فہیم
لائبریرین
ممکن نہ تھا۔ ناچار ابن الوقت کسی قدر ناامید ہوکر لوٹا مگر دل میں علمائے خانقاہ کے فتوے کی تصویب کرتا تھا اور اس خیال سے خوش تھا کہ ایک سرغنہ نہیں اگر ساری دنیا ایک طرف ہو تو خانقاہ والے مذہبی معاملے ڈرنے دھمکنے والے نہیں اور باغی خانقاہ والوں کا کر بھی کیا کرسکتے ہیں۔ اگر خانقاہ میں سے کسی کا بال بھی بیکا ہوا تو کشتوں سے پشتے لگ جائیں گے۔
بارے ابن الوقت پھر گھر لوٹ آیا۔ جوں دروازے میں قدم رکھتا تھا کہ جان نثار نے یہ خوش خبری سنائی کہ دھونے سے صاف کرنے سے معلوم ہوا کہ کہیں کاری زخم نہیں لگا اور صاحب نے آنکھ بھی کھولی ہے مگر ضعف کے سبب بول نہیں سکتے۔ مرہم پٹی تو ہوسکتی تھی، خدا کی قدرت، صرف ٹھنڈا پانی ٹپکانے سے کوئی سوا ڈیڑھ مہینے میں سب زخم بھر آئے اور باوجود کہ صبح س شام کی مشی بند ہوگئی تھی اور گو ابن الوقت جان نثار کی مدد سے ہر طرح کا اہتمام کرتا تھا مگر غذا میں بہت بڑا فرق واقع ہوگیا تھا، باایں ہمہ صاحب کا اصل مرض بھی جس کے علاج کے لیے ولایت جانے والے تھے، قدرے قلیل ہی باقی رہ گیا تھا۔ ان کو غالباً کثرت سے کتاب بینی کی وجہ سے ہلکا ہلکا درد سر ہر وقت رہتا تھا، اب کتاب بینی ہوئی یوئی یک قلم موقوف اور دماغ کو زحمت مطالقہ سے مل راحت اور سو دوا تو یہ بھی تھی کہ طبیعت ہوئی دوسری طرف مشغول، وہ درد سر بھی تھوڑی دیر کے لئے کبھی کبھار ہوتا تھا اور صاحب خود اس کو اختلاف غذا کی طرف منسوب کرتے تھے۔
تین مہینے نو دن نوبل صاحب ابن الوقت کے گھر رہے۔ اس عرصے میں دونوں میں اس درجے کا ارتباط بڑھا کہ آج تک کسی ہندوستانی کو کسی انگریز کے ساتھ ایسا اتفاق نہیں ہوا۔ ابن الوقت نامجانست اور صاحب کی علو منزلت کے خیال سے ابتداء کسی قدر رکا رہا مگر صاحب کی کتاب اور اخبار اور کچہری اور ہوا خوری اور ملاقات سب کچھ جاکر ایک ابن الوقت کی صحبت رہ گئی تھی، وہ کسی طر ح ایک لمحے کو ابن الوقت کا اپنے پاس سے ہٹنا پسند نہیں کرتے تھے۔ انسان کے اصلی خیالات کے لئے نعمت اور مصیبت کی حالتیں دو کسوٹیاں ہیں۔ نوبل صاحب کا یہ تو حال تھا کہ زخمی، معذور، محتاج، بے کس، غریب الوطن اور زندگی ہے کہ ہر وقت عرضہ خطر بلکہ نجات وہوم ہے، ہلاکت متیقن۔ مگر اللہ اللہ کس بلا کا استقلال مزاج تھا کہ ضعف و اضطراب کی کوئی حرکت تمام مدت قیام میں ان سے سرزد نہ ہوئی، وہ گیا دعوے دار مہمان تھے اور ہیکٹر مستامن۔ جانثار بے چارہ تو بھلا کس گنتی میں تھا، ابن الوقت کو اتنی خصوصیتیں اور اس قدر حقوق ہوتے ساتے ان کے پاس۔ محابا چلے جانے میں تامل ہوتا تھا۔
