جاسم محمد
محفلین
وزیرِ اعظم عمران خان کے ’بے پردگی اور فحاشی‘ کو ریپ کی وجوہات قرار دینے والے بیان پر شدید تنقید، معافی مانگنے کا مطالبہ
7 اپريل 2021
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
’لباس ہی زیادتی کی وجہ نہیں۔۔ پانچ چھ سال کی بچی کے ساتھ زیادتی اور لباس کا آپس میں کیا تعلق؟؟؟ دیہی علاقوں میں خود کو ڈھانپ کر رکھنے والی خواتین کے ساتھ کیوں زیادتی ہوتی ہے؟ ریپ کا ذمہ دار ریپ کرنے والا ہے نہ کہ جس کا ریپ ہوا اس کا لباس۔‘
’ریپ کا پردے اور لباس سے گہرا تعلق ہے۔ آپ کو کیا پتہ اسلام کا؟ جو عورت برقعہ پہنتی ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔‘
’یہ معاشرہ ذہنی طور پر مفلوج اور الجھن کا شکار ہے اور عمران خان اسی معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں۔ مذہب کے پیچھے چھُپنا ایک مشغلہ بن گیا ہے۔ محض روایات کو مذہب سمجھ لیا گیا ہے اور بنیادی اخلاقیات جو مذہب سکھاتا ہے، ان کا خانہ بلکل خالی ہے۔ حالانکہ ریاست کا مذہب سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔‘
یہ تبصرے پاکستان میں سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث کا ایک نمونہ ہیں جو وزیرِ اعظم عمران خان کے اس بیان کے بعد شروع ہوئی جس میں انھوں نے ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کی وجوہات میں ایک وجہ بے پردگی اور فحاشی کو قرار دیا تھا۔
ادھر برطانوی میڈیا میں عمران خان کے اس بیان سے متعلق خبریں چھپنے کے بعد ان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ امید کرتی ہیں کہ عمران خان کی بات کا غلط حوالہ دیا گیا ہے یا غلط ترجمہ کیا گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ 'جس عمران کو میں جانتی تھی وہ تو کہتا تھا کہ مرد کی آنکھوں پر پردہ ڈالنا چاہیے ناکہ عورت پر'۔
اس سے پہلے پاکستان میں کئی معروف خواتین سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان سے بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور کئی حلقوں نے ان سے معافی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور ویمن ایکشن فورم سمیت انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کی طرف سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں پر ریپ کے مقدمات رپورٹ ہونا نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں کے وزیر اعظم کی طرف سے اس طرح کا بیان ’ریپ کا شکار ہونے والی خواتین اور ان کے خاندان کے لیے ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے‘۔
مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم کے بیان سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے ذمہ دار اس جرم کا ارتکاب کرنے والے نہیں بلکہ وہ خود اس کی ذمہ دار ہیں۔
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے ایسا بیان دیا گیا ہے بلکہ یہ بیان ریپ اور جنسی تشدد کے بارے میں ان کی سوچ کا عکاس ہے۔
عمران خان نے کیا کہا تھا ؟
تین اپریل کو عوام سے ’براہ راست‘ کال وصول کرنے والے ایک پروگرام میں ایک کالر کی طرف سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ریپ کے بارے میں حکومت نے سخت قوانین بنائے ہیں لیکن ایسے جرائم کے بڑھنے کی وجوہات کو بھی دیکھنا ہوگا اور ان میں سے ایک وجہ فحاشی کا پھیلنا ہے‘۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے صرف قانون بنانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے پورے معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا ’معاشرے نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ معاشرے کی تباہی ہے اور اس کی وجوہات ہیں۔ آج جس معاشرے کے اندر آپ فحاشی بڑھاتے جائیں تو اس کے اثرات ہوں گے۔ ہمارے دین میں کیوں منع کیا گیا ہے؟ پردے کی تاکید کیوں کی گئی ہے؟ تاکہ کسی کو ترغیب نہ ملے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہر انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود کو روک سکے۔۔۔ آپ معاشرے میں جتنی فحاشی بڑھاتے جائیں گے تو اس کے اثرات ہوں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہTHINKSTOCK
