جادۂ شوق میں ہر زخم خوشی سے کھایا
ہر نیا زخم ہوا میرے بدن پر پھایا
شمعِ احساس کو ہے ایک شرر کی حسرت
بے حسی کا ہے گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا
میں کہ تھا حسنِ رخِ یار کے دیدار سے خوش
میرا خوش رہنا بھی اک آنکھ نہ اُس کو بھایا
اب تو ہر شخص نظر آتا ہے خود سے بہتر
جب سے اپنے بُتِ پندار کو میں نے ڈھایا...