عربی شاعری مع اردو ترجمہ

عربی شاعری میں فارسی اور اردو شاعری کے برعکس محبوب کو مؤنث تصور کیا جاتا ہے یا مذکر والے اشعار بھی موجود ہوتے ہیں?
ویسے فارسی کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ اس میں محبوب کے جنس کا اندازہ لگانا تقریبا ناممکن ہے:)
 

حسان خان

لائبریرین
عربی شاعری میں فارسی اور اردو شاعری کے برعکس محبوب کو مؤنث تصور کیا جاتا ہے یا مذکر والے اشعار بھی موجود ہوتے ہیں?
ویسے فارسی کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ اس میں محبوب کے جنس کا اندازہ لگانا تقریبا ناممکن ہے:)
عربی شاعری میں محبوب مؤنث ہوتا ہے، اور اُس کے لیے صیغہ بھی مؤنث کا استعمال کیا جاتا ہے۔
فارسی شاعری، اور فارسی شاعری کی ذیلی شاخوں کلاسیکی ترکی شاعری اور کلاسیکی اردو شاعری، کی روایت سے عربی شعری روایت بسیار مختلف ہے۔ آہستہ آہستہ معلوم ہو رہا ہے کہ عربی شاعری کے مضامین، قواعدِ قافیہ، عروضی اوزان اور شعری فضا فارسی شاعری سے کافی متفاوت ہیں۔ ایک اہم فرق یہی ہے کہ عربی شاعری میں ردیف نہیں ہوتا۔
فارسی اور ترکی زبانوں میں در اصل دستوری جنس نہیں ہے، اِس لیے مذکر و مؤنث دونوں جنسوں کے لیے ایک ہی صیغے استعمال ہوتے ہیں۔ لہٰذا بیشتر موارد میں یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہوتا ہے کہ شعر میں مرد موردِ تخاطب ہے یا عورت۔ اردو میں اگرچہ جنسِ دستوری موجود ہے، لیکن فارسی شاعری کی تقلید میں اردو شعری روایت میں بھی مذکر صیغوں کو ایسے استعمال کیا جاتا ہے جنہیں مذکر و مؤنث دونوں صورتوں میں تشریح کیا جا سکتا ہے۔
پس نوشت: کلاسیکی ترکی شاعری اور کلاسیکی اردو شاعری کو میں اپنی جانب سے فارسی شاعری کی ذیلی شاخیں نہیں کہہ رہا، بلکہ اسلامی و فارسی ادبیات کے تقریباً تمام علماء کا یہی خیال ہے۔ مثلاً میں گذشتہ ماہ معروف المانی مستشرقہ اور فارسی، اردو، ترکی اور عربی کی عالمہ آنہ میری شیمل کی کتاب 'دورنگی جامہ: فارسی شاعری کی تصویرسازی' خوان (پڑھ) رہا تھا، اُس میں مصنفہ کی یہی رائے تھی، اور اگرچہ کتاب کے نام میں 'فارسی شاعری' درج تھا، لیکن کتاب کے مندرجات میں اُنہوں نے ترکی اور اردو شاعری کو بھی ہر جا شامل رکھا تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شامی شاعر نِزار قبّانی (سالِ وفات: ۱۹۹۸ء) کی مشہور نظم 'القدس' سے ایک اقتباس:

يَا قُدْسُ.. يَا مَدِينَتِي

يَا قُدْسُ.. يَا حَبِيبَتِي
غَداً.. غَداً.. سَيُزْهِرُ اللَّيْمُونُ
وتَفْرَحُ السَّنَابِلُ الخَضْرَاءُ والزَّيْتُونُ
وَتَضْحَكُ العُيُونُ..
وَتَرْجِعُ الحَمَائِمُ المُهَاجِرَةُ..
إلى السُّقُوفِ الطَّاهِرَة
وَيَرْجِعُ الأطْفَالُ يَلْعَبُون
وَيَلْتَقِي الآبَاءُ والبَنُون
عَلى رُبَاكِ الزَّاهِرَة ..
يَا بَلَدِي ..
يَا بَلَدَ السَّلامِ وَالزَّيْتُونِ!
(نِزار قبّاني)

