ڈاکٹر نعیم چشتی کی غزلیات

غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

شاید کبھی وہ آئے نظر کوئے یار میں
پھرتےہیں لےکے چاک جگر کوئے یار میں

تنہا کسی بھی وقت نہیں ہوتے ہم کبھی
رہتے ہیں ساتھ شمس و قمر کوئے یار میں

بجھتی نہیں ہے پیاس مگر اب بھی دید کی
جلووں سے کھیلتی ہے نظر کوئے یار میں

رہتی ہے شادمان طبیعت ہر اک گھڑی
ہوتا نہیں ہے غم کا اثر کوئے یار میں

لگتی ہے راہ یار بھی جیسے ہو کہکشاں
رہتے ہیں ہم بھی خاک بسر کوئے یار میں

اسکو بھی ہو گیا ہے شغف شاعری سے اب
آیا ہے کچھ تو کام ہنر کوئے یار میں

گر وہ وہاں نہیں بھی تو یادیں تو اس کی ہیں
کٹتے ہیں اپنے شام و سحر کوئے یار میں

یہ بھی کمال صرف اسی کی گلی میں ہے
آتے ہیں دن میں تارے نظر کوئے یار میں

مقدور ہو تو جائیں نہ واپس کبھی بھی ہم
ہم بھی بنا لیں چھوٹا سا گھر کوئے یار میں

جب تک نعیم جاری ہے سانسوں کا سلسلہ
تب تک رہے گا اپنا گزر کوئے یار میں
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

راست گو‘ مخلص اور وعدہ نبھانے والے
اب کہاں لوگ ہیں وہ پچھلے زمانے والے

ہنس کے ملنا تو ہے تہذیب کی پہچان یہاں
دوست ہوتے نہیں سب ہنس کے بلانے والے

صبح ہوتے ہی بدل لیتے ہیں آنکھیں اپنی
رات کی تیرگی میں دل سے لگانے والے

یاد میں کس کی جلاتے ہو امیدوں کے چراغ
لوٹ کر آئے ہیں ساجن کبھی جانے والے؟

دل نگر کے سبھی دروازے مقفل کر لو
جو یہاں رہتے تھے واپس نہیں آنے والے

جو مرے ساتھ کبھی رہتے تھے سائے کیطرح
وہ ہی بربادی کے دھانے پہ ہیں لانے والے

پھر نئی چال کوئی ذہن میں آئی ہو گی
مجھ سے نادم ہیں مجھے چوٹ لگانے والے

ہم نے سمجھا جسے اپنا وہ بھی کب ہے اپنا
اس کے انداز بھی ہیں وہ ہی زمانے والے

کوئی ایسا نہیں مشکل میں جو دے ساتھ مرا
یوں تو ہیں دوست بہت ملنے ملانے والے

جو کبھی زینت محفل رہا کرتے تھے نعیم
اب انہیں یاد نہیں وقت پرانے والے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

دیکھا نہیں ہےتم نے کبھی بھی قریب سے
ہو جاتا ورنہ پیار تمہیں اس غریب سے

تقدیر مہربان نہیں ہوتی بار بار
ملتے ہیں اچھے لوگ کسی کو نصیب سے

ایسا نہیں کہ تم سے بچھڑ کر نہ رہ سکوں
گزرے گی زندگی مگر اپنی عجیب سے

دیتے ہو نیکیوں کا برائی سے تم جواب
لیتے ہو انتقام یہ کس کا غریب سے

ڈوبا وہ خود تو ساتھ ہمیں بھی ڈبو دیا
شکوہ یہی ہے اپنے دل بد نصیب سے

کب فرصت نیاز ملی اہل ناز کو
پوچھا نہ میرا حال جو گزرے قریب سے

آیا نہ آسماں سے انہیں کوئی بھی جواب
رب کو پکارتے رہے عیسیٰ صلیب سے

صرف اسکےپاس ہی ہےمرے درد کا علاج
کوئی تو جا کےکہہ دے یہ میرےطبیب سے

کرتا رہا وہ دوست مرا چھپ کےمجھ پہ وار
جیسے مخاصمت ہو کسی کو رقیب سے

جائیں گے رکھ کے جان ہتھیلی پہ ہم نعیم
آئے جو اک پیام دیار حبیب سے
 
ڈاکٹر صاحب، آداب!
آپ ماشاءاللہ جس سبک رفتاری سے اپنے کلام سے نواز رہے ہیں، اس طرح تو محفلین آپ کا ساتھ نہیں دے پائیں گے۔ کلام کی عنایت میں کچھ توقف ہونا چاہیئے تاکہ احباب اس کا بھرپور لطف اٹھا سکیں اور اپنی رائے بھی دے سکیں۔

