ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے، رہے نہ رہے
مژہ پہ آن کے ٹُک جم رہے، رہے نہ رہے
رہیں وہ شخص ، جو بزمِ جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے، رہے نہ رہے
یہی سمجھ لو ہَمَیں تم ، کہ اِک مسافر ہیں
جو چلتے چلتے کہیں تھم رہے، رہے نہ رہے
نظیر آج ہی چل کر بُتوں سے مِل لیجے
پِھر اشتیاق کا عالَم...