سیاسی جماعتوں کی جانب سے وزیرِ اعظم کے بیان کی مذمت
پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے وزیر اعظم کے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بیان دے کر عمران صاحب نے ریپ کا شکار ہونے والوں اور ان کے گھر والوں کا دل دکھایا ہے۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی طرف سے دیا گیا یہ بیان ’ہر باشعور شخص کے لیے حیران کن ہے‘۔
پاکستان مسلم لیگ کی ترجمان نے سوال اٹھایا کہ ’کمسن بچوں کو جو ریپ کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیا اس کی وجہ بھی فحاشی ہی ہے؟‘
دوسری جانب حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے بھی وزیر اعظم کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے ان کے بیان کو لاہور پولیس کے سابق سی سی پی او عمر شیخ کے بیان کے ساتھ جوڑا ہے جس میں پولیس افسر نے لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہTWITTER/@SKHANATHLETE
،تصویر کا کیپشن
کچھ عرصہ قبل پاکستانی سائیکلسٹ ثمر خان نے بھی اپنے ساتھ ہونے والا ایک واقعہ شئیر کیا تھا۔ سڑک کے بیچ پر کھڑے ہو کر انھوں نے ویڈیو میں کہا کہ: 'آپ نے ہمیشہ میری طرف سے لڑکیوں کے سائیکل چلانے پر حوصلہ افزائی کا سنا ہوگا۔۔۔ میں جھوٹ نہیں بولنا چاہتی۔ یہ غیر محفوظ ہے۔ میں اسلام آباد میں سائیکلنگ کر رہی تھی۔ 'فیض آباد کے قریب ایک بندہ آیا جو شاید دفتر سے آرہا تھا۔ اس نے مجھے پیچھے سے پکڑا اور بھاگ گیا۔‘
سوشل میڈیا پر ردِعمل
سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کے اس بیان پر ملا جلا ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف صارفین ان پر شدید تنقید کر رہے ہیں وہیں ان کے بیان کی حمایت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔
سوشل میڈیا پر وزیرِاعظم کے بیان کے خلاف ایک مذمتی خط بھی شیئر کیا جارہا ہے جس میں اب تک 200 سے زائد افراد اور خواتین کے حقوق سے وابستہ تنظیموں کے دستخط موجود ہیں۔
اس خط میں ان کے بیان کی مذمت کے ساتھ ساتھ عمران خان سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
،تصویر کا ذریعہ@IMAANZHAZIR
وزیر اعظم نے عوام کے ساتھ خطاب کے دوران خواتین کے پردے کی اہمیت پر بھی زور دیا جس کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر خاصی بحث چل پڑی ہے۔
نجی ٹی وی سے وابستہ اینکر شہزیب خانزادہ نے ٹویٹ کیا کہ ’وزیر اعظم کا ریپ واقعات کو لباس اور پردے سے جوڑنا افسوسناک ہی نہیں خطرناک بھی ہے۔ براہ راست وِکٹم بلیمنگ ہے۔ ریپ کا لباس سے کوئی تعلق نہیں، شہوانیت بھی ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔‘
ایک صارف لکھتی ہیں کہ ’کسی نے کیسا لباس پہنا ہے، کیسا دوپٹہ اوڑا ہے اور میڈیا پر کیا دیکھاتا ہے اس بارے میں فیصلہ کرنا ریاست کا کام نہیں‘۔ انھوں نے کہا کہ ’کوئی انسان برقع پہنے ہو جینز پہنے ہو، اپنے محرم کے ساتھ ہو یا اکیلی ہو، وہ پورن دیکھتی ہو یا ارتغرل کے ڈرامے، ہر شخص کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہ@BENAZIR_SHAH
اس بحث کے دوران پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں ایک لڑکی نے اپنا سر دوپٹے سے ڈھانپا ہوا ہے اور وہ ایک گلی میں سے گزر رہی ہے، اسی دوران اس کی مخالف سمت سے آنے والا ایک موٹر سائیکل سوار اس لڑکی کی چھاتی کو زبردستی ہاتھ لگا کر فرار ہو جاتا ہے۔
اس ویڈیو کو شیئیر کرنے والے اس کے ساتھ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ اس ویڈیو میں تو لڑکی نے ڈوپٹہ اوڑہ رکھا ہے تو پھر اس کے ساتھ جو ہوا اس کی وجہ لباس کیسے ہوئی؟