ابن الوقت کو تاریخ اور جغرافیہ اور اخبار کی معلومات نے پہلے انگریز پسند بنا رکھا تھا۔ پس نوبل صاحب اور ابن الوقت دونوں کی باتوں کا سلسلہ، سلسلہ نامتناہی تھا۔ دونوں کو کبھی آدھی آدھی رات باتوں میں گزر جاتی اور ایک بھی اٹھنے کا نام نہ لیتا مگر ان کی گفتگو غالباً تین طرح کی ہوتی تھی۔ اکثر تو غدر کا تذکرہ کہ واقعات ہر روزہ سے جہاں تک ابن الوقت کو قلعے کے ذریعے سے دریافت ہوتے تھے، شروع ہرکر آخر کو امو عامہ میں بات جا پڑتی مثلاً یہ کہ غدر ہوا تو کیوں ہوا؟ کہاں تک اس آفت کے پھیلنے کا احتمال ہے؟ آیا یہ ایسا موقع ہے کہ ہندوستا کی مختلف ہندو، مسلمان، سکھ، مرہٹے، بنگالی، مدراسی، راجپوت، جاٹ، گوجر، اس میں مل کر کوشش کریں گے؟ ہندوستا کے باشندوں میں فوجی وقت کس درجے کی ہے؟ راجواڑوں میں کس کس کے بگر بیٹھنے کا خوف ہے؟ شاہ وظیفہ خوار کی دہلی کے لوگوں کی نظر میں کیا دقعت ہے؟ سرحدی قومیں جیسے گورکھے اور افغانسان کے لوگ شریک بغاوت ہوں گے یا نہیں؟ کوئی ہم عصر سلطنت ایسی بھی ہے جو ایسے وقت میں سلطنت ہندوستان کی طمع کرے؟ یہ غدر فوج کی شوزش فوری ہے یا س کی ہنڈیا مدّت سے پک رہی تھی اور رعایا بھی فوج کی شریک حال ہے؟ حکومت انگریزی سے لوگ رضامند ہیں یا ناراض اور ناراض ہیں تو کیوں؟ کہاں تک مذہبی خیال غدر کا محرک ہوا؟ مسلمانوں کے معتقدات میں یہ غدر داخل جہاد ہے یا نہیں؟ اسی طرح بات میں سے بات نکلتی چلی تی تھی۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ نوبل صاحب ابن الوقت سے ہندوستانیوں کے رسم و رواج اور طرز تمدن اور معاشرت کے حالات دریافت کرتے اور ابن الوقت ہندی کی چندی کرکے ان کو بتاتا اور سمجھاتا رہا۔
ابن الوقت، اس کی تو سدا کی عادت تھی کہ غیر ملک کے حالات کو ہر ایک سے
بارے ابن الوقت پھر گھر لوٹ آیا۔ جوں دروازے میں قدم رکھتا تھا کہ جان نثار نے یہ خوش خبری سنائی کہ دھونے سے صاف کرنے سے معلوم ہوا کہ کہیں کاری زخم نہیں لگا اور صاحب نے آنکھ بھی کھولی ہے مگر ضعف کے سبب بول نہیں سکتے۔ مرہم پٹی تو ہوسکتی تھی، خدا کی قدرت، صرف ٹھنڈا پانی ٹپکانے سے کوئی سوا ڈیڑھ مہینے میں سب زخم بھر آئے اور باوجود کہ صبح س شام کی مشی بند ہوگئی تھی اور گو ابن الوقت جان نثار کی مدد سے ہر طرح کا اہتمام کرتا تھا مگر غذا میں بہت بڑا فرق واقع ہوگیا تھا، باایں ہمہ صاحب کا اصل مرض بھی جس کے علاج کے لیے ولایت جانے والے تھے، قدرے قلیل ہی باقی رہ گیا تھا۔ ان کو غالباً کثرت سے کتاب بینی کی وجہ سے ہلکا ہلکا درد سر ہر وقت رہتا تھا، اب کتاب بینی ہوئی یوئی یک قلم موقوف اور دماغ کو زحمت مطالقہ سے مل راحت اور سو دوا تو یہ بھی تھی کہ طبیعت ہوئی دوسری طرف مشغول، وہ درد سر بھی تھوڑی دیر کے لئے کبھی کبھار ہوتا تھا اور صاحب خود اس کو اختلاف غذا کی طرف منسوب کرتے تھے۔
