نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    بڑی گرفتاریاں ہوگئیں، اللہ تعالی کو پاکستان پر رحم آگیا ہے: وزیراعظم

    پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق :)
  2. فرخ منظور

    شیخ ایاز کے دوہے ترجمہ آفاق صدیقی

    شیخ ایاز کے دوہے ترجمہ آفاق صدیقی ہیر جلی اور بجھ گیا رانجھا ، سارا جھنگ تباہ راکھ میں اپنی کافی ڈھونڈے بیٹھا وارث شاہ پاؤں ہوئے پنوں کے اوجھل ، راکھ ہوا بھنبھور ہائے سسی یہ تیرے دکھڑے اور ہوا کا شور سانجھ ہوئی اور پنچھی گھر لوٹے، کبیرا رووئے اپنی اپنی جنم بھوم سے پریم سبھی کو ہووئے سمجھ کے...
  3. فرخ منظور

    عشق وابستہ ہوا شاخِ نمو داری سے ۔ صابر ظفر

    عشق وابستہ ہوا شاخِ نمو داری سے سارا جنگل مہک اٹھا اسی چنگاری سے دھیان آتا تھا تمہارا تو چہک اٹھتے تھے زندگی ورنہ گزاری بڑی بیزاری سے خود بخود تو نہیں کھلتا ہے کوئی بندِ قبا کی ہے آسانی یہ پیدا بڑی دشواری سے نہ ہی نسبت کوئی اپنی کسی دربار سے ہے نہ علاقہ ہی کوئی ہے کسی درباری سے سن رہا...
  4. فرخ منظور

    فرخ منظور کی تک بندیاں

    بہت عنایت۔ خوش رہیے۔
  5. فرخ منظور

    فرخ منظور کی تک بندیاں

    فرّخ ترے احباب کو ہو عید مبارک سب اہلِ ستم، اہلِ کرم، عید مبارک (فرخ منظور)
  6. فرخ منظور

    ہَوا کے رُخ پہ، رہِ اعتبار میں رکھا ۔ ایوب خاور

    ہَوا کے رُخ پہ، رہِ اعتبار میں رکھا بس اِک چراغ کُوئے انتظار میں رکھا عجب طلسمِ تغافُل تھا جس نے دیر تلک مری اَنا کو بھی کُنج خُمار میں رکھا اُڑا دیے خس و خاشاکِ آرزو سرِ راہ بس ایک دِل کو ترے اِختیار میں رکھا فروغِ موسمِ گل پیش تھا سو میں نے بھی خزاں کے زخم کو دشتِ بہار میں رکھا نجانے کون...
  7. فرخ منظور

    عید کے دن ۔ قابل اجمیری

    عید کے دن کوئی شائستۂ وَحشت نہ کوئی اہلِ نظر وُسعتِ چاکِ گرِیباں کو نَدامت ہی رہی شمعِ دِیجور کا سینہ ہے اُجالوں کی لَحد داغ ہائے دلِ ویراں کو نَدامت ہی رہی آئینہ خانۂ تخّیل ہیں دُھندلائے ہوئے جَلوۂ حُسنِ فَراواں کو نَدامت ہی رہی صرف ہونٹوں کا تبسّم تو کوئی بات نہیں اِن سویروں کے لئے ہم نے...
  8. فرخ منظور

    دنیا، دنیاداروں کا گھر، اپنا کیا

    بہت اعلیٰ جناب راجا صاحب۔ لیکن آپ کی مزاحیہ شاعری کا زیادہ انتظار رہتا ہے۔ خوش رہیے۔
  9. فرخ منظور

    مکمل خامہ بگوش کے قلم سے ۔ مشفق خواجہ

    خامہ بگوش کے قلم سے (تحریر: مشفق خواجہ) نستعلیق کا ذکر آیا تو ایک لطیفہ بھی سن لیجیے۔ کچھ عرصہ ہوا نوری نستعلیق کے موجد جناب جمیل مرزا نے ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ اس کے بعد عشائیہ بھی تھا۔ جمیل مرزا صاحب نے ایک صحافی سے پوچھا: ’’کیا آپ کو کھانا پسند آیا؟‘‘ صحافی نے جواب دیا: ’’بہت مزے کا...
  10. فرخ منظور

