آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا
میں خود ہی سر منزل شب چیخ پرا تھا
لمحوں کی فصیلیں بھی میرے گرد کھڑی تھیں
مں پھر بھی تجھے شہر میں آوارہ لگا تھا
محسن نقوی
برگ
صبح بہار و شام خزاں کچھ نہ کچھ تو ہو
بے نام زندگی کا نشاں کچھ نہ کچھ تو ہو
جینے کے واسطے کوئی صورت تو چاہیئے
ہو شمع انجمن کہ دھواں کچھ نہ کچھ تو ہو
شمع