مصطفی جاگ گیا ہے - تبصرے

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں !
لفافہ مگر بے رنگ بھیجئیے گا وقار بھیا
ارادہ تھا کہ کچھ نہ کہیں گے مگر ہاتھوں میں بے اختیار کُھجلی ہوئی۔۔۔۔ مجبوری نے پا دتی پسوڑی۔
 

اربش علی

محفلین
ایک تو ہماری اردو ایسی ہی ہے کہ اسے سہارا چاہئیے ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کھجلی کے باعث کیبورڈ پر ہاتھ پھسلا تو ے اور ر جدا ہو گئے۔
پہلی بات تو قابلِ فہم ہے، مگر دوسری میں مسئلہ یہ ہے کہ "بیرنگ" لکھنے کے لیے ے نہیں، ی دبایا جاتا ہے، کیوں کہ ے ب اور ر کے ساتھ مل کر بیر نہیں بنائے گا۔😁
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
پہلی بات تو قابلِ فہم ہے، مگر دوسری میں مسئلہ یہ ہے کہ "بیرنگ" لکھنے کے لیے ے نہیں، ی دبایا جاتا ہے، کیوں کہ ے ب اور ر کے ساتھ مل کر بیر نہیں بنائے گا۔😁
پہلی بات تو قابلِ فہم ہے، مگر دوسری میں مسئلہ یہ ہے کہ "بیرنگ" لکھنے کے لیے ے نہیں، ی دبایا جاتا ہے، کیوں کہ ے ب اور ر کے ساتھ مل کر بیر نہیں بنائے گا۔😁

ایک ہی مراسلہ دو دفعہ چلا گیا۔ خدا جانے کیسے!
:rollingonthefloor::rollingonthefloor: :rollingonthefloor: :rollingonthefloor: :rollingonthefloor:
روفی بھیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اربش علی جاگ گیا ہے (معذرت۔۔جاگ گئے ہیں)
جب ہمیں ایک ہی بار میں سمجھ آ جاتی ہے تو دو دو بار ایک ہی مراسلہ لکھنے کی کیا ضرورت تھی بھلا۔
ہاں درست فرمایا آپ نے۔۔۔ کہ ے ب کے ساتھ مل کر بیر نہیں بنائے گا کیونکہ بیر تو درختوں پر لگتے ہیں۔ بنائے نہیں جاتے۔
 
مان جائیے ناں
e83d33930c079263faf2707bba094a0d.jpg
 

سید رافع

محفلین
آل محمد ص سنت سکھائیں گے۔ بقیہ مکر و فریب۔

یعنی کتاب و کتاب۔

یعنی کتاب و سچ جھوٹ ملی کتاب۔

اللہ دو کتابیں ہی بھیج دیتا!

جی ضرور۔ کبھی اسماء الرجال اور احادیث کی کتب دیکھی ہیں جو فقہ کی کتب کی بنیاد ہیں۔

یہ سب فلسفہ ہے اور نہ رسول فلسفی تھے اور نہ اللہ ہی فلسفی ہے۔

حدیث کی اصطلاحات کی ایک مختصر لسٹ درج ذیل ہے:

1. حدیث: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال، اعمال، یا تصدیقات۔
2. سند: حدیث کے راویوں کی زنجیر یا سلسلہ جس کے ذریعے حدیث نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتی ہے۔
3. متن: حدیث کا اصل مضمون یا عبارت۔
4. صحیح: وہ حدیث جس کی سند متصل ہو، راوی عادل اور ضابط ہوں، اور متن میں کسی شذوذ یا علت کا نہ ہونا۔
5. حسن: وہ حدیث جو صحیح کی شرائط پر پوری نہ اترتی ہو مگر سند اور متن میں قابلِ قبول حد تک مضبوط ہو۔
6. ضعیف: وہ حدیث جس کی سند یا راویوں میں کوئی کمزوری یا نقص ہو۔
7. موضوع: وہ حدیث جو جعلی یا من گھڑت ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف غلط طور پر منسوب ہو۔
8. متواتر: وہ حدیث جو اتنی بڑی تعداد میں راویوں نے روایت کی ہو کہ اس کی سچائی میں شبہ نہ ہو۔
9. آحاد: وہ حدیث جسے روایت کرنے والے کی تعداد متواتر حدیث سے کم ہو۔
10. مسند: وہ حدیث جس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک مکمل سند ہو۔
11. مرسل: وہ حدیث جس کی سند میں صحابی کے بعد راوی کا ذکر نہ ہو۔
12. مرفوع: وہ حدیث جس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہو، چاہے وہ قولی ہو یا فعلی۔
13. موقوف: وہ حدیث جس کی نسبت صحابی کی طرف ہو۔
14. مقطوع: وہ حدیث جس کی نسبت تابعی کی طرف ہو۔