ای قدس.. ای شهرِ من
ای قدس.. ای محبوبِ من
فردا.. فردا، درختِ لیمو شکوفه خواهد داد
و خوشه‌های سبز و زیتون‌ها، شادمان خواهند شد
و دیدگان، لبخند خواهند زد
و کبوترانِ مهاجران باز خواهند گشت
به بام‌های پاک
کودکان باز می‌آیند و بازی از سر می‌گیرند
پدران و پسران، دیدار می‌کنند..
بر بلندی‌های سرسبزت
ای سرزمینِ من..
ای سرزمینِ صلح و زیتون!
(فارسی مترجم: مهدی سرحدی)

اے قُدس۔۔ اے میرے شہر
اے قُدس۔۔ اے میرے محبوب
فردا۔۔ فردا۔۔ لیمو کے درخت پر شگوفے لگ جائیں گے
اور سبز خوشے اور زیتون شادمان ہو جائیں گے
اور دیدے مسکرائیں گے
اور مہاجر کبوتر واپس آ جائیں گے
پاک باموں پر
اور بچّے واپس آ جائیں گے اور کھیلنے لگیں گے
اور پدران و پسران [دوبارہ] باہم ہوں گے
تمہاری سرسبز بلندیوں پر
اے میری سرزمین۔۔۔
اے امن اور زیتون کی سرزمین!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
لا تَقْلِقي .. يا حُلْوَةَ الحُلْوَاتِ
مَا دُمْتِ في شِعْري وفي كَلِمَاتي
قد تكبُرينَ مع السِنين .. وإنَّما
لن تَكبُري أبداً .. عَلَى صَفَحَاتي
(نِزار قبّاني)
از شام

پریشان مت ہو۔۔ اے شیریں ترین محبوبہ
جب تک تم میرے شعروں اور لفظوں میں ہو
ہو سکتا ہے تم سالوں کے اعتبار سے پِیر ہو جاؤ۔۔ لیکن
تم میرے صفحات پر ہمیشہ جوان رہو گی
× پِیر = بوڑھی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شامی شاعر نِزار قبّانی نے اپنی طویل نظم 'كتاب الحب' کا اختتام اِن الفاظ سے کیا ہے:
لأنَّ حُبِّي لكِ فوقَ مُسْتَوَى الكلام

قرَّرْتُ أن أَسْكُتَ... والسلام
(نِزار قبّاني)
چونکہ تمہارے لیے میری محبت سخن و گفتار کی سطح سے بلند ہے، [لہٰذا] میں نے فیصلہ کیا ہے کہ خاموش ہو جاؤں۔۔۔ والسّلام!
 

نعمان خالد

محفلین
اِلهِي عبْدُكَ الْعَاصِي اٰتَاك مُقِرًّا بِالذُّنُوْبِ وَ قَدْ دَ عَاكَ

اِنْ تَغْفِرْ وَ اَنْتَ لِذاكَ اَهْلٌ وَ ِانْ تَطْرُدْ فَمَنْ یَرْحَمْ سِواكَ
الہی تیرا نافرمان بندہ تیرے در پر آیا ہے۔ گناہوں میں لتھڑا ہوا، اور تجھ سے دعا کرتا ہے۔
اگر تو بخش دے، تو صرف تُو ہی اس کا اہل ہے۔ اور اگر تو نے ہی دھتکار دیا، تو پھر تیرے علاوہ اور کون رحم کر سکتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
لَقِيتُ الاُسْدَ في الغاباتِ لا تَقْوَى عَلَى صَيْدي
وَهَذا الظَّبْيُ في شيرازَ يَسْبِيني بِأحْداقِ
(سعدی شیرازی)

در بیشه‌ها شیران را دیدم که نمی‌توانستند مرا شکار کنند و این آهوی سیه‌چشم مرا در شیراز، اسیر ساخت.
(فارسی مترجم: فرح نیازکار)

میں نے بیشہ زاروں میں کئی شیروں کو دیکھا جو مجھے شکار نہ کر سکے؛ لیکن شیراز میں اِس [سیاہ چشم] غزال نے اپنی چشموں سے مجھے اسیر کر لیا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
والذمن طیب الشراب علی الظما
لقیا الاحبۃ بعد طول غیاب