    حباب آسا اب اس زندگی کو کیا کہیے! (غزل برائے تنقید و اصلاح)

    شکریہ سر۔ فرصت میں اسے بہتر کرتا ہوں۔
  11. فرخ منظور

    فرخ منظور کی تک بندیاں

    اصلاح سخن میں بھی پوسٹ کی ہے۔
  12. فرخ منظور

    حباب آسا اب اس زندگی کو کیا کہیے! (غزل برائے تنقید و اصلاح)

    میں بھی حیران ہوں کہ یہ گا کر سنانے والا خیال انھیں کیسے آیا؟ :)
  13. فرخ منظور

    حباب آسا اب اس زندگی کو کیا کہیے! (غزل برائے تنقید و اصلاح)

    غزل برائے تنقید و اصلاح حباب آسا اب اس زندگی کو کیا کہیے! بچھڑ کے ملنے کے وقفوں کو اس میں کیا کہیے؟ کسی کی زلف کی خوشبو کو کہیے مشکِ ختن کسی کی مست خرامی کو پھر صبا کہیے کسی کے ہجر میں دل تھام کر پڑے رہیے پھر اس صنم کو بھی بیکار و بے وفا کہیے پھر اک شکست کو لکھیے کہ ہے یہ فتحِ مبیں ہمیشہ شہ...
  14. فرخ منظور

    فرخ منظور کی تک بندیاں

    غزل حباب آسا اب اس زندگی کو کیا کہیے! بچھڑ کے ملنے کے وقفوں کو اس میں کیا کہیے؟ کسی کی زلف کی خوشبو کو کہیے مشکِ ختن کسی کی مست خرامی کو پھر صبا کہیے کسی کے ہجر میں دل تھام کر پڑے رہیے پھر اس صنم کو بھی بے مہر و بے وفا کہیے پھر اک شکست کو لکھیے کہ ہے یہ فتحِ مبیں ہمیشہ شہ کے حلیفوں کو بے خطا...
  15. فرخ منظور

    کافی شاہ حسین، اردو آزاد ترجمہ از فرخ منظور (برائے تنقید و اصلاح)

    کافی شاہ حسین، اردو آزاد ترجمہ از فرخ منظور سجن نے پکڑی بانہہ ہماری کیسے کہہ دوں چھوڑ رے یارا رات اندھیری، بادل بارش بعد وکیلوں ہو گئی مشکل مشکل ہو گیا اب تو بلاوا عشق محبت وہی ہیں جانیں جن کے اوپر بیتی ساری جوہڑ پیدا کریں ہیں کلّر دھان کو ریت میں بو نہ یارا کیوں تو مارے بڑی چھلانگیں اک دن سب...
  16. فرخ منظور

    ولی دکنی مُکھ ترا آفتابِ محشر ہے ۔ ولی دکنی

    دکنی زبان میں میں نے ایک دلچسپ بات بھی دیکھی ہے کہ دکنی کے بہت سے الفاظ جوں کے توں پنجابی میں بھی مستعمل ہیں۔ یا یوں کہیے کہ بہت سے الفاظ پنجابی کے دکنی میں بھی مستعمل ہیں۔
  17. فرخ منظور

    اوّل شب وہ بزم کی رونقِ شمع بھی تھی پروانہ بھی ۔ آرزو لکھنوی

    غزل اوّل شب وہ بزم کی رونق، شمع بھی تھی پروانہ بھی رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی قید کو توڑ کے نکلا جب میں اٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے دشتِ عدم تک جنگل جنگل بھاگ چلا ویرانہ بھی ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی ایک لگی کے دو ہیں...
Top