شکریہ۔ مختصر تعارف کوائف میں موجود ہے تاہم آپ کے حکم کی تعمیل میں یہاں بھی چسپاں کر رہا ہوں:
ڈاکٹر نعیم جشتی زمانۂ طالب علمی میں اسلامیہ کالج کے میگزین ”کریسنٹ“ کے مدیر اعلیٰ رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں...
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
خوشی کے دیپ جلاؤ تو کوئی بات بنے
اندھیرے غم کے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
سحر قریب ہے پھر بھی بڑا اندھیرا ہے
نقاب رخ سے اٹھاؤ تو کوئی بات بنے
وفا کا بدلہ وفا کے سوا کچھ اور نہیں
وفا کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
سفر تو خیر اکیلے بھی کٹ ہی جائے گا
قدم قدم سے ملاؤ تو کوئی...
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
دیا ہے قول جو اس پر ہمیں پورا اترنا ہے
گھڑا کچا سہی پھر بھی یہ دریا پار کرنا ہے
ہمارے جسم میں جو روح ہے اس کی امانت ہے
محبت کا تقاضا ہے کہ اب جاں سے گزرنا ہے
وہ خوشبو ہےاسے تم قید رکھو گے بھلا کب تک
بالآخر تو اسے اک دن فضاؤں میں بکھرنا ہے
گماں ہے موت پر ہم کو حیات...
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
دیکھا نہیں ہےتم نے کبھی بھی قریب سے
ہو جاتا ورنہ پیار تمہیں اس غریب سے
تقدیر مہربان نہیں ہوتی بار بار
ملتے ہیں اچھے لوگ کسی کو نصیب سے
ایسا نہیں کہ تم سے بچھڑ کر نہ رہ سکوں
گزرے گی زندگی مگر اپنی عجیب سے
دیتے ہو نیکیوں کا برائی سے تم جواب
لیتے ہو انتقام یہ کس کا...
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
راست گو‘ مخلص اور وعدہ نبھانے والے
اب کہاں لوگ ہیں وہ پچھلے زمانے والے
ہنس کے ملنا تو ہے تہذیب کی پہچان یہاں
دوست ہوتے نہیں سب ہنس کے بلانے والے
صبح ہوتے ہی بدل لیتے ہیں آنکھیں اپنی
رات کی تیرگی میں دل سے لگانے والے
یاد میں کس کی جلاتے ہو امیدوں کے چراغ
لوٹ کر آئے ہیں...
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
شاید کبھی وہ آئے نظر کوئے یار میں
پھرتےہیں لےکے چاک جگر کوئے یار میں
تنہا کسی بھی وقت نہیں ہوتے ہم کبھی
رہتے ہیں ساتھ شمس و قمر کوئے یار میں
بجھتی نہیں ہے پیاس مگر اب بھی دید کی
جلووں سے کھیلتی ہے نظر کوئے یار میں
رہتی ہے شادمان طبیعت ہر اک گھڑی
ہوتا نہیں ہے غم کا اثر...
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
کب تک رہیں گے عالم ناپائیدار میں
دائم رہا ہے کون اس اجڑے دیار میں
صیاد نے چمن میں بچھایا ہے جال پھر
دن رہ گئے ہیں تھوڑے ہی فصل بہار میں
بلبل نے گیت گایا تو آںسو نکل پڑے
گاتےتھےگیت ہم بھی کبھی تیرےپیار میں
چپ چاپ کرتے جائیے جیسے کہ حکم ہو
اتنا ہی اختیار ہے بس اپنے...
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
کوئی انسان بھی گو عقل سے محروم نہیں
اپنا انجام کسی شخص کو معلوم نہیں
جو چلا آیا ترے در پہ وہ خوش قسمت ہے
تیرا دیدار بھی ہر شخص کو مقسوم نہیں
عقل کب ڈھوںڈ سکی ہے ترے گھر کا رستہ
سچے سالک سے ترا راستہ معدوم نہیں
اہل ایمان پہ لازم ہے یزیدوں سے جہاد
ظلم کے آگے جو جھک جائے...
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
کیا بات تھی ایسی اے خدا میرے سخن میں
لگتے ہی رہے تیر سدا میرے بدن میں
کوئی تو یہاں پر ہے مری جان کا دشمن
اک آگ لگا دی ہے یہ کس نے مرےتن میں
احباب لگاتے رہے جو بن کے مسیحا
وہ زخم ابھی باقی ہیں سب میرے بدن میں
ہر وقت ہی کرتے ہیں وہ دشنام طرازی
جیسے کہ نہیں کوئی زباں...
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
گو بظاہر شہر میں ہے بزم آرائی بہت
جھانک کر دیکھو دلوں میں تو ہے تنہائی بہت
دل مرا بھی چاہتا ہے اس سے ملنے کے لئے
ساری دنیا کہہ رہی ہے وہ ہے ہرجائی بہت
میرے دشمن نے بنایا ہو گا منصوبہ نیا
کر رہا ہے کچھ دنوں سے وہ پذیرائی بہت
وقت آخر اقربا بھی عذر کر کے چھپ گئے
ہم سمجھتے...