہوتا ہی نہ تھا۔
ابن الوقت نے مدرسہ چھوڑا تو گو وہ عربی فارسی جماعتوں کا طالب علم تھا تاہم اس کو مشق کے لیے ریاضی کیا انگریزی کتابوں سے مدد لینے کی ہمیشہ ضرورت واقع ہوا کرتی تھی۔ ناچار اس کو انگریزی کے حروف پہچاننے پڑے۔ طبیعت تھی اخاذ، حرفوں کا پہچاننا تھا کہ چند روز میں اٹکل سے سوالات کا طریقہ حل سمجھنے لگا اور یوں ریاضی کے
 

شمشاد

لائبریرین
ابن الوقت
صفحہ 43
رکن میں اس کی انگریزی کی استعداد ترقی کرتی گئی۔ جب وہ انگریزی وضع اختیار کر کے اپنے پندار میں پورا صاحب لوگ بن گیا، اس زمانے میں بھی وہ انگریزی سمجھ تو خاصی طرح لیتا تھا مگر زبان انگریزی میں بے تکلف بات چیت کرنے کی اس کو ساری عمر قدرت حاصل نہ ہوئی۔ ہم نے اس کو زمانہ طالب العلمی میں یا اس کے بعد سَبقاً سَبقاً انگریزی پڑھتے تو نہیں دیکھا اور اس کی خدداری مدرسے کے بعد اس کو سینگ کٹوا کر بچھڑوں میں کیون ملنے دینے لگی تھی، مگر اتنا تحقیقی معلوم ہے کہ وہ اپنی حالت کے مناسب انگریزی جاننے کے لیے بہتری ہی کوشش کرتا تھا۔ سنے سنائے سے جو اس نے اس قدر ترقی کی، سچ پوچھو تو یہ بھی اسی کا کام تھا ورنہ اپنا تو یہ مقولہ ہے کہ آدمی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان کا زبان دان، جیسا کہ زبان دانی کا حق ہے، ہو ہی نہیں سکتا۔ کیا صاحب قاموس کی حکایت نہیں سنی؟ بھلا خیر، اتنا تو سنا ہو گا کہ زبانِ عربی کی لغت کی بہت سے کتابیں ہیں، سب میں زیادہ مبسوط اور مستند قاموس ہے۔ صاحبِ قاموس ذات کا عجمی، اس کو بچپن سے زبانِ عربی کی تکمیل کا شوق ہوا۔ جہاں تک عجم میں ممکن تھا سیکھ پڑھ لیا، نجد اور تمامہ اور یمن اور شام اور حضارہ اور بداوہ میں برسوں زبان کے پیچھے خاک چھانتا پھرا۔ آخرکار ساری عمر کی تفتیش اور تلاس کے بعد قاموس بنائی تو پھر کیسی بنائی کہ ساری دنیا اس کی سند پکڑتی ہے۔ زبان دانی کا پردو خدا کو فاش کرنا تھا، عرب کی ایک بی بی سے نکاح کیا۔ رات کے وقت گھر کی لونڈی سے کہتے تھے کہ چراغ گل کر دے۔ طوطے کی ٹین ٹین کہا جائے، "اطفئی السراج" کی جگہ فارسی محاورے کے مطابق بے ساختہ "اقتلی الراج" بول اٹھے۔ بی بی تاڑ گئی۔ صبح اڑھ کر دارالقضا میں جا نالش کی۔ خدا جانے بی بی رہی یا گئی مگر میاں کی عربیت کی تو خوب کرکری ہوئی۔
انگریزی اخباروں میں جن کے اڈیٹر انگریز ہیں بابوانہ انگریزی کی ہمشہ خاک اڑائی جاتی ہے۔ اگرچہ نام تو بنگالیوں کا ہوتا ہے مگر حقیقت میں ملاحی گالیاں سبھی انگریی دانوں پر پڑتی ہیں بلکہ دوسروں پر بدرجہ اُولیٰ کیوں کہ بنگالیوں نے تو یہاں تک انگریزی میں ترقی کی ہےکہ انگریزی گویا ان کی مادری زبان ہوتی جاتی ہے اور بعض بنگالی تو انگریزی میں اس درجے کے گویا اور فصیح اور بلیغ ہو کر گزرے ہیں اور ہیں کہ انگریز بھی
 

