مقدس
لائبریرین
ہمارے ایک اور بڑے بھائی صاحب ہیں، بھائی تو ہیں ہی، کبھی کبھی صاحب بھی بن جاتے ہیں۔۔ صاحب بننے کا چکر بھی خوب ہے۔۔ جب جلال کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو بس آگے پیچھے دیکھنے والا کوئی قصہ نہیں۔۔ سر پر صاحب کی ٹوپی جمائے، ہاتھ میں چھڑی لیے کلاس لینے کو تیار ملتے ہیں۔۔ ایک دفعہ یوں ہی بنے ٹھنے اور تنے ہوئے اپنی خالہ جان کو امپریس کرنے چلے گئے۔۔۔ (سمجھا کریں۔۔۔ ہر بات کا سبب نہیں پوچھتے۔) خالہ نے دروازہ کھولا ہی تھا کہ ہمارے بھائی صاحب ایک ادائے ہیروانہ و انداز والہانہ کے ساتھ راگ الاپنے لگے۔۔۔
خالہ میں تو صاحب بن گیا
ارے، خالہ میں تو صاحب بن گیا
رے، صاحب بن کے کیسا تن گیا
یہ سوٹ میرا دیکھو، یہ بوٹ میرا دیکھو
جیسے گورا کوئی لندن کا
اس پر خالہ نے ان کے ہاتھ سے چھڑی لے کر ان کی جو کلاس لی ہے اس کا قصہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
بھائی صاحب وقت کے بہت پابند ہیں اور وقت ضائع کرنے کو بالکل بھی اچھا خیال نہیں کرتے،اور ان کی اس خوبی کے اثرات اکثر محفل میں جا بجا نظر آتے ہیں۔ جب کسی دھاگے کو کہیں الجھا ہوا دیکھیں تو سلجھانے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے بھائی صاحب ان الجھے ہوئے دھاگوں کی پوٹلی بنا کر محفل کی کٹیا کے ایک کونے میں رکھے زنگ آلود بکسے میں ڈال کر تالا لگاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اور تالا بھی کون سا لگاتے ہیں، پتا ہے آپ کو کیا؟ ہاں جی ۔۔ وہی۔۔۔ علی گڑھ والا۔
ایک بار کسی نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ بھائی صاحب بسوں اور رکشوں پر لکھے شعروں اور جملوں سے بہت متاثر ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر بھائی صاحب کی اس شاندار شخصیت کا حصہ بن چکے ہیں جیسے کہ
"ٹرک پر لکھا ہوتا ہے" دیکھ مگر پیار سے" اور بھائی صاحب اس پر اس طرح عمل کرتے ہیں کہ" ڈانٹ مگر پیار سے"
اسی طرح لکھا ہوتا ہے کہ
"ہارن دے کر پاس کریں" تو بھائی صاحب اس پر کچھ اس طرح سے عمل کرتے ہیں کہ نئے آئیڈیاز دے کر ممبرز سے پوچھتے ہیں کہ انہیں "پسند کر کے پاس کریں"
یا پھر
"لٹک مت پٹک دوں گا" اور ہمارے بھائی صاحب کہتے ہیں " آرام سے نہیں تو بین کر دوں گا"
ایک بار ہم نے مسکین بھیا سے پنگا لے لیا اور ڈر کے مارے بھائی صاحب سے بچانے کی درخواست کی :
"ہم بھاگ کر آپ کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اس سے پہلے کہ ہمیں ڈانٹ پڑے" کیونکہ یہ ایک دھمکی دیتے ہوئے اکثر پائے جاتے ہیں کہ
"آپ لوگ تو میری ایک بھپکی سے ہی کپکپا اٹھیں گے۔۔"
یا
"میں آخری مرتبہ اس بات کا نرمی سے جواب دے رہا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ آپ اس بات کو نہیں دہرائیں گے۔"اوراگر کوئی زیادہ اکڑ دکھائے تو بس ایک ہی بات کہتے ہیں
"بین ہونے کا ارادہ ہے کیا؟ "
پر یہ ناں تھی ہماری قسمت۔۔ ہمیں کیا سننے کو ملا
