اپنے پاگل بیٹے کے علاج کے غرض سے ھسپتال کی بنچ پر اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا
وہ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں یوں دیکھ رہا تھا
جیسے کہ ...ان اکھیوں کواپنے گم شدہ ارمان یاد دلا رہا ھو
جیسے انہیں اپنا نﮈھال حوصلہ بتا رہا ھو....جیسے کہ کوئ کمی دکھا رہا ھو.....کمی ایسی کہ اپنی تصویر میں سلجھے...
...ایک اداس سی دھن جو کسی سماعت کی منتظر تھی ...لبوں پر ایک ان کہی بات ...ایک قول، ایک اقرار ...اور نظر میں کوئی مانوس سا لمحہ......دل کا درد مزید بڑھا ...حسرتیں آنکھ سے بہنے کو بیتاب تھیں ...میں نے سورج پر الوداعی نظر ڈالی ...واہ ری قسمت! یہ چمکا بھی تو کب جب زندگی آخری دموں پر تھی ....اور یہ...
اسداللہ۔ "لیجیئے حضور چائے حاضر ہے، ایسی چائے آپ نے کبھی نہیں پی ہوگی جس کے بنانے میں دیوانِ غالب اور کلیاتِ میر کو جلایا گیا ہے بلکہ غالب اور میر کا خون کیا گیا ہے۔"
خوب لکھا محمد وارث صاحب
ہے سکوت رو رہا کوچہ ویران بھی
منظر علیل تھے کہ دہلیز سو گئ
اک ﮈھیر سا رہا کونے میں راکھ کا..
با پردہ سا دھواں رہا اورسرمئ سی روشنی
ہے بدن پہ راکھ بھی , کچھ رخ پہ جمی ہوئ
کچھ بل سے رہ گئے , ہےرسی کوئ جلی
آنگن قلیل تھا , یوں دل میں درد کا
نہ ختم وہ ہوا , نہ میں کبھی ہوئ
تیرگی کو جلا بخشی...
الف عین
الف عین صاحب بہت خوشی ہوئ آپ نے راہن
الف عین صاحب بہت مشکور ہوں کہ آپ نے بہت سی معلومات اور اک بہترین سچی راہنمائ فرمائ اور پر امید ہوں آئیندہ بھی راہنمائ فرماتے رہیں گے کمال شفقت