اورشدید پیاس میں پانی کی خوبی سے بڑھ کر ہے کہ پرانے احباب طویل عرصے کے بعد مل جائیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
مَنْ لَسَعَتْهُ حَيَّةٌ مَرَّةً
تَراهُ مَذْعُوْراً مِن الحَبلِ
(نامعلوم)
جسے سانپ ایک بار ڈس لے، اُسے تم رسّی سے بھی خوف زدہ دیکھو گے۔
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
عنترۃ بن شداد بن قراد العبسی( 525 – 608 ء ) اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت کا مشہور شاعر جس کے اشعار شجاعت دلیری اور شہسواری میں مشہور تھے ، زمانہ جاہلیت کے مشہور سات معلقات میں سے اس کا بھی ایک معلقہ تھا، اسی طرح یہ عرب کے مشہور شہسواروں میں سے ایک تھا ، اس کے اشعار میں شجاعت و دلیری کے ساتھ ساتھ اپنی محبوبہ عبلۃ کا تذکرہ بھی ملتا ہے ۔

إِذا قَنِعَ الفَتى بِذَميمِ عَيشٍ

وَكانَ وَراءَ سَجفٍ كَالبَناتِ

جب نوجوان قابل مذمت زندگی پر قانع ہو جائے

اور دوشیزاؤں کی طرح پردے کے پیچھے رہنا شروع کر دے

وَلَم يَهجِم عَلى أُسدِ المَناي

وَلَم يَطعَن صُدورَ الصافِناتِ

اور موت کے شیروں پر حملہ آور نہ ہو ۔

گھوڑوں کے سینوں کو نیزوں کے ذریعے چھلنی نہ کرے

(صافنات : ایسے گھوڑوں کو کہتے ہیں جو تین ٹانگوں پر کھڑا ہو اور چوتھی ٹانگ کا محض کنارہ زمین کے ساتھ لگا ہو یہ عمدہ نسل اور جنگ کیلئے تربیت یافتہ گھوڑوں کی نشانی ہوتی ہے)