"ہم تو دبلے پتلے ہیں، ہمارے پیچھے آپ نہیں چھپ سکیں گی۔ آپ کو سمجھایا تھا کہ چاکلیٹ کم کھایا کریں۔" اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بھائی صاحب تھوڑے سے "کنے" بھی ہیں "ک" کے اوپر "پیش" کو پڑھا جائے۔۔ رہتے تو چپ ہیں پر جانتے سب ہیں۔۔۔
ایک بار ایک بھائی نے ان سے فرمائش کی کہ
"بھائی جی اپنی کوئی فوٹو شوٹو بھی دکھا دیں اچھے بندوں کی شکلیں دیکھ دیکھ کر میں "نورانی" چہروں کے بارے میں تحقیق کر رہا ہوں" پر بھائی صاحب نے ان صاحب کی اس خوشامد کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے کھٹ سے فرمایا:
"میرے پاس اس وقت اپنی کوئی تصویر نہیں ہے۔ ویسے بھی میں کوئی خاص فوٹو جینک نہیں ہوں، تصویر اتروانا پسند نہیں کرتا۔آپ کو اگر نورانی چہروں پر تحقیق ہی کرنی ہے تو کسی بھی چہرے پر نورانی تیل مل لیا کریں " یہ تو بھائی صاحب کا فرمانا ہے جب کہ حقیقت کچھ اور ہے، ہمارے ایک جاسوس نے ہمیں یہ خبر پہنچائی ہے کہ بھائی صاحب بہت شرمیلے ہیں ۔ اس لیے وہ تصویر اتروانے کا تردد ہی نہیں کرتے۔ کئی دفعہ انہوں نے کوشش بھی کی لیکن ہر دفعہ کیمرہ حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی آب وتاب کھو بیٹھا۔
ویسے ہمارے یہ بھائی صاحب خاصے فرمانبردار ہیں۔۔ ارے آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔۔ ہم اپنی بات نہیں کر رہے، بھابھی کی بات کر رہے ہیں۔۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ایک بار بھائی صاحب نے محفل میں ہی اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ ان کی صبح کا آغاز کیسے ہوتا ہے۔۔ کیا باقی سب بھی انہی کی طرح فرمانبردار شوہروں کی فہرست میں آتے ہیں؟۔۔ انہوں نے اپنی بات کا کچھ ایسے آغاز کیا:
"صبح کے وقت میں تیار ہوا ہوتا ہوں، میرے ہاتھ میں بریف کیس ہوتا ہے اور میں پر وقار انداز میں آفس کو روانہ ہونے لگتا ہوں۔ اتنے میں بیگم کی آواز آتی ہے کہ کوڑا پھینکنا مت بھولنا۔ میں تابعداری سے کوڑے کے تھیلے اٹھا لیتا ہوں۔ اس کے بعد میں تیار ہوا ہوتا ہوں، ایک ہاتھ میں بریف کیس ہوتا ہے، دوسرے ہاتھ میں کوڑے کے تھیلے ہوتے ہیں، اور میں سر جھکا کر چل رہا ہوتا ہوں۔" اس پر ان پر مغربی شوہر کا لیبل بھی لگ چکا ہے۔۔ اب کہنے والوں کو کیا بتائیں کہ مغرب کی نسبت مشرقی شوہر حضرات میں زن مریدگی کا مادہ زیادہ وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔۔
کھانا بہت اچھا پکاتے ہیں۔۔ صبح صبح اٹھ کر ناشتہ بنانا انہی کے فرائض میں شامل ہے اور آفس سے واپسی پر برتن وغیرہ دھو کر کھانے کی تیاری شروع کر لیتے ہیں۔۔ اوہو کھانا، کھانے کی نہیں بلکہ پکانے کی بات کر رہی ہوں۔۔ پکائیں گے تو کھائیں گے ناں۔۔۔ بلکہ دوسروں کو بھی اکثر مشورہ دیتے پائے جاتے ہیں کہ "جناب، آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ جب بیوی کے لیے کھانا پکانا پڑے گا تو خود ہی سیکھ جائیں گے۔" کیا ہی بات ہے ہمارے بھائی صاحب کی۔۔
ہمارے بھائی صاحب کھیل کود کے بڑے شوقین ہیں۔۔ بچپن سے ہی گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔ اور بڑے ہو کر یہ شوق آرکیڈ میں بدل گیا۔۔ نت نئی گیمز کا اسٹاک محفل میں جمع تو اپنے لیے کرتے تھے جبکہ نام محفلین کا لیا جاتا تھا۔
