نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    نگاہِ ساقیِ نامہرباں یہ کیا جانے ۔ مجروح سلطانپوری

    نگاہِ ساقیِ نامہرباں یہ کیا جانے کہ ٹوٹ جاتے ہیں خود دل کے ساتھ پیمانے ملی جب ان سے نظر بس رہا تھا ایک جہاں ہٹی نگاہ تو چاروں طرف تھے ویرانے حیات لغزشِ پیہم کا نام ہے ساقی لبوں سے جام لگا بھی سکوں، خدا جانے وہ تک رہے تھے، ہمی ہنس کے پی گئے آنسو وہ سن رہے تھے، ہمی کہہ سکے نہ افسانے تبسموں نے...
  2. فرخ منظور

    جولائی ایلیا کی موشگافیاں

    عمر انڈوں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں سب کا کٹّے پہ سفر ہو یہ ضروری تو نہیں (جولائی ایلیا)
  3. فرخ منظور

    ساغر نظامی بلند از باوفا و جفا ہو گئے ہم - ساغر نظامی

    بلند از وفا و جفا ہو گئے ہم محبت سے بھی ماورا ہو گئے ہم اشاروں اشاروں میں کیا کہہ گئیں وہ نگاہوں نگاہوں میں کیا ہو گئے ہم ترے دل میں تیری نظر میں سما کر تمنائے ارض و سما ہوگئے ہم حقیقت نہ تھی دل لگانے کے قابل حقیقت سے کیوں آشنا ہوگئے ہم محبت کی کچھ تلخیوں کی بدولت مغنّیِ شیریں نوا ہو گئے ہم...
  4. فرخ منظور

    اسے کہنا کہ انڈے آگئے ہیں۔۔ اسحاق وردگ

    اسے کہنا کہ انڈے آگئے ہیں۔۔ اسے کہنا کہ انڈوں کی بدولت اب وطن نے آگے جانا ہے ترقی کی منازل پار کرنی ہیں اسے کہنا کہ اب میں سب کو چوزے پالنے کا فن سکھاؤں گا کہ سب نے گھر میں اب چوزے بسانے ہیں زیادہ تو نہیں بس تین سو چوزے ضروری ہیں اسے کہنا محبت چھوڑ دے اور اب خریدے تین سو چوزے کہ تبدیلی کے...
  5. فرخ منظور

    جولائی ایلیا کی موشگافیاں

    بھول جا روٹی کپڑا اور مکان انڈے لے، کٹّے اور مرغیاں پال (جولائی ایلیا)
  6. فرخ منظور

    مکمل میری شادی ۔ سعادت حسن منٹو

    سعادت حسن منٹو کا اپنی شادی کے متعلق بیان میری شادی تحریر: سعادت حسن منٹو میں نے کبھی لکھا تھا کہ میری زندگی میں تین بڑے حادثے ہیں، پہلا میری پیدائش کا جس کی تفصیلات کا مجھے کوئی علم نہیں، دوسرا میری شادی کا، تیسرا میرا افسانہ نگار بن جانے کا۔ آخری حادثہ چونکہ ابھی تک چلا جا رہا ہے، اس لیئے اس...
  7. فرخ منظور

    ساحر یہ آنکھیں دیکھ کر ہم ساری دنیا بھول جاتے ہیں

    یہی گیت سریش واڈیکر اور لتا منگیشکر کی آواز میں سنیے۔ موسیقار: ہری دیاناتھ منگیشکر اور فلم دھنوان
  8. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی حصار ،،،مصطفی زیدی

    حصار بے نُور ہوں کہ شمعِ سرِ رہ گزر میں ہوں بے رنگ ہوں کہ گردشِ خونِ جگر میں ہوں اندھا ہوں یوں کہ کور نگاہوں میں رہ سکوں بہرہ ہوں یوں کہ قصّۂ نامعتبر میں ہوں ذرّے جوان ہو کے اُفق تک پہنچ گئے میں اتنے ماہ و سال سے بطنِ گہر میں ہوں مستقبلِ بعید کی آنکھوں کی روشنی اوروں میں ہوں نہ ہوں مگر اپنی...
  9. فرخ منظور

