اپنے آپ توں ڈر لگدا سی
شام سی ایہو جئی
میں اوہنوں تے اوہنے مینوں
کوئی وی گل نئیں کہئی
روندیاں روندیاں اکھاں دے نال
رُڑھ گئے خواب وی کئی
اوس دھیاڑے شاماں ویلے
ٹُٹ کے بارش پئی
جاگتے دریچوں میں
خواب سوئے رہتے ہیں
آنکھ کے پیالے میں
ان گنت زمانوں کی
ریت گرتی رہتی ہے
ادھ بجھے مکانوں میں
جا چکے مکینوں کی
بات چلتی رہتی ہے
راکھ اڑتی رہتی ہے
مقصود وفا
اگر تم کھول بیٹھے ہو
یہ صفحہ شام سے پہلے
مقامِ صبر سے پہلے
حدِ الزام سے پہلے
کہانی ختم ہی کرنی ہے
اگر انجام سے پہلے
تو یہ بھی فیصلہ کر لو
کہ میں لکھوں
تو کیا لکھوں
تمہار ے نام سے پہلے
شاعری پہ کچھ کہہ نہیں سکتا کہ میں ایک طفل مکتب ہوں، میری نظر میں شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ ٹیڑھی کھیر ہے اس لیے اسے سمجھنا آسان نہیں، اور اسی تناظر میں سامنے والے کو سمجھانا چاہ رہا ہے کہ وہ شاعر کی مشکلات کو سمجھے۔ تضاد ہے یا نہیں یہ آپ پر منحصر کہ کہ آپ کس نظر سے دیکھرہے ہیں۔