چہرے پہ ہجر پڑ گیا وحشت کیے ہوئے
اک عمر کٹ گئی ہے محبت کیے ہوئے
صحرا جو اپنے مدِ مقابل رہا کبھی
اب تشنگی میں مجھ سے ہے حسرت کیے ہوئے
پھر سے غزل میں اپنی مخاطب کرو ہو کون
وہ شخص جو کہ تم سے ہے غفلت کیے ہوئے
بزمِ جہاں میں ہم ہوئے جلوت نشیں مگر
پنہاں درُونِ خانہ ہیں خلوت کیے ہوئے
ہوتی نہیں...