تین مہینے نو دن نوبل صاحب ابن الوقت کے گھر رہے۔ اس عرصے میں دونوں میں اس درجے کا ارتباط بڑھا کہ آج تک کسی ہندوستانی کو کسی انگریز کے ساتھ ایسا اتفاق نہیں ہوا۔ ابن الوقت نامجانست اور صاحب کی علو منزلت کے خیال سے ابتداء کسی قدر رکا رہا مگر صاحب کی کتاب اور اخبار اور کچہری اور ہوا خوری اور ملاقات سب کچھ جاکر ایک ابن الوقت کی صحبت رہ گئی تھی، وہ کسی طر ح ایک لمحے کو ابن الوقت کا اپنے پاس سے ہٹنا پسند نہیں کرتے تھے۔ انسان کے اصلی خیالات کے لئے نعمت اور مصیبت کی حالتیں دو کسوٹیاں ہیں۔ نوبل صاحب کا یہ تو حال تھا کہ زخمی، معذور، محتاج، بے کس، غریب الوطن اور زندگی ہے کہ ہر وقت عرضہ خطر بلکہ نجات وہوم ہے، ہلاکت متیقن۔ مگر اللہ اللہ کس بلا کا استقلال مزاج تھا کہ ضعف و اضطراب کی کوئی حرکت تمام مدت قیام میں ان سے سرزد نہ ہوئی، وہ گیا دعوے دار مہمان تھے اور ہیکٹر مستامن۔ جانثار بے چارہ تو بھلا کس گنتی میں تھا، ابن الوقت کو اتنی خصوصیتیں اور اس قدر حقوق ہوتے ساتے ان کے پاس۔ محابا چلے جانے میں تامل ہوتا تھا۔
ابن الوقت کو تاریخ اور جغرافیہ اور اخبار کی معلومات نے پہلے انگریز پسند بنا رکھا تھا۔ پس نوبل صاحب اور ابن الوقت دونوں کی باتوں کا سلسلہ، سلسلہ نامتناہی تھا۔ دونوں کو کبھی آدھی آدھی رات باتوں میں گزر جاتی اور ایک بھی اٹھنے کا نام نہ لیتا مگر ان کی گفتگو غالباً تین طرح کی ہوتی تھی۔ اکثر تو غدر کا تذکرہ کہ واقعات ہر روزہ سے جہاں تک ابن الوقت کو قلعے کے ذریعے سے دریافت ہوتے تھے، شروع ہرکر آخر کو امو عامہ میں بات جا پڑتی مثلاً یہ کہ غدر ہوا تو کیوں ہوا؟ کہاں تک اس آفت کے پھیلنے کا احتمال ہے؟ آیا یہ ایسا موقع ہے کہ ہندوستا کی مختلف ہندو، مسلمان، سکھ، مرہٹے، بنگالی، مدراسی، راجپوت، جاٹ، گوجر، اس میں مل کر کوشش کریں گے؟ ہندوستا کے باشندوں میں فوجی وقت کس درجے کی ہے؟ راجواڑوں میں کس کس کے بگر بیٹھنے کا خوف ہے؟ شاہ وظیفہ خوار کی دہلی کے لوگوں کی نظر میں کیا دقعت ہے؟ سرحدی قومیں جیسے گورکھے اور افغانسان کے لوگ شریک بغاوت ہوں گے یا نہیں؟ کوئی ہم عصر سلطنت ایسی بھی ہے جو ایسے وقت میں سلطنت ہندوستان کی طمع کرے؟ یہ غدر فوج کی شوزش فوری ہے یا س کی ہنڈیا مدّت سے پک رہی تھی اور رعایا بھی فوج کی شریک حال ہے؟ حکومت انگریزی سے لوگ رضامند ہیں یا ناراض اور ناراض ہیں تو کیوں؟ کہاں تک مذہبی خیال غدر کا محرک ہوا؟ مسلمانوں کے معتقدات میں یہ غدر داخل جہاد ہے یا نہیں؟ اسی طرح بات میں سے بات نکلتی چلی تی تھی۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ نوبل صاحب ابن الوقت سے ہندوستانیوں کے رسم و رواج اور طرز تمدن اور معاشرت کے حالات دریافت کرتے اور ابن الوقت ہندی کی چندی کرکے ان کو بتاتا اور سمجھاتا رہا۔
ابن الوقت، اس کی تو سدا کی عادت تھی کہ غیر ملک کے حالات کو ہر ایک سے