فقہ کی اصطلاحات کی ایک مختصر فہرست درج ذیل ہے جو اس علم کے مختلف پہلوؤں اور احکام کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے:

1. فرض: ایسا عمل جو شرعی طور پر لازم ہو اور اس کا ترک کرنا گناہ کا باعث بنے۔
2. واجب: فرض کے قریب درجہ رکھنے والا حکم؛ جس کا ترک کرنا گناہ کا باعث ہوتا ہے، مگر اس کی اہمیت فرض سے کم ہوتی ہے۔
3. سنت: وہ اعمال جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیے اور ان کی پیروی کی سفارش کی، مگر ترک کرنے پر گناہ نہیں ہوتا۔
4. مستحب/نفل: وہ اعمال جو پسندیدہ ہوں اور ان پر عمل کرنے پر ثواب ملے، لیکن ترک کرنے پر کوئی گناہ نہیں۔
5. مباح: ایسے اعمال جو شرعی لحاظ سے جائز ہوں اور ان کے کرنے یا نہ کرنے پر کوئی ثواب یا گناہ نہ ہو۔
6. حرام: وہ عمل جس کا کرنا شریعت میں سختی سے منع ہے اور اس کا ارتکاب گناہ کا باعث بنتا ہے۔
7. مکروہ: وہ عمل جو ناپسندیدہ ہو، مگر اس کا کرنا گناہ نہیں۔ مکروہ دو قسم کے ہوتے ہیں:
- مکروہ تحریمی: جو واجب کے قریب ہو، اس کا ترک کرنا بہتر ہے۔
- مکروہ تنزیہی: جس کا ترک کرنا اچھا ہے مگر کرنے پر گناہ نہیں۔
8. طہارت: پاکیزگی کا علم، جس میں وضو، غسل، اور دیگر طہارت کے مسائل شامل ہیں۔
9. نجاست: وہ چیزیں یا اشیاء جو شرعی لحاظ سے ناپاک سمجھی جاتی ہیں اور ان سے پاکی حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
10. قضا: کسی عمل کی مقررہ وقت کے بعد ادا کرنا، جیسے قضا نماز۔
11. کفارہ: وہ شرعی عمل یا عبادت جو کسی گناہ یا غلطی کی تلافی کے لیے کیا جاتا ہے۔
12. حدود: وہ سزائیں جو قرآن و سنت میں مخصوص جرائم کے لیے مقرر کی گئی ہیں، جیسے چوری کی سزا۔
13. تعزیرات: وہ سزائیں جو قاضی کی صوابدید پر منحصر ہوتی ہیں اور حدود کے علاوہ ہوتی ہیں۔
14. اجتہاد: کسی نئے شرعی مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش جو کہ قرآن و سنت میں واضح نہ ہو۔
15. قیاس: کسی موجودہ مسئلہ پر دلیل اور عقل کی مدد سے حکم لگانا، جس کا حکم شریعت میں واضح نہ ہو۔
16. اجماع: امت مسلمہ کے علماء کا کسی ایک شرعی مسئلہ پر اتفاق۔
17. استحسان: ایسی حالت جب کسی عمومی اصول سے ہٹ کر، بہتر اور زیادہ مناسب حل اختیار کیا جائے۔
18. استصلاح/مصالح مرسلہ: کسی حکم کو عام بھلائی یا مصلحت کے پیش نظر اپنانا۔
19. شرط: وہ شرط جس پر کسی عمل یا معاہدے کی صحت موقوف ہو۔
20. رخصت: کسی مشکل یا عذر کی وجہ سے شرعی حکم میں آسانی یا نرمی۔

