ص 72
چوتھا: اجی ابھی کیا خبر ہے۔ انگریزوں کے یہاں زمین کے دینے کا دستور نہیں، مگر ڈپٹی کر دیں، صدرِ اعلیٰ کر دیں، کابل میں سفیر یا کسی ریاست میں وزیر بنا کر بھیج دیں، جو چاہیں سو کر سکتے ہیں اور میرا دل گواہی دیتا ہے کہ کریں گے، پر کریں گے۔ میں آپ کو دکھا دوں گا۔
کھلی خوشامد ہوتی تو ابن الوقت بھی ایسا نِرا احمق نہ تھا کہ سن کر اظہارِ بشاشت کرتا مگر عیار لوگ دو شالوں میں لپیٹ لپیٹ کر جوتیاں مارتے تھے اور یہ جھانسے میں آ کر فخر کے طور پر ایک ایک کے آگے خدر کی حکایتیں بیان کر کے داد چاہتا تھا۔ جب لوگ اس کو بھرے پر چڑھا لیتے تو باتوں باتوں میں یہ بھی پوچھتے "کیوں صاحب، پھر وہ انگریز کپڑے کیسے پہنتا تھا۔"
ابن الوقت: جب صاحب کو ہم لاشوں میں سے اٹھا کر لائے تو ان کے کپڑے تمام خون میں لت پت تھے۔ صاحب کو اپنے تن بدن کی مطلق خبر نہیں اور اس ووقت تک ہم میں سے بھی کسی کو معلوم نہیں کہ کہاں کہاں زخم لگے ہیں۔ جو کپڑے پہنے ہوئے تھے، پہتیرا چاہا کہ چیر کر لاگ کر دیں مگر کپڑے اس بلا کے ڈھیٹ تھے کہ پھاڑے نہیں پھٹتے تھے۔ ہار کر قینچی سے کترے۔ جب تک صاحب ہمارے گھر رہے، یہی ہم طرح کے لوگوں کے ہندوستانی کپڑے پہنتے رہے مگر طنزاً نہیں نصیحتاً اکثر کہا کرتے افسوس، ہندوستان کے لوگ مطلق عقل سے کام نہیں لیتے۔ ایک کپڑے ہم لوگ پہنتے ہیں کہ برسوں پھٹنے کا نام نہیں لیتے اور ایک کپڑے یہ ہیں کہ پہنے اور کھسکے۔ ایسے نازک اور مہین کپڑے عورتوں کی زیب و زینت کے لئے زیادہ مناسب ہیں۔ مردوں کو خدا نے اسی غرض سے زیادہ توانائی دی ہے کہ ان کو محنت اور مشقت کرنی ہے۔ ہندوستانیوں کا لباس ان کی کاہل اور آسائش طلبی کی دلیل ہے۔ میں دیکھتا ہوں تو اس لباس میں چستی اور چالاکی باقی نہیں رہ سکتی۔
ہم نشین: بھلا صاحب، ان کے کھانے کا آپ نے کیا انتظام کیا تھا؟
ابن الوقت: انتظام کیا کرنا تھا، جو کچھ گھر میں پکتا تھا، صاحب بھی کھا لیا کرتے تھے۔ البتہ اتنا اہتمام کرنا پڑتا تھا کہ ان کے کھانے میں نمک مرچ نہیں ڈالی جاتی تھی۔ (ص 73)ایک نمک دان میں پسا ہوا نمک، دوسرے میں کالی مرچیں ان کے لئے الگ لگا رکھتے تھے۔ ہندوستانی کھانوں میں پلاؤ، کباب، سموسے، غیرینی، ہلکی ہلکی مٹھائیاں، زیادہ رغبت سے کھاتے تھے۔
ہم نشین: آپ نے ان کے برتن الگ کروائے ہوں گے؟
ابن الوقت: بھائی سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے تو برتن بھانڈ کچھ الگ ولگ نہیں کیا۔ کھانا ہمارا، برتن ہمارے، پکانے والے ہم، پھر الگ کرنے کی وجہ؟
ہم نشین: آخر وہ تھا تو انگریز۔
ابن الوقت: انگریز تھا تو ہونے دو۔ کھانے میں تو کوئی حرام چیز نہیں ہوتی تھی۔
ابن الوقت نے اس بات کو ذرا زور سے کہا تو ہم نشین سمجھ گیا کہ میرا کہنا ناگوار طبع ہوا۔ بے چارہ تھا ابن الغرض، دم بخود ہو کر رہ گیا۔ مگر اس کے بعد سے لوگ ابن الوقت کے حقے پان سے ذرا سا احتراز کرنے لگے تھے۔