ہائے وہ عارضِ گُل، نار ِشَفَق کی مانند !
ہائے وہ رقصِ پُر اَسرار ، کِرَن کی صُورت
نظر آتی ہے، ہر اِک حرف کے آئینے میں !
کبھی دُشمن کی، کبھی یارِ کُہن کی صُورت
مُصطفٰی زیدی
مجھ کو کبھی ، کبھی سُوئے اغیار دیکھنا !
اُس شوخ کی، نگاہِ طلب گار دیکھنا
چشمِ نظارہ بیں میں ہے ، یہ کیا رَہِ کشود
جب دیکھنا، وہی در و دیوار دیکھنا
دہرائے گا وہ اپنی کوئی داستانِ غم
وہ ، آ رہا ہے پھر مرا غم خوار ، دیکھنا
صُوفی غُلام مُصطفٰی تبسُّؔم
جوؔش ملیح آبادی
یہ دُنیا ذہن کی بازی گری معلُوم ہو تی ہے
یہاں ،جس شے کو جو سمجھو ، وہی معلُوم ہوتی ہے
نکلتے ہیں کبھی تو چاندنی سے دُھوپ کے لشکر!
کبھی خود دُھوپ، نکھری چاندنی معلُوم ہوتی ہے
کبھی کانٹوں کی نوکوں پرلبِ گُل رنگ کی نرمی
کبھی، پُھولوں کی خوشبُو میں انی معلُوم ہوتی ہے
وہ آہِ صُبح...
دُشنام کی بھی آپ سے کِس کو اُمید تھی
ہم نے تو اُس پہ صبر کِیا، جو عطا ہُوا
عُذرِ سِتم سے بس مجھے نادم نہ کیجئے
اِس تذکرہ کو چھوڑیے، جو کُچھ ہُوا، ہُوا
داغؔ دہلوی
بتائیں لفظِ تمنّا کے تم کو معنی کیا
تمھارے کان میں اِک حرف ہم نے ڈال دِیا
تمھِیں کہو، کہ کہاں تھی یہ وضع، یہ ترکِیب
ہمارے عِشق نے سانچے میں تم کو ڈھال دیا
داغؔ دہلوی