بادباں کھول دو کہ اب وقت ہے چلنے والا
ایسا لگتا کہ طوفاں بھی ہے ٹلنے والا
تم بھی چاہو تو مجھے چھوڑ کہ جا سکتے ہو
میں تو آلام سے لڑ کر ہوں سنبھلنے والا
طوفان
ایک ردائے سبز کی خواہش بہت مہنگی پڑی
وقت پڑھنے پر ہمیں بارش بہت مہنگی پڑی
ہاتھ کیا تاپے کہ پوروں سے دھواں اٹھنے لگا
سرد رت میں گرمی آتش بہت مہنگی پڑی
اقبال ساجد
دھواں