اور ایک بہت ہی راز کی بات بتانے جا رہی ہوں۔۔۔ آپ سب لوگ کان ادھر لائیں۔۔اووو نو۔۔۔ یہ کیا بھائی صاحب ادھر ہی گھوم رہے ہیں اور لگتا ہے کہ میری شامت آنے والی ہے۔۔ میں بھاگتی ہوں یہاں سے۔۔۔ ۔ وہ راز کی بات پھر کبھی بتاؤں گی۔۔
خالہ میں تو صاحب بن گیا
ارے، خالہ میں تو صاحب بن گیا
رے، صاحب بن کے کیسا تن گیا
یہ سوٹ میرا دیکھو، یہ بوٹ میرا دیکھو
جیسے گورا کوئی لندن کا
اس پر خالہ نے ان کے ہاتھ سے چھڑی لے کر ان کی جو کلاس لی ہے اس کا قصہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
بھائی صاحب وقت کے بہت پابند ہیں اور وقت ضائع کرنے کو بالکل بھی اچھا خیال نہیں کرتے،اور ان کی اس خوبی کے اثرات اکثر محفل میں جا بجا نظر آتے ہیں۔ جب کسی دھاگے کو کہیں الجھا ہوا دیکھیں تو سلجھانے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے بھائی صاحب ان الجھے ہوئے دھاگوں کی پوٹلی بنا کر محفل کی کٹیا کے ایک کونے میں رکھے زنگ آلود بکسے میں ڈال کر تالا لگاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اور تالا بھی کون سا لگاتے ہیں، پتا ہے آپ کو کیا؟ ہاں جی ۔۔ وہی۔۔۔ علی گڑھ والا۔
ایک بار کسی نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ بھائی صاحب بسوں اور رکشوں پر لکھے شعروں اور جملوں سے بہت متاثر ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر بھائی صاحب کی اس شاندار شخصیت کا حصہ بن چکے ہیں جیسے کہ
"ٹرک پر لکھا ہوتا ہے" دیکھ مگر پیار سے" اور بھائی صاحب اس پر اس طرح عمل کرتے ہیں کہ" ڈانٹ مگر پیار سے"
اسی طرح لکھا ہوتا ہے کہ
"ہارن دے کر پاس کریں" تو بھائی صاحب اس پر کچھ اس طرح سے عمل کرتے ہیں کہ نئے آئیڈیاز دے کر ممبرز سے پوچھتے ہیں کہ انہیں "پسند کر کے پاس کریں"
یا پھر
"لٹک مت پٹک دوں گا" اور ہمارے بھائی صاحب کہتے ہیں " آرام سے نہیں تو بین کر دوں گا"
ایک بار ہم نے مسکین بھیا سے پنگا لے لیا اور ڈر کے مارے بھائی صاحب سے بچانے کی درخواست کی :
"ہم بھاگ کر آپ کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اس سے پہلے کہ ہمیں ڈانٹ پڑے" کیونکہ یہ ایک دھمکی دیتے ہوئے اکثر پائے جاتے ہیں کہ
"آپ لوگ تو میری ایک بھپکی سے ہی کپکپا اٹھیں گے۔۔"
یا
"میں آخری مرتبہ اس بات کا نرمی سے جواب دے رہا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ آپ اس بات کو نہیں دہرائیں گے۔"اوراگر کوئی زیادہ اکڑ دکھائے تو بس ایک ہی بات کہتے ہیں
"بین ہونے کا ارادہ ہے کیا؟ "
پر یہ ناں تھی ہماری قسمت۔۔ ہمیں کیا سننے کو ملا
"ہم تو دبلے پتلے ہیں، ہمارے پیچھے آپ نہیں چھپ سکیں گی۔ آپ کو سمجھایا تھا کہ چاکلیٹ کم کھایا کریں۔" اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بھائی صاحب تھوڑے سے "کنے" بھی ہیں "ک" کے اوپر "پیش" کو پڑھا جائے۔۔ رہتے تو چپ ہیں پر جانتے سب ہیں۔۔۔
ایک بار ایک بھائی نے ان سے فرمائش کی کہ