وَلَم يَقرِ الضُيوفَ إِذا أَتَوهُ

وَلَم يُروِ السُيوفَ مِنَ الكُماةِ


اپنے پاس آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع نہ کرے

اور تلواروں کو زرہ پوش جنگجوؤں سے سیراب نہ کرے

وَلَم يَبلُغ بِضَربِ الهامِ مَجد

وَلَم يَكُ صابِراً في النائِباتِ

اور دیوانہ وار ضربوں کے ذریعے عزت وبزرگی حاصل نہ کرے

اور آزمائشوں میں صبر نہ دکھائے

فَقُل لِلناعِياتِ إِذا نَعَتهُ

أَلا فَاِقصِرنَ نَدبَ النادِباتِ

تو موت کی خبر دینے والیوں سے کہہ دو کہ جب وہ اس کی خبر دیں۔

خبردار اس پر نوحہ کرنے والیوں کی آواز بلند نہ ہونے پائے

وَلا تَندُبنَ إِلّا لَيثَ غابٍ

شُجاعاً في الحُروبِ الثائِراتِ

اور تمہارا رونا صرف اور صرف جنگل کے شیر پر ہو

جو بھڑکتی جنگوں میں دلیری دکھانے والا ہو


دَعوني في القِتالِ أَمُت عَزيز

فَمَوتُ العِزِّ خَيرٌ مِن حَياةِ

مجھے جنگ میں چھوڑ دو میں عزت کی موت مرنا چاہتا ہوں

کیونکہ عزت کی موت میرے لئے زندگی سے بہتر ہے

لَعَمري ما الفَخارُ بِكَسبِ مالٍ

وَلا يُدعى الغَنِيُّ مِنَ السَراةِ

میری عمر کی قسم : مال ودولت جمع کرنا قابل فخر نہیں

اور نہ ہی مالدا ر شخص کو سرداران قوم میں شمار کیا جاتا ہے


سَتَذكُرُني المَعامِعُ كُلَّ وَقتٍ

عَلى طولِ الحَياةِ إِلى المَماتِ

اور خون ریز جنگیں مجھے ہر وقت یاد رکھیں گی

ساری زندگی مرنے تلک

فَذاكَ الذِكرُ يَبقى لَيسَ يَفنى

مَدى الأَيّامِ في ماضٍ وَآتي

پس یہ وہ تذکرہ ہے جو باقی رہنے والا ہے کبھی نہ فنا ہونے والا

تمام دنوں میں چاہے وہ گزر چکے ہوں یا آنے والے


وَإِنّي اليَومَ أَحمي عِرضَ قَومي

وَأَنصُرُ آلَ عَبسَ عَلى العُداةِ

اور یقینا میں آج اپنی قوم کی عزت کادفاع کر رہا ہوں

اور آل عبس کی اس کے دشمنوں اور حملہ آوروں کے خلاف مدد کر رہا ہوں


وَآخُذُ مالَنا مِنهُم بِحَربٍ

تَخِرُّ لَها مُتونُ الراسِياتِ

اور اپنا مال ان سے جنگ کے ذریعے چھین رہا ہوں

جس کیلئے بلند پہاڑوں کی چوٹیاں بھی جھک جائیں


وَأَترُكُ كُلَّ نائِحَةٍ تُنادي

عَلَيهِم بِالتَفَرُّقِ وَالشَتاتِ

اور ہر موت کی خبر دینے والی کو ان پرپکارتا چھوڑتا ہوں

جو انھیں بکھر جانے اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی خبر دیتی ہے ۔







 
مدیر کی آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
عنترۃ بن عمرو بن شداد العبسی" زبیبۃ" نامی حبشی لونڈی سے پیدا ہوا ، اور رنگت میں اپنی ماں پر گیا تھا ، چنانچہ معاشرے میں اس کا شمار غلام کے طور پر ہی ہوتاتھااور اس کے بھائی آزاد لوگوں میں شمار ہوتے تھے ، اس کا باب بنو عبس کے سرداروں میں سے تھا ، عرب کی عادت تھی کہ لونڈی سے پیدا ہونے والے بیٹے کو نسب میں شریک نہ کرتے ، بلکہ وہ بھی غلاموں میں ہی شمار ہوتے تھے ۔ اس لئے عنترۃ کی بھی اپنے والد کے ہاں کوئی قدروقیمت نہ تھی ، اپنے باپ کے اونٹ اور گھوڑے چرایا کرتا تھا ، اس دوران اس نے شہسواری اور فنون قتال میں مہارت حاصل کر لی ، چنانچہ انتہائی دلیر اور دیوانہ وار لڑنے والا جنگجو تھا ، ، اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے ساتھ غلامانہ طرزعمل اپنائے جانے اور باپ کی جانب سے اپنے نسب میں شریک نہ کئے جانے سے سخت نفرت تھی ، چنانچہ اس نے تلوار کو ہی اپنا نسب بنا لیا۔ایک بار کچھ لوگوں نے قبیلہ عبس پر حملہ کیا اور ان کے اونٹ چھین کر لے گئے ۔
باپ نے کہا :عنترۃ حملہ کر ، اس نے اپنے باپ کی غلام بنانے والی عادت پر غضبناک ہو کر کہا کہ غلام اچھی طرح لڑ نہیں سکتا غلام تو بس دودھ دوھ سکتا ہے یا جانور چرا سکتا ہے ۔ باپ نے کہا کہ حملہ کر اور تو آزاد ہے ، چنانچہ یہ طوفان کے بگولے کی طرح اٹھا، جسے آزادی کی محبت نے معجزات بپا کرنے پر مجبور کیا ، زوردار حملے سے دشمن کو مغلوب کیا اونٹ چھڑوائے اور آزادی حاصل کی ۔
اس وقت سے اس کا نام عرب شہسواروں اور سرداروں کے ہاں معروف ہو گیا ، یہاں تک کہ جراتمندی اور حملہ کرنے میں اس کانام ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ، عنترۃ نے کافی طویل عمر پائی اور لگ بھگ 615 ء میں اس کی وفات ہوئی ، کہا جاتا ہے کہ اس کے قصائد کی مجموعی تعداد 146 قصیدے ہیں ۔
اشعار کہنے کی وجہ :
عنترۃ قبیلہ کی جانب سے آزادی دینے سے انکار پر غضباک ہو کر اپنی قوم چھوڑ کر نکلا ، کیونکہ وہ اپنی قوم کو یہ یقین دلانے میں ناکام ہو گیا تھا کہ اس کی سیاہ رنگت اس کے عظیم شخص ، معزز فرد بننے اور پر عزیمت انسان بننے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ۔
ناراض ہونے کے بعد وہ بنو عامر کے پاس چلا آیا، ہوازن قبیلہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور دیار عبس پر حملہ آور ہوگئے ، قریب تھا کہ بنو عبس کو ہزیمت ہو جاتی اگر انھوں نے اپنے اس بطل اور شہسوار سے مدد طلب نہ کی ہوتی ، جس نے دوڑتے ہوئے ان کی پکار پر لبیک کہا تاکہ اپنے قبیلہ کی عزت وناموس کا دفاع کرسکے ۔

