غزل تم کہو اور غزل نہ کہوں ؟؟ توبہ توبہ۔
غزل لو غزل سنو۔۔ (یعنی پڑھو ۔۔ ہاہاہ)
ایک کافی کا کپ ایک تازہ غزل
ایک ٹپّہ یا ٹپ ایک تازہ غزل
اپنے درویش ! جی حکم کرتے مجھے
لیجیئے ایک گپ ایک تازہ غزل
ابر آلود ہے مطلعِ دل مرا
بوند برسی شڑپ، ایک تازہ غزل
تم کہو اور غزل میں غزل نہ کہوں ؟
جاپ اور جپ، ایک تازہ غزل
بالو نوچو ! مرے ، کان کھینچو مرے !
ایک دَھول ایک دھپ ایک تازہ غزل
مجھ کو محمود درکار ہیں ’’ کافیاں ‘‘
ہو بگھونا یا ٹپ ایک تازہ غزل
(حاشیہ : دوستوں کے لیے ’’ ٹپّہ‘‘ ایک صنفِ سخن ہے، ’’ٹپ‘‘ چھیڑ میں کہا ہے۔۔۔ )
اتنے شعر کافی ہیں غزل ؟ یا اور کہوں ۔۔؟؟ ہاہہاہاہا ۔۔ اسے کہتے ہیں ‘‘ سر آنکھوں پر ‘‘
بہت خوش رہو سلامت رہو شاد رہو آباد رہو۔۔۔