عوام الناس تک پہنچا دیا۔
چھپا لیا۔

عمل ذریعہ نجات نہیں۔ نیک نیت یا قلب سلیم ہے۔

فسئلوا فافتوا بغير علم فضلوا واضلوا
 

سید رافع

محفلین
ممکنہ جواب (مہذبانہ انداز میں) "اب آپ اپنے ایمان کا جائزہ لے کر دیکھ لیجیے"
اختلاط کے بارے میں ہے کہ تاکہ نہ چھیڑی جائیں۔ اور ہے کہ ان سے دو دو، تین تین اور چار چار سے نکاح کر لو۔ اگر نکاح نہ کریں تو کیا کیا جائے۔
 

سید رافع

محفلین
296 مراسلے ہو چکے، مگر تاحال کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ کیوں نہ اس بحث کو یہیں ختم کر دیا جائے؟
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

یا انگریزی میں کہیں تو:
Let's agree to disagree
تمہارا مسئلہ ہے کہ باعلم باپ کے کہنے کے باوجود عدم بلوغت کے باعث ہاتھ چھڑا کر تھرکتے مداریوں کے پیچھے بھاگے اور اب علاقہ غیر میں انہوں نے غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔
 

سید رافع

محفلین
نغمہ اچھا ہے، خوش رہیں۔ :)

ہندوستان کے سلاسل میں راگ راگنیوں سے بھی وہ کیفیت حاصل کی جاتی تھی جو سالکین کو حاضر و موجود سے بے زار اور منقطع کر دیتی تھی۔ شاذلیہ ، چشتیہ ، سہروردیہ وغیرہ سلسلوں میں یہ طریقہ رائج تھا۔ ضروری نہیں کہ ہر انسان کا روحانی بلڈ گروپ ایک جیسا ہو اور ہوتا بھی نہیں۔ اسی لیے بعض لوگوں کو بعض سے فائدہ نہیں ہوتا بلکہ قلب کی موت تک واقع ہو جاتی ہے۔ یہ بھی رزق کی مانند ہے۔ ہر کمپنی کا الگ لگا بندھا سلسلہ ہوتا ہے اور انکو مخصوص طور اطوار کے لوگ چاہیے ہوتے ہیں۔ اسلاف میں بزرگ دیکھتے ہی بتا دیتے تھے کہ میاں تم کہیں اور جاؤ، تمہارا رزق ہمارے پاس نہیں۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
ہندوستان کے سلاسل میں راگ راگنیوں سے بھی وہ کیفیت حاصل کی جاتی تھی جو سالکین کو حاضر و موجود سے بے زار اور منقطع کر دیتی تھی۔ شاذلیہ ، چشتیہ ، سہروردیہ وغیرہ سلسلوں میں یہ طریقہ رائج تھا۔ ضروری نہیں کہ ہر انسان کا روحانی بلڈ گروپ ایک جیسا ہے اور ہوتا بھی نہیں۔ اسی لیے بعض لوگوں کو بعض سے فائدہ نہیں ہوتا بلکہ قلب کی موت تک واقع ہو جاتی ہے۔ یہ بھی رزق کی مانند ہے۔ ہر کمپنی کا الگ لگا بندھا سلسلہ ہوتا ہے اور انکو مخصوص طور اطوار کے لوگ چاہیے ہوتے ہیں۔ اسلاف میں بزرگ دیکھتے ہی بتا دیتے تھے کہ میاں تم کہیں اور جاؤ، تمہارا رزق ہمارے پاس نہیں۔
ہم تو ان امور سے قطع نظر بھی ایسے گیت، کلام، نغمات سنتے اور محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً یہ سنیے۔
 

علی وقار

محفلین
جی معلوم ہے۔ اسی لیے کہا تھا کہ اس راہ کے مسافر تو بنیں پھر محبت میں غلو کی بات کیجیے گا۔
میری باتیں دِل پر نہ لیجیے گا۔ اپنا تو ہے یہ تماشا جنابِ اعلیٰ کہ، پل میں تولہ، پل میں ماشہ۔ محبت میں غلو بھی کر لیتے ہیں اور اس کے بعد توبہ تائب بھی ہو جاتے ہیں۔

محفل میں لانگ ٹرم چلنا ہے تو پھر،

لڑی در لڑی سفر کرنا ہے اور ہر لڑی میں نئے روپ میں ملنے کی کوشش کریں گے۔
 
Top