"بھائی جی اپنی کوئی فوٹو شوٹو بھی دکھا دیں اچھے بندوں کی شکلیں دیکھ دیکھ کر میں "نورانی" چہروں کے بارے میں تحقیق کر رہا ہوں" پر بھائی صاحب نے ان صاحب کی اس خوشامد کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے کھٹ سے فرمایا:
"میرے پاس اس وقت اپنی کوئی تصویر نہیں ہے۔ ویسے بھی میں کوئی خاص فوٹو جینک نہیں ہوں، تصویر اتروانا پسند نہیں کرتا۔آپ کو اگر نورانی چہروں پر تحقیق ہی کرنی ہے تو کسی بھی چہرے پر نورانی تیل مل لیا کریں " یہ تو بھائی صاحب کا فرمانا ہے جب کہ حقیقت کچھ اور ہے، ہمارے ایک جاسوس نے ہمیں یہ خبر پہنچائی ہے کہ بھائی صاحب بہت شرمیلے ہیں ۔ اس لیے وہ تصویر اتروانے کا تردد ہی نہیں کرتے۔ کئی دفعہ انہوں نے کوشش بھی کی لیکن ہر دفعہ کیمرہ حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی آب وتاب کھو بیٹھا۔
ویسے ہمارے یہ بھائی صاحب خاصے فرمانبردار ہیں۔۔ ارے آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔۔ ہم اپنی بات نہیں کر رہے، بھابھی کی بات کر رہے ہیں۔۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ایک بار بھائی صاحب نے محفل میں ہی اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ ان کی صبح کا آغاز کیسے ہوتا ہے۔۔ کیا باقی سب بھی انہی کی طرح فرمانبردار شوہروں کی فہرست میں آتے ہیں؟۔۔ انہوں نے اپنی بات کا کچھ ایسے آغاز کیا:
"صبح کے وقت میں تیار ہوا ہوتا ہوں، میرے ہاتھ میں بریف کیس ہوتا ہے اور میں پر وقار انداز میں آفس کو روانہ ہونے لگتا ہوں۔ اتنے میں بیگم کی آواز آتی ہے کہ کوڑا پھینکنا مت بھولنا۔ میں تابعداری سے کوڑے کے تھیلے اٹھا لیتا ہوں۔ اس کے بعد میں تیار ہوا ہوتا ہوں، ایک ہاتھ میں بریف کیس ہوتا ہے، دوسرے ہاتھ میں کوڑے کے تھیلے ہوتے ہیں، اور میں سر جھکا کر چل رہا ہوتا ہوں۔" اس پر ان پر مغربی شوہر کا لیبل بھی لگ چکا ہے۔۔ اب کہنے والوں کو کیا بتائیں کہ مغرب کی نسبت مشرقی شوہر حضرات میں زن مریدگی کا مادہ زیادہ وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔۔
کھانا بہت اچھا پکاتے ہیں۔۔ صبح صبح اٹھ کر ناشتہ بنانا انہی کے فرائض میں شامل ہے اور آفس سے واپسی پر برتن وغیرہ دھو کر کھانے کی تیاری شروع کر لیتے ہیں۔۔ اوہو کھانا، کھانے کی نہیں بلکہ پکانے کی بات کر رہی ہوں۔۔ پکائیں گے تو کھائیں گے ناں۔۔۔ بلکہ دوسروں کو بھی اکثر مشورہ دیتے پائے جاتے ہیں کہ "جناب، آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ جب بیوی کے لیے کھانا پکانا پڑے گا تو خود ہی سیکھ جائیں گے۔" کیا ہی بات ہے ہمارے بھائی صاحب کی۔۔
ہمارے بھائی صاحب کھیل کود کے بڑے شوقین ہیں۔۔ بچپن سے ہی گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔ اور بڑے ہو کر یہ شوق آرکیڈ میں بدل گیا۔۔ نت نئی گیمز کا اسٹاک محفل میں جمع تو اپنے لیے کرتے تھے جبکہ نام محفلین کا لیا جاتا تھا۔
اور ایک بہت ہی راز کی بات بتانے جا رہی ہوں۔۔۔ آپ سب لوگ کان ادھر لائیں۔۔اووو نو۔۔۔ یہ کیا بھائی صاحب ادھر ہی گھوم رہے ہیں اور لگتا ہے کہ میری شامت آنے والی ہے۔۔ میں بھاگتی ہوں یہاں سے۔۔۔ ۔ وہ راز کی بات پھر کبھی بتاؤں گی۔۔