خاتون وکیل جلیلہ حیدر لکھتی ہیں کہ ایسے واقعات میں ریپ کرنے والے کی طاقت اور اس کے کسی کو زیر اثر لانے کی سوچ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہ@ADVJALILA
’عمران خان صاحب بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، لباس کا بہت عمل دخل ہے‘
کئی افراد عمران خان کے بیان کی حمایت کرتے بھی نظر آئے۔ روبینہ بشیر لکھتی ہیں ’عمران خان صاحب نے بالکل ٹھیک کہا، لباس کا بہت عمل دخل ہے اور پاکستان میں فحاشی عروج پر ہے۔ لباس پورا ہو گا تو کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ یورپ میں مسلمان خواتین مکمل حجاب میں ہوتی ہیں مگر پاکستان میں تو خواتین کے لباس کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔ یہاں بے حیائی عام ہے۔‘
اس کے جواب میں حسن نامی صارف نے ان سے پوچھا کہ ’جو چھوٹی معصوم بچیاں ریپ کرنے کے بعد مار دی گئیں انھوں نے کون سے کپڑے پہن رکھے تھے؟ کیا زینب کے ساتھ زیادتی کپڑوں کی وجہ سے ہوئی؟‘
،تصویر کا ذریعہ@SOBIAAKBAR99
اس ساری بحث میں عمران خان کی فالوورز ان کے بیان پر تنقید کو خود عمران خان پر تنقید مانتے ہوئے ان کا دفاع کررہے ہیں جبکہ کچھ مداحوں کو ان کے بیان پر صدمہ بھی پہنچا ہے۔
حارث الدین نامی صارف نے لکھا ’بھائی جو بات کہی بہت اعلیٰ کہی وزیرِ اعظم صاحب نے۔ پتہ نہیں لوگوں کو اسلام کے احکامات سے کیا چڑ ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ لباس کا صحیح نہ ہونا فحاشی نہیں پھیلاتا تو پھر لباس ہی سے آزاد ہو جاؤ۔‘
ثوبیہ اکبر نے اس حوالے سے ایک تھریڈ پوسٹ کیا۔ انھوں نے لکھا ’خان صاحب نے قطعی نہیں کہا کہ ریپ کا شکار ہونے والی متاثرہ خواتین یا بچیوں کا لباس ان واقعات کی وجہ بنتا ہے۔ انھوں نے بحیثیت مجموعی معاشرے میں فحش مواد تک بڑھتی ہوئی رسائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اخلاقی گراوٹ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اور جہاں تک پردے کی بات ہے تو ضروری نہیں کہ پردہ صرف عورت کے لباس کا ہو، پردہ مرد کی آنکھ کا بھی ہوتا ہے۔‘
،
7 اپريل 2021

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
’لباس ہی زیادتی کی وجہ نہیں۔۔ پانچ چھ سال کی بچی کے ساتھ زیادتی اور لباس کا آپس میں کیا تعلق؟؟؟ دیہی علاقوں میں خود کو ڈھانپ کر رکھنے والی خواتین کے ساتھ کیوں زیادتی ہوتی ہے؟ ریپ کا ذمہ دار ریپ کرنے والا ہے نہ کہ جس کا ریپ ہوا اس کا لباس۔‘
’ریپ کا پردے اور لباس سے گہرا تعلق ہے۔ آپ کو کیا پتہ اسلام کا؟ جو عورت برقعہ پہنتی ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔‘
’یہ معاشرہ ذہنی طور پر مفلوج اور الجھن کا شکار ہے اور عمران خان اسی معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں۔ مذہب کے پیچھے چھُپنا ایک مشغلہ بن گیا ہے۔ محض روایات کو مذہب سمجھ لیا گیا ہے اور بنیادی اخلاقیات جو مذہب سکھاتا ہے، ان کا خانہ بلکل خالی ہے۔ حالانکہ ریاست کا مذہب سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔‘
یہ تبصرے پاکستان میں سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث کا ایک نمونہ ہیں جو وزیرِ اعظم عمران خان کے اس بیان کے بعد شروع ہوئی جس میں انھوں نے ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کی وجوہات میں ایک وجہ بے پردگی اور فحاشی کو قرار دیا تھا۔
ادھر برطانوی میڈیا میں عمران خان کے اس بیان سے متعلق خبریں چھپنے کے بعد ان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ امید کرتی ہیں کہ عمران خان کی بات کا غلط حوالہ دیا گیا ہے یا غلط ترجمہ کیا گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ 'جس عمران کو میں جانتی تھی وہ تو کہتا تھا کہ مرد کی آنکھوں پر پردہ ڈالنا چاہیے ناکہ عورت پر'۔