سكتُّ فَغَرَّ أعْدَائي السُّكوتُ
وَظنُّوني لأَهلي قَدْ نسِيتُ

میں خاموش رہا اور میری خاموشی نے دشمنوں کو دھوکے میں مبتلا کر دیا
اور انھوں نے میرے بارے میں یہ گمان کر لیا کہ میں اپنے اہل کو بھول چکا ہوں
وكيفَ أنامُ عنْ ساداتِ قومٍ
أنا في فَضْلِ نِعْمتِهمْ رُبيت

اور میں کیسے اپنے سرداران قوم سے غافل رہ سکتا ہوں
جبکہ میں ان کی نعمتوں کے فضل میں ہی پلا بڑھا ہوں
وإنْ دارْتْ بِهِمْ خَيْلُ الأَعادي
ونَادوني أجَبْتُ متى دُعِيتُ

اگر دشمنوں کے گھوڑے ان پر حملہ آور ہوں
اور وہ مجھے پکاریں تو جب بھی مجھے پکارا جائے میں فورا اس پکار کا جواب دیتا ہوں
بسيفٍ حدهُ يزجي المنايا
وَرُمحٍ صَدْرُهُ الحَتْفُ المُميتُ

ایسی تلوار سے جس کی دھار اموات تقسیم کرتی ہے ۔
اورایسے نیزے سے جس کا سینہ ہلاک کرنے والی موت ہے
خلقتُ من الحديدِ أشدَّ قلباً
وقد بليَ الحديدُ ومابليتُ

میں فولاد سے زیادہ سخت دل کے ساتھ پیدا کیا گیا ہوں
اور فولاد تو زنگ آلود ہو جاتا ہے لیکن میں زنگ آلود نہیں ہوتا
وَإني قَدْ شَربْتُ دَمَ الأَعادي
بأقحافِ الرُّؤوس وَما رَويتُ

اور یقینا میں نے دشمنوں کا خون پیا ہے
سروں کی کھوپڑیوں کے اندر اور میں کبھی بھی سیراب نہیں ہوا
وفي الحَرْبِ العَوانِ وُلِدْتُ طِفْلا
ومِنْ لبَنِ المَعامِعِ قَدْ سُقِيتُ

اور مسلسل بھڑکنے والی جنگ میں پیدا ہو کر میں نےبچپن گزارا
اور جنگ کے جوشیلے نعروں کا دودھ ہی مجھے پلایا گیا
فما للرمحِ في جسمي نصيبٌ
ولا للسيفِ في أعضاي َقوتُ

کسی نیزے کیلئے میرے جسم میں کوئی حصہ نہیں
اور نہ ہی کسی تلوار کیلئے میرے اعضاء میں غذا ہے ۔
ولي بيتٌ علا فلكَ الثريَّا
تَخِرُّ لِعُظْمِ هَيْبَتِهِ البُيوتُ

اور میرا گھر بلندی میں ثریا سے بھی بڑھ کر ہے
جس کی عظمت کی ہیبت کے سامنے تمام گھر جھکے ہوئے ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
نسيمَ الصَّبَا ألْمِمْ بِفَارِسَ غادِيَا
وأبْلِغْ سَلامِيْ أهْلَ وُدِّي الأزاكِيا
(المؤيد في الدين الشيرازي)