محمد امین

لائبریرین
صفحہ 44​
ان کا لوہا مانتے ہیں مگر ایسی مثالیں شاذ ہیں۔ ایک دوست ناقل تھے کہ ایک بار ان کو ایک انگریز سے ملنے کی ضرورت تھی۔ کوٹھی پر معلوم ہوا کہ یہ وقت ان کے کلب میں رہنے کا ہے۔ ناچار ان کو کلب جانا پڑا۔ چپڑاسی اطلاع کا موقع دیکھ رہا تھا کہ انہوں نے اپنے کانوں سنا کہ اندر بہت سے انگریز جمع ہیں اور ہندوستانیوں کی انگریزی کی نقل کر کرکے قہقہے لگا رہے ہیں۔ وہ دوست یہ بھی کہنے لگے کہ جس انگریزی کی ہنسی ہورہی تھی بے شک وہ ہنسی کے قابل بھی تھی اور اہلِ زبان کو ہمیشہ دوسرے ملک والوں پر ہنسنے کا حق ہے۔ مگر ہندوستانیوں کی انگریزی اگر ہنسنے کے قابل ہے تو اس کے مقابلے میں انگریزوں کی اردو رونے کے لائق ہے۔ ہندوستانی صرف کتاب کی مدد سے انگریزی سیکھتے ہیں، برخلاف انگریزوں کے کہ کتاب کے علاوہ ساری ساری عمر ہندوستانی سوسائٹی میں رہتے ہیں اور پھر وہی "ول ٹم کیا مانگٹا"۔​
یہ مصیبت کس کے آگے روئیں کہ انگریزی عملداری نے ہماری دولت، ثروت، رسم و رواج، لباس، وضع، طور، طریقہ، تجارت، مذہب، علم، ہنر، عزت، شرافت سب چیزوں پر تو پانی پھیرا ہی تھا، ایک زبان تھی اب اس کا بھی یہ حال ہے کہ ادھر انگریزوں نے عجز و ناواقفیت کی وجہ سے اکھڑی اکھڑی، ٖلط، نا مربوط اردو بولنی شروع کی، ادھر ہر عیب کی سلطاں بہ پسندد ہنر است، ہمارے بھائی بند لگے اس کی تقلید کرنے۔ ایک صاحب کا ذکر ہے کہ اچھی خاصی ریش و بروت، آغازِ جوانی میں ولایت گئے۔ چار پانچ برس ولایت رہ کر آئے تو ایسی سٹی بھولے کہ انگریزی اردو میں بہ ضرورت کبھی بات کرتے تو رک رک اور ٹھہر ٹھہر کر اور آنکھیں میچ میچ کر جیسے کوئی سوچ سوچ کر مغز سے بات اتارتا ہے۔​
٭​
صفحہ 45​
فصلِ دوم
ابن الوقت نے ۱۸۵۷ء کے غدر میں مسٹر نوبل ایک انگریز کو پناہ دی اور اس کے ساتھ ارتباط کا ہونا اس امر کی طرف منجر ہوا کہ ابن الوقت نے آخر کار انگریزی وضع اختیار کرلی​
ابن الوقت کے وقائع عمری میں ایک واقعہ ایسا ہے جس کو اس کی تبدیلِ وضع میں بہت کچھ دخل ہو سکتا ہے اور وہ ذرا قصہ طلب سی بات ہے۔ بہادر شاہ کے آخری عہد میں منصبِ ولی عہدی متنازع فیہ تھا، مرزا فخر الملک اور مرزا جواں بخت میں۔ مرزا فخر الملک کے اکبر اولاد اور لائق اور روادار ہونے کی وجہ سے ان کے طرف دار بہت تھے حتیٰ کہ انگریز اور اسی گروہ میں نواب معشوق محل بیگم بھی تھیں جو مرزا فخر الملک کی خالہ ہوتی تھیں۔ مرزا جواں بخت اپنی والدہ نواب زینت محل بیگم کے کھونٹے پر کودتے تھے جن کو بادشاہ کے مزاج میں بڑا درخور تھا۔ بادشاہ کا زور طلتا تو جواں بخت کو اپنے حینِ حیات تخت نشین کر دیتے مگر انگریزوں کی پچر بڑی زبردست تھی۔ مرزا جواں بخت کے ساتھ سارے برتاؤ ولی عہدی کے برتے جاتے تھے۔ صرف دو باتوں کی کسر تھی، ایک تو ولی عہدی کی تنخواہ خوانۂ شاہی کی تحویل میں رہتی تھی،​
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ ۴۶
دوسرے انگریزوں نے ولی عہد کا ادب قاعدہ ان کے ساتھ نہیں رکھا
اس کشمکش میں طرف دارانِ مرزا فخر الملک کو برے بڑے نقصان پنہچے۔نواب معشوق محل نے جو بادشاہ کی نظر کسی قدر پھری ہوئی دیکھی ' قلعے کے باہر شہر میں کشمیری دروازے کے قریب راحت گاہ'جوان کا بڑا نامی محل تھا' درست کراکے تبدیل آب ہوا کے حیلے سے شہر میں رہنے لگیں۔ قلعے کی آمدو رفت بھی بند نہیں کی مگر مال و متاع اور ساز و سامان سب کچھ راحت گاہ اٹھوالیا منگوالیا تھا۔ہر چند دو ایک برس وہ جواں بختی شورش فرو بھی ہوگئی تھی مگر راحت گاہ میں نواب معشوق محل کا کچھ ایسا جی لگ گیا تھا کہ انہوں نے اپنا وہی قاعدہ رکھا۔صبح کا ناشتہ کر کے قلعے چلی جاتیں اور عصر کی نماز راحت گاہ میں پڑھتیں اور یہیں شب کے وقت آرام بھی فرماتیں' یہاں تک کہ دہلی کے حصے کی قیامت آئی یعنی سن ۵۷ء کاغدر۔غدر کے بعدنواب معشوق محل بیگم صاحب نے قلعے کے باہر پائوں نہیں رکھا۔ سےغدر سے کوئی ڈھائی پونے تین مہینے بعد وہ چار گھڑی رات گئے جو پہلا گولا دیوانِ عام میں گر کر پھٹا جس کے دھماکے سے سارا قلعہ ہل گیا' بس گولے کا پھٹنا تھا کہ نواب معشوق محل بیگم صاحب کے دل میں کچھ ایس اہول سمایا کہ اختلاجِ قلب کے صدمے سے تیسرے دن انتقال فرمایا۔ اِنّااللہ وَاِنّا اِلیہِ رَاجِعُون۔ بڑی نیک نیت اور خدا پرست اور سیر چشم بی بی تھیں۔خدا نے ان کو ان رسوائیوں اور فضیحتوں سے جو خاندانِ تیمور کی تقدیر میں لکھی تھیں بچالیا۔