اس سے پہلے پاکستان میں کئی معروف خواتین سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان سے بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور کئی حلقوں نے ان سے معافی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور ویمن ایکشن فورم سمیت انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کی طرف سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں پر ریپ کے مقدمات رپورٹ ہونا نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں کے وزیر اعظم کی طرف سے اس طرح کا بیان ’ریپ کا شکار ہونے والی خواتین اور ان کے خاندان کے لیے ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے‘۔
مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم کے بیان سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے ذمہ دار اس جرم کا ارتکاب کرنے والے نہیں بلکہ وہ خود اس کی ذمہ دار ہیں۔
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے ایسا بیان دیا گیا ہے بلکہ یہ بیان ریپ اور جنسی تشدد کے بارے میں ان کی سوچ کا عکاس ہے۔
عمران خان نے کیا کہا تھا ؟
تین اپریل کو عوام سے ’براہ راست‘ کال وصول کرنے والے ایک پروگرام میں ایک کالر کی طرف سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ریپ کے بارے میں حکومت نے سخت قوانین بنائے ہیں لیکن ایسے جرائم کے بڑھنے کی وجوہات کو بھی دیکھنا ہوگا اور ان میں سے ایک وجہ فحاشی کا پھیلنا ہے‘۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے صرف قانون بنانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے پورے معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا ’معاشرے نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ معاشرے کی تباہی ہے اور اس کی وجوہات ہیں۔ آج جس معاشرے کے اندر آپ فحاشی بڑھاتے جائیں تو اس کے اثرات ہوں گے۔ ہمارے دین میں کیوں منع کیا گیا ہے؟ پردے کی تاکید کیوں کی گئی ہے؟ تاکہ کسی کو ترغیب نہ ملے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہر انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود کو روک سکے۔۔۔ آپ معاشرے میں جتنی فحاشی بڑھاتے جائیں گے تو اس کے اثرات ہوں گے۔‘

،تصویر کا ذریعہTHINKSTOCK
سیاسی جماعتوں کی جانب سے وزیرِ اعظم کے بیان کی مذمت
پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے وزیر اعظم کے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بیان دے کر عمران صاحب نے ریپ کا شکار ہونے والوں اور ان کے گھر والوں کا دل دکھایا ہے۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی طرف سے دیا گیا یہ بیان ’ہر باشعور شخص کے لیے حیران کن ہے‘۔
پاکستان مسلم لیگ کی ترجمان نے سوال اٹھایا کہ ’کمسن بچوں کو جو ریپ کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیا اس کی وجہ بھی فحاشی ہی ہے؟‘
دوسری جانب حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے بھی وزیر اعظم کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے ان کے بیان کو لاہور پولیس کے سابق سی سی پی او عمر شیخ کے بیان کے ساتھ جوڑا ہے جس میں پولیس افسر نے لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@SKHANATHLETE
،تصویر کا کیپشن
کچھ عرصہ قبل پاکستانی سائیکلسٹ ثمر خان نے بھی اپنے ساتھ ہونے والا ایک واقعہ شئیر کیا تھا۔ سڑک کے بیچ پر کھڑے ہو کر انھوں نے ویڈیو میں کہا کہ: 'آپ نے ہمیشہ میری طرف سے لڑکیوں کے سائیکل چلانے پر حوصلہ افزائی کا سنا ہوگا۔۔۔ میں جھوٹ نہیں بولنا چاہتی۔ یہ غیر محفوظ ہے۔ میں اسلام آباد میں سائیکلنگ کر رہی تھی۔ 'فیض آباد کے قریب ایک بندہ آیا جو شاید دفتر سے آرہا تھا۔ اس نے مجھے پیچھے سے پکڑا اور بھاگ گیا۔‘
سوشل میڈیا پر ردِعمل
سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کے اس بیان پر ملا جلا ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف صارفین ان پر شدید تنقید کر رہے ہیں وہیں ان کے بیان کی حمایت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔
سوشل میڈیا پر وزیرِاعظم کے بیان کے خلاف ایک مذمتی خط بھی شیئر کیا جارہا ہے جس میں اب تک 200 سے زائد افراد اور خواتین کے حقوق سے وابستہ تنظیموں کے دستخط موجود ہیں۔
اس خط میں ان کے بیان کی مذمت کے ساتھ ساتھ عمران خان سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

،تصویر کا ذریعہ@IMAANZHAZIR
وزیر اعظم نے عوام کے ساتھ خطاب کے دوران خواتین کے پردے کی اہمیت پر بھی زور دیا جس کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر خاصی بحث چل پڑی ہے۔
نجی ٹی وی سے وابستہ اینکر شہزیب خانزادہ نے ٹویٹ کیا کہ ’وزیر اعظم کا ریپ واقعات کو لباس اور پردے سے جوڑنا افسوسناک ہی نہیں خطرناک بھی ہے۔ براہ راست وِکٹم بلیمنگ ہے۔ ریپ کا لباس سے کوئی تعلق نہیں، شہوانیت بھی ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔‘
ایک صارف لکھتی ہیں کہ ’کسی نے کیسا لباس پہنا ہے، کیسا دوپٹہ اوڑا ہے اور میڈیا پر کیا دیکھاتا ہے اس بارے میں فیصلہ کرنا ریاست کا کام نہیں‘۔ انھوں نے کہا کہ ’کوئی انسان برقع پہنے ہو جینز پہنے ہو، اپنے محرم کے ساتھ ہو یا اکیلی ہو، وہ پورن دیکھتی ہو یا ارتغرل کے ڈرامے، ہر شخص کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہ@BENAZIR_SHAH
اس بحث کے دوران پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں ایک لڑکی نے اپنا سر دوپٹے سے ڈھانپا ہوا ہے اور وہ ایک گلی میں سے گزر رہی ہے، اسی دوران اس کی مخالف سمت سے آنے والا ایک موٹر سائیکل سوار اس لڑکی کی چھاتی کو زبردستی ہاتھ لگا کر فرار ہو جاتا ہے۔
اس ویڈیو کو شیئیر کرنے والے اس کے ساتھ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ اس ویڈیو میں تو لڑکی نے ڈوپٹہ اوڑہ رکھا ہے تو پھر اس کے ساتھ جو ہوا اس کی وجہ لباس کیسے ہوئی؟
خاتون وکیل جلیلہ حیدر لکھتی ہیں کہ ایسے واقعات میں ریپ کرنے والے کی طاقت اور اس کے کسی کو زیر اثر لانے کی سوچ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہ@ADVJALILA
’عمران خان صاحب بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، لباس کا بہت عمل دخل ہے‘
کئی افراد عمران خان کے بیان کی حمایت کرتے بھی نظر آئے۔ روبینہ بشیر لکھتی ہیں ’عمران خان صاحب نے بالکل ٹھیک کہا، لباس کا بہت عمل دخل ہے اور پاکستان میں فحاشی عروج پر ہے۔ لباس پورا ہو گا تو کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ یورپ میں مسلمان خواتین مکمل حجاب میں ہوتی ہیں مگر پاکستان میں تو خواتین کے لباس کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔ یہاں بے حیائی عام ہے۔‘
اس کے جواب میں حسن نامی صارف نے ان سے پوچھا کہ ’جو چھوٹی معصوم بچیاں ریپ کرنے کے بعد مار دی گئیں انھوں نے کون سے کپڑے پہن رکھے تھے؟ کیا زینب کے ساتھ زیادتی کپڑوں کی وجہ سے ہوئی؟‘

،تصویر کا ذریعہ@SOBIAAKBAR99
اس ساری بحث میں عمران خان کی فالوورز ان کے بیان پر تنقید کو خود عمران خان پر تنقید مانتے ہوئے ان کا دفاع کررہے ہیں جبکہ کچھ مداحوں کو ان کے بیان پر صدمہ بھی پہنچا ہے۔
حارث الدین نامی صارف نے لکھا ’بھائی جو بات کہی بہت اعلیٰ کہی وزیرِ اعظم صاحب نے۔ پتہ نہیں لوگوں کو اسلام کے احکامات سے کیا چڑ ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ لباس کا صحیح نہ ہونا فحاشی نہیں پھیلاتا تو پھر لباس ہی سے آزاد ہو جاؤ۔‘
ثوبیہ اکبر نے اس حوالے سے ایک تھریڈ پوسٹ کیا۔ انھوں نے لکھا ’خان صاحب نے قطعی نہیں کہا کہ ریپ کا شکار ہونے والی متاثرہ خواتین یا بچیوں کا لباس ان واقعات کی وجہ بنتا ہے۔ انھوں نے بحیثیت مجموعی معاشرے میں فحش مواد تک بڑھتی ہوئی رسائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اخلاقی گراوٹ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اور جہاں تک پردے کی بات ہے تو ضروری نہیں کہ پردہ صرف عورت کے لباس کا ہو، پردہ مرد کی آنکھ کا بھی ہوتا ہے۔‘

،