اے نسیمِ صبا! ذرا صبح کے وقت فارس پر گذر کرو اور میرے پاک دوستوں تک میرا سلام پہنچاؤ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عنترۃ بن عمرو بن شداد العبسی" زبیبۃ" نامی حبشی لونڈی سے پیدا ہوا ، اور رنگت میں اپنی ماں پر گیا تھا ، چنانچہ معاشرے میں اس کا شمار غلام کے طور پر ہی ہوتاتھااور اس کے بھائی آزاد لوگوں میں شمار ہوتے تھے ، اس کا باب بنو عبس کے سرداروں میں سے تھا ، عرب کی عادت تھی کہ لونڈی سے پیدا ہونے والے بیٹے کو نسب میں شریک نہ کرتے ، بلکہ وہ بھی غلاموں میں ہی شمار ہوتے تھے ۔ اس لئے عنترۃ کی بھی اپنے والد کے ہاں کوئی قدروقیمت نہ تھی ، اپنے باپ کے اونٹ اور گھوڑے چرایا کرتا تھا ، اس دوران اس نے شہسواری اور فنون قتال میں مہارت حاصل کر لی ، چنانچہ انتہائی دلیر اور دیوانہ وار لڑنے والا جنگجو تھا ، ، اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے ساتھ غلامانہ طرزعمل اپنائے جانے اور باپ کی جانب سے اپنے نسب میں شریک نہ کئے جانے سے سخت نفرت تھی ، چنانچہ اس نے تلوار کو ہی اپنا نسب بنا لیا۔ایک بار کچھ لوگوں نے قبیلہ عبس پر حملہ کیا اور ان کے اونٹ چھین کر لے گئے ۔
باپ نے کہا :عنترۃ حملہ کر ، اس نے اپنے باپ کی غلام بنانے والی عادت پر غضبناک ہو کر کہا کہ غلام اچھی طرح لڑ نہیں سکتا غلام تو بس دودھ دوھ سکتا ہے یا جانور چرا سکتا ہے ۔ باپ نے کہا کہ حملہ کر اور تو آزاد ہے ، چنانچہ یہ طوفان کے بگولے کی طرح اٹھا، جسے آزادی کی محبت نے معجزات بپا کرنے پر مجبور کیا ، زوردار حملے سے دشمن کو مغلوب کیا اونٹ چھڑوائے اور آزادی حاصل کی ۔
اس وقت سے اس کا نام عرب شہسواروں اور سرداروں کے ہاں معروف ہو گیا ، یہاں تک کہ جراتمندی اور حملہ کرنے میں اس کانام ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ، عنترۃ نے کافی طویل عمر پائی اور لگ بھگ 615 ء میں اس کی وفات ہوئی ، کہا جاتا ہے کہ اس کے قصائد کی مجموعی تعداد 146 قصیدے ہیں ۔
اشعار کہنے کی وجہ :
عنترۃ قبیلہ کی جانب سے آزادی دینے سے انکار پر غضباک ہو کر اپنی قوم چھوڑ کر نکلا ، کیونکہ وہ اپنی قوم کو یہ یقین دلانے میں ناکام ہو گیا تھا کہ اس کی سیاہ رنگت اس کے عظیم شخص ، معزز فرد بننے اور پر عزیمت انسان بننے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ۔
ناراض ہونے کے بعد وہ بنو عامر کے پاس چلا آیا، ہوازن قبیلہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور دیار عبس پر حملہ آور ہوگئے ، قریب تھا کہ بنو عبس کو ہزیمت ہو جاتی اگر انھوں نے اپنے اس بطل اور شہسوار سے مدد طلب نہ کی ہوتی ، جس نے دوڑتے ہوئے ان کی پکار پر لبیک کہا تاکہ اپنے قبیلہ کی عزت وناموس کا دفاع کرسکے ۔

سكتُّ فَغَرَّ أعْدَائي السُّكوتُ
وَظنُّوني لأَهلي قَدْ نسِيتُ

میں خاموش رہا اور میری خاموشی نے دشمنوں کو دھوکے میں مبتلا کر دیا
اور انھوں نے میرے بارے میں یہ گمان کر لیا کہ میں اپنے اہل کو بھول چکا ہوں
وكيفَ أنامُ عنْ ساداتِ قومٍ
أنا في فَضْلِ نِعْمتِهمْ رُبيت

اور میں کیسے اپنے سرداران قوم سے غافل رہ سکتا ہوں
جبکہ میں ان کی نعمتوں کے فضل میں ہی پلا بڑھا ہوں
وإنْ دارْتْ بِهِمْ خَيْلُ الأَعادي
ونَادوني أجَبْتُ متى دُعِيتُ

اگر دشمنوں کے گھوڑے ان پر حملہ آور ہوں
اور وہ مجھے پکاریں تو جب بھی مجھے پکارا جائے میں فورا اس پکار کا جواب دیتا ہوں
بسيفٍ حدهُ يزجي المنايا
وَرُمحٍ صَدْرُهُ الحَتْفُ المُميتُ

ایسی تلوار سے جس کی دھار اموات تقسیم کرتی ہے ۔
اورایسے نیزے سے جس کا سینہ ہلاک کرنے والی موت ہے
خلقتُ من الحديدِ أشدَّ قلباً
وقد بليَ الحديدُ ومابليتُ