دعاگو،
راحلؔ
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

دیا ہے قول جو اس پر ہمیں پورا اترنا ہے
گھڑا کچا سہی پھر بھی یہ دریا پار کرنا ہے

ہمارے جسم میں جو روح ہے اس کی امانت ہے
محبت کا تقاضا ہے کہ اب جاں سے گزرنا ہے

وہ خوشبو ہےاسے تم قید رکھو گے بھلا کب تک
بالآخر تو اسے اک دن فضاؤں میں بکھرنا ہے

گماں ہے موت پر ہم کو حیات جاودانی کا
ہوا جب حکم دریا کو سمندر میں اترنا ہے

بہت مشکل سہی وہ مرحلہ ان سے بچھڑنے کا
مگر کیا کیجئے اک دن ہمیں اس سے گزرنا ہے

ہمارا جرم ہے الفت سزا اس کی بھگتنی ہے
ہمیں جس نے بھلا ڈالا اسے اب یاد کرنا ہے

بری ہے یا بھلی ہے زندگی اب ساتھ گزرے گی
تمہارے ساتھ جینا ہے تمہارے ساتھ مرنا ہے

کسی بزدل سے یارو مت لگانا دل کبھی اپنا
کہ اس کا کام اوروں کو ڈرانا خود بھی ڈرنا ہے

نہ بد دل ہو نعیم اتنا بھی لوگوں کے رویے سے
کہ کام ان کا فقیروں پر غلط الزام دھرنا ہے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

خوشی کے دیپ جلاؤ تو کوئی بات بنے
اندھیرے غم کے مٹاؤ تو کوئی بات بنے

سحر قریب ہے پھر بھی بڑا اندھیرا ہے
نقاب رخ سے اٹھاؤ تو کوئی بات بنے

وفا کا بدلہ وفا کے سوا کچھ اور نہیں
وفا کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے

سفر تو خیر اکیلے بھی کٹ ہی جائے گا
قدم قدم سے ملاؤ تو کوئی بات بنے

اٹھا ہے آج جو طوفان کل نہیں ہو گا
سفینہ آگے بڑھاؤ تو کوئی بات بنے

یہ کیسی مے ہے کہ نشہ نہیں ہوا ساقی
نظر سے تم جو پلاؤ تو کوئی بات بنے

گزر گئیں جو رتیں لوٹ کر پھر آ جائیں
تم ایسا جام پلاؤ تو کوئی بات بنے

کسی کی آس پہ بیٹھے رہو گے یوں کب تک
خود اپنی زیست بناؤ تو کوئی بات بنے

سنا ہے درد بہت ہے تمہیں غریبوں کا
گلے ہمیں بھی لگاؤ تو کوئی بات بنے

نعیم جس سے مری زندگی میں رونق تھی
اسے کہیں سے بلاؤ تو کوئی بات بنے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
غرلیں کہنے والا کوئی سافٹ وئیر تو ایجاد نہیں ہوا؟
فی الحال کچھ پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں کررہے ہیں!
آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔ کیا آپ اجازت مرحمت فرمائیں گے؟ محترم ڈاکٹر نعیم جشتی

ون وے ٹکٹ خریدا ہے شاید ۔
 

عرفان سعید

محفلین
آپ بے وجہ نہ نارض ہوں ہم سے صاحب
لیجئے ہم نے قلم اپنا یہیں روک لیا
ناراضگی کی کوئی بات نہیں۔ رفتہ رفتہ کلام پوسٹ کریں تو قارئین بھی آرام سے پڑھ پائیں گے، اور کلام کے شایان شان داد و تحسین سے بھی نواز سکیں گے۔
 
آپ بے وجہ نہ نارض ہوں ہم سے صاحب
لیجئے ہم نے قلم اپنا یہیں روک لیا
ہماری خوش نصیبی ہے کہ آپ یہاں تشریف لائے اور اپنے کلام سے نوازا۔ دراصل ایک فورم پر ایک ہی وقت میں کافی سارا مواد پیش کر دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ بہت سا کلام پڑھنے سے رہ جاتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ فورم پر موجود دیگر مواد پس منظر میں چلا جاتا ہے اور دیگر اراکین کو اپنی پسند کے مواد تک رسائی میں مشکل پیش آتی ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ڈاکٹر نعیم جشتی صاحب! محفل پر آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ ابھی سبھی غزلیات کا مطالعہ نہیں کیا۔ لیکن چند ایک جو پڑھیں۔ آپ کی رواں طبع کی غماز ہیں۔ یہ سب غزلیات ایک ہی دور کی ہیں، یا پھر عمر کے ساتھ رفتہ رفتہ لکھی گئی ہیں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
پھیلا ہے سفر میرا نعیم آدھی صدی پر
ہر شعر مرا مانند نقش کف پا ہے
شکریہ ڈاکٹر صاحب، اگر آپ محفل پر اپنا باقاعدہ تعارف بھی کروا دیں تو بہت اچھی بات ہوگی، اس لیے بھی کہ میرے ذہن میں بھی سوال گھوم رہا ہے کہ آپ وہ ڈاکٹر ہیں جو آج کل کرونا سے لڑ رہے ہیں یا وہ ڈاکٹر جو کرونا پر شاعری کر رہے ہیں۔ :)
 
Top