تو نے دیکھا ہے کبھی اک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد
اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں گے لا علم
چھوڑ جائیں گے کس روز نگر شام کے بعد
فرحت عباس شاہ
شجر
ہمیں ملا نہ کبھی سوز زندگی سے فراغ
اگر بجھا ہے کہیں دل تو جل اٹھا ہے دماغ
وہی حیات جو نیرنگ خار و گل ہے کبھی
کبھی کھلاےُ تمنا ہے جو نہ دشت نہ باغ
جمیل الدین عالی
دشت
تو نے دیکھا ہے کبھی اک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد
لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج
کھول رکھتے ہیں اس امید پہ در شام کے بعد
فرحت عباس شاہ
امید