ہاں تو غدر کے اگلے ہی دن نواب معشوق محل نے ابن الوقت کو حکم دیا کہ راحت گاہ کا سارا سامان رتی رتی اٹھوالائو اور راحت گاہ کے مکانوں میں تالے چڑھوادو۔اسباب سا اسباب تھا! بیس چھکڑے دن میں چار چار چکر کرتے تھے تب وہ الگاروں اسباب کہیں مہینے سوا مہینے میں جاکر ٹھکانے لگا۔
غدر کے چوتھے دن کا ذکر ہے کہ ابن الوقت کوئی دو گھڑی دن رہے آخری کھیپ روانہ کرنے کے بعد قلعے کی طرف چلا آرہا تھا'ایک آپ تھا اور دو نوکر'تینوں مسلح، اور ان دنوں جب دو آدمی آپس میں بات کرتے تھے تو بس غدر کا مذکور ہوتا تھا'یہ لوگ بھی اس طرح کا تذکرہ کرتے چلے جاتے تھے۔جوں محسن خان کے کنٹرے سے
صفحہ ۴۷
آگے بڑھ کر اس کھلے میدان واقع تھا،دیکھتے کیا ہیں، سڑک کے بائیں طرف کچھ انگریزوں کی لاشین پڑی ہیں۔ یہ دیکھ کر ابن الوقت کا کلیجہ دھک سے ہوگیا۔اس وقت وہ موقع ایسا خطرناک تھا کے اکیلا کیسا ہی کوئی سورما کیوں نہ ہوتا'ڈر کے مارے گھگی بنھ جاتی مگر یہ تین آدمی تھے۔ابن الوقت لاشوں کے مقابل ذرا ٹھٹکا اور نہایت غصے اور افسوس کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا:دیکھو تو ظالموں نے کیا بے جا حرکت کی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شہر پر بڑا سخت عذاب آنے والا ہے۔خون ناحق کبھی خالی جاتے نہیں سنا۔۔خدا جانے شاہ جہاں نے کونسی منحوس تاریخ میں اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی کہ امن کی کوئی پوری صدی اس بستی پر نہ گزری مگر اس بار تو کچھ ایسا سامان نظر آتا ہے۔کہ لوگ نادر شاہ کے واقعے کو بھول جائیں گے۔"
ابن الوقت کے ساتھی بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ابھی نماز مغرب میں کوئی آدھے گھنٹے کی دیر تھی۔ادھر آفتاب کا جنازہ کفن خون آلودہ شفق پہنا کر تیار کرچکے تھے کہ قبر مغرب میں اتار دیں ادھر بے کفن کی لاشیں دیواروں کے سائے کا ماتمی کفن پہن چکی تھیں۔ دہلی جیسا شہر اور شام کا وقت اور روزوں کے دن اور ایس اموقع اور دن ہوتے تو اس مقام پر کھوئے سے کھوئے چھلتا ہوتا مگر اپنے وقت ابن الوقت چوراہے پر کھڑا دیکھ رہا تھا کہ جہاں تک نظر کام کرتی ہےآدم زاد کا پتا نہیں۔شہر کے بد معاشوں کے ڈر سے لوگ کچھ دن رہے سے کواڑوں میں پتھر اڑا اڑا کر گھروں میں بند ہو بیٹھے تھے۔ابن الوقت ہکا بکا سناٹے میں کھڑا تھا کہ ایک ساتھی بولا:"حضرت!افطار کا وقت قریب ہے اور قلعہ دور ' جو ہونا تھا سو ہوا اور جو تقدیر کا لکھا ہے سو ہو کر رہے گا۔ پس معلوم ہوا کہ نا بکار تلنگو کے گیہوں کے ساتھ بہتریوں کا گھن پستا ہے'چلئے تشریف لے چلئے۔"
پن چکیوں سے ادھر تھے کے ادھر پیچھے سے پیروں کی اہٹ آئی کہ کوئی شخص لپکا ہوا چلا آرہا ہے۔ لاشوں کے دیکھنے سے یہ لوگ کچھ اس قدر ہول زدہ ہوگئے تھے کہ آواز کے ساتھ سب کے دل دھڑکنا شروع ہوئےاور بے اختیار لگے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے۔بارے شکر کہ وہ شخص نہتا تھا۔وہ تو جھپٹا ہوا چلا آرہا تھا 'ان کے قدم
کو یہ لیجئے جناب میں نے توکام کردیا اب میں ٹیگ کر رہا ہوں اپنے ہر برادرصغیر و عزیز م۔م۔مغل کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زین بھائی ، آپ کو لائبریری میں دیکھنے کی خواہش بالآخر مکمل ہوئی :happy: دلی خوشی ہوئی، خیلی خوش آمدید !
آپ نے ٹائپنگ مقابلہ کا لکھا تھا ناں اس لیے مقدس کے ساتھ آپ کو بھی ٹیگ کر دیا ہے :happy: یہ صفحہ آپ کے لیے ۔

