مِرزا محمد رفیع سودؔا
بدلا ، تِرے سِتم کا کوئی تُجھ سے کیا کرے
اپنا ہی تُو فریفتہ ہووے خُدا کرے
قاتل! ہماری نعش کو تشہیر ہے ضرُور
آئندہ تا ، کوئی نہ کسی سے وفا کرے
اِتنا لِکھائیو مِرے لَوحِ مزار پر
یاں تک نہ ذی حیات کو کوئی خفا کرے
بُلبُل کو خُونِ گُل میں لِٹایا کروں، مجھے!
نالے کی گر چمن...