یہ دل ٹھہرا ہوا ہے موجِ صبا میں
ازل سے درد شامل تو ہے وفا میں
کرے گر کوئی تو کیسے دل کا مرہم
اثر ہی جب کوئی نا ہو جو دوا میں
کسی سے کیا کرے وہ امید بتا
کوئی راضی ہی نا ہو جس کی رضا میں
تو ہی بتا وہ تجھ کو پائے گا کس طرح
جسے تو نا ہو ملا لاکھوں دعا میں
وہ عہدِ ہجر کر کے آیا تھا ساگر
اسے رکنا ہی نا تھا کیا دیتا صدا میں
اس کی اصلاح کر کے بتایئے