    جولائی ایلیا کی موشگافیاں

    جھٹکنا، پلٹنا، پلٹ کر جھٹکنا یہ یُو ٹرن لینے کا ہے اک بہانہ (جولائی ایلیا)
  10. فرخ منظور

    فیض اب کہاں رسم ہے لٹانے کی ۔ فیض صاحب کی ایک غیر مطبوعہ غزل

    اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
  11. فرخ منظور

    فیض اب کہاں رسم ہے لٹانے کی ۔ فیض صاحب کی ایک غیر مطبوعہ غزل

    فرقان احمد ، قبلہ میں نے تو پہلے ہی عرض کر دیا تھا کہ مدیران بہت ہوشیار ہیں اور ایک مدیر تو ضرورت سے زیادہ ہوشیار ہیں۔ :)
  12. فرخ منظور

    فیض اب کہاں رسم ہے لٹانے کی ۔ فیض صاحب کی ایک غیر مطبوعہ غزل

    جہاں سے یہ غزل نقل کی گئی ہے اس تصویر کا لنک یہاں دے رہا ہوں۔ لنک
  13. فرخ منظور

    فیض اب کہاں رسم ہے لٹانے کی ۔ فیض صاحب کی ایک غیر مطبوعہ غزل

    جی عنوان کی میں تدوین نہیں کر سکتا۔ یہاں کے مدیر بہت ہوشیار ہیں بغیر پوچھے خود ہی تدوین کر دیا کرتے ہیں۔
  14. فرخ منظور

    فیض اب کہاں رسم ہے لٹانے کی ۔ فیض صاحب کی ایک غیر مطبوعہ غزل

    فیض احمد فیضؔ کی ایک غیر مطبوعہ غزل اب کہاں رسم ہے لٹانے کی برکتیں تھیں شراب خانے کی کون ہے جس سے گفتگو کیجے جان دینے کی، دل لگانےکی بات چھیڑی تو اُٹھ گئی محفل اُن سے جو بات تھی بتانے کی ساز اٹھایا تو تھم گیا غمِ دل رہ گئی آرزو سنانے کی چاند پھر آج بھی نہیں نکلا کتنی حسرت تھی اُن کے آنے کی...
  15. فرخ منظور

    کچھ تو دنیا کی عنایات نے دل توڑ دیا ۔ سدرشن فاخر

    یہی غزل بیگم اختر کی آواز میں
  16. فرخ منظور

    کچھ تو دنیا کی عنایات نے دل توڑ دیا ۔ سدرشن فاخر

    کچھ تو دنیا کی عنایات نے دل توڑ دیا اور کچھ تلخیِ حالات نے دل توڑ دیا ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں برسے گی شراب آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیا دل تو روتا رہے اور آنکھ سے آنسو نہ بہے عشق کی ایسی روایات نے دل توڑ دیا وہ مرے ہیں مجھے مل جائیں گے آ جائیں گے ایسے بے کار خیالات نے دل توڑ...
  17. فرخ منظور

    سوالِ صبحِ چمن ظلمتِ خزاں سے اٹھا ۔ صہبا اختر

    سوالِ صبحِ چمن ظلمتِ خزاں سے اٹھا یہ نفع کم تو نہیں ہے جو اس زیاں سے اٹھا سفینہ رانیِ مہتاب دیکھتا کوئی کہ اک تلاطمِ ضو جوئے کہکشاں سے اٹھا غبارِ ماہ کہ مقسوم تھا خلاؤں کا بکھر گیا تو ترے سنگِ آستاں سے اٹھا غمِ زمانہ ترے ناز کیا اٹھاؤں گا کہ نازِ دوست بھی کم مجھ سے سرگراں سے اٹھا مرے...
Top