IbW-0007.gif
 

مقدس

لائبریرین
48

جو پڑے ڈھیلے' پن چکیوں سے اترتے اترتے اس نے آ ہی لیا۔ اس شخص نے دور سے ان شخصوں کی پیٹھیں ہی دیکھ کر پہچان لیا تھا کہ ان میں آقا کون ہے۔ برابر آکر اس نے ابن الوقت کو مودب اور باسلیقہ نوکروں کی طرح سلام کیا۔ ابن الوقت نے آنکھ بھر کر دیکھا تو کوئی اٹھائیس تیس برس کی عمر کا جوان آدمی تھا اور انگریزی خدمت کاروں یا اردلیوں کی سی وضع رکھتا ہے۔ دوپٹہ سر سے باندھا ہے اور پٹکا کمر سے' گویا نوکری سے چلا آ رہا ہے۔ خوف اور رنج اور اضطراب ہے کہ چہرے سے ٹپکا پڑتا ہے' ہونٹوں پر پیٹریاں بندھ گئی ہیں' سانس پیٹ میں نہیں سماتا۔ ابن لوقت سے بات کرنا چاہتا ہے مگر بار بار پھر پھر کر لاشوں کی طرف کو تاکتا جاتا ہے۔ ہر چند چھوٹا میگزین بیچ میں حائل ہے مگر پھر بھی جی نہیں مانتا اور بے دیکھے رہا نہیں جاتا۔
وہ ابن الوقت کے پوچھنے کا ہی منتظر نہ رہا اور چھوٹتے ہی بولا کہ میرا نام جانثار ہے اور میں بہادر پور کے پٹھانوں میں سے ہوں۔ چار برس سے رہتک کے جنٹ مجسٹریٹ نوبل صاحن کی اردلی میں ہوں۔ ہمارے صاحب کئی مہینے سےے بیمار ہیں۔ رخصت لے کر ولایت جا رہے تھے اور بمبئی تک مجھے اپنے ساتھ لیے جاتے تھے۔ آج چوتھا دن ہے' ہم لوگ داک بنگلے میں آکر ٹھہرے۔ دوپہر کو غدر ہو گیا۔ صاحب کا مزاج نادرست تھا' بھاگ کر کہیں نہ جا سکے۔ تلنگوں نے ان کو لے جا کر کشمیری دروازے کے گارد میں قید کیا' وہاں اور بھی چند انگریزی پکڑے ہوئے تھے۔ آج سب قیدیوں کو کھڑا کر کے ناحق ناروا باڑ مار دی۔ ہمارے صاحب بھی زخمی ہو کر گرے مگر اس وقت تک ان میں جان ہے۔ میں ڈر کے مارے ان کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکا مگر آںکھ بچا کر مسجد سے پانی بدھنی ان کے پاس رکھ آیا ہوں۔ یہ خدا واسطے کا کام ہے' اگر آپ سے ہو سکے تو ہمارے صاحب کی جاب بچایئے۔ آپ کو بڑا درجہ ہو گا۔ صاحب ہیں تو انگریز مگر رحم دل۔ رہتک والوں سے آپ پوچھیئے' بیسوں یتیموں اور بیواؤں کئ تنخوائیں مققر کر رکھی ہیں۔ فوجداری کے مقدموں میں مجبور ہو کر جرمانہ کرتے ہیں تو اپنے پاس سے سرکار میں بھر دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر جانثار ابن الوقت کے پیروں میں گر پڑا اور کہنے لگا کہ آُ لاشوں کے پاس کھڑے ہوئے جو باتیں کر رہے تھے' میں دروازے کی آڑ میں چھپا سب رہا تھا۔ اس سے مجھ کو آپ سے کہنے

