میرؔ صاحب کے بارے میں استادِ محترم فرماتے ہیں :۔ آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں
لیکن میں بہت پہلے عرض کر چکا ہوں کہ خوش اعتقادی سے یا بد اعتقادی سے ہم کسی شاعر کا مرتبہ گھٹا بڑھا نہیں سکتے
میرؔ اردو کی حد تک بے شک استاد الاساتذہ ہیں، اور ان کی شاعرانہ عظمت میں کوئی جاہل ہی شک کر سکتا ہے
لیکن...
اخبارات پر مت جائیے سرکار، ویسے لوگ اسے غالبؔ کی غزل "ابن ِ مریم ہوا کرے کوئی" کا ہی کوئی شعر سمجھ لیتے ہیں
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ استادِ سخن مرزا خان داغ دہلوی کا شعر ہے
داغ ایک لحاظ سے مرزا غالبؔ کے بھتیجے بھی لگتے ہیں، کیونکہ وہ نواب شمس الدین خان کے بیٹے ہیں اور نواب صاحب ، بیگم صاحبہ غالبؔ...
زمانے میں مت الجھئے جناب!
بابل شہر کے معلق باغات جو شہنشاہ بخت نصر نے اپنی ایرانی ملکہ کو خوش کرنے کیلئے تعمیر کروائے تھے، اس باغ کی پہلی منزل سطح زمین سے 75 فٹ بلند تھی، اور کمال یہ کہ باغ کی تمام منزلوں کو دریائے دجلہ سے پانی دیا جاتا تھا (دماغ دنگ رہ جاتا ہے ان لوگوں کی ذہانت پر، کیا ہم میں...
ھاھاھاھاھاھاھا یہ تو ایک شاعرانہ بات ہے
جیسے غالبؔ کے ہاں "یونہی روتا رہا غالبؔ تو اے اہل ِ جہاں٭٭ دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں"
اس طرح کے مضامین کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں
لیکن ان جیسے اشعار کا دیوان میں ہونا اس لیے ضروری ہے تاکہ اس "کثافت" کی موجودگی میں اعلیٰ اشعار کی...
شکر ہے آپ مزید مثالوں سے باز آ گئے:applause:
ایک عام سے شاعر کیلئے شاعری کی معراج یہی ہے کہ وہ قافیہ بندی کر لے
بی کلاس شاعر کیلئے اتنا ہی بہت ہے کہ اس کی شاعری وزن میں ہو، اور ایک ایڈیشن چھپ کر ردی کی دکانوں پر رونق افروز ہو جائے
اے کلاس شاعر پر کافی ذمہ داری ہوتی ہے، اسے اوسطا ً 50٪ لوگوں کے...
شہزاد بھائی رحم کریں، میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ پسند کروں یا اختلاف کروں
آپ سے بات کر کے مجھے کائناتی شعور کا سراغ ملا اور اب آپ ہی چراغ تلے اندھیرا کی زندہ مثال بنے بیٹھے ہیں
اگر مزید پیش کی جانے والی جھلکیاں بھی انہی دو اشعار جیسی ہیں تو میں ابھی سے مرغا بن جاتا ہوں، رحم ، رحم رحم:laugh:
میں اختلاف کروں گا یہاں اس شرط پر کہ مجھے سیکولر ، یا جدیدت کا مارا نہ سمجھ لیا جائے
"پھر بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چل" (از روئے قرآن مجید غیر مسلمین کا داخلہ حرم کی حدود میں منع ہے)
تو یہ دنیا ور اللہ صرف مسلمانوں کا نظر آنے لگتا ہے
اقبال کو صرف ان جوانوں سے محبت ہے جو ستاروں پر کمند ڈال کے...
جنت غالبؔ کی ظرافت کا شکار ہوئی اور محض دل بہلانے کا خیال قرار پائی
غالب کا زمین پر دل نہیں لگ رہا، انہیں خلا میں ایک پلیٹ فارم چاہیے وہ بھی عرش سے ادھر، تاکہ غالبؔ وہاں سے مزید آگے پرواز کر سکیں
منظر اک بلندی پر ، اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا
غالبؔ کا بہترین سائنسی شعر، ابن...
غالب سے پہلے شعرا بھی ستارے چمکتے دیکھتے تھے، اور گنتے بھی تھے، کہ ہجر کی رات کٹے
اور وصل میں انہیں بی بی کا دوپٹہ آسمان اور اس پر کی گئی کشیدہ کاری ستارے نظر آتی تھی
لیکن غالبؔ نے نعرہ لگایا:۔ ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ ٭٭ دیتے ہیں دھوکہ ، یہ بازی گر کھلا
آسمان کو دشن کہنے والے اور نازل...
ھاھاھاھاھاھاھا شہزاد بھائی بہت اچھے
آپ نے میری کمزوری پکڑ لی ہے آخر، تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ٭٭ واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
آپ کے سوال کا جواب میں دو حصوں میں دوں گا
سب سے پہلے آفاقیت اور کائناتی شعور کی وضاحت ایک تازہ بونگی سے
آفاقیت کو ایف 16، جے ایف تھنڈر ، یا زیادہ سے زیادہ ڈرون ،یا سپرسونک...
پیارے بھائی آفاقیت ذرا بھی پیچیدہ نہین
بس بنا دی گئی ہے تاکہ ہم جیسے طالب علم رُل جائیں
آپ کو خوش کرنے کیلئے آفاقیت میں فراز کو نہیں لایا، بلکہ اس لیے لایا کیونکہ آفاقیت میں جذبات بنیادی عنصر ہیں
اور جذبات ہر انسان میں ہوتے ہیں، اب آپ سمجھ گئے ہونگے
اس مقام پر میرے پر جلتے ہیں
لیکن ایک بونگی اور سہی
شاعر اور فلسفی کا علم وجدانی ہوتا ہے، نہ کہ سائنس دانوں کی طرح
اس لیے یوسف صاحب کی طرح میں بھی عظیم شعرا کو سائنس دانوں کا ہراول دستہ مانتا ہوں