میں فولاد سے زیادہ سخت دل کے ساتھ پیدا کیا گیا ہوں
اور فولاد تو زنگ آلود ہو جاتا ہے لیکن میں زنگ آلود نہیں ہوتا
وَإني قَدْ شَربْتُ دَمَ الأَعادي
بأقحافِ الرُّؤوس وَما رَويتُ

اور یقینا میں نے دشمنوں کا خون پیا ہے
سروں کی کھوپڑیوں کے اندر اور میں کبھی بھی سیراب نہیں ہوا
وفي الحَرْبِ العَوانِ وُلِدْتُ طِفْلا
ومِنْ لبَنِ المَعامِعِ قَدْ سُقِيتُ

اور مسلسل بھڑکنے والی جنگ میں پیدا ہو کر میں نےبچپن گزارا
اور جنگ کے جوشیلے نعروں کا دودھ ہی مجھے پلایا گیا
فما للرمحِ في جسمي نصيبٌ
ولا للسيفِ في أعضاي َقوتُ

کسی نیزے کیلئے میرے جسم میں کوئی حصہ نہیں
اور نہ ہی کسی تلوار کیلئے میرے اعضاء میں غذا ہے ۔
ولي بيتٌ علا فلكَ الثريَّا
تَخِرُّ لِعُظْمِ هَيْبَتِهِ البُيوتُ

اور میرا گھر بلندی میں ثریا سے بھی بڑھ کر ہے
جس کی عظمت کی ہیبت کے سامنے تمام گھر جھکے ہوئے ہیں
زبر دست انتخاب۔۔۔ بدر الفاتح بھائی ۔
آپ کی اور ارباب ذوق کی نذر۔ علی بن تمیم کی آواز۔
 

حسان خان

لائبریرین
مولانا رومی کی ایک عربی غزل کا مطلع:
يَا مَن لِواءُ عِشقِكَ لا زالَ عَالياً

قَد خابَ مَن يَكونُ مِن العِشقِ خالياً
(مولانا جلال‌الدین رومی)
اے وہ کہ تمہارا پرچمِ عشق ہنوز بلند ہے، وہ شخص ناکام ہو گیا جو عشق سے خالی ہے۔
 
آخری تدوین:
قصیدہ غوثیہ از شیخ عبدالقادر جیلانی
تنظیم شرح از ابو الفیض قلندر سہروردی

سَقَانِی الحُبُ کاَسَاتِ الوَصَالِ

فَقُلتُ لَخمرَتیِ نَحوِی تَعَالِی

عشق نے بھر کے پلائے مجھ کو جام
وصلِ دلبر سے ہوا میں شاد کام
پھر کہا میں نے شرابِ وصل سے
مُجھ میں مل جا آ کے اپنی اصل سے

و مَشْتَ وَ لَنحْوِیْ فیِْ کئوس
فَھمْتُ لِسُکرِتیِ بیْنَ الْموَالْی


آ گیا وہ خمر طاہر پُر سُرور
بے پناہ تھیں مستیاں جس کے حضور
پی کے اس کو پی سے میں فورا ملا
اور ہمعصروں کو بھی حصّہ دیا

فَقُلتُ لِسَا ئرِالاقْطابِ لُمّوُا
بِحاَلیْ وَادْخُلوُ آنْتْم رِجَالِی

پھر کہا میں نے یہ کلُ اقطَاب کو
حاضروغائب شیوخ و شاب کو
دیکھ لو سب میرے حال و قال کو
اور میری محفل اشغال کو
 
قصیدہ غوثیہ از شیخ عبدالقادر جیلانی
تنظیم شرح از ابو الفیض قلندر سہروردی


وَھُمو وَاشْرَبُوا آنْتُم جُنُودیِ

فَسَاقیِْ الْقوْمِ بالوَافیْ المَلَا لیِ

قصد سے اپنے پیو بے انتہا
کیونکہ ہو لشکر میرے تم بر ملا
ساقی میخانہ عرفان ہوں
میں ہی ہر طالب کا اطمینان ہوں

َرْبتُم فضْلتِی مِنْ بَعْدِ سُکْرِی
وَلاَ نَلتم علّوِی وَاتِّصَالیِ


پی چُکا جب میں تو اِک مَستی ہُوئی
پھر شراب معرفت سَستی ہوئی
میرے پس خوردہ کا تھا یہ رنگ ڈھنگ
پی کہ تم بھی ہوگئے شیرو نہنگ

