یہ دجل کا دور ہے۔ واقعی آپ نے تو ایک بڑی (خطرناک) بات کی۔
سورہ کہف اسی دجل کے دور کے لیے ہے۔ واقعی آپ نے تو بڑی (سنگین) بات کی۔
اس لڑی میں معاملہ الگ ہی رہے گا۔ اب میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔
آپ کی یاد دھانی کے لیے پیش ہے۔
66. موسیٰ نے اس (خضر) سے کہا: کیا میں آپ کی پیروی کروں اس شرط پر کہ آپ مجھے بھی سکھائیں اس ہدایت میں سے جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟
67. اس (خضر) نے کہا: یقیناً آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔
68. اور آپ اس چیز پر کس طرح صبر کریں گے جس کا آپ کو مکمل علم نہیں ہے؟
69. (موسیٰ) نے کہا: ان شاء اللہ! آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کی کسی بات کی نافرمانی نہیں کروں گا۔
70. (خضر نے) کہا: اگر آپ میری پیروی کرتے ہیں تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کرنا جب تک کہ میں خود ہی آپ سے اس کا ذکر نہ کروں۔
71. پھر وہ دونوں روانہ ہوئے یہاں تک کہ جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو اس (خضر) نے اس میں سوراخ کر دیا، موسیٰ نے کہا: کیا آپ نے اس میں سوراخ کر دیا تاکہ اس کے سواروں کو ڈبو دیں؟ واقعی آپ نے تو ایک بڑی (خطرناک) بات کی۔
72. اس (خضر) نے کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے؟
73. (موسیٰ نے) کہا: مجھے میری بھول پر نہ پکڑیے اور میرے معاملے میں مجھ پر زیادہ مشکل نہ ڈالیے۔
74. پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ ایک لڑکے سے ملے تو اس (خضر) نے اسے قتل کر دیا، موسیٰ نے کہا: کیا آپ نے ایک بےگناہ جان کو قتل کر دیا حالانکہ اس نے کسی کا خون نہیں کیا؟ واقعی آپ نے تو بڑی (سنگین) بات کی۔
75. اس (خضر) نے کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے؟
76. (موسیٰ نے) کہا: اگر میں اس کے بعد آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیے گا، یقیناً آپ میری طرف سے (عذر قبول کرنے کی) پوری حد کو پہنچ چکے ہیں۔
77. پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی والوں کے پاس آئے اور ان سے کھانا طلب کیا تو انہوں نے ان کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا، پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی تو اس (خضر) نے اسے سیدھا کر دیا، موسیٰ نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ معاوضہ لے لیتے۔
78. اس (خضر) نے کہا: بس یہی (موقع) ہے کہ میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہو جائے، اب میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔
79. وہ کشتی چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے، تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں کیونکہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر (صحیح) کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔
80. اور وہ لڑکا، اس کے والدین مومن تھے تو ہمیں اندیشہ ہوا کہ وہ ان کو سرکشی اور کفر میں مبتلا نہ کر دے۔
81. تو ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے انہیں پاکیزگی میں اس سے بہتر اور محبت میں زیادہ قریب (اولاد) عطا فرمائے۔
82. اور وہ دیوار، شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا، تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں، آپ کے رب کی رحمت کی وجہ سے، اور میں نے یہ کام اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