49
کی ہمت بھی پڑی اور میرا دل اندر سے گواہی دیتا ہے کہ خدا نے آپ کو ایسے وقت صرف ہمارے صاحب کی جان بچانے کو بھیجا ہے۔
ابن الوقت نے جانثار کو زمین پر سے اٹھایا اور کہا کہ جو کچھ یہ بدذات'پاجی'نمک حرام' باغی تلنگے کر رہے ہیں' کچھ شک نہیں کہ ظلم صریح ہے اور کسی مذہب و ملت میں روا نہیں اور اگر میں تمہارے صاحب کی حفاظت کر سکوں تو میں اس کو فرض انسانیت سمجھتا ہوں مگر ان لوگوں کو کس وقت باڑ ماڑی؟
جان نثار: " دوبجے۔"
ابن الوقت: " "اوہو' دو بجے! (ایک نوکر کی طرف مخاطب ہو کر) وہ جو اس وقت غیر سن پڑی تھی وہ یہی باڑ ہو گی۔ (جان نثار) اچھا پھر تم نے کیوں کر جانا کہ تمہارے صاحب ہنوز زندہ ہیں؟"
جان نثار: "حضور کے تشریف لانے سے تھوڑی دیر پہلے تک لاشوں پر دھوپ تھی اور لاشیں تو بالکل سفید پڑ گئی تھیں مگر ہمارے صاحب کے چہرے پر سرخی جھلکتی تھی اور میں نے اپنی آنکھ سے صاحب کے جسم میں حرکت بھی دیکھی ہے۔ پانی رکھنے گیا تو سانس چلتا سا دکھائی دیا ۔ خدا جانے کہاں چوٹ لگی ہے کہ بے ہوش ہیں۔ جس وقت سے صااحب ڈاک بنگلے میں پکڑے گئے اس وقت سے میں دائیں بائیں برابر صاحب کے پاس لگا رہا ہوں' ایک دم کو جدا نہیں ہوا۔ زخموں کی نسبت تو میں کچھ عرض نہیں کر سکتا مگر اس وقت ان میں جان تو ضرور ہے۔ آپ للہ ذرا چل کر دیکھ لیجیئے' اگر کچھ جان باقی ہے تو ان کو اپنی حفاظت میں لیجیئے' شاید خدا کرے بچ جائیں اور اگر ہو چکے ہیں تو وہ کیا مرے' ہم جیسے پچاس غریب ان کے ساتھ مر لیے۔ ہوں تو چار کوڑی کا پیادہ اور آپ کے روبرو عرض جرنا بھی گستاخی ہے مگر جناب یہ عمل داری تو اٹھنے والی نہیں۔ یہ بھی کوئی دن کا غل غپاڑا ہے۔ اگر صاحب آپ کے طفیل سے بچ گئے تو پھر دیکھیئے گا کیسے کیسے سلوک آپ کے ساتھ کرتے ہیں۔"
ابن الوقت نے جس وقت سے سنا تھا کہ ایک صاحب مجروح ہوئے پڑے ہیں اور زندہ ہیں' اسی وقت سے وہ اپنے ذہن میں صاحب کی حفاظے کی تدبیریں سوچنے لگا
 
Top