مُقَامُکُمُ الْعلیٰ جَمعاٌ ولَکنْ
مُقامیِ فَوقَکم ْ مَا زَالَ عَالی

ہیں تمہارے وہ مقامات بلند
پا نہیں سکتی جنھیں علمی کمند
پر مرا درجہ بہت محمود ہے
جو تمہاری منزل مقصود ہے
 

حسان خان

لائبریرین
مولانا رومی کی مثنویِ معنوی کا ایک عربی مصرع:
"وَاعْتَجِلْ فَالْوَقْتُ سَيْفٌ قَاطِعٌ"

جلدی کرو، کہ وقت ایک کاٹ ڈالنے والی تیغ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ما فاتَ مَضَى وما سَيَأْتِيْكَ فَأيْنْ
قُمْ فَاغْتَنِم الفُرْصَةَ بَيْنَ العَدَمَيْنْ

(نامعلوم)
جو گذر گیا وہ ماضی ہو گیا، اور جو آئے گا وہ کہاں ہے؟ پس اٹھو اور دو عدموں کے درمیان کی فُرصت سے فائدہ اٹھاؤ۔

× کئی جگہوں پر اِس بیت کی نسبت حضرتِ علی (رض) سے نظر آئی ہے۔ لیکن مجھے تلاش کے دوران ایک شیعہ عالمِ دین سید محمد رضا جلالی حسینی کے ایک مضمون میں اِس بیت کے بارے میں یہ جملہ نظر آیا:
"فقد نسب إلى الإمام أمير المؤمنين عليه السلام عند بعض المتأخرين ولم نجده في الديوان المنسوب إلى الإمام عليه السلام."
ترجمہ: "بعض متأخرین نے اِس [بیت] کو امام امیر المؤمنین علیہ السلام سے منسوب کیا ہے لیکن ہمیں امام علیہ السلام سے منسوب دیوان میں یہ نہ مِلی۔"
ماخذ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قرنِ چہارمِ ہجری کے شاعر أبو فِراس الحمداني کے 'قصیدۂ شافیہ' یا 'قصیدۂ میمیہ' سے تین ابیات:
فَالأرْضُ إلّا عَلَی مُلّاكِها، سَعَةٌ

وَالمالُ، إلّا عَلَی أرْبابِهِ، دِيَمُ
وَمَا السَّعِيدُ بِها إلّا الَّذِي ظَلَمُوا
وَمَا الغَنِيُّ بِها إلّا الّذِي حَرَمُوا
لِلْمُتَّقِينَ مِنَ الدُّنْيا عَواقِبُها
وَإنْ تَعَجَّلَ مِنْهَا الظّالِمُ الأثِمُ
زمین تمام مردُم پر واسع و فراخ ہے، بجز اُس کے اصلی مالکوں پر؛ اور دیگر افراد پر مال باران کی طرح برستا ہے، بجز اُس کے حقیقی صاحبوں پر۔
روئے زمین پر وہی شخص خوش بخت ہے جس پر [حاکمان] نے ظلم کیا ہے؛ اور توانگر و بے نیاز وہی شخص ہے جس کو اُنہوں نے محروم کر دیا ہے۔
دنیا کی عاقبت متّقیوں [ہی] کے لیے ہے۔ ہرچند کہ [الحال] ستم پیشۂ گناہ کار نے اُس کو حاصل کرنے کے لیے جلدی مچائی ہوئی ہے۔

× بیتِ سوم میں سورۂ اعراف کی آیت ۱۲۸ کی جانب اشارہ ہے۔
× اِس قصیدے کی بحر وہی ہے جو بوصیری کے 'قصیدۂ بُردہ' کی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
يا لَلرِّجالِ! أَما لِلّٰهِ مُنْتَصِفٌ
مِنَ الطُّغاةِ؟ أَما لِلدِّينِ مُنْتَقِمُ؟
(أبو فِراس الحمداني)
اے مردو! آیا کوئی نہیں ہے جو خدا کی خاطر، طاغیوں اور سرکَشوں سے انصاف اور اپنا حق لے لے؟ آیا کوئی نہیں ہے جو [اُن سے] دینِ خدا کا انتقام لے لے؟
 
Top